مسائل کے بھی ماں اور باپ ہوتے ہیں…
ایک چینی کہاوت بھی ہے کہ جو بھوکا تم سے کھانے کو مانگے، اسے مچھلی نہ دو بلکہ مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھاؤ۔
رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا یہ واقعہ کون نہیںجانتا کہ جب آپ ﷺ اپنے اصحابہ کرا م ؓکے ساتھ تشریف فرما تھے تو ایک آدمی آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا، اس کے چہرے سے مفلسی ٹپکتی تھی، اس نے آنحضور ﷺ سے عرض کی کہ اس کی مدد فرمائیں تا کہ وہ اپنے بال بچوں کے پیٹ بھرنے کا سامان کر سکے۔
آپ ﷺ کے ایک اشارہ ابرو پر صحابہ کرام ؓ اپنے تن ، من اور دھن تک قربان کرنے کو ہمہ وقت حاضر... آپ ﷺ نے سوالیہ نظروں سے اپنے پیارے صحابہ ؓ کی جانب دیکھا، وہ تو یوں بھی ہمہ وقت جان نثار کرنے کو تیار رہتے تھے، جس کو جو سکت ہوئی... کچھ رقم جمع ہوئی تو آپ ﷺ نے وہ رقم اس شخص کو دی جس نے دست سوال دراز کیا تھا مگر ساتھ ہی اس سے کہا کہ اس رقم سے اسے کھانا نہیں خرید کر لے جانا تھا بلکہ اسے تجویز کیا کہ اس رقم سے وہ کلہاڑا اور رسہ خریدے... جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچے اور اس رقم سے گھر والوں کے لیے کھانے کا سامان لے کر جائے۔
آنحضور ﷺ کی حیات طیبہ کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی اپنے پس منظر میں عام نہیں ہوتا... یہ بھی کسی غریب اور ضرورت مند کی مدد کرنے کا وہ واقعہ ہے جس کے پیچھے ایک اہم سبق ہے، وہ سبق جسے ہم اخذ نہیں کر سکے۔ہم کیا اور ہماری مجال کیا کہ ہم ان کے پیروں کی دھول سے بھی حقیر ہیں مگر ان کے امتی ہونے کا شرف ہے تو ان کی حیات طیبہ سے ہر وہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جو ہمارے لیے ایک ضابطۂ حیات کی مانند ہے۔
ایک چینی کہاوت بھی ہے کہ جو بھوکا تم سے کھانے کو مانگے، اسے مچھلی نہ دو بلکہ مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھاؤ، یہ بالکل یہی بات ہے جس کے ڈانڈے چودہ سو سال پہلے جا ملتے ہیں ۔ہم گھر سے نکلتے ہیں تو دن بھر کے کام کار میں ہمارا واسطہ درجنوں ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے خود کو ضرورت مند ظاہر کرتے ہیں، انھیں فقط رقم چاہیے ہوتی ہے، کسی کی موٹر سائیکل خراب ہو گئی ہے تو اس کے پاس ویگن کا کرایہ نہیں، کسی کی بائیک میں پٹرول ختم ہو گیا ہے اور اسے ٹیکسلا واپس جانا ہے تو اسے پٹرول کے لیے پیسے چاہئیں، کسی کو خاوند نے گھر سے نکال دیا ہے، کسی کے پاس ماں کا آپریشن کروانے کے لیے رقم نہیں،کوئی ننگ دھڑنگ بچہ لیے گھوم رہی ہو گی ( جانے وہ بچہ کس کا ہوتا ہے)
ہم سب ان مناظر کو دیکھتے ہیں، کبھی پیدل، کبھی گاڑی میں سے، کبھی ہمیں ترس آتا ہے، کبھی غصہ اور کبھی کراہت، کبھی ہم انھیں کچھ دے دیتے ہیں اور کبھی انھیں پیشہ ور جان کر منہ پھیر لیتے ہیں... آپ انھیں کچھ دیں یا نہ دیں، مگر انھیں کام کرنے کا مشورہ دے کر دیکھ لیں، آپ کی شان میں جو قصیدے یہ پڑھیں گے وہ آپ کبھی سننا نہیں چاہیں گے۔ ہم سب اس کے مستحق ہیں کیونکہ انھیں گداگر ہم نے ہی بنایا ہے!!!
