پاکستان بھارت اور امریکا

واشنگٹن نے نئی دہلی کو اپنے پارٹنر کے طور پر چن لیا ہے تا کہ اس خطےمیں وہ اپنی پالیسیوں اور پروگراموں کو فروغ دے سکے۔


Kuldeep Nayar November 28, 2014

GENEVA: آپ کسی بھی پیمانے سے ناپ لیجیے۔امریکی صدر بارک اوباما کا جنوری میں بھارت کے یوم جمہوریہ کی پریڈ میں شرکت کرنے کا اعلان بھارت کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا ثبوت ہے۔ انھوں نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو بھی فون کیا ہے جو بیشک تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش ہے لیکن اس سے یہ حقیقت نہیں چھپ سکتی کہ واشنگٹن نے نئی دہلی کو اپنے پارٹنر کے طور پر چن لیا ہے تا کہ اس خطے میں وہ اپنی پالیسیوں اور پروگراموں کو فروغ دے سکے۔ واشنگٹن آزاد معیشت کا مؤید ہے جو سرمایہ دارانہ دنیا کی قیادت کرتا ہے۔

بڑے کاروبار اور مالدار کمپنیوں کو فائدہ پہنچانا اس کی پالیسیوں کا بنیادی مقصد ہے۔ ادھر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کی عین مرضی کا بنا بنایا پارٹنر مل گیا ہے۔ اگرچہ اوباما رائٹ آف دی سینٹر نظریات کے حامل ہیں تاہم مودی کی نسبت وہ زیادہ آزاد خیال ہیں۔ بھارت اور امریکا نے محض اقتصادی وجوہات کی بنا پر اشتراک نہیں کیا اگرچہ نئی دہلی کو امریکی صنعت کے بھارت میں آنے سے کافی فائدہ ہو گا تاہم اصل وجہ دونوں ملکوں میں تزویراتی شراکت داری ہے۔ امریکا اپنے ہتھیار بیچنا چاہتا ہے جو کہ اس کی صنعتی ترقی کی اصل بنیاد ہے۔

بھارت کو جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی درکار ہے۔ جو اسے امریکا کی زیر قیادت مغربی ممالک سے حاصل ہو سکتی ہے۔ بھارت نے بوفورس توپوں کے بعد پندرہ ہزار کروڑ روپے کی بے حد بھاری قیمت پر ہتھیار خریدے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے اسلحہ تیار کرنے والی کمپنیاں بھارت میں اسلحہ سازی کے پلانٹ لگائیں۔ چونکہ بھارت کو بیک وقت دو محاذوں پر حملے کا خطرہ ہے جیسا کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول (Ajit Doval) نے انتباہ کیا ہے کہ کسی بھی ذریعے سے ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش بدحواسی کی علامت ہے۔ خوش قسمتی سے روس اب بھی بھارت کا اسلحہ فراہم کرنے والا قابل بھروسہ دوست ملک ہے۔ لیکن اب اسے بھارت کے مغربی ممالک سے اسلحہ خریدنے پر کوئی اعتراض نہیں جیسا کہ ماضی میں اسے ہوتا تھا اور نئی دہلی کو اس کا اضافی فائدہ ملتا تھا۔

بلاشبہ اوباما جمہوری بھارت کو پسند کرتا ہے حالانکہ بھارت کئی معاملات میں خاصہ غیر منظم ہے لیکن امریکا کا اصل مقصد بھارت اور پاکستان کے درمیان فاصلے کو کم کرنا ہے۔ امریکا کو افغانستان میں طالبان کا پھیلاؤ پسند نہیں اور نہ ہی پاکستان میں ان کی سرگرمیاں پسند ہیں۔ اگرچہ طالبان کی تخلیق میں پاکستان کا اپنا ہاتھ بھی شامل ہے لیکن اس کو یہ توقع ہر گز نہیں تھی کہ طالبان خود اس پر ہی چڑھائی کر دیں گے۔ بیرونی طالبان کو بھی اندرونی طالبان کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔

جس کی وجہ سے دنیا کی نظروں میں پاکستان پر دہشت گردی کا گڑھ ہونے کا الزام عاید ہوتا ہے۔ واشنگٹن کیسے یہ خواہش کرتا ہے کہ جمہوری بھارت طالبان کے خلاف لڑائی میں اس کا ساتھ دے گا۔وہ اس علاقے میں اپنی فوجیں نہیں اتارنا چاہتا کیونکہ ویتنام کی جنگ میں امریکی افواج بری طرح پھنس گئی تھیں۔ جہاں تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا معمول پر آنے کا تعلق ہے تو یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بداعتمادی ختم نہیں ہوتی جو تقسیم کے 70 سال بعد بھی ختم نہیں ہو سکی۔ یہ بڑے افسوس کی بات تھی کہ کٹھمنڈو میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم ایک دوسرے سے کتراتے رہے۔

مجھے پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کی یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک حاصل کرنے کے بعد انھوں نے کہا تھا دونوں ملک اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے جس طرح امریکا اور کینیڈا ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا تھا مگر وہ تقسیم کے بعد ہر گز یہ نہیں چاہتے تھے کہ مذہب کو سیاست میں شامل کیا جائے اور غالباً یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد وہ آبادی کا تبادلہ ہر گز نہیں چاہتے تھے۔ لیکن ہم پاک بھارت دشمنی کا الزام صرف پاکستان پر کسی صورت عاید نہیں کر سکتے۔ کانگریس نے تقسیم کے فارمولے کو تسلیم کر لیا تھا حالانکہ مہاتما گاندھی نے خبردار کیا تھا کہ تقسیم صرف ان کی لاش پر سے گزر کر ہی ہو سکے گی۔

اپنی آزادی کی روح کو تازہ رکھتے ہوئے بھارت نے آئین کی حکمرانی قائم کی جس میں کسی کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں اور مذہبی نسلی یا لسانی اختلاف سے قطع نظر تمام شہری مساوی ہیں جن کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے لیکن اب اس میں ہندوتوا کی طرف جھکاؤ نمایاں ہو رہا ہے۔ یہ مودی کے نظریے کا ایک خطرناک ردعمل ہے جو کہ ماضی میں آر ایس ایس کے پرچارک (یا مبلغ) بھی رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ بھارت میں ہندو اور مسلمان قانون کے سامنے برابر ہیں مگر سول سروس میں بالخصوص پولیس میں اس روش نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ پولیس فورس ہندوؤں کو ہی بالاتر خیال کرتی ہے اور آخری بات انھی کی مانی جاتی ہے۔

چونکہ میں اپنے آپ کو مسلمانوں کی جگہ پر نہیں رکھ سکتا خواہ میں اس کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کروں لیکن میں نے یہ دیکھ لیا ہے کہ مودی کی شخصیت نے ہندوتوا کے فروغ کے حق میں کام کیا ہے۔ وہ جب آر ایس ایس کی قیادت سے ہدایات لیتے ہیں تو یہ مسلمانوں اور آزاد خیال لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے بڑے فخر کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ بھارت میں ہندو راج 800 سال کے بعد لوٹ آیا ہے۔ وہ ایسا کہتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں بیشک ہندوؤں کی اکثریت ہو مگر ملک پر آئین کی حکمرانی ہے۔

کاش کہ ہندوؤں کی نئی نسل اس کا احساس کرے اور ایک قدم آگے بڑھ کر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے رابطہ کرے، لیکن افسوس ایسا نہیں ہو رہا۔ بدقسمتی سے ہر بار جب اس موضوع پر بات ہوتی ہے تو پاکستان کو بھی خواہ مخواہ بحث میں گھسیٹ لیا جاتا ہے۔ تب بات مختلف ہو جاتی ہے۔ پاکستان نے مذہب کو ریاستی سطح پر اختیار کیاجب کہ بھارت نے مہاتما گاندھی' جواہر لعل نہرو' سردار پٹیل' مولانا ابو الکلام آزاد اور رفیع قدوائی جیسی شخصیات کی قیادت میںقومی جدوجہد میں شرکت کی۔ لہذا اسے اجتماعیت کے سوا اور کوئی سوچ قابل قبول نہیں۔ مسلم لیگ کا مطمع نظر الگ تھا۔ اس نے اسلام کے نام پر اپیل کی اور یوں مذہب کو سیاست سے ملا دیا۔ اسلام آباد کی اب بھی وہی سوچ ہے۔مودی کا طرز عمل مجھے تقسیم سے پہلے کا وہ زمانہ یاد دلا رہا ہے جب ہر مسلمان مسلم لیگ کا رکن تھا اور پاکستان کا حامی تھا۔ بی جے پی کا پراپیگنڈہ بھی ویسا ہی ہے جو قومی جدوجہد کے ساتھ غداری کے مترادف ہے جسے میں سیکولر ازم کا وعدہ کیا گیا تھا۔

آخر مودی اپنی تقریروں میں ان دنوں کو کیوں یاد نہیں کرتے جب پوری قوم یکجہتی کے ساتھ ایک جدوجہد میں شریک تھی اور اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود ان میں یکجہتی کے جذبات نمایاں تھے۔مودی کم از کم ہندو ازم میں کچھ اصلاحات تجویز کر سکتے ہیں، جس کے رسوم و رواج بہت فرسودہ ہیں اور بعض غیر انسانی روایات بھی اس میں موجود ہیں۔ ذات پات کے دھبے نے ہندو مذہب کے چہرے کو داغدار کر رکھا ہے۔ میں نے بی جے پی کے لیڈروں سے ذات پات کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی نہیں سنا۔ ابھی چند دن پہلے ہی ایک لڑکی نے ایک لڑکے کے ساتھ مندر میں شادی کر لی جو کہ مختلف ذات کا تھا اور اس لڑکی کو خود اس کے والدین نے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی آخر غیرت کے نام پر قتل کی اجازت کیوں دی جاتی ہے۔ یہ غیرت کے نام پر قتل نہیں بلکہ اسے مجرمانہ قتل کہا جانا چاہیے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں