شکست خوردگی کی علامت

آپ قاتل ہوں،آپ کے ہاتھ خون میں رنگے ہوں،آپ کو بھارت کےعوام وزیراعظم منتخب کر دیں،آپ دنیا کےباعزت ترین شہری بن جاتےہیں۔


Orya Maqbool Jan November 28, 2014
[email protected]

SEOUL: ایک تمسخر ہے، ہر کوئی ہنسی اڑا رہا ہے۔ تمسخر اڑانے والوں میں ہر رنگ، نسل، زبان، علاقے اور مذہب کے لوگ شامل ہیں۔ ہو سکتا ہے ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہی ہو جنہوں نے کاغذ کے جعلی اور جھوٹے نوٹوں میں آنکھ کھولی ہو، اپنے اردگرد کرنسی کی گرتی، چڑھتی، سنبھلتی قیمتوں کو دیکھا ہو، اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں معاشیات کا مشکل اور محنت سے سمجھ میں آنے والا مضمون پڑھا ہو، افراطِ زر، ارتکاز دولت، مارکیٹ فورسزز جیسے گنجلک موضوعات کو سمجھنے میں برسوں لگائے ہوں۔

ان سب لوگوں کے لیے یقینا یہ تمسخر، بلکہ ہنسی ٹھٹھے کی بات ہے کہ جب ایک ایسی ریاست، دولت اسلامیہ، جسے امریکا، یورپ، چین روس اور بلاشرکتِ غیرے تمام مسلمان ممالک ایک دہشت گرد تنظیم کا غاصبانہ قبضہ سمجھتے ہوں، وہ سونے اور چاندی کی کرنسی کا اعلان کر دے۔ دنیا میں عالمی برادری کی گزشتہ دو تین ہزار سال کی تاریخ میں کسی ایک گروہ کے خلاف آج تک ایسے اکٹھا نہیں ہوئی کہ کوئی ایک ملک بھی اس کی مخالفت نہ کرے۔ مسلمانوں کی فرقہ بندی یا گروہ بندی کے آغاز سے لے کر آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، اقامتِ دین کی علمبردار اخوان المسلمون، حزب التحریر اور جماعتِ اسلامی سب کے سب اس گروہ کے خلاف متحد ہو ں۔

آج سب اسے مسلمانوں کو رسوا کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ تمام لوگ جو صبح چند خبریں اور شام کو چند تبصرے سن کر اپنے علم کی کمند عالمی سیاست پر ڈالتے ہیں تو انھیں دولتِ اسلامیہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک بہت بڑی سازش محسوس ہوتی ہے۔ کیوں نہ ہو، ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پوری امت کی حکومتیں اس ایک نکتے پر متفق ہیں۔ کبھی ایران اور سعودی عرب بھی کسی فتنے کے خلاف بیک وقت اکٹھا ہوئے ہیں۔ لوگ یقینا حیرت میں گم ہیں کہ یہ ایسا کیا ہو گیا ہے کہ کل تک یہ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ریال اور تمن خرچ کر رہے تھے۔ اور اب یہ دونوں ملک اس ایک خطرے یعنی دولتِ اسلامیہ کے خلاف متحد ہی نہیں شیر و شکر ہو گئے ۔ روس، چین، امریکا، بھارت، اسرائیل سب کے سب اس گروہ کے خلاف ہیں۔

جہاں دنیا بھر کے میڈیا میں ان لوگوں کو ظالم، حیوان، مجرم، اغوا کار اور لٹیرے ثابت کیا جا ر ہا ہے وہیں ایک تمسخر ان اصطلاحات کا بھی اڑایا جاتا ہے جو یہ لوگ استعمال کرتے ہیں۔ خلافت، امیر المومنین یا خلیفہ المسلمین کے الفاظ پہلی جنگ عظیم کے بعد پوری مسلم امہ کی لغت سے خارج ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسلامی جماعتیں جو اسلامی ملکوں میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور ریاست مدینہ کی طرز کی حکومت کے نفاذ کے نعرے لگاتی ہیں ان کے اکابرین بھی خلافت، یاامیر المومنین جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے ایسے شرماتے ہیں کہ کہیں اس مہذب اور ماڈرن معاشرے میں اس طرح کے الفاظ استعمال کر کے خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تمام اسلامی تحریکیں جو اسلامی ممالک میں جدوجہد کر رہی ہیں، وہ سب کی سب جمہوریت، پارلیمنٹ، آئین، وزارت عظمیٰ اور صدارت جیسے الفاظ بول کر موجودہ جدید مغربی تہذیب کے ساتھ اپنا رشتہ مستحکم کر چکی ہیں۔ ان سب کے ہاں خلافت وغیرہ اب صرف ایک مثالیے کی حیثیت رکھتی ہے۔

جدید مغربی تہذیب کی تراکیب اور مغربی معاشرے سے اس قدر خوفزدہ ہیں یہ تمام قیادتیں کہ اگر ایران میں انقلاب بھی آ جائے تو صدر، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ جیسے الفاظ ہی گونجتے ہیں، مصر میں صدر مرسی کی صدارت، ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیلویلپمنٹ پارٹی، تیونس کی النہضہ، سب کی سب اقتدار حاصل کرنے کے باوجود بھی خلافت اور امارت جیسی تراکیب اور اصطلاحات استعمال کرنے سے شرماتی ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ انھیں اس بات کا ڈر ہے کہ ان کا تمسخر اڑایا جائے گا، انھیں دقیانوس، فرسودہ اور جمہوریت دشمن قرار دے کر مطعون کیا جائے گا۔ آپ فوجی طاقت سے برسر اقتدار آ کر صدام حسین کی طرح صدر کہلائیں، آبادیوں پر زہریلی گیس پھینکیں، آپ دہشت گرد نہیں ہیں، آپ بشار الاسد کی طرح صدر کہلائیں، چار لاکھ معصوم شہریوں کو قتل کر دیں آپ دہشت گرد نہیں۔

آپ قاتل ہوں، آپ کے ہاتھ خون میں رنگے ہوں، آپ کو بھارت کے عوام وزیر اعظم منتخب کر دیں، آپ دنیا کے باعزت ترین شہری بن جاتے ہیں۔ لیکن دہشت گردی اور قتل و وحشت صرف ایک لفظ کے ساتھ وابستہ کر دی گئی ہے اور وہ ہے خلافت۔ لیکن جس تصور کا ان دنوں سب سے زیادہ مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ دولتِ اسلامیہ کے سونے اور چاندی کے دینار و درھم جاری کرنے کا فیصلہ ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات ایسے کارٹونوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کہیں کبوتر کی چونچ میں لفافے دے کر دکھایا گیا ہے کہ یہ داعش کی میل سروس ہے اور کہیں گھوڑوں کو پر لگا کر جہاز بنایا گیا ہے۔ درھم و دینار کا تمسخر کیوں؟ اور سونے اور چاندی کے سکوں کی ہنسی کیوں اڑائی جا رہی ہے۔ اس لیے کہ موجودہ جدید مغربی تہذیب کی ترقی اور غلبے کا راز ایک جعلی اور جھوٹی کاغذ کی کرنسی میں پوشیدہ ہے۔

اس جعلی اور جھوٹی کرنسی کی بنیاد پر بینکاری کے سودی نظام کا محل تعمیر کیا گیا ہے۔ ایک زمانے تک اس مصنوعی سرمایے کے بدلے میں حکومتوں کے پاس سونے کے ذخائر ضروری تھے۔ لیکن1971ء سے اسے ملکوں کی ساکھ (Good will) کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ دنیا میں ایک بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ بنایا گیا جو کرنسی کی حیثیت متعین کرتا ہے اور ان کاغذ کے جعلی نوٹوںکو اس قابل بناتا ہے کہ دنیا کی مارکیٹ سے جو چاہیں خرید لیں۔ اگر آج عرب دنیا اپنا تیل پاکستانی روپے میں فروخت کرنا شروع کر دے تو ایک روپے کے سو امریکی ڈالر ملنا شروع ہو جائیں۔ ان کاغذ کے نوٹوں پر عدم بھروسے کا عالم یہ ہے کہ اس وقت چین دنیا بھر سے دھڑا دھڑ سونا خرید رہا ہے تا کہ کل اگر یہ نوٹ بے کار ہوں تو سونا تو موجود رہے۔ یہی حال بھارت کا ہے۔ ایسے میں دولت اسلامیہ جو روز انہ 80 لاکھ ڈالر کا تیل فروخت کر رہی ہے اگر اس نے تیل کی قیمت سونے اور چاندی کے درہم و دینار میں طلب کر لی تو یہ ساری سودی عمارت دھڑام سے گر جائے گی۔ ایسے میں سب کے سب اکٹھے ہیں، مشرق سے مغرب تک ہر کوئی، اس ''فتنے'' سے ڈرا رہا ہے۔

جب کہ مقابلہ کرنے والوں کا عالم یہ ہے کہ پیٹر گلبرتھ جیسے سفارتکار اور پینٹا گون، سی آئی اے کے افسران سمجھتے ہیں کہ ہم ان پر قابو نہیں پا سکیں گے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس لیے کہ عراق میں ان سے لڑنے کے لیے اربوں ڈالر لگا کر جو فوج منظم کی گئی تھی وہ دنیا بھر کی ان تمام افواج کی طرح بددیانت اور کرپشن کے الزامات لیے ہوئے ہے۔ نیویارک ٹائمز کے ڈیوڈ کرک پٹرک (David Kirkpatrick) نے ان تمام جرنیلوں کی کہانیاں لکھی ہیں جو اپنا اسلحہ داعش کے لوگوں کو بیچ دیتے ہیں۔

امریکا کا فراہم کردہ اسلحہ بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا ہے جسے داعش کے لوگ خرید لیتے ہیں۔ پہلے نوری المالکی کے کمانڈروں نے کمایا اور اب عبادی نے اپنے جرنیل لگائے ہیں جو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ فوج کو دیا جانے والا آدھے سے زیادہ امریکی اسلحہ سپاہیوں تک پہنچنے سے پہلے ہی مارکیٹ میں فروخت ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اب دولت اسلامیہ سے لڑنے کے لیے ایران، شام اور لبنان سے مختلف ملیشیا بلوائے گئے ہیں جو خالصتاً فرقہ وارانہ بنیادوں پر جنگ کر رہے ہیں۔ یہ جنگ کب تک چلتی ہے اور کہاں تک چلتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن یہ کہاں تک پھیل سکتی ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جن لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ داعش ایک عراقی اور شامی ابال ہے جو سنی علاقوں سے برآمد ہوا اور نوری المالکی کی بدترین حکومت اور ظلم کی وجہ سے یہ ریاست قائم ہوئی انھیں اس طرف بھی غور کر لینا چاہیے کہ اس وقت یورپ کے 24 ممالک ایسے ہیں جہاں سے لوگ ان کے ساتھ آ کر شامل ہوچکے ہیں، اور یہ سب انتہائی پڑھے لکھے لوگ ہیں اور ان میں اکثریت عربوں کی نہیں ہے۔

داعش آج سے سات سال پہلے جب وجود میں آئی تو اس نے اپنے ایک بریگیڈ کا نام غازی عبدالرشید بریگیڈ رکھا تھا اور اس کی تعارفی ویڈیو میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر کیے جانے والے آپریشن کے مناظر دکھائے گئے تھے۔ جس داعش کو یہ سب ممالک دہشت گرد قرار در ہے ہیں اس سے 80 ڈالر فی بیرل کا تیل سستے داموں 60 ڈالر فی بیرل خریدنے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر کی تیل کمپنیاں ان سے تیل خریدتی ہیں اور بریف کیسوں میں ڈالر پہنچاتی ہیں۔ ایک جانب دولت کمانے کی ہوس اور دوسری جانب کرپٹ اور بددیانت فوج، انجام صاف ہے اور نوشتۂ دیوار تو ہر کسی نے پڑھ لیا ہے۔ شکست خوردگی کی سب سے بڑی علامت تمسخر ہوتی ہے جو اڑایا جا رہا ہے۔

نوٹ:وہاڑی کے ایک صاحب اپنی مرحومہ بیٹی کے علاج کے سلسلے میں مقروض ہو گئے ہیں۔ وہ قرضِ حسنہ چاہتے ہیں جنھیں قسط وار واپس کر سکیں۔ فون نمبر تحریر کر رہا ہوں ، خود تسلی فرما لیں۔03357657291

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں