سوچ کا ایک نیا تناظر
شور کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ یہ وقتی طور پر تھم جاتا ہے۔ خاموشی کے وقفوں میں ایک نئے شور کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے
جدید دنیا مصنوعی رویوں اور طرز زندگی کے ارد گرد گھومتی ہے جب کہ انسانی زندگی کا سچ فطری خوشی میں مضمر ہے۔ یہ خوشی پیسے سے خریدی نہیں جا سکتی اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہے۔ خوشی کا جواز اور سبب تلاش کرنے والے، اپنے ذہن میں منتشر ہوتے ہیں۔ یہ انتشار بیرونی عوامل سے زیادہ اندر کے شور پر مبنی ہوتا ہے۔
دنیا ہر طرح کے شور سے بھری ہوئی ہے۔ شور کی یہ آلودگی ہر طرح سے ہماری سماعتوں، سوچ اور کام کرنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ مگر شور کسی طرح کم نہیں ہو رہا۔ یہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ شور گھر، گلیوں، راستوں اور شاہراہوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ دھرنوں، سیاسی لفاظی، ایوان سیاست پر جا کے ختم ہوتا ہے۔
شور کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ یہ وقتی طور پر تھم جاتا ہے۔ خاموشی کے وقفوں میں ایک نئے شور کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یہ شور جو کبھی انسانی زندگی کے فطری رویوں کی ترجمانی کرتا تھا، اب مصنوعیت کی نذر ہو چکا ہے۔ ذہن میں جب خاموشی کے وقفے آتے ہیں، تو ضروری نہیں کہ ہم کوئی خوبصورت بات، احساس، دلکش چہرہ یا موسم سوچتے ہیں۔ یہ وقفے منفی باتوں اور کدورتوں سے بھرے رہتے ہیں۔ شکایتوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ اس شور سے نجات پانا مشکل ہے، کیونکہ ہم اس کے عادی ہو چلے ہیں۔ بیرونی دنیا کا شور زندگی کی ضرورت ہے، مگر انسان کے ذہن میں جو بے ہنگم آوازوں کی بازگشت ہے۔ وہ اس کی سوچ کا اختراع ہے۔ سوچ جو پرفریب خیال کا ہاتھ تھام کے بے مقصد بھٹکتی ہے۔
پر فریب خیال، واہمے اور قیاس آرائی معلوم نہیں کیوں زندگی کی حقیقت بن چکے ہیں۔ ذہن ہمہ وقت کئی واہموں میں گھرا رہتا ہے۔ ذہن و جسم کا رابطہ منتشر ہے۔ جس کی وجہ سے زندگی کا توازن برقرار نہیں رہ پاتا۔ جدید دنیا اندر کے شور سے نجات پانے کے راستے ڈھونڈ رہی ہے۔ اس نے انتشار میں مرکزیت کا سراغ پا لیا ہے۔ یہ خیال مشرقی تہذیب کی میراث ہوا کرتا تھا۔ جو کثرت میں وحدت کا جوہر تلاش کرتی تھی۔ حالات کی ستم ظریفی اور مصائب ذہن و روح کو بے ترتیب نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ترتیب بہتر تربیت اور ذاتی تجزیے کا نچوڑ تھی۔ دور حاضر میں یہ دونوں رویے مفقود ہو چکے ہیں۔
جب ذہن منتشر ہو جاتا ہے، تو سوچ روایتی دائروں میں بھٹکتی ہے۔ اسے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ مسائل کی بھرمار بڑھتی چلی جاتی ہے۔ مسائل کو سوچ کا نیا تناظر چاہیے۔ مگر یہ ذہن خاموش ہو تو بہتری کی کوئی راہ نکل سکے! جدید دنیا کے تمام علم فقط ذہن کی خاموشی کا ہنر سکھاتے ہیں۔ موضوع ایک ہوتا ہے مگر خیال کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ ذہن کی خاموشی کا مطلب یکسوئی اور سکون کی کیفیت ہے۔ انتشار میں ارتکاز کی رمز سمجھانے کی تکرار ہے۔ کیونکہ انتشار کبھی نہیں تھمتا۔ یہ ایک دائمی کیفیت ہے۔
زندگی کی بنیاد میں تبدیلی کا عنصر شامل ہے۔ یہ تبدیلی ہمیشہ خوشگوار اور موافق نہیں ہو سکتی۔ یہ سوچ اور توقعات کے برعکس ہوتی ہے۔ جو رویے ہماری توقعات پر پورے نہیں اترتے، ہم انھیں مسترد کر دیتے ہیں۔ یہ کاملیت پسندی بھی محض واہمہ اور پرفریب خیال ہی ہے۔ مثال جب ہمارے ملک میں پہلی جمہوریت کی بہار آئی تو یہ ایک معجزہ ہی تھا۔ کیونکہ ایک طویل انتظار کے بعد ملک میں جس کے درمیان عوام نے بہار کے تازہ اور خوشگوار جھونکوں کو محسوس کیا۔ مگر جمہوریت کا یہ گیت بہت جلد نوحے میں بدل گیا۔ جمہوریت تو تھی مگر جمہوری رویے کمیاب تھے۔ آصف زرداری کا دور حکومت آپ کو یاد ہو گا کہ اپوزیشن ہو یا میڈیا کس طرح پیپلز پارٹی کی مخالفت کرتے رہے۔ سیاست دانوں کی کاملیت پسندی دیکھ کر عوام بھی متنفر ہو گئے۔ پھر نئی تبدیلی کی بات ہونے لگی۔ زرداری سے مایوس سوچ نواز شریف کی طرف امید سے دیکھنے لگی۔ جمہوریت کی یہ دوسری بہار بھی جلد ہی خزاں کی زد میں آ گئی ہے۔
دھرنوں کے شور میں عوامی زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔ اس کا ذمہ کون لیتا ہے کہ اب جو تبدیلی آئے گی کیا وہ چہروں کی تبدیلی نہیں ہو گی؟ یہ کاملیت پسند رویے جو خامیوں کو مسترد کر دیتے ہیں یہ رویے کیا خود فریبی پر منحصر نہیں ہیں؟ کاملیت پسندی اور خود فریبی کے درمیان کم ہی فاصلہ رہ جاتا ہے۔ مختلف رویے ہمارے ذہن میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ذہن کا ایک حصہ تبدیلی کو مسترد کرتا ہے۔ یہ بائیں طرز کا ذہن ہے۔ جسے حزب اختلاف بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ اپنی الگ تصوراتی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب Right Brain ہے دائیں طرف کا ذہن جو نہ فقط تبدیلی لانا چاہتا ہے مگر موجودہ تبدیلی کی خامیاں بھی قبول کرتا ہے۔
یہ دائیں اور بائیں طرف کے نظریات ذہن کی اناٹامی تک محدود نہیں ہیں بلکہ انھوں نے عوامی زندگی کی ہلچل کو بری طرح سے مفلوج کر دیا ہے۔ مغربی دنیا کے حکمران Growth Mindset (تبدیل ہوتا پھلتا و پھولتا ہوا ذہن) پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ بیرونی دنیا کے لیے چاہے موثر نہ ہوں، مگر اپنے ملک کے عوام کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ ان کی غیر جانبدار سوچ، خامیوں اور تنقید کو تبدیلی کے عمل کا حصہ سمجھتی ہے۔ خامیوں کا ہونا فطری عمل ہے۔ خامیوں کو مسترد کرنا غیر حقیقی سوچ ہے۔ خامیوں پر تنقید کر کے عمل اور رویوں میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ ایک جمہوری عمل اور رویہ ہے۔ مگر ہمارے ملک میں کسی بھی لفظ کے لغوی معنی متضاد ہو جاتے ہیں۔ جمہوریت کا مطلب ہے عوام کے حقوق کو تحفظ عطا کرنا، ان کی بہتری کے لیے کام کرنا۔ آزاد اور غیر جانبدار جمہوری رویے جو باہمی اشتراک میں ڈھل جاتے ہیں۔ لہٰذا باہمی اشتراک کا مطلب تضاد کی لغت میں کچھ اور ہی ملے گا۔ تضادات کی یہ لغت ہر لفظ کی تشریح مختلف انداز سے کرتی ہے۔
تضادات کا یہ شور نہ مسائل سمجھنے دیتا ہے اور نہ ہی ان کا حل ڈھونڈنا کسی کے بس کا روگ ہے۔ اس دن کسی نے سوال کیا کہ آخر کب ہم اس انتشار سے نجات پا سکیں گے۔ یہ انتشار جو فطرت سے ماحول اور انسانی زندگی پر بری طرح سے چھایا ہوا ہے۔ جس کے لیے سب سے پہلے اندر کے شور سے نجات پانا ہو گی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وقتی طور پر سب باتوں کو چھوڑ کے چند دن خاموشی اختیار کر لی جائے۔ خاموشی کے ان وقفوں میں ہم مثبت سوچ، خوبصورت رویے اور فقط خوبیوں کو سوچنے لگیں۔ سکون کے پس منظر میں سوچ کا نیا تناظر، سورج ابھرنے کے منظر جیسا لگے گا۔ جب سرمئی اندھیرے سورج کی پہلی کرن سے جگمگا اٹھتے ہیں اور زمین پر ہر طرف روشنی پھیل جاتی ہے۔
