لاڑکانہ کے بعد
بھٹو کی مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ وہ روایتی سیاست سے ہٹ کر عوامی سیاست کی طرف آئے تھے۔
KARACHI:
لاڑکانہ کے جلسے کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے دو رہنماؤں کے دو متضاد بیانات آئے ہیں سندھ کے ایک وزیر نے اسے ''کارنر میٹنگ'' کہا ہے ' اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ لاڑکانہ کا جلسہ بلاشبہ ''بہت بڑا تھا۔ پہلی بات یہ کہ ہماری سیاسی جماعتیں حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے حقائق سے گریز کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی عوام میں انتہا کو پہنچی ہوئی اپنی غیر مقبولیت کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کرنے کے بجائے عمران پر تنقید اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے کو ہی سیاست سمجھ رہی ہیں۔
یہ درست ہے کہ فریق مخالف کی طاقت کو کم کرنے کے لیے الزامات کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن یہ حربہ اس وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب عوام آپ کی بات سننے اور اس پر اعتبار کرنے کے لیے تیار ہوں جب ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک عوام اس سیٹ اپ سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں تو ایسی فضا میں غلط پروپیگنڈے کا اثر یقینا منفی ہی ہو گا۔ بھٹو کی مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ وہ روایتی سیاست سے ہٹ کر عوامی سیاست کی طرف آئے تھے ملک کے عوام کی معاشی حالت اس قدر دگرگوں تھی کہ وہ روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضرورت کی چیزوں سے محروم تھے پھر 1947ء سے نوکر شاہی نے اقتدار پر قبضہ کر کے عوام کو حکومت سے مکھن کے بال کی طرح باہر نکال پھینکا تھا۔
ان دو حقیقتوں کو سمجھنے والے دانشوروں نے بھٹو کے منہ میں روٹی، کپڑا اور مکان، مزدور کسان راج کا نعرہ ڈالا تھا۔ اگر بھٹو صاحب خلوص نیت سے ان نعروں کو عملی شکل دینے کی کوشش کرتے تو نہ وہ عوام سے کٹ سکتے تھے نہ 1977ء کا المیہ پیش آ سکتا تھا۔ اس حقیقت سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ عوام نعروں کے ساتھ ان پر عمل درآمد دیکھ کر ہی اپنی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے ان ہی نعروں کے ساتھ اپنی سیاست شروع کی جس کا مطلب یہ تھا کہ ان نعروں پر عملدرآمد نہیں ہوا تھا بے نظیر دہشت گردی کا شکار نہ ہوتیں اور اقتدار میں آتیں تو بھی یہ ممکن نہ تھا کہ صرف نعروں پر گزارا کیا جا سکتا کیونکہ اس طویل عرصے کے تجربات نے عوام کو یہ شعور بخشا ہے کہ صرف اس سیاسی پارٹی اور سیاستدان پر اعتبار کرو جو قول کے ساتھ عمل پر کاربند رہتا ہے۔
اسے ہم بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ آج کی پی پی پی بھی وہی نعرے لگا رہی ہے جو بھٹو صاحب لگا رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ وعدے جو بھٹو صاحب نے عوام سے 45 برس پہلے کیے تھے اب تک پورے نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام میں ان نعروں کی کوئی اہمیت نہ رہی اور آج پیپلز پارٹی عوام سے دور کھڑی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے اگر پی پی پی کے رہنما بڑے جلسوں کو کارنر میٹنگ کا نام دیں تو اس سے حقیقت چھپ نہیں سکتی کیونکہ عوام چینلوں پر عمران خان کے جلسوں میں عوام کا سیلاب دیکھ رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی قیادت یقینا حقائق کا ادراک رکھتی ہو گی۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ عوام مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے اس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے سخت مخالف ہو گئے ہیں اور اس مخالفت کا اظہار وہ 'گو نواز گو' کے نعروں سے کر رہے ہیں۔ ایسی حکومت سے جس کے 90 فیصد عوام مخالف ہوں سمدھیانہ تعلقات استوار کرنے سے پی پی کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے پارٹی کی قیادت کے مفادات کا تقاضا یہ ہو کہ وہ حکومت سے جڑی رہے لیکن پارٹی کے مفادات پارٹی کی قیادت کے مفادات سے ہرگز ہم آہنگ نہیں ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی اندرون سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اگر ایسا بھی ہوتا تو پارٹی کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی اپنا اثر کھو بیٹھی ہے لاڑکانہ کے کامیاب جلسے کے بعد اب یہ دعویٰ کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی دیہی سندھ کی پارٹی ہے سندھ دیہی میں پیپلز پارٹی کی غیر مقبولیت کی وجہ اس کی بیڈ گورننس ہے۔ دیہی عوام مسائل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔
اس ناقص کارکردگی کے علاوہ تھر کی اموات تھری عوام کی بے حسی نے سندھ کے دیہی علاقوں کے عوام کو حکومت سے بدظن کر دیا ہے، لاڑکانہ کا جلسہ اس حوالے سے بھی پی پی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ لاڑکانہ کو پیپلز پارٹی کا گڑھ کہا جاتا ہے اور یہ گڑھ تحریک انصاف کے جلسے سے سونامی ہو رہا تھا۔ اس جلسے کی کامیابی کا ایک اور اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین شریک تھیں، سندھی روایت کے مطابق سیاسی جلسوں میں سندھی خواتین بہت کم شرکت کرتی ہیں۔روٹی، کپڑا اور مکان، مزدور کسان راج کے نعروں کے علاوہ پیپلز پارٹی کی ایک انفرادیت یہ تھی اور اب بھی کسی حد تک ہے کہ اس پارٹی کے کارکن نہ صرف روشن خیال تھے بلکہ ملک کے سیاسی حالات اور قومی مسائل کا ادراک رکھتے تھے۔
اگر پارٹی کی قیادت پارٹی کے منشور سے مخلص ہوتی تو پارٹی کے کارکن اس کے لیے ایک بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کارکن سخت ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔ 1970ء میں پیپلز پارٹی کے ترقی پسند پروگرام کی وجہ سے دوسری پارٹیوں کے کارکن اپنی پارٹیاں چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے خاص طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کارکن ہی نہیں معروف رہنما بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ اس کی ایک وجہ اپنی پارٹیوں کی مایوس کن کارکردگی اور دوسری وجہ پیپلز پارٹی کے ترغیب انگیز نعرے تھے۔
آج صورت حال 1970ء جیسی ہی ہے پیپلز پارٹی کی 2013ء کے انتخابات میں بری طرح ناکامی اور کرپشن کے الزامات سے کارکن مایوسی کا شکار ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف ''نئے پاکستان'' اور پاکستان عوامی تحریک انقلاب اور اسٹیٹس کو کو توڑنے کے نعرے لگا رہے ہیں۔ کیا پی پی کے کارکن ان نعروں اور عوام کی غیر معمولی حمایت سے متاثر نہیں ہوں گے؟ اور 1970ء کی طرح ان کا رخ زیادہ پرکشش پروگرام کی طرف نہیں ہوگا؟ لاڑکانہ کے بعد نواب شاہ وغیرہ سونامی کی زد میں آئیں گے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر؟
لاڑکانہ کے جلسے کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے دو رہنماؤں کے دو متضاد بیانات آئے ہیں سندھ کے ایک وزیر نے اسے ''کارنر میٹنگ'' کہا ہے ' اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ لاڑکانہ کا جلسہ بلاشبہ ''بہت بڑا تھا۔ پہلی بات یہ کہ ہماری سیاسی جماعتیں حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے حقائق سے گریز کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی عوام میں انتہا کو پہنچی ہوئی اپنی غیر مقبولیت کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کرنے کے بجائے عمران پر تنقید اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے کو ہی سیاست سمجھ رہی ہیں۔
یہ درست ہے کہ فریق مخالف کی طاقت کو کم کرنے کے لیے الزامات کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن یہ حربہ اس وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب عوام آپ کی بات سننے اور اس پر اعتبار کرنے کے لیے تیار ہوں جب ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک عوام اس سیٹ اپ سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں تو ایسی فضا میں غلط پروپیگنڈے کا اثر یقینا منفی ہی ہو گا۔ بھٹو کی مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ وہ روایتی سیاست سے ہٹ کر عوامی سیاست کی طرف آئے تھے ملک کے عوام کی معاشی حالت اس قدر دگرگوں تھی کہ وہ روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضرورت کی چیزوں سے محروم تھے پھر 1947ء سے نوکر شاہی نے اقتدار پر قبضہ کر کے عوام کو حکومت سے مکھن کے بال کی طرح باہر نکال پھینکا تھا۔
ان دو حقیقتوں کو سمجھنے والے دانشوروں نے بھٹو کے منہ میں روٹی، کپڑا اور مکان، مزدور کسان راج کا نعرہ ڈالا تھا۔ اگر بھٹو صاحب خلوص نیت سے ان نعروں کو عملی شکل دینے کی کوشش کرتے تو نہ وہ عوام سے کٹ سکتے تھے نہ 1977ء کا المیہ پیش آ سکتا تھا۔ اس حقیقت سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ عوام نعروں کے ساتھ ان پر عمل درآمد دیکھ کر ہی اپنی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے ان ہی نعروں کے ساتھ اپنی سیاست شروع کی جس کا مطلب یہ تھا کہ ان نعروں پر عملدرآمد نہیں ہوا تھا بے نظیر دہشت گردی کا شکار نہ ہوتیں اور اقتدار میں آتیں تو بھی یہ ممکن نہ تھا کہ صرف نعروں پر گزارا کیا جا سکتا کیونکہ اس طویل عرصے کے تجربات نے عوام کو یہ شعور بخشا ہے کہ صرف اس سیاسی پارٹی اور سیاستدان پر اعتبار کرو جو قول کے ساتھ عمل پر کاربند رہتا ہے۔
اسے ہم بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ آج کی پی پی پی بھی وہی نعرے لگا رہی ہے جو بھٹو صاحب لگا رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ وعدے جو بھٹو صاحب نے عوام سے 45 برس پہلے کیے تھے اب تک پورے نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام میں ان نعروں کی کوئی اہمیت نہ رہی اور آج پیپلز پارٹی عوام سے دور کھڑی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے اگر پی پی پی کے رہنما بڑے جلسوں کو کارنر میٹنگ کا نام دیں تو اس سے حقیقت چھپ نہیں سکتی کیونکہ عوام چینلوں پر عمران خان کے جلسوں میں عوام کا سیلاب دیکھ رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی قیادت یقینا حقائق کا ادراک رکھتی ہو گی۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ عوام مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے اس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے سخت مخالف ہو گئے ہیں اور اس مخالفت کا اظہار وہ 'گو نواز گو' کے نعروں سے کر رہے ہیں۔ ایسی حکومت سے جس کے 90 فیصد عوام مخالف ہوں سمدھیانہ تعلقات استوار کرنے سے پی پی کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے پارٹی کی قیادت کے مفادات کا تقاضا یہ ہو کہ وہ حکومت سے جڑی رہے لیکن پارٹی کے مفادات پارٹی کی قیادت کے مفادات سے ہرگز ہم آہنگ نہیں ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی اندرون سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اگر ایسا بھی ہوتا تو پارٹی کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی اپنا اثر کھو بیٹھی ہے لاڑکانہ کے کامیاب جلسے کے بعد اب یہ دعویٰ کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی دیہی سندھ کی پارٹی ہے سندھ دیہی میں پیپلز پارٹی کی غیر مقبولیت کی وجہ اس کی بیڈ گورننس ہے۔ دیہی عوام مسائل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔
اس ناقص کارکردگی کے علاوہ تھر کی اموات تھری عوام کی بے حسی نے سندھ کے دیہی علاقوں کے عوام کو حکومت سے بدظن کر دیا ہے، لاڑکانہ کا جلسہ اس حوالے سے بھی پی پی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ لاڑکانہ کو پیپلز پارٹی کا گڑھ کہا جاتا ہے اور یہ گڑھ تحریک انصاف کے جلسے سے سونامی ہو رہا تھا۔ اس جلسے کی کامیابی کا ایک اور اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین شریک تھیں، سندھی روایت کے مطابق سیاسی جلسوں میں سندھی خواتین بہت کم شرکت کرتی ہیں۔روٹی، کپڑا اور مکان، مزدور کسان راج کے نعروں کے علاوہ پیپلز پارٹی کی ایک انفرادیت یہ تھی اور اب بھی کسی حد تک ہے کہ اس پارٹی کے کارکن نہ صرف روشن خیال تھے بلکہ ملک کے سیاسی حالات اور قومی مسائل کا ادراک رکھتے تھے۔
اگر پارٹی کی قیادت پارٹی کے منشور سے مخلص ہوتی تو پارٹی کے کارکن اس کے لیے ایک بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کارکن سخت ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔ 1970ء میں پیپلز پارٹی کے ترقی پسند پروگرام کی وجہ سے دوسری پارٹیوں کے کارکن اپنی پارٹیاں چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے خاص طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کارکن ہی نہیں معروف رہنما بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ اس کی ایک وجہ اپنی پارٹیوں کی مایوس کن کارکردگی اور دوسری وجہ پیپلز پارٹی کے ترغیب انگیز نعرے تھے۔
آج صورت حال 1970ء جیسی ہی ہے پیپلز پارٹی کی 2013ء کے انتخابات میں بری طرح ناکامی اور کرپشن کے الزامات سے کارکن مایوسی کا شکار ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف ''نئے پاکستان'' اور پاکستان عوامی تحریک انقلاب اور اسٹیٹس کو کو توڑنے کے نعرے لگا رہے ہیں۔ کیا پی پی کے کارکن ان نعروں اور عوام کی غیر معمولی حمایت سے متاثر نہیں ہوں گے؟ اور 1970ء کی طرح ان کا رخ زیادہ پرکشش پروگرام کی طرف نہیں ہوگا؟ لاڑکانہ کے بعد نواب شاہ وغیرہ سونامی کی زد میں آئیں گے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر؟