اعتراف آخری حصہ
سعید اکرم کے ایک استاد تھے جن کا نام شاہ محمد آفتاب تھا لیکن لوگ انھیں لالہ جی کہہ کر پکارتے تھے۔
سعید اکرم ساتویں کلاس میں تھے۔ ششماہی امتحان میں اسلامیات کے پرچے میں توقع سے کم نمبر آئے تو وہیں کلاس میں بیٹھ کر رونے لگے۔ سامنے کھڑے نوجوان استاد نے پاس بلایا، رونے کی وجہ پوچھی اور پھر کچھ ایسے انداز سے دلاسا دیا کہ سعید ان کے گرویدہ ہو گئے۔ یہ استاد ملک محمد منیر نواہی تھے۔ سعید اور ان کے یہ استاد ایک ہی محلے میں رہتے تھے، مزاج و طبیعت میں ہم آہنگی تھی چنانچہ استاد اور شاگرد دوست بنتے چلے گئے۔ استاد سے میل جول نے سعید اکرم کی صلاحیتوں کو ابھارا، ان کے اندر جو ایک چھوٹا سا شاعر چھپا بیٹھا تھا، اسے باہر لائے، اسٹیج پر جانے کا خوف دور کیا اور اچھے لوگوں کی صحبت میں لے گئے۔ کرنل محمد خاں، سید ضمیر جعفری اور بریگیڈیئر گلزار سے اسی زمانے میں ان کا تعارف ہوا۔
سعید ملک کا ذکر یوں کرتے ہیں: خوبصورت اٹھتا ہوا قد، نکھرا رنگ، تیکھے نقوش، بلند، لہجہ بہت خوددار، حد درجہ دیانت دار انسان تھے۔ قدرت نے انھیں آواز بھی سریلی دی تھی اور ہماری حد تک گا بھی اچھا لیتے تھے۔ انھوں نے قناعت سے زندگی گزاری۔ جب ہائی اسکول کا درجہ بڑھا تو پہلے پرنسپل مقرر ہوئے، وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ پھر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ سعید لکھتے ہیں ''میں نے ستر سالہ زندگی میں گاؤں کے اندر سے اتنا بڑا جنازہ نکلتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔''
چوہدری باز خاں سعید اکرم کے انگریزی کے استاد تھے۔ درمیانہ قد، چمکتی سفید رنگت، اجلاس لباس، جناح کیپ، باوقار چال، بے حد دھیما مزاج، دل میں اترتا انداز گفتگو۔ سعید لکھتے ہیں ''جب ہم نے ان سے انگریزی پڑھنا شروع کی تو محض چند روز میں کلاس کا ہر لڑکا اپنے اندر انگریزی پڑھنے کا ایک عجیب شوق پیدا ہوتے محسوس کرنے لگا۔ ''سعید کے دل میں درس و تدریس کے میدان میں آنے کی خواہش چوہدری باز خاں ہی نے پیدا کی۔
سعید اکرم کے ایک استاد تھے جن کا نام شاہ محمد آفتاب تھا لیکن لوگ انھیں لالہ جی کہہ کر پکارتے تھے۔ لالہ جی دل نواز شخصیت کے مالک تھے، ریاضی پڑھاتے تھے۔ سعید کہتے ہیں کہ انھوں نے بحیثیت شاگرد ہی نہیں، بحیثیت رفیق کار بھی جھولیاں بھر کر ان کی شفقتیں سمیٹی ہیں اور پھر مزید یہ کہ انھوں نے لالہ جی کے پانچوں بچوں کو بھی پڑھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''ان کا گاؤں اسکول سے پندرہ میل دور تھا۔ وہاں وہ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال بھی خود ہی کرتے۔ گندم کی کٹائی کے دنوں میں تو وہ پہچانے بھی نہیں جاتے تھے۔ وہ طبعاً سادہ انسان تھے، ٹیچرز کالونی میں جہاں وہ رہتے تھے اور وہاں بھی کبھی گائے، بھینس کے بغیر نہیں رہے۔ چھٹی کے بعد وہ صحیح معنوں میں دیہاتی کسان بن جاتے۔''
پروفیسر چوہدری سلطان بخش جو بی ایس سی میں ریاضی پڑھاتے تھے چکوال کالج میں سعید اکرم کے استاد تھے۔ سعید لکھتے ہیں ''وہ کلاس سے باہر بھی طلبہ کی تربیت اور ان کے ذہنوں کو جلا دینے کے سامان پیدا کرنے کے پروگرام بناتے رہتے تھے۔ ہر دوسرے تیسرے ماہ وہ کسی بڑے اسکالر کو بلا لیتے اور سارا کالج اس کا لیکچر سنتا۔ پروفیسر تاج محمد خیال کا ایک لیکچر اور اس کے بعد سوال جواب کا وقفہ اور وہ گفتگو آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔''
سعید اکرم نے اپنی کتاب میں خواجہ محمد عثمان، پروفیسر ضمیر احمد صدیقی اور پروفیسر غلام الثقلین نقوی کا ذکر بھی کیا ہے۔ پروفیسر محمد امین کا ذکر کرتے ہوئے سعید لکھتے ہیں ''ادھر ہم کالج کے سال اول میں داخل ہوئے، ادھر چار پانچ نئے لیکچرار کالج میں آ پہنچے۔ ان نئے نوجوان اساتذہ میں ریاضی کے استاد پروفیسر محمد امین ہمارے حصے میں آئے۔ امین صاحب کی عمر اس وقت یہی کوئی تئیس چوبیس ہو گی۔ ان کا عین عنفوان شباب کا زمانہ تھا۔ پھر جو پڑھانا شروع کیا تو چند روز ہی میں یہ احساس دلا دیا کہ انھیں اپنے مضمون پر عبور ہی حاصل نہیں، اس خشک مضمون کو دل آویز بنا کر پڑھانا بھی خوب آتا ہے۔''
سعید اکرم نے چکوال کالج میں پروفیسر نثار احمد جمیل کے ساتھ نو سال گزارے۔ لکھتے ہیں ''میں نے اس عرصے میں انھیں بہت قریب سے دیکھا۔ وہ میرے کوئی باقاعدہ اور روایتی استاد تو نہیں تھے لیکن میں نے ان سے اس دوران میں زندگی کے جو آداب سیکھے وہ میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔''
سعید نے زیب ظفری اور افضل تحسین کا بھی محبت سے ذکر کیا ہے لکھتے ہیں ''میرے ان اساتذہ نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی اور ہر پل مجھے حوصلہ دینے میں کبھی بخل سے کام نہ لیا۔''
محمد افضل تحسین شریف النفس انسان تھے۔ ایک دن سعید اکرم نے ان سے درخواست کی ''حضرت دعا فرمائیے مالک الملک مجھے بیٹیوں کے بعد بیٹا بھی عطا کرے۔'' اس پر انھوں نے سعید کی طرف غور سے دیکھا اور پوچھا ''تمہاری والدہ زندہ ہیں؟'' سعید نے کہا ''جی ہاں!''
محمد افضل تحسین کہنے لگے ''جاؤ ان سے دعا کے لیے کہو۔''