رنگین انقلاب‘ سنگین انقلاب
بہت سے لوگ ’’پلے بوائے ‘‘ کو ایک ’’فحش ‘‘ مجلہ سمجھتے ہیں لیکن یہ ایک بہت معیاری پرچہ ہے۔
دلہا کی عمر چھیاسی سال ۔ دُلہن کی عمرچھبیس سال۔ دونوں کی عمروں میں صرف ساٹھ سال کا فرق ۔ جی ہاں ایسی شادیاں تو برصغیرجیسے غیر مہذب معاشروں میں ہوتی ہی رہتی ہیں اور لڑکی روتی دھوتی آنسوپروتی روایات پر قربان ہوجاتی ہے۔مگر یہ واقعہ ایشیا یاافریقہ میں پیش نہیں آیا اور لڑکی آہ وزاری کرتی ہوئی نہیں بلکہ قہقہے لگاتی ہوئی رخصت ہوئی۔ دلہادُلہن اصلاً امریکی ہیں۔
فلمی ستاروں کی طرح حسین و جوان کرسٹل ھیریس کسی کا بھی دل جیت سکتی تھی تو پھر اس نے 86سالہ ''پردادا'' سے شادی کیوں کی؟ اس لیے کہ اس ''مردِ بزرگ'' پر حسینائیں باجماعت مرتی تھیں اورمرنے مارنے پربھی تیار رہتی تھیں۔یہ وہ شخص تھا کہ جس نے امریکا (بلکہ پوری دنیا میں) رنگین انقلاب برپا کیا ۔ یہ دوسرا کولمبس تھا جس نے اپنے ''پلے بوائے'' میگزین (PLAYBOY)کے ذریعہ امریکا کو نئے انداز سےDISCOVERبلکہUNCOVERکیا۔
برپاہے مشرق ومغرب میں رنگین انقلاب
لایا ہوں آپ کے لیے میں تحفۂ شباب
(تشنہ)
اس پیر کہن کانام ہے ہیو ہیفنرHwgher Hefnerجس نے 22سال کی عمرمیں اپنی ماں سے ایک ہزار ڈالر قرض لے کر ''پلے بوائے'' شروع کیا تھا۔ اس کی ماں بے حد ناراض بھی ہوئی تھی۔''کوئی فائدے کاکام کیا ہوتا ۔''اس نے اپنے بیٹے کو جھاڑا تھا ''تو میرے ہزار ڈالر ضرور ڈبو دے گا اوربدنام بھی ہوگا ۔'' بیٹے نے بہت جلد اپنی ماں کودولت میں ڈبو دیا اور ''بدنام'' بھی ایسا ہوا کہ ہزار نیک نامیاںقربان اور پھر بہت جلد وہ ملینئر بن گیا اور اب ایک ''ملٹی بلینئر'' کی حیثیت سے ''عریاں صحافت'' کا بادشاہ ہے۔
رنگین انقلاب کا بانی ہیو مارسٹن ہنفر Huge Marston Henfer'1926میں شکاگومیں پیدا ہوا اور وہیں تعلیم حاصل کی ۔ عالمی جنگ کے آخری دنوں میںاس نے فوج میں شمولیت اختیار کی اور اٹلی میں لڑائی کا تجربہ حاصل کیا ۔ پھر واپس آکر نفسیات اور فن تحریر میں مزید تعلیم حاصل کی جو آگے چل کر اس کے بہت کام آئی۔ ہیفنر نے مشہور رسالے اسکوائر Esquireمیں بھی کام کیا۔
اس زمانے میں امریکا میں جنس کے بارے میں کنزی ادارے Kinsey Instituteکی رپورٹ شائع ہوئی جس نے تہلکہ مچادیا۔ ہیفنر نے جو کئی ہم جماعت لڑکیوںCoedsکے قریب رہ چکا تھا امریکا میں ایک رنگین انقلاب برپا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا فرنیچر بیچ دیا ۔ ماں سے بھی ہزار ڈالر قرض لیا (جیسا کہ اوپر بیان کیاجاچکا ہے) اور اپنا رسالہ پلے بوائے PLAYBOY جاری کیا ۔پہلی تصویر میرلین منرو کی شائع کی گئی جو صدرکینیڈی کی محبوبہ بھی تھی اور بعد میں نہایت وحشیانہ طریقے سے سوتے میں قتل کردی گئی۔
شروع میں یہ رسالہ ٹاپ اور باٹم دونوں کو چھپاتا پھررسالہ ''ٹاپ لیس '' ہوگیا اور اس کی اشاعت کئی گنا بڑھ گئی۔
کھلا اس شوخ کابند قبا آہستہ آہستہ
قبول اے دل ہوئی تیری دعا آہستہ آہستہ
(تشنہ)
اب ہیوہفنر نے ایک قدم اور بڑھایا اور جین مینس فیلڈ کی بالکل عریاں تصاویر چھاپ دیں ۔ وہ قانون کی زد میں آگیا اور قید بھی ہوا لیکن جلد ہی امریکی معاشرے نے سو فیصد عریاںتصاویر کوقبول کرلیا ۔''پلے بوائے ''مادر پدر آزاد ہوگیا اور رنگین انقلاب پورا ہوگیا ۔امریکا کے علاوہ یورپ اور لاطینی امریکا میں بھی ''پلے بوائے'' طرز کے بہت سے رسالے شائع ہونا شروع ہوگئے اور دوسری طرف Adult Movies نے تہلکہ مچادیا ۔ اپنے عروج کے وقت پلے بوائے ستر لاکھ چھپتا تھا ۔
