30 نومبر اور علامہ اقبال

افسوس کا مقام ہے مفکر پاکستان کی قبر پر گارڈ تعینات ہیں تبدیل بھی ہوتے ہیں، حکومتی سطح پر پذیرائی بھی ہوتی ہے۔


Anis Baqar November 29, 2014
[email protected]

14 اگست کو جو قافلے لاہور سے اسلام آباد پہنچے، حکومت کی جانب سے ان پر شدید حملے کیے گئے جن میں جانیں بھی گئیں اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ بعدازاں یہ قافلے دھرنوں میں تبدیل ہو گئے۔ محرم کی آمد سے قبل علامہ طاہرالقادری نے دھرنا ختم کر کے جلسوں پر اکتفا کیا جب کہ عمران خان کا دھرنا ہنوز جاری ہے۔

دھرنے کے ابتدائی ایام میں جو واقعات رونما ہوئے اور خاص طور پر پی ٹی وی کے حملے پر دونوں لیڈروں یعنی عمران خان اور علامہ طاہر القادری کا رویہ معذرت خواہانہ تھا، وہ حکومت کو وضاحتیں کرتے نظر آئے جب کہ اتنی بڑی تحریک میں ہر فرد کی لگام لیڈروں کے ہاتھ میں ممکن نہیں جب کہ آنسو گیس، لاٹھی چارج کا اشتعال انگیز ماحول موجود ہو۔ اس سے حکومتی دباؤ کی تصدیق ہوتی ہے، مگر رفتہ رفتہ یہ دباؤ جاتا رہا جو شیخ رشید کی پرجوش تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے، یہ وہی کیفیت ہے جو علامہ اقبال پر قیام پاکستان سے قبل طاری ہوئی:

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

افسوس کا مقام ہے مفکر پاکستان کی قبر پر گارڈ تعینات ہیں تبدیل بھی ہوتے ہیں، حکومتی سطح پر پذیرائی بھی ہوتی ہے، ان کو باقاعدہ طور پر پاکستان کے قیام کا علمبردار بھی کہا جاتا ہے، مگر پاکستان میں ان کے افکار پر کب عمل ہوتا ہے۔ ماسوائے شاہین کو ایک استعارہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اور ہماری ہوائی فوج کو اس استعارہ سے مزین کیا گیا ہے۔ مگر اقتصادی یا حکمرانی کے انداز میں ان کے افکار کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ علامہ اقبال نے سرمایہ دارانہ نظام کو کس انداز میں رد کیا ہے:

اے کے تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ جو
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

اگر آج کل کے صلح جو دانشوروں کو دیکھو تو علامہ کے اس شعر کو وہ کیا کہتے ہیں کیا علامہ گھیراؤ اور جلاؤ کی ترغیب دے رہے ہیں:

گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو

علما کے خواب کو قائداعظم نے شکل دی مگر آنے والوں نے اس فلاحی انسان دوست ریاست کو عوام دشمن شکل دی۔ معاشی مساوات اور معاشی اصلاحات تو دور کی بات وہ اپنی ذات کے فروغ میں لگ گئے۔ نصف پاکستان توڑ ڈالا، باقی ماندہ پاکستان میں پسماندگی ہے۔

لسانی، مذہبی، نسلی تصادم جنم لے چکا ہے، یہی یہاں کے لیڈروں کا سرمایہ ہے، ہاتھوں میں کروڑوں روپے کی گھڑی، بیگمات کے لیے اربوں روپے کے ہار، اور جس کے ملک میں گرم ہے جرائم کا بازار۔ یہ ناقص اقبال دشمن معاشی پالیسی، خودکشی، نفرت، بے روزگاری، انسان دشمن، بجلی کے بل، اسی وجہ سے تمام بد نظمی اور بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے حالات۔ ان کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کے اخراجات۔ ہر آنے والی حکومت نے جانے والی حکومت کے مقابلے میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

حزب اقتدار اور حزب مخالف کے مابین نورا کشتی کے نظارے۔ شراکت زر اور لوٹ کھسوٹ کی شراکت داری۔ مارشل لا اور فوجی حکومت کا عوام پر خوف طاری کر کے لوٹ کھسوٹ کو پروان چڑھانے والوں کی پردہ پوشی، ان سب وجوہات کی بنا پر دھرنوں کی سیاست کامیاب رہی اور ہر دھرنے کے بعد پیغامات لوگوں کو ابھارنے میں اور ان میں سوز یقین پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اور ہر روز ان کی سیاست داغ دار اجالے پر روشنی ڈال رہی ہے، پاکستان میں تبدیلی تو آنی ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کوئی باعزت قانون دان چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر فائز ہونے کے لیے تیار نہیں ہے، کیونکہ اس کے اختیارات کا دائرہ ہی بہت چھوٹا ہے۔ دنیا کی بڑی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان میں کرپٹ حکومتیں برسر اقتدار رہیں کیونکہ اس سے ان حکومتوں کو فائدہ ہے گو کہ پاکستان کے عوام کو خسارہ ہے۔ اب دنیا کے اکثر ممالک کے سرمایہ داروں نے کک بیک (Kick Back) دینا شروع کر دی ہے۔

اس وجہ سے حکمرانوں کو کئی سمتوں سے فائدے حاصل ہو رہے ہیں۔ اس طرح وہ اس اضافی کمیشن سے دوسرے ممالک میں اپنا سرمایہ لگاتے ہیں۔ یا تو یہ پراپرٹی کی شکل میں ہوتا ہے یا انڈسٹری کی شکل میں۔ پاکستان میں یہ روایت اتنی بڑھ چکی ہے کہ پاکستان کا شمار نہ صرف دہشت گردی میں سرفہرست ہے بلکہ کرپشن کی دنیا میں بھی اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ باتیں البتہ بڑی بھولی بھالی بڑی سیدھی سادی ہیں جس کو علامہ اقبال نے مکر کی چالوں کا نام دیا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں میں استعفے کا کلچر موجود نہیں کیونکہ وزارتیں، بے پناہ روپیہ جمع کرنے اور وسائل کا ناجائز استعمال کا ذریعہ ہیں۔ ان لیڈروں میں جعل سازی اور نوسر بازی پر عبور حاصل ہے یہ لیڈران ملک کے مفکر اور بانی کے سخت مخالف ہیں جعلی ڈگریاں ان کا طرہ امتیاز ہیں۔ بقول ڈاکٹر عطا الرحمن کے ایچ ای سی (HEC) کو کمزور کرنا، دراصل ان کو جعلی ڈگریوں کے حصول میں پریشانی ہوتی تھی۔

لہٰذا جس ملک میں جعلی ڈگری رکھنے پہ کوئی سزا ہی نہیں تو اس ملک میں پڑھے لکھے اور جاہل میں کوئی فرق ہی نہیں۔ پھر یہاں کس طرح شرح خواندگی میں اضافہ ممکن ہے۔ پاکستان بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے، نہ صرف یہ کہ سرحدیں غیر محفوظ ہیں بلکہ گلی کوچے بھی نوسربازوں اور جعلی ادویات، جعلی ڈگری، جعلی ڈاکٹری کی زد پر ہیں۔ ان تمام محاذوں پر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کو لڑنا ہے۔ یہ کوئی آسان محاذ نہیں ہے، البتہ ایوب خان کے خلاف تحریک اس لیے کامیاب ہو گئی کیونکہ اس وقت اسٹوڈنٹس یونین موجود تھی، انتخابات ہوتے تھے، تعلیمی اداروں میں جمہوری اقدار موجود تھیں، مگر اب آزاد فکر کی جمہوری طلبا تحریکیں موجود نہیں، کیونکہ اب طلبا کے گروہ موجود ہیں مگر وہ براہ راست طلبا کی نمایندگی کے بجائے سیاسی پارٹیوں کی طفیلی جماعتیں ہیں۔

اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار میں لانی والی طلبا جماعت این ایس ایف بنگلہ دیش کے مسئلے پر ان کی مخالف ہو چکی تھی اور لیاقت آباد سپر مارکیٹ کے علاقے میں ان کے جلسے کو بدنظمی کا شکار کر دیا تھا، طلبا لیڈروں کا احتساب کرتے تھے مگر اب طلبا سیاسی پارٹیوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، ان لیڈروں کو یہ احساس نہیں کہ ہر سیمسٹر پر کتنے روپے خرچ ہوں گے اور عام غریب طالب علم کہاں سے خرچ اٹھائیں گے۔ اس لیے مردوں میں اعلیٰ تعلیم کا رجحان گھٹتا جا رہا ہے کیونکہ کفالت گھر کی مقدم ہوتی ہے۔ لہٰذا عمران خان کو بھی اس مشکل گھڑی میں ان کی تنظیم ہی حمایت کرے گی جب کہ 1970ء اور چند سال بعد تک آل پارٹیز اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ہوتی تھی جس کو یکجا کرنے کا سہرا نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سر تھا۔ اب چونکہ فی الحال ایسی طلبا تنظیم موجود نہیں جو ملک کے ہر شہر میں طلبا کا جلوس نکالیں اور حکومت کو چیلنج کریں۔

پرویز رشید صاحب جو آج کل حکومت میں مرکزی وزیر ہیں وہ بھی ایک زمانے میں این ایس ایف میں تھے۔ مانا کہ بڑے مرکزی عہدے دار نہ تھے مگر داؤ پیچ سے تو تھوڑا بہت واقف ہیں۔ وہ حکومت کی جانب سے فرنٹ لائن پر ہیں۔ جب کہ علامہ طاہر القادری اور عمران خان پورے حکمران طبقات کے مدمقابل کھڑے ہیں، اب دیکھنا ہے کہ 30 نومبر کا تصادم کس قدر شدید ہو گا۔ ان تمام چیزوں کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ملکی قیادت اور عمران خان کی قیادت میں کون زیرک ہے ہوشیاری اور موقع شناسی کس میں زیادہ ہے۔ تحریکوں کا موازنہ کس کے پاس بہتر ہے۔

بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ علامہ طاہرالقادری کی موجودگی ایک مثبت قوت ہے علمی اور عملی اعتبار سے۔ گو کہ لگتا ہے کہ وہ اس معرکے میں شانہ بہ شانہ موجود نہ ہوں گے جیسا کہ ماضی میں موجود تھے اور پولیس کا حملہ ان کے جانبازوں نے پسپا کر دیا تھا اور آنسو گیس کے حملے کو اور بندوق کے حملے کو غلیل کے حملوں نے پسپا کر دیا تھا اب کلر واٹر کینن، آنسو گیس، لاٹھی کا حملہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کیسے روکیں گے۔

ممکن ہے کہ شیخ رشید کے چند جانباز نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) کے انداز میں کوئی معرکہ سر کر لیں یا عمران خان اسلام آباد کا گھیراؤ اس طرح کر پائیں جیسا کہ ماؤزے تنگ نے چیانگ کائی شیک کا چائنا میں کیا تھا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ مفلوج ہو جائے مگر وقت سے پہلے کیا کہا جا سکتا ہے، یہ تو نظریات اور مقاصد کا تصادم ہے، مگر بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریات پر پاکستان کے موجودہ لیڈر عمل کرنے پر تیار نہیں۔ علامہ اقبال کی یہ خواہش:

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
یہی ان کا نظریہ پاکستان تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں