وہ وردی تھی یا شیروانی تھی

غور سے دیکھا جائے تو جنرل مشرف نے جو شیروانی پہنی یا اس تک پہنچے تھے وہ بھی وردی کی وجہ سے۔


جاوید قاضی November 29, 2014
[email protected]

ISLAMABAD: خیر سے مشرف صاحب اب یگانہ و یکتا نہیں اس کار جہاں دراز میں۔ ان کے ساتھ دو چار اور بھی ہوں گے، ہم بھی کہتے تھے کہ وہ اکیلے نہیں تھے منطقی و فطری اعتبار سے وہ ہوسکتے بھی نہیں تھے۔ لیکن جو بات اس جج نے کی جوکہ اقلیتی فیصلہ کہلائے گا کہ جو جنرل مشرف نے کیا وہ وردی میں کیا یا ان کے کہنے کا مطلب تھا انھوں نے اس وقت شیروانی نہیں پہنی ہوئی تھی یا یوں کہیے کہ انھوں نے بحیثیت صدر پاکستان یہ اقدام نہیں کیا۔ مشرف صاحب کے ٹرائل کی ساکھ تو بڑھی مگر بات کچھ بڑھ گئی۔

ہم جب دنیا میں مختلف عدالتی فیصلوں کا جائزہ لیں گے تو ہمیں یہ معلوم ہوگا جو اقلیتی جج کا فیصلہ تھا تاریخ بتاتی ہے اکثر صحیح ثابت ہوتا ہے لیکن یہ ضروری بھی نہیں، ہاں مگر جسٹس دراب پٹیل کی اقلیتی ججمنٹ بھٹو کیس میں اپنے انداز کی بہت بڑی جانکاری دیتی ہے۔ حیرت تو ہوگی کہ جنرل مشرف صاحب کی معاونت صرف سول پوش لباس میں ملبوس شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر، زاہد خان نے کی مگر کوئی اور وردی والا اس معاونت میں تھا ہی نہیں۔

یہ کیسے ممکن ہے اور یوں بھی انھوں نے معاونت کی بھی کہ نہیں کی یہ تو شواہدات سے معلوم ہوگا تو کیا برا تھا دو چار وردی والے بھی ڈال دیے جاتے مگر یہ ہونہ سکا۔ غور سے دیکھا جائے تو جنرل مشرف نے جو شیروانی پہنی یا اس تک پہنچے تھے وہ بھی وردی کی وجہ سے۔ اگر فوج کے سربراہ نہ ہوتے تو پھر ہم بھی دیکھتے کہ کیسے وہ شیروانی تک پہنچتے ۔ اور وردی کی اس خاص ساخت کو دیکھیے آپ جب ہوا میں تھے اس 12 اکتوبر 1999 والی شام، معاونت تو پھر وردی والوں نے کی تھی ۔ مگر حیرت تو ہوگی کہ اس بار یہ صاحب جب ایک اور فوجی بغاوت کو یعنی ''کُو'' کو جنم دے رہے تھے تو کوئی بھی وردی والا ان کے ساتھ نہیں تھا۔

ہاں مگر یہ اقلیتی فیصلہ صادر ہوتا تو کڑیاں کچھ اس طرح سے بنتیں، مگر اکثریتی فیصلے میں جنرل مشرف نے (کہا جاتا ہے)کہ شوکت عزیز صاحب کی بھیجی ہوئی سمری پر عمل کیا تھا۔ شوکت صاحب کو یہ سمری وزارت قانون سے ملی تھی وغیرہ وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر یہ ''کو'' نہیں ہے۔ یہ فوجی بغاوت نہیں تھی یا شب خوں نہیں تھا جب کہ 12 اکتوبر 1999 والا واقعہ شب خون تھا۔ بلکہ صدر پاکستان کی حیثیت میں تھا یا یوں کہیے اس وقت کیا جب شیروانی پہنی ہوئی تھی کہ وردی ۔ اب یہ الجھی ہوئی ڈور کون سلجھائے کہ وہ وردی تھی یا شیروانی تھی۔ پوری کی پوری عدالت آپ نے اکھاڑ کے باہر پھینک دی، لانگ بوٹس روندتے پہنچے تھے ان معماروں پر جو آئین کے محافظ تھے آپ کہتے ہیں وہ وردی نہیں تھی شیروانی تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں لیکن کیا یہ تاریخ اپنے اوراق میں جذب کرپائے گی؟

مشرف صاحب کی شیروانی میں 58(2)(B) پڑی تھی۔ اگر شیروانی میں کرتے تو 58(2)(B)کرتے مگر غور سے دیکھا جائے تو وہ بھی وردی کے بغیر نہیں ہوتی اور اس طرح شیروانی وردی کے حکم کی منتظر رہتی ہے۔ جس طرح غلام اسحٰق خان تھے، فاروق لغاری تھے اور کبھی وردی کے بغیر شیروانی نے ایسی حرکت اگر کی بھی تو وہ ناکام رہی۔ گویا شیروانی ہو تو بھی وردی اور اگر وردی ہو تب بھی وردی۔مگر وہ 58(2)(B) کیوں کر استعمال کرتے، شوکت عزیز و ارباب رحیم کوئی جونیجو تھوڑی تھے نہ بے نظیر تھے۔ پوری کی پوری وہ ایکسرسائز کیونکر کرتے۔ یوں کہیے جنرل مشرف کے شیروانی میں جو 58(2)(B) پڑی تھی وہ کھوٹے سکے کی مانند تھی پارلیمنٹ فتح ہوچکی تھی اور یہ سوچنے والے نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اب کی بار جونیجو ججوں میں پیدا ہوگا۔

چنانچہ اس بار وردی میں سے ایمرجنسی نکالی گئی۔ میں نے اس وقت کے وزیر اطلاعات شیخ رشید سے انٹرویو میں پوچھا کہ یہ ایمرجنسی ، جس کے خدوخال آئین میں وضع نہیں ہیں وہ کیا تھی؟ کہنے لگے یہ ایمرجنسی آئین سے دو فٹ اوپر اور شب خوں سے تین فٹ نیچے تھی ۔ شیخ صاحب دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ یہ نہ جفا تھی نہ وفا تھی ۔ نہ آئین کی پاسداری تھی نہ آئین کی حفاظت تھی۔ نہ یہ وردی تھی نہ شیروانی تھی۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا شب خوں تھا (اگر ہم 3 نومبر کو شب خوں تسلیم کرتے ہیں) جو ناکام گیا۔

جس کو پھر انگریزی میں Attempt Coup کہا جائے گا۔ مطلب یہ کہ وردی اگر پرانی ہوجائے تو اس میں حالت رفو پیدا ہوجاتی ہے۔ جنرل مشرف شیر تو تھے، جنگل کے بادشاہ تو تھے مگر بوڑھے ہوگئے تھے۔ دس سال تک کھینچ گئے اس سے آگے کھینچنا معجزہ ہوتا۔ اور ادھر لال مسجد میں بغاوت تھی تو سامنے وکلا کی تحریک تھی جس کی قیادت پہلی مرتبہ وہ کر رہے تھے جو ماضی میں جنرل ضیا کے ساتھی تھے یعنی دائیں بازو کی قوتیں۔

یوں کہیے کہ صف بندی کچھ اتنی واضح نہ تھی، دشمن کون ہے رفیق کون ہے یہ تمیز کرنا جنرل مشرف کے لیے مشکل تھا۔ جن پتوں پہ انھیں ناز تھا وہ پتے ہوا دینے لگے۔ اس ''بوڑھے شیر'' سے نوجواں شیر نالاں تھے وہ تھک گئے تھے۔ پوری افواج کے جسم میں تناؤ تھا۔اور پھر یوں بھی ہوا کہ اس وردی کے خلاف پرانی وردی والا جنرل ضیا الحق بھی لڑ پڑا۔ کیونکہ اس وردی کو اقتدار میں رہنے کے لیے امریکا کی آشیرواد برقرار رکھنے کے لیے یہ کیموفلاج کرنا تھا یہ واقعی ایسا ہی تھا۔ جنرل ضیا کے اور مشرف کے عمل میں فرق تھا مگر ردعمل ایک بنا۔جہادی اور بڑھے۔یہ جہادی وکلا کی تحریک میں بھی گھس گئے کہ جنرل حمید گل نے مجھے ٹھیک انھی زمانوں میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم اسلامی انقلاب آئین کے آرٹیکل2(A) کے ذریعے لائیں گے۔

یعنی ججوں کی تشریح کی طاقت سے انقلاب برپا کریں گے۔ اور ایسی بغاوت پہلے بھی ہوئی تھی۔ جب بے نظیر بھٹو کا پہلا دور تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ آرٹیکل 2(A) دوسرے آئین کے آرٹیکل سے عظیم ہے۔ یہ فیصلہ جب سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا تو کسی اور نے نہیں، نسیم حسن شاہ نے فیصلہ لکھتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ آرٹیکل 2(A) عظیم ہے تو پھر پورے کا پورا آئین بھسم ہوکے گر جاتا ہے۔ اور یہ کہ کورٹ کا کام قانون بنانا نہیں بلکہ تشریح کرنا ہے۔