دنیا ہر طرح کے شور سے بھری ہوئی ہے۔ شور کی یہ آلودگی ہر طرح سے ہماری سماعتوں، سوچ اور کام کرنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ مگر شور کسی طرح کم نہیں ہو رہا۔ یہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ شور گھر، گلیوں، راستوں اور شاہراہوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ دھرنوں، سیاسی لفاظی، ایوان سیاست پر جا کے ختم ہوتا ہے۔
شور کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ یہ وقتی طور پر تھم جاتا ہے۔ خاموشی کے وقفوں میں ایک نئے شور کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یہ شور جو کبھی انسانی زندگی کے فطری رویوں کی ترجمانی کرتا تھا، اب مصنوعیت کی نذر ہو چکا ہے۔ ذہن میں جب خاموشی کے وقفے آتے ہیں، تو ضروری نہیں کہ ہم کوئی خوبصورت بات، احساس، دلکش چہرہ یا موسم سوچتے ہیں۔ یہ وقفے منفی باتوں اور کدورتوں سے بھرے رہتے ہیں۔ شکایتوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ اس شور سے نجات پانا مشکل ہے، کیونکہ ہم اس کے عادی ہو چلے ہیں۔ بیرونی دنیا کا شور زندگی کی ضرورت ہے، مگر انسان کے ذہن میں جو بے ہنگم آوازوں کی بازگشت ہے۔ وہ اس کی سوچ کا اختراع ہے۔ سوچ جو پرفریب خیال کا ہاتھ تھام کے بے مقصد بھٹکتی ہے۔
پر فریب خیال، واہمے اور قیاس آرائی معلوم نہیں کیوں زندگی کی حقیقت بن چکے ہیں۔ ذہن ہمہ وقت کئی واہموں میں گھرا رہتا ہے۔ ذہن و جسم کا رابطہ منتشر ہے۔ جس کی وجہ سے زندگی کا توازن برقرار نہیں رہ پاتا۔ جدید دنیا اندر کے شور سے نجات پانے کے راستے ڈھونڈ رہی ہے۔ اس نے انتشار میں مرکزیت کا سراغ پا لیا ہے۔ یہ خیال مشرقی تہذیب کی میراث ہوا کرتا تھا۔ جو کثرت میں وحدت کا جوہر تلاش کرتی تھی۔ حالات کی ستم ظریفی اور مصائب ذہن و روح کو بے ترتیب نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ترتیب بہتر تربیت اور ذاتی تجزیے کا نچوڑ تھی۔ دور حاضر میں یہ دونوں رویے مفقود ہو چکے ہیں۔
جب ذہن منتشر ہو جاتا ہے، تو سوچ روایتی دائروں میں بھٹکتی ہے۔ اسے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ مسائل کی بھرمار بڑھتی چلی جاتی ہے۔ مسائل کو سوچ کا نیا تناظر چاہیے۔ مگر یہ ذہن خاموش ہو تو بہتری کی کوئی راہ نکل سکے! جدید دنیا کے تمام علم فقط ذہن کی خاموشی کا ہنر سکھاتے ہیں۔ موضوع ایک ہوتا ہے مگر خیال کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ ذہن کی خاموشی کا مطلب یکسوئی اور سکون کی کیفیت ہے۔ انتشار میں ارتکاز کی رمز سمجھانے کی تکرار ہے۔ کیونکہ انتشار کبھی نہیں تھمتا۔ یہ ایک دائمی کیفیت ہے۔
