زندگی کے قافلے پر موت کی یلغار
سختی سے نوٹس لینے کی آوازیں اَس وقت گونجتی ہیں جب کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے، جب کوئی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو لیتا ہے۔
''جان کاخطرہ تو ہے، لیکن اس غربت اور بے روزگاری میں اتنا خطرہ تو مول لینا ہوگا۔ ہاں دو بوند زندگی ہی تو پلانی ہے اپنے ملک کے بچوں کو۔ یہ چھوٹی سی نیکی میرے حصے میں آجائے گی تو مجھے کچھ پیسوں کے ساتھ خوشی بھی تو نصیب ہوگی۔ دو سو پچاس روپے اس منہگائی کے دور میں بہت کم ہیں، لیکن مجھے اچھا لگتا ہے معصوم بچوں کو اپنی آغوش میں لے کر زندگی کی دو بوند دینا۔''
کچھ ایسا ہی سوچا تھا شاید انھوں نے، ورنہ وہ معمولی سی اجرت کے عوض ہمارے ملک میں خوف کے سائے تلے انجام دیا جانے والا پولیو ورکر کا پیشہ کیوں اپناتیں؟ وہ سب، اپنے ایک مرد ساتھی کے ساتھ، ایک سوزوکی میں بیٹھ کر خوشی خوشی زندگی بانٹنے نکلی تھیں۔ خوشی کچھ یوں بھی تو تھی کہ اب تو حکومت نے ان کی حفاظت کا ذمہ لے لیا تھا، سو اب کیسا خوف۔ کتنی معصوم اور انجان تھیں وہ، حکومت تو ماضی میں بھی ایسے دعوے کرتی آئی ہے۔
دعوے کرنا تو بہت آسان ٹھہرا۔ لیکن سارے دعوے دھر ے کہ دھرے رہ گئے جب 2 موٹر سائیکلوں پر سوار 4 مسلح دہشت گردوں نے ان کی گاڑی پر اندھادھند فائرنگ کردی۔ وہ معاملہ سمجھ ہی نہ پائی تھیں کہ آخر انھیں کس جرم کی پاداش میں قتل کیا جارہا ہے کہ گولیاں ان کے جسموں میں اتار دی گئیں۔ زندگی بانٹنے والے خود موت کی آغوش میں سونے جارہے تھے اور ان کی آنکھیں اپنا جرم پوچھ رہی تھیں۔
موت کے نرغے میں آنے والے زندگی کے اس کارواں میں شامل تین عورتیں اور ایک مرد اسپتال جاتے ہی دم توڑ گئے اور تین شدید زخمی ہیں۔ کوئی سوال نہ اٹھائیے، کیوںکہ اس مسئلے پر تو بات کرنا بھی شاید جرم قرار پائے، جس کی پاداش میں گولی سینے میں اتار دی جائے، زبان کاٹ دی جائے اور اس سانحے پر لکھنے والا ہاتھ ہی توڑدیا جائے۔ رہی حکومت تو اس کے پاس تو ایسے ہر معاملے پر یکساں جواب موجود ہوتا ہے۔ سختی سے نوٹس لینے کی آوازیں اَس وقت گونجتی ہیں جب کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے، جب کوئی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو لیتا ہے یا جب کسی کا مقدر معذوری بن جاتی ہے۔ جو جان سے جائے اس کے ورثاء کو دس لاکھ دے دو اور جو زخمی ہو اس کا منہ دو لاکھ میں بند کردو۔ یہ رقم بہت ہے ایک ایسے فرد کا اور خاندان کا منہ بند کرنے کے لیے جن کی یومیہ دہاڑی دوسوپچاس روپے ہو اور جو عرصہ دراز سے ملی بھی نہ ہو۔
پولیو ورکرزکی یہ ٹیم کوئٹہ میں جس جگہ حملے کا نشانہ بنی، یعنی مشرقی بائی پاس پر، وہاں ماضی میں بھی اس قسم کے حملے ہوتے رہے ہیں۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد ضلع بھر میں جاری انسداد پولیو مہم غیرمعینہ مدت تک کے لیے روک دی گئی۔ بلوچستان میں نیشنل ایمپلائزیونین اور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا بائیکاٹ کردیا ہے۔
گزشتہ سال سترہ دسمبر کو شروع ہونے والی پولیو مہم کے پہلے دن ایک رضاکار اور مہم کے دوسرے دن4 خواتین رضاکاروں کو شہید کردیا گیا تھا۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی زندگی کے ان قافلوں کو لوٹا جاتا رہا ہے۔ صرف ڈھائی سوروپے کی یومیہ اُجرت کے عوض یہ رضا کار گلی گلی دو بوند زندگی معصوم بچوں کو پلانے کی غرض سے نکلتی ہیں۔ اس دہاڑی میں تو کوئی اور کام بھی ہو سکتا ہے، لیکن یہ ان کا جذبہ ہے، پاکستان کے مستقبل کو اپاہج ہونے سے بچانے کا عزم۔ ان کے اس عزم کو بار بار شکست دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ ہر مرتبہ نئے ولولے کے ساتھ اپنے مقصد کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں اس مرض کے خاتمے کے لیے ڈونرز ایجنسیاں کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں، لیکن ملک میں پولیو پر تاحال قابو نہ پایا جاسکا۔ اگر صرف سندھ کی بات کی جائے تو گزشتہ سال 4لاکھ 44ہزار بچوں کو والدین کی جانب سے پولیو کے قطرے نہ پلائے جانے کا انکشاف ہوا۔ 33 ہزار خاندانوں نے انسداد پولیو مہم میں رجسٹرڈ ہونے کے باوجود بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرکے اس معاملے میں ملک کے آفت زدہ اور دہشت گردی کے شکار صوبے خیبر پختونخواہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
اس انکار کی وجہ لوگوں کو آگاہی فراہم نہ کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ناقص منصوبہ بندی اور بدعنوانی کے باعث اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود حکومت پولیو پر قابو پانے میں ناکام ہو گئی ہے، جس کے بعد ڈونرز کی بڑی تعداد نے پاکستان کو فنڈز دینا بند کردیے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان نے اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک سے پولیو مہم کے لیے35 ملین ڈالر قرض بھی مانگا ہے۔
کراچی کے مختلف اضلاع میں انسداد پولیو مہم کے دوران بڑے پیمانے پر بدعنوانیوںکا انکشاف ہوا۔ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے انسداد پولیو مہم کے لیے ملنے والی امداد میں کرپشن کے پیش نظر فنڈز براہ راست پولیو کارکنوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ چناں چہ اس ادارے کی جانب سے پولیوورکرز کے شناختی کارڈ طلب کیے گئے، تاکہ انھیں بینک کے ذریعے براہ راست ادائیگی کی جائے، تو 80فی صد سے زاید شناختی کارڈ جعلی قرار دیے گئے۔ بعد ازاں اس معاملے کو سلجھایا گیا اور غلط فہمی ظاہر کیا گیا۔
اب حالت یہ ہے کہ ملک کے قبائلی علاقے تو رہے ایک طرف کراچی کی مضافاتی آبادی گڈاپ ٹاؤن میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد رواں برس چلائی جانے والی مہم کے دوران ساڑھے تین لاکھ سے زاید بچے پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہے۔
جہاں تک ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تعلق ہے تو عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا انسداد پولیو مہم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ میڈیا کی غلط خبروں کے ذریعے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تعلق پولیو مہم سے جوڑا گیا، جس سے پولیو مہم کے دوران ویکسینیشن میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور یہی پولیو رضاکاروں پر حملے کی وجہ بنی۔ عالمی ادارۂ صحت کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے مطابق ڈاکٹر شکیل کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے اس نے انسداد پولیو مہم کے ذریعے اسامہ کی ہلاکت میں امریکا کی مدد کی تھی، جب کہ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے، دو قطرے پولیو ڈراپس سے کسی کے ڈی این اے کی جانچ کیسے کی جاسکتی ہے۔ دراصل ڈاکٹر شکیل آفریدی نے غلط بیانی کی کہ اس نے پولیو مہم کے ذریعے ایسا کیا۔ اس غلط بیانی سے لوگ گم راہ ہوئے۔
ڈاکٹر شکیل نے ہیپاٹائٹس پروگرام کے نام پر خون کے نمونے حاصل کیے تھے اور امریکی سی آئی اے کو معلومات فراہم کیں۔ڈاکٹر شکیل آفریدی کے غیرملکی طاقت کے آلہ کاربننے سے معصوم پولیو ورکرز کی ہلاکت تک پھیلے واقعات بتاتے ہیں کہ ہم کس طرح عالمی سیاست کے مکروہ کھیل سے متاثر ہوئے ہیں۔ آج ہم پر وحشت کا راج ہے، جس میں زندگی دینے کے لیے نکلنے والوں کو موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔ دوسری طرف وزراء، دیگر حکومتی شخصیات اور وی وی آئی پیز کو درجنوں محافظ فراہم کرنے والی حکومت پاکستان کے مستقبل کو معذوری سے بچانے کی جنگ لڑنے والی پولیو ورکرز کو تحفظ دینے سے قاصر نظر آتی ہے، حیرت ہے، افسوس ہے۔
کچھ ایسا ہی سوچا تھا شاید انھوں نے، ورنہ وہ معمولی سی اجرت کے عوض ہمارے ملک میں خوف کے سائے تلے انجام دیا جانے والا پولیو ورکر کا پیشہ کیوں اپناتیں؟ وہ سب، اپنے ایک مرد ساتھی کے ساتھ، ایک سوزوکی میں بیٹھ کر خوشی خوشی زندگی بانٹنے نکلی تھیں۔ خوشی کچھ یوں بھی تو تھی کہ اب تو حکومت نے ان کی حفاظت کا ذمہ لے لیا تھا، سو اب کیسا خوف۔ کتنی معصوم اور انجان تھیں وہ، حکومت تو ماضی میں بھی ایسے دعوے کرتی آئی ہے۔
دعوے کرنا تو بہت آسان ٹھہرا۔ لیکن سارے دعوے دھر ے کہ دھرے رہ گئے جب 2 موٹر سائیکلوں پر سوار 4 مسلح دہشت گردوں نے ان کی گاڑی پر اندھادھند فائرنگ کردی۔ وہ معاملہ سمجھ ہی نہ پائی تھیں کہ آخر انھیں کس جرم کی پاداش میں قتل کیا جارہا ہے کہ گولیاں ان کے جسموں میں اتار دی گئیں۔ زندگی بانٹنے والے خود موت کی آغوش میں سونے جارہے تھے اور ان کی آنکھیں اپنا جرم پوچھ رہی تھیں۔
موت کے نرغے میں آنے والے زندگی کے اس کارواں میں شامل تین عورتیں اور ایک مرد اسپتال جاتے ہی دم توڑ گئے اور تین شدید زخمی ہیں۔ کوئی سوال نہ اٹھائیے، کیوںکہ اس مسئلے پر تو بات کرنا بھی شاید جرم قرار پائے، جس کی پاداش میں گولی سینے میں اتار دی جائے، زبان کاٹ دی جائے اور اس سانحے پر لکھنے والا ہاتھ ہی توڑدیا جائے۔ رہی حکومت تو اس کے پاس تو ایسے ہر معاملے پر یکساں جواب موجود ہوتا ہے۔ سختی سے نوٹس لینے کی آوازیں اَس وقت گونجتی ہیں جب کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے، جب کوئی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو لیتا ہے یا جب کسی کا مقدر معذوری بن جاتی ہے۔ جو جان سے جائے اس کے ورثاء کو دس لاکھ دے دو اور جو زخمی ہو اس کا منہ دو لاکھ میں بند کردو۔ یہ رقم بہت ہے ایک ایسے فرد کا اور خاندان کا منہ بند کرنے کے لیے جن کی یومیہ دہاڑی دوسوپچاس روپے ہو اور جو عرصہ دراز سے ملی بھی نہ ہو۔
پولیو ورکرزکی یہ ٹیم کوئٹہ میں جس جگہ حملے کا نشانہ بنی، یعنی مشرقی بائی پاس پر، وہاں ماضی میں بھی اس قسم کے حملے ہوتے رہے ہیں۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد ضلع بھر میں جاری انسداد پولیو مہم غیرمعینہ مدت تک کے لیے روک دی گئی۔ بلوچستان میں نیشنل ایمپلائزیونین اور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا بائیکاٹ کردیا ہے۔
گزشتہ سال سترہ دسمبر کو شروع ہونے والی پولیو مہم کے پہلے دن ایک رضاکار اور مہم کے دوسرے دن4 خواتین رضاکاروں کو شہید کردیا گیا تھا۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی زندگی کے ان قافلوں کو لوٹا جاتا رہا ہے۔ صرف ڈھائی سوروپے کی یومیہ اُجرت کے عوض یہ رضا کار گلی گلی دو بوند زندگی معصوم بچوں کو پلانے کی غرض سے نکلتی ہیں۔ اس دہاڑی میں تو کوئی اور کام بھی ہو سکتا ہے، لیکن یہ ان کا جذبہ ہے، پاکستان کے مستقبل کو اپاہج ہونے سے بچانے کا عزم۔ ان کے اس عزم کو بار بار شکست دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ ہر مرتبہ نئے ولولے کے ساتھ اپنے مقصد کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں اس مرض کے خاتمے کے لیے ڈونرز ایجنسیاں کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں، لیکن ملک میں پولیو پر تاحال قابو نہ پایا جاسکا۔ اگر صرف سندھ کی بات کی جائے تو گزشتہ سال 4لاکھ 44ہزار بچوں کو والدین کی جانب سے پولیو کے قطرے نہ پلائے جانے کا انکشاف ہوا۔ 33 ہزار خاندانوں نے انسداد پولیو مہم میں رجسٹرڈ ہونے کے باوجود بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرکے اس معاملے میں ملک کے آفت زدہ اور دہشت گردی کے شکار صوبے خیبر پختونخواہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