قانون بنانا یا اس میں ترمیم کرنا یہ کام پارلیمنٹ کا ہے۔سیکولروں کے خلاف شب خوں لانا آسان ہے مگر مدرسوں کے خلاف نہیں۔ کیونکہ سیکولر قوتیں عوام کے حق کو مانتی ہیں، اور مدرسے والے شب خوں لانے کے طریقے پر گامزن ہیں۔ بے چارے مشرف امریکا کی وجہ سے سیکولر ہوگئے، جب کہ اس مرتبہ شب خوں وہ چلے گا جس کو مدرسوں کی حمایت حاصل ہوگی۔

یہ کام تو خیر اچھا ہوا کہ اس بار شب خوں کی اس جرات میں جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ میں نے جنرل مشرف کو ہدایت دی نہ اس کی کوئی شہادت ہے۔ کیا خیال ہے کہ خود آپ جناب کا حلف اٹھانا جنرل مشرف کے اس جرم کو کامیاب بنانے میں معاونت نہ تھی۔ آپ حلف نہ اٹھاتے تو دو چار دن اور یہ شب خوں پہلے گر جاتا۔ یوں کہیے کہ اب کی بار اٹھارویں ترمیم کے بعد آرٹیکل چھ اب یہ کہتا ہے کہ اس میں معاونت کرنے والوں کو بھی اس جرم کا مرتکب قرار دیا جائے، اب پی سی او پر قسم اٹھانے والے ججوں پر بھی برے دن آگئے۔پاکستان کی تاریخ کا سب سے تیز چلنے والا ٹرائل صرف ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔ یہ لو فیصلہ، یہ فیصلہ اپیل کا، اور یہ لو پھانسی۔ بھٹو صاحب بے چارے شیر تھوڑی تھے۔ وہ تو عوام کے ٹوٹے پھوٹے بیلٹ باکس کے ڈبے سے وزیر اعظم بنے تھے ناکہ بازوئے شمشیر سے۔ آج مشرف 71 برس کے ہیں فیصلہ آتے آتے 80 برس کے ہوجائیں گے۔

موت سے کس کو رستگاری ہے ، وہ فیصلہ سننے سے پہلے اللہ کو پیارے ہوجائیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی بھی عمر اگر ان کی اماں جتنی دراز رکھی تو پھر اس کار جہاں دراز (ٹرائل) کا فیصلہ آہی جائے گا۔ ہم نے آپ کے سامنے اس صفحے پر بارہا کہا کہ مشرف پر ٹرائل نہ چلائیں، ابھی جمہوریت میں اتنا دم نہیں کہ یہ برداشت کرسکے۔ میاں صاحب کو بہت جلدی تھی وہ سمجھتے تھے ان کا ووٹ بینک جوکہ دائیں بازو کی سوچ میں ہے جوکہ جنرل مشرف کو پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھنا چاہتی ہے۔ اور ان کا مینڈیٹ بھی تازہ ہے، لہٰذا یہ کام کر ڈالو۔ مگر اس مرحلہ میں دو بڑی ریٹائرمنٹ آن پڑیں، جنرل کیانی بھی گئے جن کے کہنے پر میاں صاحب سپریم کورٹ میں میموگیٹ والی پٹیشن بھی ڈال بیٹھے اور پھر چیف جسٹس، وکلا تحریک کے روح رواں چوہدری افتخار بھی ریٹائر ہوئے ۔

آپ مشرف پر ٹرائل تو چلا بیٹھے مگر طالبان پر ہاتھ ہلکا رکھ کر بیٹھ گئے۔ پھر جناب طاہر القادری کینیڈا سے آئے۔ خان صاحب کی بھی اللہ میاں نے سن لی۔ میاں صاحب شکر کریں زرداری صاحب ان کے خلاف نہ ہوئے جو آج یہ حکومت بچا کے بیٹھے ہوئے ہیں، مگر کمزور حکومت ۔ایک انٹرویو میں جنرل مشرف نے کہا ہے کہ مغرب والی جمہوریت اس ملک کو راس نہیں آتی ۔ سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت نہ مغربی ہوتی ہے نہ مشرقی ۔ وہ سورج کی طرح کی حقیقت ہوتی ہے ۔ مگر گھپ اندھیرا ہو جہاں ابھی سورج نکلا نہ ہو وہاں پر لوگوں کو دھوکا دیا جاسکتا ہے۔

ابھی گرانیٔ شب میںکمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
(فیض)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