Gullah عہد قدیم کی افریقی قوم جو آج بھی امریکا میں موجود ہے
اس قوم پر بے شمار دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں۔ Gullahکلچر پر بچوں کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
Gullah کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ ان کی تاریخ کیا ہے؟ ان سوالوں کے جواب یہ ہیں کہ Gullah دور قدیم کی ایک ایسی قوم ہے جو آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
یہ قوم اصل میں ان افریقی غلاموں کی نسل سے ہے جو امریکی ریاست جنوبی کیرولینا اور جارجیا کے زیریں علاقوں میں رہتے ہیں، جن میں ساحلی میدان کے ساتھ ساتھ سمندری جزائر بھی شامل ہیں۔ تاریخی طور پرGullahکا خطہ شمالی کیرولینا کے ساحل پر کیپ فیئر کے علاقے سے جنوب میں فلوریڈا کے ساحل تک وسعت پاگیا تھا، مگر آج Gullah صرف جنوبی کیرولینا اور جارجیا کے زیریں علاقے تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔
Gullah کے لوگوں اور ان کی زبان دونوں کو Geechee بھی کہا جاتا ہے۔ بعض اسکالرز کا کہنا ہے کہ ان کا یہ نام دریائے Ogeecheeکے نام پر پڑا ہوگا جو سوانا جارجیا کے قریب بہتا ہے۔ Gullahاور Geecheeلوگ انگریزی اور افریقی زبانوں کی ایک ملی جلی زبان بولتے ہیں جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک نیا ہی لہجہ اختیار کرلیا ہے۔ جارجیا کی برادریاں جو زبان بولتی ہیں، اس کے دو لہجے ہیں: ایک لہجہ نمکین پانی والی Geechee کہلاتا ہے تو دوسرے کو تازے پانی والی Geechee کہا جاتا ہے۔
اس کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ کون سا لہجہ بولنے والی برادری ساحل سے کتنی قریب یا دور ہے۔ دیہی علاقوں میں تنہا رہ جانے کی وجہ سے Gullahلوگوں نے ایک ایسا کلچر اختیار کرلیا، جس میں ان کی افریقا والی لسانی اور ثقافتی جھلک زیادہ نمایاں ہے۔
یہاں رہنے والے مختلف لوگوں کی زبانیں اور روایات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں، اس لیے وہ سب مل کر ایک نیا ہی روپ اختیار کرگئیں، مگر خاص بات یہ ہے کہ اس میں خطے کے نئے اثرات زیادہ نمایاں طور پر شامل ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ creole زبان کی ایک ایسی قسم بولتے ہیں جس کی بنیاد تو انگریزی ہے، لیکن اس پر زیادہ توانا اثرات افریقی قدیم و جدید زبانوں کے ہیں، خاص طور سے ان کی گرامر اور جملوں کی ساخت وہی قدیم طرز کی یعنی افریقی ہے۔
٭قدیم تاریخ:
ماہرین ایک خیال یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ممکن ہے لفظ Gullahانگولا سے لیا گیا ہو جہاں کچھ Gullah لوگوں کے آباو اجداد سب سے پہلے آباد ہوئے تھے جہاں بے شمار دوسرے افریقی لوگ اور قبیلے بھی آباد تھے۔ ان سب کی الگ الگ ثقافتیں تھیں جن کے آپس میں ملنے سے ایک نئی ثقافت تخلیق ہوئی۔ دوسری طرف بعض اسکالرز کا یہ خیال ہے کہ یہ لفظ یعنی Gullah ایک اور لفظ Golaسے لیا گیا ہوگا، یہ وہ علاقہ ہے جو آج کے دور کے سیرے لیون اور مغربی افریقی ملک لائبیریا کی سرحد پر واقع ہے۔
اس مقام پر بہت سے Gullahلوگوں کے آباو اجداد رہتے تھے۔ اس خطے کو برطانوی نوآباد کار "Grain Coast"یا "Rice Coast"کہا کرتے تھے۔ Geecheeوہ نام ہے جو Gullah لوگوں کا دوسرا سب سے عام اور مقبول نام ہے۔ ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ نام سیرے لیون، گنی اور لائبیریا کے سرحدی علاقے Kissiسے لیا گیا ہے۔
لیکن کچھ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ یہ نام یا الفاظ دیسی امریکیوں کے اصل علاقوں سے آیا ہے اور یہاں پہنچ کر اس کی ساخت بگڑ گئی۔ اسپین کے لوگ جنوبی کیرولینا اور جارجیا کے ساحلی خطے کو Gualeکہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ نام ایک قدیم امریکی قبیلے کا ہے۔ دریائے Ogeecheeجارجیا کے ساحلی خطے کا ایک نمایاں جغرافیائی پہلو ہے اور یہ نام ایک قدیم سمندری کھاڑی کا بھی ہے۔
٭افریقی جڑیں:
پورٹ آف چارلسٹن کے ریکارڈ کے مطابق کسی زمانے میں افریقی غلام اس بندرگاہ پر ان علاقوں سے لائے گئے تھے: انگولا، سینے گیمبیا، ونڈورڈ کوسٹ، گولڈ کوسٹ، سیرے لیون، مڈغاسکر، موزمبیق اور دو کھاڑیاں۔ خیال ہے کہ مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے لگ بھگ تین ہزار سال پہلے تک افریقی چاول کاشت کیا تھا۔ جب انگریزوں کو یہ اندازہ ہوا کہ جنوبی امریکا میں چاول پیدا کیا جاسکتا ہے تو انہوں نے چاول پیدا کرنے والے افریقی علاقوں سے افریقی غلام بھی منگوانے کا ارادہ کیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ غلام نہ صرف صحت مند و توانا تھے، بلکہ زراعت، آب پاشی، ڈیم بنانے اور اسی طرح کے دیگر کام کرنے میں بھی ماہر تھے۔ چناں چہ مغربی افریقا میں غلام بنائے جانے والے افریقیوں کو یہاں بھیجا جانے لگا۔ اس طرح جنوبی کیرولینا اور جارجیا میں غلاموں کی ایک منڈی قائم ہوگئی۔ گھانا کے غلاموں کے قلعوں سے متعدد غلام جزائر غرب الہند بھی لائے گئے۔
1808میں برطانیہ اور امریکا دونوں نے ہی افریقی غلاموں کی تجارت پر پابندی لگادی۔ بعد میں غلاموں کے حقوق کے لیے امریکا اور برطانیہ دونوں نے ہی کالونیاں اور سوسائٹیاں قائم کردیں، تاکہ یہ لوگ بھی آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ اس کے بعد ان کے لیے جدوجہد شروع ہوئی جس میں آخرکار کام یابی ملی۔
٭Gullah ثقافت اور چاول کی کہانی:
Gullahقوم نے اپنی افریقی تہذیب و ثقافت کا بڑی دل جمعی کے ساتھ تحفظ کیا ہے۔ یہ لوگ آج بھی صدیوں پرانی روایات کے امین ہیں۔ برطانوی تاریخ داں پی ای ایچ ہیئر کا کہنا ہے:''اصل میں Gullah کلچر ریاست ہائے متحدہ امریکا اور غلاموں کی کالونیوں میں creoleکے طور پر تشکیل پایا تھا۔ یہ کلچر افریقا سے آنے والوں کی وجہ سے ان علاقوں میں پہنچا۔
ان میں درج ذیل اقوام کی تہذیب و ثقافت شامل تھی: Wolof, Mandinka, Fula, Baga, Susu, Limba, Temne, Mende, Vai, Kissi, Kpelle وغیرہ، جن کا تعلق رائس کوسٹ اور گولڈ کوسٹ، کالابار، کانگو جمہوریہ اور انگولا وغیرہ سے تھا۔اٹھارہویں صدی کے وسط تک جنوبی کیرولینا اور جارجیا کے زیریں علاقوں اور سمندری جزائر میں بھی چاول کے کھیت بڑے پیمانے پر ظہور میں آچکے تھے۔ رائس کوسٹ سے آنے والے افریقی کاشت کار اپنے ساتھ زراعت کی بھرپور صلاحیت لائے تھے۔ ان کے پاس مدوجزر سے آنے والے پانی کو آب پاشی میں استعمال کرنے کی صلاحیت بھی تھی اور اسی چیز نے ابتدائی امریکا میں چاول کو سب سے کام یاب صنعت بنادیا تھا۔
٭مخصوص وبائی بیماریاں:
دوسری جانب نیم استوائی آب و ہوا نے اس علاقے میں ملیریا اور زرد بخار کو عام کردیا۔ یہ وبا مچھر اپنے ساتھ لائے تھے۔ یہ استوائی امراض افریقا میں عام تھے اور غلاموں کے ذریعے کالونیوں میں پہنچے۔ دلدلی علاقوں کے مچھروں نے اور زیریں علاقوں کے چاول کے کھیتوں میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑوں نے ان بیماریوں کو انگریزی اور یورپین آبادکاروں تک پہنچادیا۔ ملیریا اور زرد بخار جلد ہی اس خطے کے وبائی مرض بن گئے۔ لیکن چوں کہ افریقی اپنے مخصوص اور آبائی علاقوں میں ان بیماریوں کے خلاف تھوڑی بہت مزاحمت پیدا کرچکے تھے، اس لیے وہ یورپی اقوام کے مقابلے میں استوائی امراض سے کسی حد تک محفوظ رہے۔
ایک طرف چاول کی صنعت ترقی پاتی رہی تو ساتھ ہی پلانٹرز افریقی غلاموں کو بھی امپورٹ کرتے رہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لگ بھگ 1708تک جنوبی کیرولینا میں سیاہ فاموں کی اکثریت ہوگئی اور ساحلی جارجیا میں اس وقت سیاہ فام اکثریت میں آگئے جب اٹھارہویں صدی کے وسط تک وہاں چاول کی کاشت خوب وسعت پاگئی۔ لیکن ساتھ ہی انہیں ملیریا اور زرد بخار جیسے وبائی امراض کا تحفہ بھی ملا۔
موسم بہار اور موسم گرما کی بارشوں میں جب یہ بیماریاں زور پکڑتیں تو سفید فام کاشت کار اور ان کے سفید فام مالک ان زیریں علاقوں کو عارضی طور پر چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اس وقت ان علاقوں پر سیاہ فاموں کی حکومت ہوتی تھی۔ ان کے پاس کام کرنے والے لاتعداد سیاہ فام ہوتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ Gullahلوگوں نے creole ثقافت اپنالی جس میں افریقی زبانوں، ثقافتوں اور کمیونٹی لائف کے عناصر زیادہ شدت کے ساتھ نمایاں تھے۔
ان کی ثقافت کچھ انداز سے تشکیل پاتی رہی کہ سیاہ فاموں اور سفید فاموں کے درمیان تعلق بھی مضبوط ہوتا رہا اور ان کے درمیان مثبت تعلق بھی استوار ہوتا رہا۔ چناں چہ ان کی تہذیب و ثقافت میں امریکی اور برطانوی تہذیب و ثقافت نے اپنی جڑیں بنالیں۔ اس کے باوجود آج بھی Gullah لوگوں کی روایات اور ان کی زندگی کے طور طریقوں میں افریقی اثرات نمایاں ہیں۔
٭خانہ جنگی کا زمانہ:
جب ریاست ہائے متحدہ امریکا میں خانہ جنگی چھڑی تو یونین یعنی شمالی امریکا کے لوگوں نے سمندر کی طرف سے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر سی آئی لینڈز کے چاول کے سفید فام کاشت کاروں نے اپنی کاشت کاری ختم کی اور اپنے گھروں کی طرف بھاگے۔ جب یونین کی فوجیں 1861میں Sea Islandsپہنچیں تو انہوں نے دیکھا کہ Gullah قوم کے لوگ آزادی کے خواہش مند تھے۔ مگر ساتھ ہی وہ اپنی زمین کی حفاظت بھی کرنا چاہتے تھے۔ چناں چہ متعدد Gullahلوگوں نے یونین آرمی کے ''فرسٹ ساؤتھ کیرولینا والنٹیئرز'' میں خدمات بھی انجام دیں۔
The Sea Islands جنوب میں وہ پہلا مقام تھا جہاں غلاموں کو آزادی ملی۔ جنگ ختم ہونے سے بہت پہلے پنسلوانیا کی وحدانیت کی حامی مشنریز نے ان آزاد غلاموں کے لیے نئے اسکول کھولے اور ان کی مذہبی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ Penn Centerاب Gullah برادری کی ترقی اور بہبود کے لیے کام کرنے والا وہ بنیادی ادارہ تھا جو سینٹ ہیلینا کے جزیرے (جنوبی کیرولینا) میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ آزاد کردہ غلاموں کا پہلا باقاعدہ اسکول تھا۔
٭جنگ کا خاتمہ اور تنہائی کا احساس:
جب جنگ ختم ہوگئی تو Gullah لوگوں کو اپنی تنہائی کا احساس زیادہ شدت سے ہوا۔ یہ لوگ واقعی بیرونی دنیا سے بالکل کٹے ہوئے تھے۔ سفید فام کاشت کار لیبر کے مسائل کی وجہ سے چاول کی کاشت سے خود کو الگ کرچکے تھے۔ پھر اس علاقے میں سمندری اور ہوائی طوفان بھی آتے رہتے تھے۔
دوسری طرف آزاد کردہ سیاہ فام غلام اب چاول کے ان خطرناک کھیتوں میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں تھے جو وبائی امراض کا گڑھ بن چکے تھے۔پھر یہ بھی ہوا کہ 1890کے عشرے میں آنے والے سمندری اور ہوائی طوفانوں نے یہاں کی فصلوں کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ اس کے باوجود Gullahلوگ اپنے قدیم طرز زندگی اور اپنی صدیوں پرانی ثقافت کے ساتھ اس علاقے میں رہتے رہے۔
٭Gullahلوگوں کی نئی تاریخ:
