بلوچستانی ادب پہ بہار
ایسا ممکن نہیں ہے کہ پورا سماج بیک وقت ایک ہی رَو میں چل رہا ہو، ماسوائے انقلابی حالات کے
بلوچستان نامی خطے سے اچھی خبریں کم ہی آتی اور باہر جاتی ہیں۔ گزشتہ ایک دَہائی سے تو یہ خطہ اچھی خبروں کو ترسا ہوا ہے۔ جنگی میدان بنی اس سرزمین سے مارا ماری، خونخواری، جنگ و جدل، آہ وزاری کے سوا کچھ سنائی دیتا ہے، نہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر سچ پوچھیے تو کوئی بھی سماج کبھی اکہرا نہیں ہوتا۔
ایسا ممکن نہیں ہے کہ پورا سماج بیک وقت ایک ہی رَو میں چل رہا ہو، ماسوائے انقلابی حالات کے، جس کا اس خطے میں خواب دیکھنا بھی ایک عرصے سے ممنوع قرار پا چکا ( براہِ کرام اس مقدس اصطلاح کو 'انقلابی دھرنوں' کے تناظر میں نہ پڑھا جائے)۔ سماج بالکل کسی عام انسان کی شخصیت کی طرح ہوتے ہیں، جو نہ تو مکمل شیطان ہوتا ہے نہ فرشتہ، بلکہ ان دونوں کے سنگم سے ہی آدمی بنتا ہے اور جو اپنے اندرکے شیطان پہ جتنا زیادہ قابو پا سکے، وہ اتنا ہی زیادہ انسان۔ بعینہ سماج بھی خیروشر کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جو سماج خیر کو جتنا حاوی کر لے، شر سے جتنا زیادہ خود کو محفوظ کرسکے، وہ اتنا ہی زیادہ فلاحی اور اچھا سماج کہلاتا ہے۔ بدقسمتی سے بہ طور مجموعی ہمارے سماج میں ایک عرصے سے شر کی قوتیں حاوی ہیں، ان کی ہیبت چارسو طاری ہے۔ پر، ایسے میں بھی خیر کی کوئی نہ کوئی سبیل نکل آتی ہے، اور بس زندگی کی وہی لہر حبس کے موسم میں بھی جینے پہ اکساتی ہے۔
بلوچستان، جسے ویسے ہی مرکزی دھارے کے میڈیا میں جگہ کی کمی کا شکوہ رہتا ہے، جس کی بڑی سے بڑی خبر بھی، 'مرکز' تک پہنچتے پہنچتے اپنا وجود کھو دیتی ہے، وہاں سے خیر کی چھوٹی چھوٹی خبریں بھلا کہاں پہنچتی ہوں گی! سو آئیے آج ایسی ہی کچھ چھوٹی چھوٹی مثبت خبروں کا ذکر کرتے ہیں۔
مثلاً یہ سننا آپ کے لیے کیسا فرحت انگیز ہو گا کہ ایک عرصے سے مسلسل خزاں کے مارے بنجر بلوچستان کے چمنِ سخن پہ ان دنوں ایک عرصے سے بہار چھائی ہوئی ہے اور اس بہار کا سہرا اُس متوسط طبقے کے وزیر اعلیٰ کے سر ہے، جسے اب تک کوئی وزیر اعلیٰ تصور کرنے کو تیار نہیں ( بعض اپنی قبائلی انا کی بنا پر اور بعض اپنی سیاسی معصومیت کی بنا پر)۔ ہوا یوں کہ اس برس کے آغاز میں بلوچستان کے ایک تھنک ٹینک علمی ادارے میں زیر بحث آنے والا، بلوچی کے ملک الشعرا میر گل خان نصیر کی پیدائش کے سو سالہ جشن کا خیال، بلوچستان کے جواں مرگ صحافی کے توسط سے سرکارِ نامدار تک پہنچا تو ان کی باچھیں کھل اٹھیں۔ وہ سرکار، جس سے نہ تو مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ سلجھ رہا تھا، نہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو رہا تھا۔
جو نہ تو امن و امان پہ مکمل قابو پا رہی تھی، نہ کرپشن کے بحر بے کراں کے آگے بند باندھ رہی تھی، اسے ایک نادر و نایاب موقع ہاتھ آیا۔ سنگت اکیڈمی اور ارشاد مستوئی کا یہ خیال، سال بھر کے ایک مکمل منصوبے کی صورت میں بلوچستان کے افسانہ نگار اور ادیب و ادب نواز وزیر اعلیٰ تک پہنچا، تو انھوں نے پہلی ہی فرصت میں رواں سال کو گل خان کے نام سے منسوب کر دیا۔ تفصیلات اس اعلان کی یہ تھیں کہ گل خان نصیر پہ جو بھی ادارہ تقریب منعقد کرے گا، کتاب چھاپے گا، جو فرد کتاب لکھے گا، سب کی مالی معاونت سرکارِ نامدار کرے گی۔
سرکار کا اعلان ہونا تھا کہ سرکار کے حامی و مخالف سبھی منصوبوں کا گٹھڑ لیے حاضر ہوگئے۔ حکومت کے حامی تو سمجھ میں آتے تھے، مگر وہ جو 'انقلاب' کی آمد کا سندیسہ دیتے تھے، جو صوبے میں پہلے 'مڈل کلاس وزیر اعلی' کی اصطلاح کو بھی تحقیر آمیز انداز میں بیان کرتے تھے، وہ جنھیں یہ احباب قومی جدوجہد کے غداروں کی صفِ اول میں نظر آتے تھے، وہ بھی اس میں پیش پیش نظر آئے۔ اور پھر 'تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے' کی سی کیفیت ہو گئی۔
سوشل ازم کو دیس نکالا دینے کی حامی بلوچستان بھر کی ادبی تنظیمیں اور افراد بھی سرخ پرچم تھامنے کا درس دینے والے سوشلسٹ گل خان کے نام کا پرچم ہاتھ میں تھامے آگے بڑھے۔ ایک عرصے سے سرداروں کے فکری باڈی گاڈ بنے احباب، سرداروں کو سرِ دار چڑھانے کا عزم رکھنے والے گل خان نصیر پہ تقریریں لکھ کر، ایک غیر سردار وزیراعلیٰ کو سنانے کی خواہش میں سبقت لے جانے لگے۔ زندگی بھر اپنی شاعری کو سنبھال کر رکھنے کی استطاعت سے محروم گل خان نصیر کی ہزاروں صفحات پہ مشتمل کلیات نہایت دیدہ زیب انداز میں (لاکھوں روپوں کے اخراجات) سے چھپ گئی۔ وہ شخص جسے زندگی کی آخری ایام میں 'گل بانو' جیسے تحقیر آمیز و جگر بریدہ خطابات سے نوازا گیا، اس پہ درجنوں کتابیں لکھی گئیں۔
(کاش کہ کوئی ایک دانشور آگے بڑھ کر کسی کی طرف سے بھی ہونے والی اس زیادتی پر بہ طور مجموعی گل خان سے ندامت کا اظہار ہی کر لیتا!) ۔ المختصر بلوچستان میں ہر طرف گل خان ہی گل خان ہو گیا۔ (کسی دل جلے نے اسے 'گل خان برائے فروخت' سے بھی منسوب کیا)۔ ابھی دسمبر کے پہلے ہفتے میں ان کی برسی کے موقعے پر کلچر ڈپارٹمنٹ کے زیر اہتمام کوئٹہ میں ایک عالمی کانفرنس بھی ہونے جا رہی ہے اور پھر پاکستان کے چاروں دارالحکومتوں سمیت اسلام آباد و گوادر میں بھی کانفرنس کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ بقول کسے، گل خان کی زندگی سے لے کر ان کی وفات کے تیس برسوں میں بھی ان پر اتنا کام نہ ہوا، جتنا کہ اس ایک برس میں ہوا ہے۔ اور یہ کتنی بڑی، کس قدر فرحت انگیز خبر ہے، لٹے پٹے بلوچستان کے کسی ستم رسیدہ خواندہ بلوچ سے پوچھ کر دیکھیے!
گل خان کے چاہنے والے، ان کے ہم فکر، ان کے نقش قدم پہ چلنے والے، خوش ہیں۔ اس تمام تر اہتمام کا مرکزی خیال خواہ کہیں سے بھی اٹھا ہو، لیکن اس کا حقیقی مقصد پایہ تکمیل کو پہنچا۔ بلوچستان کے نئے قاری تک گل خان کی آواز پہنچی، جس کا پہنچنا نہایت بروقت و باید تھا۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، ادارے بنتے فنا ہوتے رہتے ہیں؛ کام، عمل اور کردار باقی رہ جاتے ہیں۔ بقول شخصے، بلوچستان کی موجودہ حکومت کا ڈیڑھ برس ایک طرف اور گل خان پہ اس کا کام ایک طرف۔ اس کی بخشش کو یہی ایک کام کافی ہے۔ اور محض یہی نہیں، بلوچستان کے ادیب و ادب دوست وزیر اعلیٰ نے کسی ادیب، کسی ادبی ادارے کو نوازنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ فنونِ لطیفہ کی خدمت میں زندگی بِتانے والے افراد کی مالی امداد سے لے کر ایسے اداروں کی فنڈنگ تک کہیں بھی وہ پیچھے نہ رہے۔ بلوچستان کا شاید ہی کوئی ادبی ادارہ یا ادیب ایسا ہو جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں۔ محروم رہ جانے والے صرف دو قسم کے احباب ہیں؛ ایک وہ 'خالص انقلابی' جن کا خیال ہے کہ بلوچستان میں اب کسی بھی حکومت کی شکل دیکھنا بھی واجب نہیں، دوم وہ جو محض اس روا روی میں رہے کہ، 'لوگ کیا کہیں گے!'۔
مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کرنے اور تمام تر سہولیات سے مستفید ہونے کے باوجود بلوچستان میں کوئی ادبی ادارہ ، کوئی ادیب ہماری کم زور ، بے بس اور ناکام حکومت کی اس اکلوتی کامیابی کو اپنانے (Ownکرنے) پر تیار نہیں۔ ہم سب اپنی نجی محفلوں میں تو یہ تمام حقائق تسلیم کر رہے ہوتے ہیں لیکن اپنے نوجوان قاری کو یہ بتاتے ہوئے شرمندگی کا سا احساس ہوتا ہے۔ ہم اکیڈمک کی بجائے Agitative بات کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں، کیونکہ اس میں ایک تو سہولت بہت ہے، دوم حالاتِ حاضرہ میں یہ پسند کی جاتی ہے، اس پہ داد بہت ملتی ہے، تالیاں بہت بجتی ہیں۔ اس سے جوانوں کو فوری جوش میں لایا جا سکتا ہے۔ اکیڈمک کے لیے گہرے مطالعے اور عمیق مشاہدے کی دردسری اٹھانا پڑتی ہے۔ داد سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
گالیاں کھانی پڑتی ہیں، طعنے اور فتوے سہنے پڑتے ہیں۔ جوانوں کو جوش کی بجائے ہوش میں لانا پڑتا ہے۔ اور یہ وہ کارِ دارد ہے جو ہمارے سہل پسند ادبی قبیلے سے نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں بلوچی ادب کی ترویج کے چند ادارے اس سنگِ گراں کو اٹھانے کی کوشش میں سرگراں ہیں، جو نوجوان نسل کو مسلسل اپنے عمل سے یہ سمجھانے اور بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جذبات کا دھارا گزر چکا، جوش سرد پڑ چکا، اب ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے۔ پڑھنے کا، پڑھانے کا، سمجھنے کا اور سمجھانے کا وقت ہے اور اگر بلوچستان میں بند کروائے گئے اسکولوں کو کھلوانے میں ناکامی اور کتابوں کی دکانوں اور ہاسٹلوں پر چھاپوں کا داغ رکھنے والی حکومت بھی اس عمل میں معاون ہوتی ہے، تو اس کو سراہا جانا چاہیے۔ دانش مندانہ اقدام اگر دشمن بھی کرے تو اس کی تعریف واجب اور اعلیٰ ظرفی کی علامت ہوتی ہے۔
ایسا ممکن نہیں ہے کہ پورا سماج بیک وقت ایک ہی رَو میں چل رہا ہو، ماسوائے انقلابی حالات کے، جس کا اس خطے میں خواب دیکھنا بھی ایک عرصے سے ممنوع قرار پا چکا ( براہِ کرام اس مقدس اصطلاح کو 'انقلابی دھرنوں' کے تناظر میں نہ پڑھا جائے)۔ سماج بالکل کسی عام انسان کی شخصیت کی طرح ہوتے ہیں، جو نہ تو مکمل شیطان ہوتا ہے نہ فرشتہ، بلکہ ان دونوں کے سنگم سے ہی آدمی بنتا ہے اور جو اپنے اندرکے شیطان پہ جتنا زیادہ قابو پا سکے، وہ اتنا ہی زیادہ انسان۔ بعینہ سماج بھی خیروشر کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جو سماج خیر کو جتنا حاوی کر لے، شر سے جتنا زیادہ خود کو محفوظ کرسکے، وہ اتنا ہی زیادہ فلاحی اور اچھا سماج کہلاتا ہے۔ بدقسمتی سے بہ طور مجموعی ہمارے سماج میں ایک عرصے سے شر کی قوتیں حاوی ہیں، ان کی ہیبت چارسو طاری ہے۔ پر، ایسے میں بھی خیر کی کوئی نہ کوئی سبیل نکل آتی ہے، اور بس زندگی کی وہی لہر حبس کے موسم میں بھی جینے پہ اکساتی ہے۔
بلوچستان، جسے ویسے ہی مرکزی دھارے کے میڈیا میں جگہ کی کمی کا شکوہ رہتا ہے، جس کی بڑی سے بڑی خبر بھی، 'مرکز' تک پہنچتے پہنچتے اپنا وجود کھو دیتی ہے، وہاں سے خیر کی چھوٹی چھوٹی خبریں بھلا کہاں پہنچتی ہوں گی! سو آئیے آج ایسی ہی کچھ چھوٹی چھوٹی مثبت خبروں کا ذکر کرتے ہیں۔
مثلاً یہ سننا آپ کے لیے کیسا فرحت انگیز ہو گا کہ ایک عرصے سے مسلسل خزاں کے مارے بنجر بلوچستان کے چمنِ سخن پہ ان دنوں ایک عرصے سے بہار چھائی ہوئی ہے اور اس بہار کا سہرا اُس متوسط طبقے کے وزیر اعلیٰ کے سر ہے، جسے اب تک کوئی وزیر اعلیٰ تصور کرنے کو تیار نہیں ( بعض اپنی قبائلی انا کی بنا پر اور بعض اپنی سیاسی معصومیت کی بنا پر)۔ ہوا یوں کہ اس برس کے آغاز میں بلوچستان کے ایک تھنک ٹینک علمی ادارے میں زیر بحث آنے والا، بلوچی کے ملک الشعرا میر گل خان نصیر کی پیدائش کے سو سالہ جشن کا خیال، بلوچستان کے جواں مرگ صحافی کے توسط سے سرکارِ نامدار تک پہنچا تو ان کی باچھیں کھل اٹھیں۔ وہ سرکار، جس سے نہ تو مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ سلجھ رہا تھا، نہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو رہا تھا۔
جو نہ تو امن و امان پہ مکمل قابو پا رہی تھی، نہ کرپشن کے بحر بے کراں کے آگے بند باندھ رہی تھی، اسے ایک نادر و نایاب موقع ہاتھ آیا۔ سنگت اکیڈمی اور ارشاد مستوئی کا یہ خیال، سال بھر کے ایک مکمل منصوبے کی صورت میں بلوچستان کے افسانہ نگار اور ادیب و ادب نواز وزیر اعلیٰ تک پہنچا، تو انھوں نے پہلی ہی فرصت میں رواں سال کو گل خان کے نام سے منسوب کر دیا۔ تفصیلات اس اعلان کی یہ تھیں کہ گل خان نصیر پہ جو بھی ادارہ تقریب منعقد کرے گا، کتاب چھاپے گا، جو فرد کتاب لکھے گا، سب کی مالی معاونت سرکارِ نامدار کرے گی۔
سرکار کا اعلان ہونا تھا کہ سرکار کے حامی و مخالف سبھی منصوبوں کا گٹھڑ لیے حاضر ہوگئے۔ حکومت کے حامی تو سمجھ میں آتے تھے، مگر وہ جو 'انقلاب' کی آمد کا سندیسہ دیتے تھے، جو صوبے میں پہلے 'مڈل کلاس وزیر اعلی' کی اصطلاح کو بھی تحقیر آمیز انداز میں بیان کرتے تھے، وہ جنھیں یہ احباب قومی جدوجہد کے غداروں کی صفِ اول میں نظر آتے تھے، وہ بھی اس میں پیش پیش نظر آئے۔ اور پھر 'تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے' کی سی کیفیت ہو گئی۔
سوشل ازم کو دیس نکالا دینے کی حامی بلوچستان بھر کی ادبی تنظیمیں اور افراد بھی سرخ پرچم تھامنے کا درس دینے والے سوشلسٹ گل خان کے نام کا پرچم ہاتھ میں تھامے آگے بڑھے۔ ایک عرصے سے سرداروں کے فکری باڈی گاڈ بنے احباب، سرداروں کو سرِ دار چڑھانے کا عزم رکھنے والے گل خان نصیر پہ تقریریں لکھ کر، ایک غیر سردار وزیراعلیٰ کو سنانے کی خواہش میں سبقت لے جانے لگے۔ زندگی بھر اپنی شاعری کو سنبھال کر رکھنے کی استطاعت سے محروم گل خان نصیر کی ہزاروں صفحات پہ مشتمل کلیات نہایت دیدہ زیب انداز میں (لاکھوں روپوں کے اخراجات) سے چھپ گئی۔ وہ شخص جسے زندگی کی آخری ایام میں 'گل بانو' جیسے تحقیر آمیز و جگر بریدہ خطابات سے نوازا گیا، اس پہ درجنوں کتابیں لکھی گئیں۔
(کاش کہ کوئی ایک دانشور آگے بڑھ کر کسی کی طرف سے بھی ہونے والی اس زیادتی پر بہ طور مجموعی گل خان سے ندامت کا اظہار ہی کر لیتا!) ۔ المختصر بلوچستان میں ہر طرف گل خان ہی گل خان ہو گیا۔ (کسی دل جلے نے اسے 'گل خان برائے فروخت' سے بھی منسوب کیا)۔ ابھی دسمبر کے پہلے ہفتے میں ان کی برسی کے موقعے پر کلچر ڈپارٹمنٹ کے زیر اہتمام کوئٹہ میں ایک عالمی کانفرنس بھی ہونے جا رہی ہے اور پھر پاکستان کے چاروں دارالحکومتوں سمیت اسلام آباد و گوادر میں بھی کانفرنس کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ بقول کسے، گل خان کی زندگی سے لے کر ان کی وفات کے تیس برسوں میں بھی ان پر اتنا کام نہ ہوا، جتنا کہ اس ایک برس میں ہوا ہے۔ اور یہ کتنی بڑی، کس قدر فرحت انگیز خبر ہے، لٹے پٹے بلوچستان کے کسی ستم رسیدہ خواندہ بلوچ سے پوچھ کر دیکھیے!