زندگی کی بنیاد میں تبدیلی کا عنصر شامل ہے۔ یہ تبدیلی ہمیشہ خوشگوار اور موافق نہیں ہو سکتی۔ یہ سوچ اور توقعات کے برعکس ہوتی ہے۔ جو رویے ہماری توقعات پر پورے نہیں اترتے، ہم انھیں مسترد کر دیتے ہیں۔ یہ کاملیت پسندی بھی محض واہمہ اور پرفریب خیال ہی ہے۔ مثال جب ہمارے ملک میں پہلی جمہوریت کی بہار آئی تو یہ ایک معجزہ ہی تھا۔ کیونکہ ایک طویل انتظار کے بعد ملک میں جس کے درمیان عوام نے بہار کے تازہ اور خوشگوار جھونکوں کو محسوس کیا۔ مگر جمہوریت کا یہ گیت بہت جلد نوحے میں بدل گیا۔ جمہوریت تو تھی مگر جمہوری رویے کمیاب تھے۔ آصف زرداری کا دور حکومت آپ کو یاد ہو گا کہ اپوزیشن ہو یا میڈیا کس طرح پیپلز پارٹی کی مخالفت کرتے رہے۔ سیاست دانوں کی کاملیت پسندی دیکھ کر عوام بھی متنفر ہو گئے۔ پھر نئی تبدیلی کی بات ہونے لگی۔ زرداری سے مایوس سوچ نواز شریف کی طرف امید سے دیکھنے لگی۔ جمہوریت کی یہ دوسری بہار بھی جلد ہی خزاں کی زد میں آ گئی ہے۔
دھرنوں کے شور میں عوامی زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔ اس کا ذمہ کون لیتا ہے کہ اب جو تبدیلی آئے گی کیا وہ چہروں کی تبدیلی نہیں ہو گی؟ یہ کاملیت پسند رویے جو خامیوں کو مسترد کر دیتے ہیں یہ رویے کیا خود فریبی پر منحصر نہیں ہیں؟ کاملیت پسندی اور خود فریبی کے درمیان کم ہی فاصلہ رہ جاتا ہے۔ مختلف رویے ہمارے ذہن میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ذہن کا ایک حصہ تبدیلی کو مسترد کرتا ہے۔ یہ بائیں طرز کا ذہن ہے۔ جسے حزب اختلاف بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ اپنی الگ تصوراتی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب Right Brain ہے دائیں طرف کا ذہن جو نہ فقط تبدیلی لانا چاہتا ہے مگر موجودہ تبدیلی کی خامیاں بھی قبول کرتا ہے۔
یہ دائیں اور بائیں طرف کے نظریات ذہن کی اناٹامی تک محدود نہیں ہیں بلکہ انھوں نے عوامی زندگی کی ہلچل کو بری طرح سے مفلوج کر دیا ہے۔ مغربی دنیا کے حکمران Growth Mindset (تبدیل ہوتا پھلتا و پھولتا ہوا ذہن) پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ بیرونی دنیا کے لیے چاہے موثر نہ ہوں، مگر اپنے ملک کے عوام کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ ان کی غیر جانبدار سوچ، خامیوں اور تنقید کو تبدیلی کے عمل کا حصہ سمجھتی ہے۔ خامیوں کا ہونا فطری عمل ہے۔ خامیوں کو مسترد کرنا غیر حقیقی سوچ ہے۔ خامیوں پر تنقید کر کے عمل اور رویوں میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ ایک جمہوری عمل اور رویہ ہے۔ مگر ہمارے ملک میں کسی بھی لفظ کے لغوی معنی متضاد ہو جاتے ہیں۔ جمہوریت کا مطلب ہے عوام کے حقوق کو تحفظ عطا کرنا، ان کی بہتری کے لیے کام کرنا۔ آزاد اور غیر جانبدار جمہوری رویے جو باہمی اشتراک میں ڈھل جاتے ہیں۔ لہٰذا باہمی اشتراک کا مطلب تضاد کی لغت میں کچھ اور ہی ملے گا۔ تضادات کی یہ لغت ہر لفظ کی تشریح مختلف انداز سے کرتی ہے۔
تضادات کا یہ شور نہ مسائل سمجھنے دیتا ہے اور نہ ہی ان کا حل ڈھونڈنا کسی کے بس کا روگ ہے۔ اس دن کسی نے سوال کیا کہ آخر کب ہم اس انتشار سے نجات پا سکیں گے۔ یہ انتشار جو فطرت سے ماحول اور انسانی زندگی پر بری طرح سے چھایا ہوا ہے۔ جس کے لیے سب سے پہلے اندر کے شور سے نجات پانا ہو گی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وقتی طور پر سب باتوں کو چھوڑ کے چند دن خاموشی اختیار کر لی جائے۔ خاموشی کے ان وقفوں میں ہم مثبت سوچ، خوبصورت رویے اور فقط خوبیوں کو سوچنے لگیں۔ سکون کے پس منظر میں سوچ کا نیا تناظر، سورج ابھرنے کے منظر جیسا لگے گا۔ جب سرمئی اندھیرے سورج کی پہلی کرن سے جگمگا اٹھتے ہیں اور زمین پر ہر طرف روشنی پھیل جاتی ہے۔