بات کچھ اِدھر اُدھر کی میں انجینیئر نہیں بنوں گا

اپنی مرضی کو بچوں پر نہ ٹھونسیں کیونکہ یہ نہ صرف آپ کے بلکہ آپ کے بچے اور معاشرے کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔

اپنی مرضی کو بچوں پر نہ ٹھونسیں کیونکہ یہ نہ صرف آپ کے بلکہ آپ کے بچے اور معاشرے کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔

احمد ابھی تمہارا میٹرک کا رزلٹ آنے والا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تمہارا داخلہ کسی اچھے انجینئر نگ کالج میں ہی ہو کیونکہ میں کسی صورت یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تم کامرس کی طرف جائو اور ہاں تمہاری امی کہہ رہی تھیں کہ تم آرٹس سے انٹر کرنا چاہتے ہو ! کیا پاگل ہو گئے ہو یا تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے !آج تو میں نے یہ بات سن لی آئندہ اس گھر میں آرٹس کی طرف جانے کی بات بھی نہیں کرنا۔تمہارے دادا انجینئر تھے،میرے دونوں چچا یعنی تمارے دادا کے بھائی وہ بھی انجینئر تھے اور پھر میں نے بھی انجینئر نگ کی اور اب تمہیں بھی یہی کرنی ہے۔
امی یہ ابو کو کیا ہو گیا ہے مجھے نہ کامرس سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ان کے خاندانی پیشے انجینئر نگ سے پھر میں کیوں کروں ابو کیوں مجھے زبردستی انجینئر نگ کراوانے پر تلے ہیں۔

بیٹا احمد دیکھو تمہارے ابو انجینئر ہیں تو ان کے پاس گاڑی بھی ہے اور دنیا کی تمام تر سہولتیں بھی ہیں اگر وہ انجینئر نہ ہوتے تو کیا ان کے پاس یہ سب ہوتا ؟

امی امی امی، آپ کیوں نہیں سمجھ رہیں بھئی کہ مجھے آرٹس سے لگاؤہے، بھئی آپ ابو کو سمجھائیں مجھے نہیں کرنی انجینئر نگ ون نجینئرنگ ، اگر دادا نے اور پھر ابو نے یہ پیشہ چنا تو کیا اس کا اب یہ مطلب ہے کہ پورا خاندان یہی کرے؟

اچھا ٹھیک ہے بات کرتی ہوں تمہارے ابو سے!

دوسرے دن احمد سو رہا تھا کہ احمد کے دوست کا گھر پر فون آتا ہے جو احمد کی والدہ کو کہہ رہا تھا کہ انٹی یہ بلکل غلط بات ہے کہ احمد کی اب87% بن گئی ہے تو وہ فون ہی نہیں اٹھائے گا ۔

کیا واقعی! نہیں بیٹا ہمیں بلکل بھی نہیں پتا اس بارے میں ! میں ابھی احمد کو اٹھاتی ہوں ۔ احمد جلدی اٹھو تمہارا رزلٹ آگیا ہے ۔

امی کیا ہوگیا ہے یہ میٹرک بورڈ ہے اتنی صبح صبح کیسے آسکتا ہے،پلیز سونے دیں۔

احمد تمہارے دوست کافون آیا ہے جلدی اٹھو وہ کہہ رہا ہے کہ رزلٹ آگیا ہے۔

اچھا ! واقعی! ٹھیک ہے احمد بغیر ہاتھ منہ دھوئے ہوئے بھاگتا ہوا دوست کے گھر کے لیئے نکل گیا، وہاں جاکر اسے پتا چلا کہ نویں اور دسویں جماعت کی % ملا کر ٹوٹل 87 فیصد بنی۔ احمد خوشی سے دوڑتا ہوا گھر کی جانب آیا لیکن اس دوران احمد یہ سوچ رہا تھا کہ اب ابو مجھے کسی صورت بھی آرٹس کی طرف نہیں آنے دیں گے۔ خیر احمد کے دل میں کسک تھی کہ شاید گھر والے مان جائیں۔شام کے وقت احمد کے گھر میں ایک خوشی کا ماحول ہوتا ہے ۔ ابو واپسی میں دس کلو مٹھائی کا ڈبہ لے کر آئے اور گھر آتے ہی احمد کو گلے لگا لیتے ہیں اور زور سے کہتے ہیں اب میرا لال بہترین انجئینئر بنے گا۔ احمد ابو کی بات سن کر خاموش ہوگیا۔

بیٹا تم اپنی بات کو اب ختم کر دو تمہارا نتیجہ بھی اچھا آگیا ہے اور اب تمہارا کسی اچھے کالج میں بھی داخلہ ہو جائے گاانشا ء اللہ۔

لیکن امی ،میری پوری خواہش ہے کہ میں آرٹس کی فیلڈ سے انٹر کروں اور پھر سوشولوجسٹ سے ماسٹرز کروں تاکہ میں معاشرے کے مسائل جان سکوں اور اس پر تحقیق کروں۔ امی میں کچھ نہیں جانتا بس آپ کو ابو کو سمجھانا ہے۔

دوسرے دن احمد کے ابو نے کہا کہ بیٹا کیپ فارم ملنا شروع ہوگئے ہیں تم کل بینک سے جاکے لے آئو اور فارم کو بھر کے دودن میں جمع کرادینا۔
احمد، ڈرتے ہوئے بولتاہے ٹھیک ہے ابو۔


احمد کے جانے کے بعد احمد والد نے کہا کہ آپ اپنی خواہش بچے پر کیوں تھوپ رہے ہیں؟ بیٹا جب انجینئر نگ نہیں لینا چاہا رہا تو پھر یہ زبردستی نہ کریں۔

بیگم یہ پاگل ہوگیا ہے اس کو کیا پتا کہ آرٹس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی! اور اگر ہوتی بھی ہے تو مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ کیوں کہ میرا پورا خاندان انجینئر ہے۔ میرے والد، میری دونوں بہنوں نے بھی یہی فیلڈ لی اور اب یہ میرا خواب ہے کہ یہ بھی اسی پیشے کو چنے ۔

امی، اچھا بھئی نہ مانیں، آپ نے تو کبھی میری سنی ہی نہیں ہے۔

اگلے دن احمد کی امی نے اسے اٹھاتے ہوئے بولا کہ جلد اٹھو تمہارے ابو سختی سے کہہ کر گئے ہیں کہ آج کیپ فارم جمع کروانا ہے۔

احمد اٹھتا تو تب نہ جب وہ سویا ہوتا، احمد پوری رات روتا رہا ، بیڈ سے اٹھتے ہی امی سے آکر لپٹ گیا اور زارو قطار رونا شروع کردیا، امی اللہ کی قسم مجھے انجینئر نگ سے کوئی ڈر و خوف نہیں امی لیکن مجھے آرٹس لینے دیں، امی میں آپ کا اچھا بیٹا ہوں نہ آج تک آپ کی کوئی بات رد نہیں کی ، امی کبھی آج تک کوئی فرمائش نہیں کی۔ پلیز امی یہ سب نہیں کریں !

میرے بچےمیں سمجھ سکتی ہوں ، لیکن اب جو ابو نے کہہ دیا وہ کرلو۔

احمد اپنی آستینوں سے آنسو صاف کرتا ہے اور یہی کہتا ہے ٹھیک ہے امی جو آپ کا حکم۔

احمد گھر سے نکلتا ہے اور پھر کیپ فارم جمع کرا دیتا ہے۔ وہ دنیا میں ایک بہترین سوشولجسٹ بننا چاہتا تھا لیکن باپ کی ضد کے آگئے وہ کیا کرتا۔ احمدنے گھر واپس جانے کے بجائے سب سے پہلے اپنا موبائل آف کیا پھر اس میں سے سم نکال کر موبائل فون کو زمین پر پھینک دیا اور احمد ایک بس میں سوار ہوکر عباسی شہید اسپتال کے پاس اترگیا۔ وہاں بیٹھ کر وہ کافی دیر تک سوچتا رہتا کہ کیا کرے ؟لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا ۔ وہ ایک اور بس میں سوار ہوکر نمائش پہنچ جاتا ہے اور گھومتا رہا ہے۔ دوسری جانب احمد کے گھر میں ایک کہرام بپا ہو تا ہے احمد کے والد اس کو ڈھونڈنے کے لئے جگہ جگہ پھرتے ہیں اور سارے دوستوں سے رابطہ کرتے ہیں لیکن کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا آخر کا احمد کے والد ایف آئی آر کٹوا دیتے ہیں۔

رات کے تقریباً 3بجے احمد کی اسی فلاحی تنظیم کے کیمپ پر آنکھ کھلتی ہے اتنے میں ایک شخص بائیک پر آتا ہے اور پوچھتا ہے ۔ لڑکے کون ہو تم اور اتنی رات کو یہاں کیا کر رہے ہو؟

احمد، گھبرا کے کہتا ہے انکل میں اپنے گھر کا راستہ بھول گیا ہوں،وہ شخص بائیک سے اتر کر احمد کے پاس آتا اور کہتا ہے آئو میں تمھیں کہیں لے کر چلوں۔ احمد ساتھ بیٹھ جاتا ہے لیکن اس شخص کی نیت کچھ اور ہی ہوتی ہے، جیسے ہی احمد کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے وہ اس شخص کو بائیک روکنے کا کہتا ہے اور بائیک نہ روکنے پر اس شخص کو دانت کاٹ کر بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ شخص اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن احمد ایمپریس مارکیٹ کے پاس گلیوں میں چھپ جاتا ہے۔ احمد بہت روتا ہے اور روتے روتے اس کی آنکھ لگ جاتی ہے صبح علاقہ پولیس گشت کے دوران اس کو اٹھاتی ہے اور اپنے ساتھ لے جاتی ہے تفتیش کرنے پر احمد سب کچھ بتا دیتا ہے جس کے بعد احمد کو اس کے گھر لے کر جایا جاتا ہے، گھر جاتے وقت بھی احمدبار بار یہی کہتا ہے مجھے گھر نہیں جانا مجھے چھوڑ دو ۔ جب گھر پہنچتے ہیں تواحمد کے والد اس کو گلے سے لگا لیتے ہیں اور روتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیٹا یہ تم نے کیا کیا ؟ ہم اس ایک دن اور ایک رات میں زندہ لاش کی مانند تھے ۔

روتے روتے احمد کی ماں کی حالت اس قدر خراب ہوگئی تھی کہ ان کو رات میں اسپتال میں شفٹ کرنا پڑا ،احمد کے والد اسے لیکر فوراً اسپتال جاتے ہیں جہاں ماں بیٹے ایک دوسرے سے لپٹ کر بے حد روتے ہیں، اتنے میں احمد کہتا ہے کہ امی مجھے آپ لوگوں سے بہت محبت ہے لیکن مجھے انجینئرنگ نہیں کرنی۔

اتنے میں احمد کے والد فوراً آگے بڑھ کر کہتے ہیں میرے بیٹے تم بلکل وہی کروجو تمھیں کرنا ہے ہماری طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہوگا تم پر۔

یہ تو ایک واقع تھا لیکن اسی طرح کتنے ہی واقعے ہمارے شہر میں آئے روز ہوتے ہیں ۔ یہاں والدین کو یہ سوچنا اور سمجھنا چاہئے کہ دنیا میں صرف ڈاکٹر،انجینئراور پائلٹ کا ہی شعبہ نہیں ہے، اس کے علاوہ بھی بے انتہا شعبے ہیں جن میں تعلیم حاصل کر کے ایک بڑا انسان بنا جاسکتا ہے۔ اپنی مرضی کو بچوں پر نہ ٹھونسیں کیونکہ یہ نہ صرف آپ کے بلکہ آپ کے بچے اور معاشرے کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story