حالیہ برسوں میں Gullah لوگوں نے Penn Centerاور دوسرے کمیونٹی گروپس کی قیادت میں اپنی روایتی زمینوں پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے بڑی جدوجہد کی۔ 1960کے عشرے سے اس علاقے کو کافی ترقی ملی تو یہاں کی زمینوں کی قیمتیں بھی بڑھیں جس کے بعد Gullahلوگوں کی زمینوں کے لیے ملکیت کے مسائل پیدا ہوئے اور انہوں نے قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے سیاسی طریقوں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑی۔ یہ لوگ شروع سے ہی اپنی روایتی ثقافت کے تحفظ کے لیے سرگرم تھے۔
غرض ان لوگوں کو کامیابیاں ملتی چلی گئیں۔ 2006میں Gullahلوگوں کو دوسری بڑی کام یابی اس وقت ملی جب امریکی کانگریس نے "Gullah/Geechee Cultural Heritage Corridor Act" منظور کیا۔ اس کے تحت Gullahکلچر کے تاریخی مقامات کے تحفظ کے لیے دس سال کے عرصے میں 10ملین امریکی ڈالر فراہم کیے جائیں گے۔ یہ ہیری ٹیج کوریڈور جنوبی و شمالی کیرولینا سے شمالی فلوریڈا تک پھیلا ہوا ہوگا۔
یہ پراجیکٹ امریکا کے ادارے نیشنل پارک سروس کی زیرنگرانی کام کرے گا، لیکن اس کام میں Gullahبرادری کی مشاورت ضرور شامل ہوگی۔ آج Gullahبرادری کی ترقی اور خوش حالی کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ مغربی افریقا تک پہنچ چکی ہے۔ ان گروپس نے سیرے لیون آنے کے تین خصوصی دن "homecomings" بھی منائے تھے، پہلا 1989میں، دوسرا1997میں اور تیسرا2005میں۔
٭آج کے Gullah:
آج Gullahلوگ بین الاقوامی برادری کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کام یاب ہوچکے ہیں۔ متعدد تاریخ داں، ماہرِلسانیات، لوک قصوں اور کہانیوں پر کام کرنے والے اور سماجی سائنس داں بھی Gullah کے زبردست ثقافتی ورثے میں دل چسپی لے رہے ہیں۔
اس موضوع پر متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ یہ قوم اس وقت پوری ریاست ہائے متحدہ امریکا میں سیاہ فاموں کے لیے فخر اور اعزاز کی علامت بن چکی ہے۔ یہ لوگ ذرائع ابلاغ میں بھی خوب دکھائی دیتے ہیں۔ آج اس قوم کے بارے میں دنیا بھر کے بے شمار اخبارات اور رسائل میں مضامین شائع ہورہے ہیں۔
اس قوم پر بے شمار دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں۔ Gullahکلچر پر بچوں کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اس خطے کے حوالے سے معروف ناول نگاروں کے نہایت دل چسپ ناول بھی دنیا بھر میں شائع ہوچکے ہیں، جن میں اس علاقے کی تہذیب و ثقافت دکھائی گئی ہے۔ Gullahقوم ہر سال اپنے زیریں علاقوں میں متعدد کلچرل تہواروں کا انعقاد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر Hilton Head Island میں ہرسال فروری کے مہینے میں ایک کلچر شو منعقد ہوتا ہے جس میں مختلف قسم کے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔
اس موقع پر کتابوں کی نمائش بھی ہوتی ہے اور مختلف ڈرامے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مئی اور نومبر کے مہینوں میں بھی یہاں مختلف عوامی تہوار منائے جاتے ہیں۔ یہ تمام تہوار مقامی طور پر تو منائے جاتے ہیں، مگر بعض تہوار پورے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں منائے جاتے ہیں جن میں خاص طور سے Gullahتہذیب و ثقافت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
اس قوم کی روایات سی آئی لینڈز وغیرہ کے زیریں اور دیہی علاقوں میں مضبوط ہیں، بلکہ یہ شہری علاقوں جیسے چارلسٹن اور سوانا میں بھی کافی مستحکم ہیں۔ Gullahلوگ اپنی سرزمین کے زیریں علاقوں سے نقل مکانی کرکے دوسرے علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں، مگر ہر جگہ اپنے ساتھ اپنی روایات بھی لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی روایات کو برقرار رکھنے کے لیے شہری علاقوں سے اکثر و بیشتر اپنے آبائی یعنی دیہی علاقوں میں آتے جاتے رہتے ہیں، تاکہ ان کی روایات زندہ رہیں۔