ان گداگروں کو بنانے میں ہم سب شریک ہیں، ہم ان کو سمجھا تو سکتے ہیں کہ کوئی گھٹیا سے گھٹیا کام بھی بھیک مانگنے سے بہتر اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں کہیں افضل ہے۔ جب آپ کا واسطہ کسی ایسے مانگنے والے سے پڑے جو آپ سے نظر نہ ملا پا رہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مجبور ہے، اس کی مدد کریں، اسے اس کے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دیں ۔ اسے اتنا دے دیں کہ وہ کوئی کام شروع کر سکے، چھوٹے سے چھوٹا، اخبار بیچ لے یا ابلے ہوئے انڈے، مونگ پھلیاں یا گنڈیریاں، گاڑیاں صاف کرنے کے کپڑے، پاپڑ یا بھنے ہوئے دانے۔ اس کی مدد کریں اس میں کہ وہ سر اٹھا کر جی سکے۔
مگر ہم کیا کر رہے ہیں کہ ملک میں چپے چپے پر لنگر اور مفت میں کھانا کھلانے کے مراکز بن گئے ہیں، بھوکے کو کھانا کھلانے کا بڑا اجر ہے، ثواب ہے، اس میں کوئی شک نہیں مگر کیا اس سے ہم لوگوں میں مفت خوری کی عادت نہیں پھیلا رہے؟ کیا ایسا نہیں ہو رہا کہ لوگ مفت کھانے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں ،یہ لوگ کچھ کام نہیں کرتے اور پیٹ بھرنے کے لیے عین لنگر کے وقت پر وہاں پہنچ جاتے ہیں، کیا اس سے ہم گداگری ہی کی ایک شکل کو فروغ نہیں دے رہے؟
میں چند دنوں سے اپنے روزکے راستے میں دیکھ رہی تھی کہ کچھ کچھ فاصلے پر اپنی تیسی ، کرنڈی یا کدال بیلچہ لیے ہوئے ہٹے کٹے لوگ کھڑے ہیں، جونہی گاڑی سگنل پر رکتی ہے وہ لپک کر آتے ہیں اور شروع ہو جاتے ہیں، '' باجی صبح سے انتطار میں اڈے پر کھڑا تھا، کوئی مزدوری نہیں ملی، گھر واپس کس منہ سے جاؤں ، چولہا آج بھی ٹھنڈا رہے گا مگر اگر آپ مہربانی کر دیں تو کم از میں رات کے لیے بچوں کے لیے کھانے کے لیے کچھ لے جاؤں ورنہ آج بھی میرے بچے بھوکے سو جائیں گے '' دل میں درد کی ایک لہر اٹھتی ہے اور آپ پگھلنے لگتے ہیں، مگر ٹھہرئیے، ان مزدوروں کے '' گیٹ اپ'' والوں کو میں نے ہر روز ان ھی مخصوص جگہوں پر دیکھنا شروع کر دیا تو اندازہ ہوا کہ یہ وہ مزدور ہیں کہ جنھیں مزدوری کرنا ہی نہیں، یہ ایک نیا سٹنٹ ہے!!