گل خان کے چاہنے والے، ان کے ہم فکر، ان کے نقش قدم پہ چلنے والے، خوش ہیں۔ اس تمام تر اہتمام کا مرکزی خیال خواہ کہیں سے بھی اٹھا ہو، لیکن اس کا حقیقی مقصد پایہ تکمیل کو پہنچا۔ بلوچستان کے نئے قاری تک گل خان کی آواز پہنچی، جس کا پہنچنا نہایت بروقت و باید تھا۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، ادارے بنتے فنا ہوتے رہتے ہیں؛ کام، عمل اور کردار باقی رہ جاتے ہیں۔ بقول شخصے، بلوچستان کی موجودہ حکومت کا ڈیڑھ برس ایک طرف اور گل خان پہ اس کا کام ایک طرف۔ اس کی بخشش کو یہی ایک کام کافی ہے۔ اور محض یہی نہیں، بلوچستان کے ادیب و ادب دوست وزیر اعلیٰ نے کسی ادیب، کسی ادبی ادارے کو نوازنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ فنونِ لطیفہ کی خدمت میں زندگی بِتانے والے افراد کی مالی امداد سے لے کر ایسے اداروں کی فنڈنگ تک کہیں بھی وہ پیچھے نہ رہے۔ بلوچستان کا شاید ہی کوئی ادبی ادارہ یا ادیب ایسا ہو جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں۔ محروم رہ جانے والے صرف دو قسم کے احباب ہیں؛ ایک وہ 'خالص انقلابی' جن کا خیال ہے کہ بلوچستان میں اب کسی بھی حکومت کی شکل دیکھنا بھی واجب نہیں، دوم وہ جو محض اس روا روی میں رہے کہ، 'لوگ کیا کہیں گے!'۔
مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کرنے اور تمام تر سہولیات سے مستفید ہونے کے باوجود بلوچستان میں کوئی ادبی ادارہ ، کوئی ادیب ہماری کم زور ، بے بس اور ناکام حکومت کی اس اکلوتی کامیابی کو اپنانے (Ownکرنے) پر تیار نہیں۔ ہم سب اپنی نجی محفلوں میں تو یہ تمام حقائق تسلیم کر رہے ہوتے ہیں لیکن اپنے نوجوان قاری کو یہ بتاتے ہوئے شرمندگی کا سا احساس ہوتا ہے۔ ہم اکیڈمک کی بجائے Agitative بات کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں، کیونکہ اس میں ایک تو سہولت بہت ہے، دوم حالاتِ حاضرہ میں یہ پسند کی جاتی ہے، اس پہ داد بہت ملتی ہے، تالیاں بہت بجتی ہیں۔ اس سے جوانوں کو فوری جوش میں لایا جا سکتا ہے۔ اکیڈمک کے لیے گہرے مطالعے اور عمیق مشاہدے کی دردسری اٹھانا پڑتی ہے۔ داد سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
گالیاں کھانی پڑتی ہیں، طعنے اور فتوے سہنے پڑتے ہیں۔ جوانوں کو جوش کی بجائے ہوش میں لانا پڑتا ہے۔ اور یہ وہ کارِ دارد ہے جو ہمارے سہل پسند ادبی قبیلے سے نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں بلوچی ادب کی ترویج کے چند ادارے اس سنگِ گراں کو اٹھانے کی کوشش میں سرگراں ہیں، جو نوجوان نسل کو مسلسل اپنے عمل سے یہ سمجھانے اور بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جذبات کا دھارا گزر چکا، جوش سرد پڑ چکا، اب ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے۔ پڑھنے کا، پڑھانے کا، سمجھنے کا اور سمجھانے کا وقت ہے اور اگر بلوچستان میں بند کروائے گئے اسکولوں کو کھلوانے میں ناکامی اور کتابوں کی دکانوں اور ہاسٹلوں پر چھاپوں کا داغ رکھنے والی حکومت بھی اس عمل میں معاون ہوتی ہے، تو اس کو سراہا جانا چاہیے۔ دانش مندانہ اقدام اگر دشمن بھی کرے تو اس کی تعریف واجب اور اعلیٰ ظرفی کی علامت ہوتی ہے۔