یہ قوم اصل میں ان افریقی غلاموں کی نسل سے ہے جو امریکی ریاست جنوبی کیرولینا اور جارجیا کے زیریں علاقوں میں رہتے ہیں، جن میں ساحلی میدان کے ساتھ ساتھ سمندری جزائر بھی شامل ہیں۔ تاریخی طور پرGullahکا خطہ شمالی کیرولینا کے ساحل پر کیپ فیئر کے علاقے سے جنوب میں فلوریڈا کے ساحل تک وسعت پاگیا تھا، مگر آج Gullah صرف جنوبی کیرولینا اور جارجیا کے زیریں علاقے تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔
Gullah کے لوگوں اور ان کی زبان دونوں کو Geechee بھی کہا جاتا ہے۔ بعض اسکالرز کا کہنا ہے کہ ان کا یہ نام دریائے Ogeecheeکے نام پر پڑا ہوگا جو سوانا جارجیا کے قریب بہتا ہے۔ Gullahاور Geecheeلوگ انگریزی اور افریقی زبانوں کی ایک ملی جلی زبان بولتے ہیں جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک نیا ہی لہجہ اختیار کرلیا ہے۔ جارجیا کی برادریاں جو زبان بولتی ہیں، اس کے دو لہجے ہیں: ایک لہجہ نمکین پانی والی Geechee کہلاتا ہے تو دوسرے کو تازے پانی والی Geechee کہا جاتا ہے۔
اس کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ کون سا لہجہ بولنے والی برادری ساحل سے کتنی قریب یا دور ہے۔ دیہی علاقوں میں تنہا رہ جانے کی وجہ سے Gullahلوگوں نے ایک ایسا کلچر اختیار کرلیا، جس میں ان کی افریقا والی لسانی اور ثقافتی جھلک زیادہ نمایاں ہے۔
یہاں رہنے والے مختلف لوگوں کی زبانیں اور روایات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں، اس لیے وہ سب مل کر ایک نیا ہی روپ اختیار کرگئیں، مگر خاص بات یہ ہے کہ اس میں خطے کے نئے اثرات زیادہ نمایاں طور پر شامل ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ creole زبان کی ایک ایسی قسم بولتے ہیں جس کی بنیاد تو انگریزی ہے، لیکن اس پر زیادہ توانا اثرات افریقی قدیم و جدید زبانوں کے ہیں، خاص طور سے ان کی گرامر اور جملوں کی ساخت وہی قدیم طرز کی یعنی افریقی ہے۔
٭قدیم تاریخ:
ماہرین ایک خیال یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ممکن ہے لفظ Gullahانگولا سے لیا گیا ہو جہاں کچھ Gullah لوگوں کے آباو اجداد سب سے پہلے آباد ہوئے تھے جہاں بے شمار دوسرے افریقی لوگ اور قبیلے بھی آباد تھے۔ ان سب کی الگ الگ ثقافتیں تھیں جن کے آپس میں ملنے سے ایک نئی ثقافت تخلیق ہوئی۔ دوسری طرف بعض اسکالرز کا یہ خیال ہے کہ یہ لفظ یعنی Gullah ایک اور لفظ Golaسے لیا گیا ہوگا، یہ وہ علاقہ ہے جو آج کے دور کے سیرے لیون اور مغربی افریقی ملک لائبیریا کی سرحد پر واقع ہے۔
اس مقام پر بہت سے Gullahلوگوں کے آباو اجداد رہتے تھے۔ اس خطے کو برطانوی نوآباد کار "Grain Coast"یا "Rice Coast"کہا کرتے تھے۔ Geecheeوہ نام ہے جو Gullah لوگوں کا دوسرا سب سے عام اور مقبول نام ہے۔ ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ نام سیرے لیون، گنی اور لائبیریا کے سرحدی علاقے Kissiسے لیا گیا ہے۔
لیکن کچھ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ یہ نام یا الفاظ دیسی امریکیوں کے اصل علاقوں سے آیا ہے اور یہاں پہنچ کر اس کی ساخت بگڑ گئی۔ اسپین کے لوگ جنوبی کیرولینا اور جارجیا کے ساحلی خطے کو Gualeکہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ نام ایک قدیم امریکی قبیلے کا ہے۔ دریائے Ogeecheeجارجیا کے ساحلی خطے کا ایک نمایاں جغرافیائی پہلو ہے اور یہ نام ایک قدیم سمندری کھاڑی کا بھی ہے۔
