کراچی تیرا قرض ادا کردیا
میں نے کراچی میں رہنے کا قرض تو ادا کردیا اور اب ہم سب خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔
لاہور:
میں چار عشرے قبل نوجوانی میں اپنے ننھیال کے پاس میلسی سے کراچی آیا تھا جہاں نانا نے روک لیا۔ میری شادی ہوگئی، ملازمت مل گئی، بچے ہوگئے، جوان ہونے پر ان کی بھی شادی ہوگئی سب غریب ہونے کے باعث اورنگی فقیرکالونی میں رہتے رہے کہ گزشتہ ماہ میرے خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی اور سر شام میرے خاندان کے دو نوجوان ملازمت سے گھر آتے ہوئے گھر کے قریب ہی نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ ایک موقعے پر دوسرا اسپتال میں دم توڑ گیا اب ان کے آٹھ معصوم بچے پوچھتے ہیں دادا ہمارے ابو کب گھر آئیں گے۔
انھیں کیا جواب دوں یہ کہہ کر اے آر طارق پھوٹ کر رو پڑا۔ ہم اسے دلاسا دینے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ اسے پانی پلایا تو اس کے کچھ حواس بحال ہوئے اور بولا کہ ہم نے کراچی میں رہنے کا قرض ادا کردیا۔ اب دن میں بھی کراچی کی سڑکوں پر چلتے ہوئے خوف آتا ہے پانچ بیٹوں کو واپس گاؤں بھیج دیا ہے۔ اب خود بھی جانا چاہتا ہوں۔ بمشکل جو گھر بنایا تھا اب اس کے مناسب دام بھی نہیں مل رہے۔ ایک بار باقی بچوں کو لے کر گاؤں جانے کے لیے اسٹیشن بھی پہنچ گیا تھا مگر نہیں گیا اور گھر واپس آگیا۔ کیونکہ تقریباً چالیس سال کراچی میں رہا ہوں۔
میں نے کراچی میں رہنے کا قرض تو ادا کردیا اور اب ہم سب خوف کی زندگی گزار رہے ہیں مگر اب یہاں مزید نہیں رہ سکیں گے۔ اب یہ شہر رہنے کے قابل نہیں رہنے دیا گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے بھائی اور بیٹے کو کیوں اور کس نے مارا۔ پولیس رپورٹ میں بھی قاتلوں کو نامعلوم لکھوایا ہے اگر وہ پکڑے بھی گئے تو ہم وکیل کرسکیں گے نہ انھیں پہچان سکیں گے اور اگر پہچان بھی لیتے تو شناخت سے انکار کردیتے کیونکہ باقی بچ جانے والوں کو ابھی یہاں رہنا ہے۔
ہماری کسی سے دشمنی نہیں مرنے والے نجی ادارے کے ملازم تھے جنھوں نے خاکی پتلون پہن رکھی تھی۔ شاید انھیں پولیس اہلکار سمجھ کر مارا گیا ہو۔ ہمیں تو کسی پر شک نہیں اور غریبوں کی کسی سے دشمنی نہیں ہوتی اور وہ تو کراچی میں دو وقت کی روٹی کی فکر میں مبتلا ہوتے ہیں اور ملک کے دور دراز علاقوں سے حصول رزق کے لیے ہی کراچی آتے ہیں کیونکہ کراچی کا دامن بہت وسیع ہے جہاں پناہ بھی مل جاتی ہے اور روزگار بھی مگر کچھ عرصے سے کراچی وہ شہر نہیں رہا جو پہلے تھا اب یہ غریب پرور شہر نامعلوم قاتلوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور اب لوگ یہاں بہت کم یا مجبوری ہی میں آتے ہیں اور یہاں سے جانے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے کیونکہ جب صنعتیں منتقل ہوں گی اور بیروزگاری ہوگی تو یہاں رہ کر کیا کریں گے۔
اے آر طارق کا نوجوان بیٹا اور بھائی کراچی میں پیدا ہوئے اور کراچی میں مصروف شاہراہ پر اس طرح نشانہ بنائے گئے کہ بیٹا موقعے پر دم توڑ گیا اور بھائی زخمی ہوکر تڑپتا رہا اور کسی نے بھی اسپتال نہیں پہنچایا۔ کچھ دیر بعد اس کا اپنا بھائی اتفاقاً وہاں سے گزرا تو اپنے بھائی کو خون میں لت پت پایا اور اسپتال پہنچایا گیا مگر جانبر نہ ہوسکا اور دونوں کراچی کی مٹی کا حصہ بن گئے۔
