وسط ایشیائی ریاستوں سے قربت کا امکان
بھارت کو ’’علاقائی تجارت‘‘ کو فروغ دینے کے نام پر اب درحقیقت پاکستان کے ذریعے افغانستان کے بازاروں تک پہنچنا ہے۔
سارک کو بنے ہوئے 30 سال ہو گئے ہیں۔ اس کے قیام کے وقت دعوے یہ ہوئے تھے کہ بالآخر ایک دن یہ تنظیم جنوبی ایشیاء کے ممالک کو چاہے یورپی یونین کی طرح ایک لڑی میں نہ بھی پرو پائے مگر ان ممالک کے درمیان علاقائی تعاون کو کم از کم اس سطح پر ضرور پہنچا دے گی جہاں مشرقی ایشیاء کے انڈونیشیاء، ملائشیا اور سنگاپور جیسے ممالک اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود Asean کے ذریعے پہنچ گئے تھے۔
یہ خواب دکھاتے وقت سارک ممالک کے تمام رہ نماؤں نے نہایت مکاری کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان پائی جانے والی بداعتمادی کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔ سارک کا تصور بنیادی طور پر بنگلہ دیش کے ایک فوجی آمر نے پیش کیا تھا۔ تصور کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت بھارت کی طرف سے آئی تھی۔ اندرا گاندھی اور بعدازاں راجیو گاندھی بھارت کو جنوبی ایشیاء کا مہاپردھان ثابت کرنے پر بضد تھے۔ علاقائی چوہدری بننے کی اس تمنا نے بھارت کے اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے تعلق بگاڑ رکھے تھے۔ شیخ مجیب کے قتل کے بعد بنگلہ دیش کی فوج ''قوم پرست'' ہو چکی تھی۔ سری لنکا اپنے ملک میں تامل دہشت گردی کا اصل ذمے دار بھارت کو ٹھہراتا تھا اور نیپال کا شاہی خاندان بھارت کی بالادستی کو کمزور کرنے کے لیے چین سے محبتیں بڑھا رہا تھا۔
نئی دلی میں بیٹھے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو ایسے پس منظر میں اصل خدشہ یہ تھا کہ سارک تنظیم کی چھتری تلے جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک اس کے خلاف گینگ اپ ہو جائیں گے۔ بھارت کو مگر امریکا جیسے ممالک نے اس تنظیم کی حمایت کی طرف بڑی ہوشیاری سے دھکیلا۔ افغانستان کو روسی قبضے سے آزاد کروانا ان دنوں ان ممالک کا اہم ترین ہدف تھا۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے پاکستان سے تعاون درکار تھا اور پاکستان کا جنرل ضیاء بھارتی خطرے کی موجودگی میں افغان جہاد پر پوری توجہ دینے سے انکاری تھا۔
سوویت یونین کی تحلیل اور بھارت میں کانگریسی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ سارا منظر بدل گیا۔ اپنے مختصر دورِ حکومت میں ایک بھارتی وزیر اعظم نے Gujral Doctrine کے نام پر اپنے ہمسایہ ممالک سے اختلاف ختم کرنے میں اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ پاکستان کے حوالے سے یہ Doctrine البتہ کوئی خاص چمتکاری نہ دکھا پائی۔ پاکستان کے سرکاری نقطہ نظر سے دیکھیں تو SAARC اب SHARK بن چکی ہے جس کے معاملات پر بھارت پوری طرح حاوی ہو چکا ہے۔
پاکستان کو یہ گمان تھا کہ سارک میں افغانستان کی شمولیت شاید اس تنظیم میں اسلام آباد کا وزن بڑھا دے۔ مگر حامد کرزئی کی بدولت یہ ممکن نہیں ہو پایا۔ اب ہماری بڑی خواہش ہے کہ چین بھی سارک تنظیم کا باقاعدہ رکن بن جائے۔ مودی سرکار نے مگر یہ آئیڈیا بڑی شدت سے ویٹو کر دیا ہے۔ چین کی شمولیت کے بغیر جنوبی ایشیاء میں ''علاقائی تعاون'' اب درحقیقت بھارت کے مالدیپ، بھوٹان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ پیہم بڑھتے تعلقات کا نام رہ گیا ہے۔
بھارت کو ''علاقائی تجارت'' کو فروغ دینے کے نام پر اب درحقیقت پاکستان کے ذریعے افغانستان کے بازاروں تک پہنچنا ہے۔ ہم سے تقریباََ مایوس ہو کراب وہ ایران کے ساتھ اپنے رشتے مضبوط بناتے ہوئے چاہ بہار کی بندرگاہ کے ذریعے قندھار، ہرات اور کابل تک پہنچنے کے راستے بنا رہا ہے۔ پاکستان کو فی الحال اس تنظیم کے استحکام سے کوئی ٹھوس فائدے حاصل کرنے کی امید نہیں۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میری ذاتی خواہش تھی کہ سارک کی حالیہ کانفرنس میں نواز شریف صاحب ذاتی طور پر شریک نہ ہوں۔ ان کی جگہ صدر پاکستان کٹھمنڈو جا کر اپنے ملک کی رسمی اور علامتی نمایندگی کر سکتے تھے۔
ہمارے پالیسی سازوں کو نہ جانے ابھی تک یہ بات کیوں سمجھ نہیں آئی کہ وادیٔ سندھ جس کا جدید نام 1947ء سے پاکستان ہے کی اصل قوت افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک سے اپنے رشتے گہرے اور مضبوط تر بنانے میں مضمر ہے۔ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد ہمارے پاس ان ممالک سے قربتیں بڑھانے کے امکانات کھل کر سامنے آئے تھے۔ ہمارے پالے ہوئے حکمت یار جیسے مجاہدین نے مگر افغانستان میں امن ہی قائم نہ ہونے دیا۔ وہ ملک روس سے آزاد ہوا تو تاجک، پشتون اور ازبک ''ٹوپک سالاروں'' یعنی وار لارڈز کی عملداریوں میں تقسیم ہو گیا۔ ان سب کا مقابلہ کرنے نمودار ہوئے طالبان جنھیں عرب مجاہدوں نے ''خلافتِ اسلامیہ'' قائم کرنے کی راہ پر لگا دیا۔
مجھے آج بھی 1990ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں کے وہ دن یاد ہیں جب ازبکستان، تاجکستان اور آذربائیجان جیسے نو آزاد وسطیٰ ایشیائی ممالک سے چارٹرڈ طیاروں میں عام مسافر بھاری تعداد میں اسلام آباد اور کراچی آتے تھے۔ ان طیاروں کا ہر مسافر دو بڑے سوٹ کیس بھرکر سفر کر سکتا تھا۔ اپنے ممالک سے ان سوٹ کیسوں میں بھرکر جو اشیاء وسط ایشیاء والے یہاں لاتے رہیں ان ممالک کی خواتین بازاروں میں میزوں پر سجا کر بیچا کرتیں۔ یہاں سے وطن لوٹتے ہوئے وہ اپنے سوٹ کیسوں کو پاکستان میں بنائے چمڑے کے گرم کپڑوں سے لاد دیتیں۔ پاکستان میں تیار شدہ چمڑے کی بنی جیکٹیں تاشقند اور باکو جیسے بڑے شہروں میں قائم فیشن ایبل دکانوں پر Luxury Items شمار ہوتی تھیں۔
ہمارے میڈیا میں بیٹھے ''پارساؤں'' کو مگر چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے ہوتی یہ بارٹر ٹریڈ بالکل پسند نہ آئی۔ ان سب نے یکجا ہو کر اخباروں میں دہائی مچا دی کہ وسط ایشیاء سے آنے والی ''خوبرو خواتین'' کے ہجوم پاکستانی مسلمانوں کا اخلاق بگاڑ رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب کی دوسری حکومت کے ابتدائی ایام میں ایسے پارساؤں کا مؤثر اثر و رسوخ تھا۔ لہذا پاکستانیوں کو مبینہ طور پر گناہ کی ترغیب دینے والی وسط ایشیائی خواتین سے بچانے کے لیے چارٹرڈ طیاروں کی آمد روک دی گئی۔ اب یہ ساری ٹریفک گزشتہ کئی برسوں سے دبئی کا رخ کیے ہوئے ہے۔ اتنے برس کی مکمل ٹریفک کے باوجود مگر متحدہ عرب امارات اللہ کے فضل سے ابھی تک ایک بااخلاق اسلامی ملک ہی سمجھا جاتا ہے اور دبئی کی رونقیں بھی دن بدن دوگنا ہو رہی ہیں۔
1990ء کے وسط میں نمودار ہونے والے امکانات دوبارہ تو پیدا نہیں ہو سکتے۔ مگر پتہ نہیں کیوں مجھے گماں ہو رہا ہے کہ اشرف غنی کے افغان صدر بن جانے اور پاک فوج کی جانب سے ضرب عضب شروع ہو جانے کے بعد ایک بار پھر کوئی ایسی راہ بن رہی ہے جو ابتدائی مراحل میں اسلام آباد، پشاور، کابل، مزار شریف اور تاشقند وغیرہ کو تجارتی حوالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دے گی۔ کوئٹہ، قندھار اور ہرات کے ذریعے ترکمانستان اور آذربائیجان کے ساتھ یک جا ہونے کے امکانات اس کے علاوہ بھی بڑی توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