٭افریقی جڑیں:
پورٹ آف چارلسٹن کے ریکارڈ کے مطابق کسی زمانے میں افریقی غلام اس بندرگاہ پر ان علاقوں سے لائے گئے تھے: انگولا، سینے گیمبیا، ونڈورڈ کوسٹ، گولڈ کوسٹ، سیرے لیون، مڈغاسکر، موزمبیق اور دو کھاڑیاں۔ خیال ہے کہ مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے لگ بھگ تین ہزار سال پہلے تک افریقی چاول کاشت کیا تھا۔ جب انگریزوں کو یہ اندازہ ہوا کہ جنوبی امریکا میں چاول پیدا کیا جاسکتا ہے تو انہوں نے چاول پیدا کرنے والے افریقی علاقوں سے افریقی غلام بھی منگوانے کا ارادہ کیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ غلام نہ صرف صحت مند و توانا تھے، بلکہ زراعت، آب پاشی، ڈیم بنانے اور اسی طرح کے دیگر کام کرنے میں بھی ماہر تھے۔ چناں چہ مغربی افریقا میں غلام بنائے جانے والے افریقیوں کو یہاں بھیجا جانے لگا۔ اس طرح جنوبی کیرولینا اور جارجیا میں غلاموں کی ایک منڈی قائم ہوگئی۔ گھانا کے غلاموں کے قلعوں سے متعدد غلام جزائر غرب الہند بھی لائے گئے۔
1808میں برطانیہ اور امریکا دونوں نے ہی افریقی غلاموں کی تجارت پر پابندی لگادی۔ بعد میں غلاموں کے حقوق کے لیے امریکا اور برطانیہ دونوں نے ہی کالونیاں اور سوسائٹیاں قائم کردیں، تاکہ یہ لوگ بھی آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ اس کے بعد ان کے لیے جدوجہد شروع ہوئی جس میں آخرکار کام یابی ملی۔
٭Gullah ثقافت اور چاول کی کہانی:
Gullahقوم نے اپنی افریقی تہذیب و ثقافت کا بڑی دل جمعی کے ساتھ تحفظ کیا ہے۔ یہ لوگ آج بھی صدیوں پرانی روایات کے امین ہیں۔ برطانوی تاریخ داں پی ای ایچ ہیئر کا کہنا ہے:''اصل میں Gullah کلچر ریاست ہائے متحدہ امریکا اور غلاموں کی کالونیوں میں creoleکے طور پر تشکیل پایا تھا۔ یہ کلچر افریقا سے آنے والوں کی وجہ سے ان علاقوں میں پہنچا۔
ان میں درج ذیل اقوام کی تہذیب و ثقافت شامل تھی: Wolof, Mandinka, Fula, Baga, Susu, Limba, Temne, Mende, Vai, Kissi, Kpelle وغیرہ، جن کا تعلق رائس کوسٹ اور گولڈ کوسٹ، کالابار، کانگو جمہوریہ اور انگولا وغیرہ سے تھا۔اٹھارہویں صدی کے وسط تک جنوبی کیرولینا اور جارجیا کے زیریں علاقوں اور سمندری جزائر میں بھی چاول کے کھیت بڑے پیمانے پر ظہور میں آچکے تھے۔ رائس کوسٹ سے آنے والے افریقی کاشت کار اپنے ساتھ زراعت کی بھرپور صلاحیت لائے تھے۔ ان کے پاس مدوجزر سے آنے والے پانی کو آب پاشی میں استعمال کرنے کی صلاحیت بھی تھی اور اسی چیز نے ابتدائی امریکا میں چاول کو سب سے کام یاب صنعت بنادیا تھا۔
٭مخصوص وبائی بیماریاں:
دوسری جانب نیم استوائی آب و ہوا نے اس علاقے میں ملیریا اور زرد بخار کو عام کردیا۔ یہ وبا مچھر اپنے ساتھ لائے تھے۔ یہ استوائی امراض افریقا میں عام تھے اور غلاموں کے ذریعے کالونیوں میں پہنچے۔ دلدلی علاقوں کے مچھروں نے اور زیریں علاقوں کے چاول کے کھیتوں میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑوں نے ان بیماریوں کو انگریزی اور یورپین آبادکاروں تک پہنچادیا۔ ملیریا اور زرد بخار جلد ہی اس خطے کے وبائی مرض بن گئے۔ لیکن چوں کہ افریقی اپنے مخصوص اور آبائی علاقوں میں ان بیماریوں کے خلاف تھوڑی بہت مزاحمت پیدا کرچکے تھے، اس لیے وہ یورپی اقوام کے مقابلے میں استوائی امراض سے کسی حد تک محفوظ رہے۔
ایک طرف چاول کی صنعت ترقی پاتی رہی تو ساتھ ہی پلانٹرز افریقی غلاموں کو بھی امپورٹ کرتے رہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لگ بھگ 1708تک جنوبی کیرولینا میں سیاہ فاموں کی اکثریت ہوگئی اور ساحلی جارجیا میں اس وقت سیاہ فام اکثریت میں آگئے جب اٹھارہویں صدی کے وسط تک وہاں چاول کی کاشت خوب وسعت پاگئی۔ لیکن ساتھ ہی انہیں ملیریا اور زرد بخار جیسے وبائی امراض کا تحفہ بھی ملا۔
موسم بہار اور موسم گرما کی بارشوں میں جب یہ بیماریاں زور پکڑتیں تو سفید فام کاشت کار اور ان کے سفید فام مالک ان زیریں علاقوں کو عارضی طور پر چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اس وقت ان علاقوں پر سیاہ فاموں کی حکومت ہوتی تھی۔ ان کے پاس کام کرنے والے لاتعداد سیاہ فام ہوتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ Gullahلوگوں نے creole ثقافت اپنالی جس میں افریقی زبانوں، ثقافتوں اور کمیونٹی لائف کے عناصر زیادہ شدت کے ساتھ نمایاں تھے۔
ان کی ثقافت کچھ انداز سے تشکیل پاتی رہی کہ سیاہ فاموں اور سفید فاموں کے درمیان تعلق بھی مضبوط ہوتا رہا اور ان کے درمیان مثبت تعلق بھی استوار ہوتا رہا۔ چناں چہ ان کی تہذیب و ثقافت میں امریکی اور برطانوی تہذیب و ثقافت نے اپنی جڑیں بنالیں۔ اس کے باوجود آج بھی Gullah لوگوں کی روایات اور ان کی زندگی کے طور طریقوں میں افریقی اثرات نمایاں ہیں۔
٭خانہ جنگی کا زمانہ:
جب ریاست ہائے متحدہ امریکا میں خانہ جنگی چھڑی تو یونین یعنی شمالی امریکا کے لوگوں نے سمندر کی طرف سے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر سی آئی لینڈز کے چاول کے سفید فام کاشت کاروں نے اپنی کاشت کاری ختم کی اور اپنے گھروں کی طرف بھاگے۔ جب یونین کی فوجیں 1861میں Sea Islandsپہنچیں تو انہوں نے دیکھا کہ Gullah قوم کے لوگ آزادی کے خواہش مند تھے۔ مگر ساتھ ہی وہ اپنی زمین کی حفاظت بھی کرنا چاہتے تھے۔ چناں چہ متعدد Gullahلوگوں نے یونین آرمی کے ''فرسٹ ساؤتھ کیرولینا والنٹیئرز'' میں خدمات بھی انجام دیں۔
The Sea Islands جنوب میں وہ پہلا مقام تھا جہاں غلاموں کو آزادی ملی۔ جنگ ختم ہونے سے بہت پہلے پنسلوانیا کی وحدانیت کی حامی مشنریز نے ان آزاد غلاموں کے لیے نئے اسکول کھولے اور ان کی مذہبی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ Penn Centerاب Gullah برادری کی ترقی اور بہبود کے لیے کام کرنے والا وہ بنیادی ادارہ تھا جو سینٹ ہیلینا کے جزیرے (جنوبی کیرولینا) میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ آزاد کردہ غلاموں کا پہلا باقاعدہ اسکول تھا۔
٭جنگ کا خاتمہ اور تنہائی کا احساس:
جب جنگ ختم ہوگئی تو Gullah لوگوں کو اپنی تنہائی کا احساس زیادہ شدت سے ہوا۔ یہ لوگ واقعی بیرونی دنیا سے بالکل کٹے ہوئے تھے۔ سفید فام کاشت کار لیبر کے مسائل کی وجہ سے چاول کی کاشت سے خود کو الگ کرچکے تھے۔ پھر اس علاقے میں سمندری اور ہوائی طوفان بھی آتے رہتے تھے۔
دوسری طرف آزاد کردہ سیاہ فام غلام اب چاول کے ان خطرناک کھیتوں میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں تھے جو وبائی امراض کا گڑھ بن چکے تھے۔پھر یہ بھی ہوا کہ 1890کے عشرے میں آنے والے سمندری اور ہوائی طوفانوں نے یہاں کی فصلوں کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ اس کے باوجود Gullahلوگ اپنے قدیم طرز زندگی اور اپنی صدیوں پرانی ثقافت کے ساتھ اس علاقے میں رہتے رہے۔
٭Gullahلوگوں کی نئی تاریخ:
حالیہ برسوں میں Gullah لوگوں نے Penn Centerاور دوسرے کمیونٹی گروپس کی قیادت میں اپنی روایتی زمینوں پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے بڑی جدوجہد کی۔ 1960کے عشرے سے اس علاقے کو کافی ترقی ملی تو یہاں کی زمینوں کی قیمتیں بھی بڑھیں جس کے بعد Gullahلوگوں کی زمینوں کے لیے ملکیت کے مسائل پیدا ہوئے اور انہوں نے قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے سیاسی طریقوں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑی۔ یہ لوگ شروع سے ہی اپنی روایتی ثقافت کے تحفظ کے لیے سرگرم تھے۔
