تمہیں گماںمجھے یقین ہے
گوکہ ان صفحات پر جمہوریت اور جمہوری اقدار کے بارے میں کئی بار بحث کی جاچکی ہے
لاہور:
مجھے اپنے ان دوستوں سے ہمیشہ اختلاف رہا ہے ، جو سیاسی و مذہبی جماعتوں کی فکری اور نظریاتی بنیادوں اور ان کے تاریخی پس منظرکو نظرانداز کرتے ہوئے محض ان کی نعرہ بازیوں سے متاثر ہوکر انھیں جمہوریت کا دلدادہ تصورکر لیتے ہیں۔حالانکہ ان میں سے بیشترجماعتوں کا اپنی ہئیت، ساخت اورنظریات کے حوالے سے جمہوریت اور جمہوری اقدار سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔ گزشتہ سنیچرکو ایک سیاسی ومذہبی جماعت کے سابق سربراہ نے اصلاح احوال کے لیے جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کا نعرہ مستانہ لگا کر نہ صرف پوری قوم کو چونکا دیا، بلکہ سیاسی جماعتوں کے انداز فکر پر بھی ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ۔
گوکہ ان صفحات پر جمہوریت اور جمہوری اقدار کے بارے میں کئی بار بحث کی جاچکی ہے، لیکن درج بالا بیان کے بعد اس اظہارکا اعادہ ایک بار پھر ضروری ہوگیا ہے ۔ ساتھ ہی یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنی سرشت میں کس حد تک جمہوری ہیں اورکیا ان سے جمہوری عمل کے تسلسل اور استحکام کی توقع کی جا سکتی ہے؟
کارل مارکس نے کہا تھا کہ ''طرز پیداوار کسی معاشرے کے سیاسی، سماجی اور فکری رجحانات کا تعین کرتے ہیں۔'' اس کا مطلب یہ ہوا کہ طرز پیداوار میں تبدیلی انسانی معاشروں میں تبدیلی کا موجب بنتی ہے ۔ صدیوں تک جب ملکیت کا تصور نہیں تھا ، انسانی قبائل مساوات پر یقین رکھتے تھے اور ان کے وسائل سانجھے ہواکرتے تھے ۔
جب دنیا میں ملکیتی معاشرہ قائم ہوا ، تو اس کے بطن سے جاگیرداری اور بادشاہتوں نے جنم لیا ۔اسی طرح سہولویں صدی میں جنم لینے والے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جمہوریت کا ظہور ہوا ۔صنعتی انقلاب انسان کے صدیوں پر محیط ذہنی ، فکری اور علمی ارتقاء کا منطقی نتیجہ تھا ۔جس نے انسان کی ذہنی قوت کو جسمانی قوت پر حاوی کردیا ۔ لیکن اٹھارویں صدی میں رونما ہونے والے انقلاب فرانس نے آزادی،مساوات اور اخوت جیسے تصورات روشناس کراکے جمہوریت کو نئی جہت عطاکی۔نتیجتاً جمہوریت فکری کثرتیت کی بنیاد پر معاشرتی تشکیلات سے مشروط ہوگئی ، جس میں عقائد ونظریات اورنسلی ولسانی امتیازات کے لیے گنجائش ختم ہوگئی ۔
انسان ، ہزاروں سالوں پر محیط اپنے ذہنی وفکری ارتقاء اورعلمی کاوشوں کے باعث اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ عقائد ونظریات کی نوعیت ذاتی ہوتی ہے ، جنھیں معاشرے پر منطبق کرنے سے بیشمارسماجی مسائل جنم لیتے ہیں ۔اسی طرح راسخ العقیدگی ذاتی حیثیت میں ایک ارفع واعلیٰ انسانی صفت ضرور ہے ، لیکن معاشرتی تشریح وتفہیم بعض منفی رجحانات کو پروان چڑھانے کا سبب بھی بنتی ہے ۔ راسخ العقیدگی کی بنیاد پر فرد نہ صرف دوسرے عقائد کے ماننے والوں کو کمتر سمجھتا ہے، بلکہ اپنے ہم عقیدہ ان تمام افراد کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے ، جن کے عقائد کو وہ کمزور سمجھتا ہے ۔ یہ روش و رویہ انسانی معاشروں میں تعصبات اور امتیازات کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے ۔
اس کے برعکس جمہوریت تمام انسانوں کی برابری اور انھیں ضمیر کی آزادی دیے جانے کی وکالت کرتی ہے ۔ جمہوریت ہر شہری کو بلاامتیاز عقیدہ، صنف اور نسلی و لسانی شناخت اپنی اہلیت ، صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر ترقی کرنے اور ریاست کے اعلیٰ ترین منصب تک جانے کا حق عطا کرتی ہے ۔ لہٰذا وہ معاشرے جہاں نسلی و لسانی امتیازات یا کسی مخصوص عقیدے یا نظریے کی معاشرتی بالادستی پر اصرار کیا جاتا ہو ۔ عقیدے ، رنگ و نسل یا لسانی بنیادوں پر شہریوں کے ایک مخصوص طبقے کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہو ۔ ان کے لیے پسند کے روزگار کا حصول مشکل بنا دیا گیا ہو ۔میرٹ پر ترقی کرتے ہوئے مختلف مناصب پر تقرری پر کہیں آئینی اور کہیں سماجی طور پر قدغن عائد کیے گئے ہوں ۔ کسی بھی طور پر جمہوری کہلانے کے مستحق نہیں ۔ اسی طرح ایک جمہوری معاشرے میں مقننہ یا عدلیہ کو کسی شہری کے عقائد و نظریات پر اظہارخیال کرنے یا فیصلہ دینے کا اختیار نہیں ہوتا ۔
دنیا کے کسی بھی انسانی معاشرے میں تاریخ کے کسی بھی دور میں انسان کے ہاتھوں انسان کے قتل کو قابل قبول عمل تصور نہیں کیا گیا ۔بلکہ ہمیشہ اسے سنگین اور قبیح جرم تصورکرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی گئی ۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں قتل کی سزا موت قرار دی گئی ہے ۔ حالانکہ دنیا کے بیشتر اہل دانش اس سزا کے بارے میں اپنے تحفظات رکھتے ہیں اور اسے انسانیت دشمن قراردیتے ہوئے اس کے خاتمے کے حامی ہیں ۔لہٰذا کسی جماعت یا گروہ کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ محض اپنے عقائد ونظریات کی راسخیت کو بنیاد بنا کر دوسرے عقائد ونظریات کے ماننے والوں کا محض فکری ونظریاتی اختلاف کی بنیاد پر قتال کرے ۔ کیونکہ ہر عقیدے کے ماننے والے افراد اپنے ضمیر کی آواز پرکسی عقیدے کو قبول کرتے ہیں اور اس کی حقانیت پر انھیں اتنا ہی یقین ہوتا ہے، جتنا کسی دوسرے عقیدے کا ماننے کو ہوتا ہے ۔لہٰذا عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر قتال کی حوصلہ افزائی معاشرے کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کا موجب بن جاتی ہے ۔
اب اس تناظر میں سیاسی جماعتوں کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت سیاست کے بین الاقوامی طور پر مروجہ اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ وہ تمام جماعتیں جو لبرل ہونے کی دعویدار ہیں، وہ اقربا پروری، کرپشن اور موروثیت کی دلدل میں بری طرح دھنسی ہوئی ہیں اور ان میں اہلیت کا فقدان ہے ۔ جب کہ بائیں بازو کی جماعتیں1917ء کے انقلاب کی نرگسیت میں غلطاں وپیچاں، غلط حکمت عملیوں کے باعث اپنی اہمیت و افادیت کھو کر اور مدت ہوئی سیاسی افق سے غائب ہوچکی ہیں۔
ان میں اتنا بھی دم نہیں کہ یونین کونسل کی سطح پر کونسلرکا انتخاب جیت سکیں۔جہاں تک مذہب کے نام پر قائم جماعتوں کا تعلق ہے، تو انھیں اصولی طور پر مذہبی جماعتیں کہنا ہی غلط ہے، کیونکہ کوئی بھی جماعت مذہبی تشخص کے پیمانے پر پورا نہیں اترتی ۔ بلکہ مذہبی کہلانے والی تقریباً سبھی جماعتیں فرقہ ، فقہہ ا ور مسلک کی بنیاد پر قائم ہیں ۔ ان میں سے بیشتر وہ جماعتیں ہیں، جو13اگست1947 تک پاکستان کی مخالف تھیں اور جنھیں ملک کے پہلے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی مرحوم نے اسٹبلشمنٹ کے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے پاکستان میں سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا تھا ۔
قرارداد مقاصد کی مارچ1949 میں منظوری ، جنرل شیرعلی خان مرحوم کی جانب سے نظریہ پاکستان کی تخلیق ،جنرل یحییٰ کے دور سے براہ راست ریاستی منتظمہ کی سرپرستی اور 1970 کے عام انتخابات سے قبل یہ جماعتیں تادم تحریر 5 فیصد سے زائد ووٹ بینک نہیں رکھتیں ۔جنرل ضیاء کے دور میں ان جماعتوں کو ریاستی منصوبہ سازی میں مداخلت کرنے کے بھر پور مواقعے دیے گئے ۔کیونکہ ان میں سے بیشتر نے افغانستان کی سر زمین پر لڑی جانے والی سوویت یونین اور امریکا کی پراکسی لڑائی میں جنگجوجتھے تیار کرنے میں کلیدی کردارادا کیا۔ جس کے نتیجے میں انھیں ان گنت فوائد بھی حاصل ہوئے ۔ یہی سبب ہے کہ افغانستان لگائی گئی آگ پاکستان تک پہنچ چکی ہے ۔
1980 کے اوائل سے شروع ہونے والی اس پراکسی جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی کے جو رجحانات پروان چڑھے ، ان کے باعث60ہزار افراد لقمہ اجل ہو چکے ہیں۔ جب کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں جاں بحق افراد اس کے علاوہ ہیں ۔ جنرل ضیاء ہی کے دور میں ملک میں Blasphemyکے قوانین میں بعض ایسی ترامیم کی گئیں ، جن کی وجہ سے غیر مسلموں کے ساتھ زیادتیوںکی شرح میں تیز رفتار اضافہ ہوا ۔
خاص طورپر پنجاب میں مسیحی کمیونٹی آئے دن ان قانونی شقوں کا نشانہ بن رہی ہے ۔ دوسری طرف صدیوں سے تحمل،برداشت اور مذہبی رواداری کی علامت سندھ میں ہندو کمیونٹی کی لڑکیوں کو اغواء کر کے ان کا مسلمان لڑکوں سے جبراً نکاح پڑھوایا جارہا ہے ۔ ساتھ ہی دولت مند ہندوؤں کو اغواء کر کے ان سے بھاری تاوان وصول کیا جارہا ہے ۔ اس قبیح عمل میں صرف کالعدم تنظیمیں ہی نہیں، بلکہ علاقے کے با اثر جاگیردار بھی ملوث ہیں ۔اس صورتحال نے سندھی ہندوؤں میں بے چینی پیدا کردی ہے ۔
پاکستان میں کروڑوں مسلمان اپنے مخصوص عقائد ونظریات رکھتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان میں سے ہر عقیدے یا مسلک سے تعلق رکھنے والے مذہبی پیشوا بھی اسی طرح قتال کا فتویٰ جاری کردیں تو کیا ملک خانہ جنگی کا شکار نہیں ہوجائے گا؟ اس پہلو پر ملک کے حکمرانوں، اسٹبلشمنٹ اور متوشش حلقوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ مذکورہ پیغام کو سمجھنے میں اگرکسی قسم کی تاخیر کی گئی توملک خطرناک صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے ۔