باادب بانصیب
ایک دن جب بغداد کی ایک گلی میں ایک جانور نے نجاست کی تو لوگ سمجھ گئے کہ آج بشر حافی کا انتقال ہوگیا ہے۔
بغداد کے ایک درویش کو حضورﷺ کی زیارت ہوئی جس میں حضورﷺ نے انھیں حکم فرمایا کہ بشر نامی شخص کو کہہ دو کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہارا نام اﷲ والوں کی فہرست میں لکھ لیا ہے۔ صبح درویش بہت پریشان ہوئے کہ بشر تو صرف شراب پیتے ہی نہیں شراب خانے کے مالک بھی ہیں لہذا اسی سوچ میں دن گزرگیا دوسری رات پھر یہی حکم فرمایا گیا درویش پھر اسی کیفیت میں رہے کہ اتنے بڑے رتبے والا آدمی بشر جیسا گناہگار کیسے بن گیا اور اس کے در پر گیا تو لوگ میرے بارے میں کیا خیال کریں گے۔
تیسری رات پھر حکم ہوا کہ اگر اب آپ بشر کو یہ خوشخبری دینے نہیں گئے تو آپ کا نام ولی اﷲ کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔ لہذا مجبوراً بشر کے شراب خانے پہنچے اور انھیں اپنی آمد کی اطلاع دی بشر شراب کے نشے میں دھت تھے لیکن اتنے بڑے اور مشہور درویش کی آمد کا سنتے ہی دیوانہ وار ننگے پیر بھاگتے ہوئے دروازے پر آئے اور دریافت کیا کہ کوئی آفت آنے والی ہے۔ جو آپ خود یہاں اطلاع دینے آئے ہیں درویش نے کہا نہیں اور انھیں خوشخبری سنائی جسے سننے کے بعد بشر نے شراب سے نہ صرف توبہ کی بلکہ تمام شراب ضایع کردی اور پھر کبھی پیر میں چپل نہیں پہنی ننگے پاؤں رہا کرتے تھے کہ جب مجھے ولایت کی اطلاع ملی میں ننگے پیر بھاگتا ہوا آیا تھا اور اﷲ تعالیٰ کی بادشاہی تمام زمین پر ہے۔
لہذا شاہی فرش پر جوتے پہن کر چلنا آداب کے منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ''حافی'' کہا جاتا ہے یعنی ننگے پیر والا لہذا اﷲ پاک نے ان کے اس ادب پر ان کو یہ عزت دی کہ بغداد کی کسی گلی میں کوئی جانور نجاست نہیں کرتا تھا کہ ناجانے کس جگہ بشر حافی پیر رکھیں اور ایک دن جب بغداد کی ایک گلی میں ایک جانور نے نجاست کی تو لوگ سمجھ گئے کہ آج بشر حافی کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپ کے ولایت ملنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ توبہ سے قبل اپنی مستی میں کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کاغذ ملا جس پر اﷲ تعالیٰ کا نام تھا آپ نے اس کاغذ کے ٹکڑے کو پاک کیا۔ خوشبو لگائی اور چوم کے ایک صاف بلند مقام پر رکھ دیا آپ کا یہ ادب اﷲ کو اتنا پسند آیا کہ اسی رات آپ کی ولایت کے اعلان کے لیے درویش کو حکم مل گیا۔
بشر حافیؒ نے توبہ کے بعد علم دین حاصل کیا اور عالم کے درجہ پر پہنچے گوکہ آپ علم کے مقام میں امام احمد بن حنبلؒ سے کمتر تھے لیکن آپ اپنے عقیدت مندوں سے کہتے تھے کہ بشر حافی اﷲ تعالیٰ کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ ایک خاتون نے امام احمد بن حنبلؒ سے مسئلہ دریافت کیا کہ میرے گھر میں میرے پڑوسی کی روشنی آتی ہے اور اس روشنی میں سلائی کا کام کرتی ہوں کیا یہ جائز ہے امام صاحب نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ چونکہ بشر حافی کی بہن ہیں لہذا آپ کے لیے جائز نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت منصور عمارؒ کے عظیم المرتبت ہونے کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ ایک مرتبہ راستے میں ایک کاغذ کا ٹکڑا ملا جس پر بسم اﷲ الرحمن الرحیم تحریر تھا آپ نے عظمت کے تصور سے اس کی گولی بناکر نگل لی اسی رات خواب دیکھا کہ باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم نے ہمارے نام کی تعظیم کی لہذا ہم نے تمہارے لیے حکمت و دانائی کی راہیں کشادہ کردیں۔
حضرت ذوالنون مصریؒ اور ان کے دوستوں کو جنگل میں خزانہ ملا جس میں ایک تختہ تھا جس پر اﷲ تعالیٰ کے اسمائے مبارک کنندہ تھے اور جس وقت خزانہ تقسیم ہونے لگا تو آپ نے اپنے حصے میں صرف وہ تختہ لے لیا خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے ''اے ذولنون'' سب نے دولت تقسیم کی اور تم نے ہمارے نام کو پسند کرلیا اس کے عوض ہم نے تیرے اوپر علم و حکمت کے دروازے کشادہ کردیے اور جب آپ کا انتقال ہوا تو اس شب ستر اولیاء اﷲ کو حضور اکرمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور حضورﷺ نے فرمایا کہ میں اﷲ کے دوست ذوالنون مصری کے استقبال کے لیے آیا ہوں۔قارئین کرام ، مقدس ناموں کے احترام سے متعلق جب میں کوئی ایسی بات پڑھتا یا سنتا ہوں تو میرا دھیان فوراً دو طرف جاتا ہے ایک اخبارات میں لکھی آیات' حدیث مبارکہ جو اکثر راستے میں یا استعمال کرنے کے بعد کسی کوڑے کے ڈبے میں پڑے ہوتے ہیں جہاں ان کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور ہم کوئی دھیان نہیں دیتے۔
حالانکہ ان آیت والے حصے کو علیحدہ کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے اسی طرح وکلاء کے الیکشن مہم کے دوران جہاں وہ اپنے وزٹنگ کارڈ جن پر مقدس نام لکھے ہوتے ہیں وہ کنویسنگ کے لیے دیتے ہیں اور وہ شخص آگے جاکے انھیں راستے میں ہی پھینک دیتا ہے جو راہ چلتے لوگوں کے پیروں میں آتے ہیں اور ان مقدس ناموں کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ مجھے اس سلسلے میں اپنے دوست محمد حنیف کاشمیری کے کارڈ کا ڈیزائن پسند آیا جو اپنے انتخابی کارڈ پر ایم حنیف کاشمیری لکھتے ہیں اور لفظ ''محمد'' کو اس طرح لکھ کر اس مقدس نام کی حرمت بھی برقرار رکھتے ہیں اور انتخابی مہم بھی چلاتے ہیں اﷲ تعالیٰ انھیں ان کی نیت کا ثواب دے۔ اسی طرح دوسرے امیدوار بھی احتیاطی حکمت عملی اپناسکتے ہیں لیکن ہم ووٹروں کو بھی اس معاملے میں احتیاط برتنی چاہیے اور کارڈز کو زمین پر نہیں پھینکنا چاہیے بالکل اسی طرح آرٹس کونسل کے انتخابات میں ہوتا ہے ۔
جہاں ہر پینل کے امیدواروں کے ناموں کی لسٹ ہوتی ہے عام ووٹرز اسے زمین پر پھینک دیتے ہیں جو پیروں میں آتی ہیں دونوں طرف سے تھوڑی سی احتیاط ہمیں بہت بڑی بے حرمتی اور گناہ سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ ہم کتنے نادان ہیں کہ اپنے نام کو وقتی طورپر اونچا کرنے کے لیے عزت دینے والے کے نام کو اہمیت نہ دیں اور پھر پریشانیوں کا رونا روئیں۔ میں نے اپنے ایک بزرگ حامد رضا خان (مرحوم) کو اکثر دیکھا جو ایک بچوں کی ''چٹنی'' کے خالی پیکٹس کو راستے سے جمع کرکے محفوظ جگہ پر رکھتے تھے کیونکہ اس ''چٹنی'' کے پیکٹ پر ''صدیقی'' لکھا ہوتا تھا۔ باادب لوگ قبلہ رخ منہ کرکے نہیں تھوکتے۔آج بھی کئی لوگ مدینہ منورہ میں جوتیاں نہیں پہنتے کہ نہ جانے کہاں آقاﷺ کے قدم مبارک رکھے گئے ہوں، یہی حال امام مالکؒ کا تھا جو مدینہ منورہ میں سواری پر نہیں بیٹھتے تھے کہ کہیں سواری کے جانور کے قدم ایسے مقام پر نہ پڑے جہاں میرے آقاﷺ نے اپنا قدم مبارک رکھا ہو۔
حتیٰ کہ باادب لوگ اپنی ہاتھ کی چھڑی بھی کعبہ رخ نہیں کرتے یہ ادب کی باتیں ہیں۔اﷲ ہمارے دلوں کو بھی ادب کی طرف پھیر دے کیونکہ آج ہم من حیث القوم بے ادب ہوگئے ہیں جہاں ماں باپ اپنی اولاد کے سامنے اور استاد اپنے شاگرد کے سامنے بولتے ہوئے ڈرے اور جوان اولاد اپنے بوڑھے والدین کو یہ بات عام کرتے ہوں کہ آپ نے ہمیں کیا دیا' آپ بات سمجھتے ہی نہیں' آج ہم اپنی محنت سے یہاں پہنچے ہیں بس پھر اس قوم کو صرف دعا کی ضرورت ہوتی ہے لیکن قدرت کا بھی ایک اصول ہے کہ بے ادب کی دعا قبول نہیں کرتی کیونکہ قدرت نے اس کے نصیب میں لکھا نہیں ہوتا جو وہ مانگ رہا ہوتا ہے لیکن یہ اﷲ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وہ ہمیں مہلت دے رہا ہے کیونکہ ماں باپ اس کے باوجود ہمیں دعائیں دے رہے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ اولاد کے حق میں ماں باپ کی دعا ضرور قبول کرتے ہیں۔ع
اس نے کیا لاج رکھی ہے میری گمراہی کی
کہ میں بھٹکوں تو بھٹک کر بھی اس تک پہنچوں
تیسری رات پھر حکم ہوا کہ اگر اب آپ بشر کو یہ خوشخبری دینے نہیں گئے تو آپ کا نام ولی اﷲ کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔ لہذا مجبوراً بشر کے شراب خانے پہنچے اور انھیں اپنی آمد کی اطلاع دی بشر شراب کے نشے میں دھت تھے لیکن اتنے بڑے اور مشہور درویش کی آمد کا سنتے ہی دیوانہ وار ننگے پیر بھاگتے ہوئے دروازے پر آئے اور دریافت کیا کہ کوئی آفت آنے والی ہے۔ جو آپ خود یہاں اطلاع دینے آئے ہیں درویش نے کہا نہیں اور انھیں خوشخبری سنائی جسے سننے کے بعد بشر نے شراب سے نہ صرف توبہ کی بلکہ تمام شراب ضایع کردی اور پھر کبھی پیر میں چپل نہیں پہنی ننگے پاؤں رہا کرتے تھے کہ جب مجھے ولایت کی اطلاع ملی میں ننگے پیر بھاگتا ہوا آیا تھا اور اﷲ تعالیٰ کی بادشاہی تمام زمین پر ہے۔