غرض ان لوگوں کو کامیابیاں ملتی چلی گئیں۔ 2006میں Gullahلوگوں کو دوسری بڑی کام یابی اس وقت ملی جب امریکی کانگریس نے "Gullah/Geechee Cultural Heritage Corridor Act" منظور کیا۔ اس کے تحت Gullahکلچر کے تاریخی مقامات کے تحفظ کے لیے دس سال کے عرصے میں 10ملین امریکی ڈالر فراہم کیے جائیں گے۔ یہ ہیری ٹیج کوریڈور جنوبی و شمالی کیرولینا سے شمالی فلوریڈا تک پھیلا ہوا ہوگا۔
یہ پراجیکٹ امریکا کے ادارے نیشنل پارک سروس کی زیرنگرانی کام کرے گا، لیکن اس کام میں Gullahبرادری کی مشاورت ضرور شامل ہوگی۔ آج Gullahبرادری کی ترقی اور خوش حالی کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ مغربی افریقا تک پہنچ چکی ہے۔ ان گروپس نے سیرے لیون آنے کے تین خصوصی دن "homecomings" بھی منائے تھے، پہلا 1989میں، دوسرا1997میں اور تیسرا2005میں۔
٭آج کے Gullah:
آج Gullahلوگ بین الاقوامی برادری کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کام یاب ہوچکے ہیں۔ متعدد تاریخ داں، ماہرِلسانیات، لوک قصوں اور کہانیوں پر کام کرنے والے اور سماجی سائنس داں بھی Gullah کے زبردست ثقافتی ورثے میں دل چسپی لے رہے ہیں۔
اس موضوع پر متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ یہ قوم اس وقت پوری ریاست ہائے متحدہ امریکا میں سیاہ فاموں کے لیے فخر اور اعزاز کی علامت بن چکی ہے۔ یہ لوگ ذرائع ابلاغ میں بھی خوب دکھائی دیتے ہیں۔ آج اس قوم کے بارے میں دنیا بھر کے بے شمار اخبارات اور رسائل میں مضامین شائع ہورہے ہیں۔
اس قوم پر بے شمار دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں۔ Gullahکلچر پر بچوں کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اس خطے کے حوالے سے معروف ناول نگاروں کے نہایت دل چسپ ناول بھی دنیا بھر میں شائع ہوچکے ہیں، جن میں اس علاقے کی تہذیب و ثقافت دکھائی گئی ہے۔ Gullahقوم ہر سال اپنے زیریں علاقوں میں متعدد کلچرل تہواروں کا انعقاد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر Hilton Head Island میں ہرسال فروری کے مہینے میں ایک کلچر شو منعقد ہوتا ہے جس میں مختلف قسم کے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔
اس موقع پر کتابوں کی نمائش بھی ہوتی ہے اور مختلف ڈرامے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مئی اور نومبر کے مہینوں میں بھی یہاں مختلف عوامی تہوار منائے جاتے ہیں۔ یہ تمام تہوار مقامی طور پر تو منائے جاتے ہیں، مگر بعض تہوار پورے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں منائے جاتے ہیں جن میں خاص طور سے Gullahتہذیب و ثقافت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
اس قوم کی روایات سی آئی لینڈز وغیرہ کے زیریں اور دیہی علاقوں میں مضبوط ہیں، بلکہ یہ شہری علاقوں جیسے چارلسٹن اور سوانا میں بھی کافی مستحکم ہیں۔ Gullahلوگ اپنی سرزمین کے زیریں علاقوں سے نقل مکانی کرکے دوسرے علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں، مگر ہر جگہ اپنے ساتھ اپنی روایات بھی لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی روایات کو برقرار رکھنے کے لیے شہری علاقوں سے اکثر و بیشتر اپنے آبائی یعنی دیہی علاقوں میں آتے جاتے رہتے ہیں، تاکہ ان کی روایات زندہ رہیں۔