اس انکار کی وجہ لوگوں کو آگاہی فراہم نہ کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ناقص منصوبہ بندی اور بدعنوانی کے باعث اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود حکومت پولیو پر قابو پانے میں ناکام ہو گئی ہے، جس کے بعد ڈونرز کی بڑی تعداد نے پاکستان کو فنڈز دینا بند کردیے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان نے اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک سے پولیو مہم کے لیے35 ملین ڈالر قرض بھی مانگا ہے۔
کراچی کے مختلف اضلاع میں انسداد پولیو مہم کے دوران بڑے پیمانے پر بدعنوانیوںکا انکشاف ہوا۔ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے انسداد پولیو مہم کے لیے ملنے والی امداد میں کرپشن کے پیش نظر فنڈز براہ راست پولیو کارکنوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ چناں چہ اس ادارے کی جانب سے پولیوورکرز کے شناختی کارڈ طلب کیے گئے، تاکہ انھیں بینک کے ذریعے براہ راست ادائیگی کی جائے، تو 80فی صد سے زاید شناختی کارڈ جعلی قرار دیے گئے۔ بعد ازاں اس معاملے کو سلجھایا گیا اور غلط فہمی ظاہر کیا گیا۔
اب حالت یہ ہے کہ ملک کے قبائلی علاقے تو رہے ایک طرف کراچی کی مضافاتی آبادی گڈاپ ٹاؤن میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد رواں برس چلائی جانے والی مہم کے دوران ساڑھے تین لاکھ سے زاید بچے پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہے۔
جہاں تک ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تعلق ہے تو عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا انسداد پولیو مہم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ میڈیا کی غلط خبروں کے ذریعے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تعلق پولیو مہم سے جوڑا گیا، جس سے پولیو مہم کے دوران ویکسینیشن میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور یہی پولیو رضاکاروں پر حملے کی وجہ بنی۔ عالمی ادارۂ صحت کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے مطابق ڈاکٹر شکیل کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے اس نے انسداد پولیو مہم کے ذریعے اسامہ کی ہلاکت میں امریکا کی مدد کی تھی، جب کہ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے، دو قطرے پولیو ڈراپس سے کسی کے ڈی این اے کی جانچ کیسے کی جاسکتی ہے۔ دراصل ڈاکٹر شکیل آفریدی نے غلط بیانی کی کہ اس نے پولیو مہم کے ذریعے ایسا کیا۔ اس غلط بیانی سے لوگ گم راہ ہوئے۔
ڈاکٹر شکیل نے ہیپاٹائٹس پروگرام کے نام پر خون کے نمونے حاصل کیے تھے اور امریکی سی آئی اے کو معلومات فراہم کیں۔ڈاکٹر شکیل آفریدی کے غیرملکی طاقت کے آلہ کاربننے سے معصوم پولیو ورکرز کی ہلاکت تک پھیلے واقعات بتاتے ہیں کہ ہم کس طرح عالمی سیاست کے مکروہ کھیل سے متاثر ہوئے ہیں۔ آج ہم پر وحشت کا راج ہے، جس میں زندگی دینے کے لیے نکلنے والوں کو موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔ دوسری طرف وزراء، دیگر حکومتی شخصیات اور وی وی آئی پیز کو درجنوں محافظ فراہم کرنے والی حکومت پاکستان کے مستقبل کو معذوری سے بچانے کی جنگ لڑنے والی پولیو ورکرز کو تحفظ دینے سے قاصر نظر آتی ہے، حیرت ہے، افسوس ہے۔