لہذا شاہی فرش پر جوتے پہن کر چلنا آداب کے منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ''حافی'' کہا جاتا ہے یعنی ننگے پیر والا لہذا اﷲ پاک نے ان کے اس ادب پر ان کو یہ عزت دی کہ بغداد کی کسی گلی میں کوئی جانور نجاست نہیں کرتا تھا کہ ناجانے کس جگہ بشر حافی پیر رکھیں اور ایک دن جب بغداد کی ایک گلی میں ایک جانور نے نجاست کی تو لوگ سمجھ گئے کہ آج بشر حافی کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپ کے ولایت ملنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ توبہ سے قبل اپنی مستی میں کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کاغذ ملا جس پر اﷲ تعالیٰ کا نام تھا آپ نے اس کاغذ کے ٹکڑے کو پاک کیا۔ خوشبو لگائی اور چوم کے ایک صاف بلند مقام پر رکھ دیا آپ کا یہ ادب اﷲ کو اتنا پسند آیا کہ اسی رات آپ کی ولایت کے اعلان کے لیے درویش کو حکم مل گیا۔
بشر حافیؒ نے توبہ کے بعد علم دین حاصل کیا اور عالم کے درجہ پر پہنچے گوکہ آپ علم کے مقام میں امام احمد بن حنبلؒ سے کمتر تھے لیکن آپ اپنے عقیدت مندوں سے کہتے تھے کہ بشر حافی اﷲ تعالیٰ کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ ایک خاتون نے امام احمد بن حنبلؒ سے مسئلہ دریافت کیا کہ میرے گھر میں میرے پڑوسی کی روشنی آتی ہے اور اس روشنی میں سلائی کا کام کرتی ہوں کیا یہ جائز ہے امام صاحب نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ چونکہ بشر حافی کی بہن ہیں لہذا آپ کے لیے جائز نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت منصور عمارؒ کے عظیم المرتبت ہونے کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ ایک مرتبہ راستے میں ایک کاغذ کا ٹکڑا ملا جس پر بسم اﷲ الرحمن الرحیم تحریر تھا آپ نے عظمت کے تصور سے اس کی گولی بناکر نگل لی اسی رات خواب دیکھا کہ باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم نے ہمارے نام کی تعظیم کی لہذا ہم نے تمہارے لیے حکمت و دانائی کی راہیں کشادہ کردیں۔
حضرت ذوالنون مصریؒ اور ان کے دوستوں کو جنگل میں خزانہ ملا جس میں ایک تختہ تھا جس پر اﷲ تعالیٰ کے اسمائے مبارک کنندہ تھے اور جس وقت خزانہ تقسیم ہونے لگا تو آپ نے اپنے حصے میں صرف وہ تختہ لے لیا خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے ''اے ذولنون'' سب نے دولت تقسیم کی اور تم نے ہمارے نام کو پسند کرلیا اس کے عوض ہم نے تیرے اوپر علم و حکمت کے دروازے کشادہ کردیے اور جب آپ کا انتقال ہوا تو اس شب ستر اولیاء اﷲ کو حضور اکرمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور حضورﷺ نے فرمایا کہ میں اﷲ کے دوست ذوالنون مصری کے استقبال کے لیے آیا ہوں۔قارئین کرام ، مقدس ناموں کے احترام سے متعلق جب میں کوئی ایسی بات پڑھتا یا سنتا ہوں تو میرا دھیان فوراً دو طرف جاتا ہے ایک اخبارات میں لکھی آیات' حدیث مبارکہ جو اکثر راستے میں یا استعمال کرنے کے بعد کسی کوڑے کے ڈبے میں پڑے ہوتے ہیں جہاں ان کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور ہم کوئی دھیان نہیں دیتے۔