کراچی میں ایک سال سے زائد عرصے سے ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے اور بے گناہوں کے قتل کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے اور اب تو ٹارگٹڈ کلنگ ہی نہیں بلکہ معمولی معمولی باتوں پر فائرنگ کرکے لوگوں کو مارنے کی متعدد وارداتیں ہوچکی ہیں۔ گزشتہ دنوں سفاری پارک کے پل پر ایک نوجوان کو اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ اپنی ضعیف والدہ کے ساتھ کار میں رات 11 بجے اپنے والد کو لینے جا رہا تھا تو پیچھے سے آنے والی کار نے انھیں ہٹ کیا اور ایک نوجوان نے آکر کہا کہ اندھا ہے۔ وجہ پوچھنے اور خاتون کی معذرت کے باوجود فائرنگ کرکے نوجوان کو قتل کر کے نامعلوم قاتل فرار ہوگیا۔ ایسے متعدد واقعات ہوچکے ہیں جنھیں پولیس تو نہیں روک سکتی کیونکہ یہ سنگین ہوجانے والی انتہا پسندی ہے جس میں اب معمولی غلطی بھی برداشت کی جاتی ہے نہ معذرت اور فوراً اسلحہ نکال کر دوسرے کی جان لے لی جاتی ہے۔
شہر کے ایک میڈیکل اسٹور سے علاقے کے ایک نوجوان نے ایک دوا خریدی گھر جاکر اس کا لیبل پھاڑا دوا استعمال کی اور واپس آکر دوا واپس لینے کا کہا جس کی قیمت دو سو روپے اور دوا ناقابل فروخت ہوگئی تھی مگر دکاندار نے اپنا نقصان کرلیا بات نہیں بڑھائی کیونکہ مذکورہ نوجوان سیاسی کارکن تھا۔
کراچی میں سالوں سے جاری دہشت گردی، بے گناہوں کا قتل، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارانہ و سیاسی قتل و غارت گری کے بعد بھتہ خوری نے فروغ پایا۔ اسلحہ اور غیر قانونی اسلحے کی فراوانی ہوئی۔ اسٹریٹ کرائم عام ہوگئے اور اب معمولی باتوں پر نوجوان مشتعل ہوکر دوسرے کی جان لینے سے دریغ نہیں کرتے۔ ذرا ذرا سی بات پر ہتھیار نکال لیے جاتے ہیں۔ نئی نسل میں منشیات کا استعمال بڑھ کر تشویشناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ نشے میں دھت نوجوان تیز ڈرائیونگ سے راہ گیروں کو مار رہے ہیں اور حادثات بڑھ رہے ہیں۔ نشے میں دھت پولیس افسران و اہلکار شہریوں کو پریشان کرنے کے علاوہ فائرنگ کرکے ان کی جانوں سے کھیلنے میں دیر نہیں کرتے۔ کراچی پولیس شہریوں کی حفاظت کے لیے ہے مگر اب تو انھیں اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
رینجرز پر بھی آئے دن فائرنگ ہوتی رہتی ہے۔ ایک طرف بے روزگار نوجوان بلکہ تعلیم یافتہ نوجوان بھی جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں۔ گھریلو حالات، مہنگائی، بدامنی اور شہر کے حالات نے نوجوانوں ہی نہیں بڑوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے اور قوت برداشت ختم ہو رہی ہے کسی کی معمولی غلطی برداشت نہیں کی جاتی۔ ہر دم مرنے مارنے اور لڑنے پر تیار اس ماحول میں شہریوں کی بہت بڑی تعداد نفسیاتی ہوچکی ہے۔
سیاسی اور مذہبی جماعتیں نوجوانوں میں بڑھتے منفی خیالات سے لاتعلق ہیں کوئی ان کی اصلاح کی کوشش نہیں کر رہا حالانکہ یہ ان کا فرض اور شہر کا قرض ہے جس کی ادائیگی شہر قائد میں رہنے والوں پر ہر حال میں عائد ہوتی ہے۔ سندھ حکومت تو کراچی کے معاملات و وسائل سے مکمل لاتعلق ہے اس لیے شہریوں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا اور کراچی کا واجب قرض خود ہی ادا کرنا ہوگا۔