بڑے چھوٹے ہر شہر کے چپے چپے کے حسن کو گہناتے ہوئے یہ گداگر، آپ کو کئی بار اپنے انداز سے خوف زدہ کر دیتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بسا اوقات ان کے بھیس میں چور اچکے بھی ہوتے ہوں گے۔ قانون تو کیا پاس ہو گا کہ کوئی بھی حکومت گدا گری کی لعنت کو اس وقت تک ختم نہیں کر سکتی جب تک وہ گداگروں کو خوفناک سزاؤں سے خوفزدہ نہ کرے اور انھیں متبادل ذرائع آمدن فراہم نہ کرے ۔ بالخصوص ایسے مراکز بنانے کی ضرورت ہے جہاں انھیں مختلف کام سکھائے جائیںجو کہ ان کی گذر اوقات کے لیے کام آ سکیں ۔
جو بھیک مانگتا پکڑا جائے اسے ان مراکز میں رکھا جائے، ان کی rehabilitation کا انتظام ہو، انھیں بتایا جائے کہ ان کے پیشے کے حامل افراد کی نہ اس دنیامیں عزت ہے نہ آخرت میں، کوئی معاشرہ اس لعنت کو درست نہیں سمجھتا، ان میں احساس بیدارکرنے کی ضرورت ہے۔جو لوگ ہر روز بھوکوں کو کھانا کھلانے کے نت نئے مراکز کھول رہے ہیں، ان مراکز کی اس طرح سرپرستی کی ضرورت ہے کہ وہاں کہیں روز کے عادی لوگ تو کھانے کے وقت جمع نہیں ہو جاتے؟ حکومت... نہ صرف حالیہ بلکہ ماضی کی تمام حکومتیں بھی ملک میں موجود اس اہم اور بڑے مسئلے کو کبھی مسئلہ سمجھ ہی نہیں سکیں۔
جب اسے مسئلہ ہی نہیں سمجھا تو اس کے تدارک کا بھی نہیں سوچا گیا۔ کسی حکومت کو احساس نہیں ہو سکا کہ بھوک اور افلاس اس ملک کے وہ مسائل ہیں جو اس ملک کے ہر مسئلے کے ماں اور باپ ہیں، سب برائیاں، بیماریاں، جرائم ، دھوکے، کرپشن، ناانصافی، قتل، دہشت گردی، دھماکے، اغواء اور دیگر سب وارداتیں انھیں ماں باپ کے بطن سے جنم لیتی ہیں، ہم تو مشہور ہیں کہ اپنی غربت سے مجبور ہو کر ہم اپنی ماں کا سودا بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، یہ ہم پر اخلاقی گراوٹ کا بدترین الزام ہے ، لیکن کہیں یہ الزام درست تو نہیں؟؟
اپنے گریبان میں جھانکیں، کیا ہم نے کبھی اپنی حیثیت میں کسی کی مدد کی کہ اس کی بھوک، غربت اور افلاس کے مسائل کا خاتمہ ہو سکے، کیا ہم نے کسی کا تن ڈھانکا، کسی کا پیٹ بھرا، کسی کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچایا، کسی کو برائی کے راستے سے ہٹا کر اچھائی کا شعور اجاگر کیا؟ اگر نہیں کیا تو اب کر لیں، اس معاشرے میں اتنے بگاڑ ہیں کہ ان کے سدھار کے لیے اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی کاموں کی ضرورت ہے۔
سیاسی لیڈروں سے تبدیلی کی توقع نہ کریں ، نہ ہی سوچیں کہ دھرنے اور جلسے ہماری سوچ میں تبدیلی لے آئیں گے یا اس ملک کے غربت کی چکی میں پسنے والوں کی تقدیر بدل دیں گے۔ ایسی تبدیلیاں صرف ایوانوں میں آتی ہیں، اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھنے والوں کے چہرے بدل جاتے ہیں اور غریب غریب ہی رہتا ہے، گداگر گداگر ہی رہتا ہے، کیونکہ ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمیں ہر وہ چیز آسانی سے میسر آ جائے، وہ جو ہم چاہتے ہیں، درست وہ ہے جو ہماری خواہش ہے باقی سب فضول ہے، ہمیں آئینے میں صرف اپنا چہرہ صاف اور دوسروں کے چہرے ہمیں مکروہ اور ناپسندیدہ نظر آتے ہیں۔
تبدیلی یوں نہیں آتی جس طرح آپ لباس تبدیل کر لیں گے بلکہ تبدیلی اس معاشرے کا مسخ شدہ چہرہ درست کرنے کا نام ہے، جس میں سے ایک اہم مسئلے کا اس کالم میں ذکر ہے، بڑھائیں تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہم سب پھر؟؟؟