حالانکہ ان آیت والے حصے کو علیحدہ کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے اسی طرح وکلاء کے الیکشن مہم کے دوران جہاں وہ اپنے وزٹنگ کارڈ جن پر مقدس نام لکھے ہوتے ہیں وہ کنویسنگ کے لیے دیتے ہیں اور وہ شخص آگے جاکے انھیں راستے میں ہی پھینک دیتا ہے جو راہ چلتے لوگوں کے پیروں میں آتے ہیں اور ان مقدس ناموں کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ مجھے اس سلسلے میں اپنے دوست محمد حنیف کاشمیری کے کارڈ کا ڈیزائن پسند آیا جو اپنے انتخابی کارڈ پر ایم حنیف کاشمیری لکھتے ہیں اور لفظ ''محمد'' کو اس طرح لکھ کر اس مقدس نام کی حرمت بھی برقرار رکھتے ہیں اور انتخابی مہم بھی چلاتے ہیں اﷲ تعالیٰ انھیں ان کی نیت کا ثواب دے۔ اسی طرح دوسرے امیدوار بھی احتیاطی حکمت عملی اپناسکتے ہیں لیکن ہم ووٹروں کو بھی اس معاملے میں احتیاط برتنی چاہیے اور کارڈز کو زمین پر نہیں پھینکنا چاہیے بالکل اسی طرح آرٹس کونسل کے انتخابات میں ہوتا ہے ۔
جہاں ہر پینل کے امیدواروں کے ناموں کی لسٹ ہوتی ہے عام ووٹرز اسے زمین پر پھینک دیتے ہیں جو پیروں میں آتی ہیں دونوں طرف سے تھوڑی سی احتیاط ہمیں بہت بڑی بے حرمتی اور گناہ سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ ہم کتنے نادان ہیں کہ اپنے نام کو وقتی طورپر اونچا کرنے کے لیے عزت دینے والے کے نام کو اہمیت نہ دیں اور پھر پریشانیوں کا رونا روئیں۔ میں نے اپنے ایک بزرگ حامد رضا خان (مرحوم) کو اکثر دیکھا جو ایک بچوں کی ''چٹنی'' کے خالی پیکٹس کو راستے سے جمع کرکے محفوظ جگہ پر رکھتے تھے کیونکہ اس ''چٹنی'' کے پیکٹ پر ''صدیقی'' لکھا ہوتا تھا۔ باادب لوگ قبلہ رخ منہ کرکے نہیں تھوکتے۔آج بھی کئی لوگ مدینہ منورہ میں جوتیاں نہیں پہنتے کہ نہ جانے کہاں آقاﷺ کے قدم مبارک رکھے گئے ہوں، یہی حال امام مالکؒ کا تھا جو مدینہ منورہ میں سواری پر نہیں بیٹھتے تھے کہ کہیں سواری کے جانور کے قدم ایسے مقام پر نہ پڑے جہاں میرے آقاﷺ نے اپنا قدم مبارک رکھا ہو۔
حتیٰ کہ باادب لوگ اپنی ہاتھ کی چھڑی بھی کعبہ رخ نہیں کرتے یہ ادب کی باتیں ہیں۔اﷲ ہمارے دلوں کو بھی ادب کی طرف پھیر دے کیونکہ آج ہم من حیث القوم بے ادب ہوگئے ہیں جہاں ماں باپ اپنی اولاد کے سامنے اور استاد اپنے شاگرد کے سامنے بولتے ہوئے ڈرے اور جوان اولاد اپنے بوڑھے والدین کو یہ بات عام کرتے ہوں کہ آپ نے ہمیں کیا دیا' آپ بات سمجھتے ہی نہیں' آج ہم اپنی محنت سے یہاں پہنچے ہیں بس پھر اس قوم کو صرف دعا کی ضرورت ہوتی ہے لیکن قدرت کا بھی ایک اصول ہے کہ بے ادب کی دعا قبول نہیں کرتی کیونکہ قدرت نے اس کے نصیب میں لکھا نہیں ہوتا جو وہ مانگ رہا ہوتا ہے لیکن یہ اﷲ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وہ ہمیں مہلت دے رہا ہے کیونکہ ماں باپ اس کے باوجود ہمیں دعائیں دے رہے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ اولاد کے حق میں ماں باپ کی دعا ضرور قبول کرتے ہیں۔ع
اس نے کیا لاج رکھی ہے میری گمراہی کی
کہ میں بھٹکوں تو بھٹک کر بھی اس تک پہنچوں