اس رنگین انقلاب کا اثر تین صدور پر بھی پڑا ۔ جب صدر جمی کارٹر کی امریکا کی مشہور مغنیہ و رقاصہ (Diva) ڈولی پارٹن سے ملاقات ہوئی تو وہ اس کی ہوشربا خوبصورتی کی تاب نہ لاسکا اور آگے بڑھا مگرخیر سے فرسٹ لیڈی روزالین موجود تھی جس نے اپنے شوہر کوسنبھالے رکھا ۔ دوسرا صدر تھا بل کلنٹن جس نے ایک اشک نازی لولیتا Lolitaکے عشق میں اپنی صدارت تک کو خطرے میں ڈال دیاتھا ۔تیسرا صدرکون تھا جو ہیوہفنر کے رنگین انقلاب کا شکار ہوا۔ وہ امریکی نہیں تھا بلکہ پاکستانی تھا ۔
2008میں الاسکا کی گورنر سابق ملکہ حسن پالن بھی نائب صدر کے عہدہ کے لیے الیکشن لڑ رہی تھی اور ہر طرف قیامت ڈھا رہی تھی ۔ اپنے ایک سیاستدان صاحب وہاں موجود تھے اور سارہ کو دیکھ کر ''آپے سے باہر'' ہوگئے یعنی
حسینہ سامنے آئے تو وہ دل پھینک بول اٹھا
مٹیں سب دوریاں سارہ گلے لگا جاؤ ''ٹھاہ'' کرکے
( تشنہ)
اس پاکستانی سیاستدان کی اہلیہ اپنے شوہر کو قابو میں رکھنے کے لیے وہاں موجود نہیں تھی لیکن آسمانی پردوں سے بیگم نے یہ منظر دیکھ کرضرور ایک آدھ آنسو ٹپکایا ہوگا ۔
اب ذرا اس خاتون لولیس Lovelaceکو یاد کیجیے۔ اداAdaلولیس نہیں کہ جس قابل تعریف خاتون نے انیسویں صدی میں کمپیوٹر کے بانی Babbageکی تخلیق کے لیے ایک پروگرامنگ لینگوئج وضع کی اور اس طرح Babbageسے لے کر بل گیٹس تک ہر ایک کے لیے راستہ صاف کیا بلکہ Linda Lovelaceجو ہوشربا فلم Deep Throatکی ہیروئن تھی اس نے اپنی کتاب Orecalمیں سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں کہ کس طرح پلے بوائے فیشن ویسٹ (لاس اینجلیز ) میں رنگ رلیاں منائی جاتی ہیں ' تمام حدود پار کرلی جاتی ہیں اور فلمی ستارے وہ قیامت خیز تماشے دکھاتے ہیں کہ الاماں و الحفیظ ۔ ان پارٹیوں میں الزبتھ ٹیلر بھی جوش وخروش سے حصہ لیتی رہی ہے۔
ہیوہفنر اپنے ریوالونگ بستر پر دراز ہوتا ہے ۔ بہت سے لوگ ''پلے بوائے '' کو ایک ''فحش '' مجلہ سمجھتے ہیں لیکن یہ ایک بہت معیاری پرچہ ہے اس کے مضامین، افسانے ' لطیفے اور کارٹون سب قابل تعریف ہوتے ہیں اور لڑکیوں کی تصویروں کے بغیر بھی یہ ایک بہت قابل مطالعہ رسالہ ہے اور اس کی عریاں تصاویر بھی اپنا ایک خاص اسٹائل رکھتی ہیں ۔2005میں ہیو ہفنر کو ایک نیا خیال آیا کیوں نہ ''پلے بوائے'' ہندی میں بمبئی سے شائع کیا جائے ۔
ہندوستان کی فلم انڈسٹری اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتی اور بر صغیرکی ایک ارب سے زیادہ آبادی میں اس کی اشاعت کروڑوں تک پہنچتی ۔ کرشن مہاراج اور گوپیوں کے دیس میں جہاں ایلورا اور اجنتا میں ننگی مورتیاں موجود ہیں یہ رسالہ بے حد کامیاب رہتا اور پاکستان کے من چلے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے لیکن سونیا گاندھی نے منصوبے کو ویٹوکردیا ۔ امیتابھ بچن نے بھی بہت کوشش کی اور یقین دلایا کہ ہندوستانی دیویاں ''حد'' میں رہیں گی مگر بات نہیں بنی ۔ 1928میں کسی امریکی عدالت نے ایک مصنف کو فحاشی کے الزام میں جیل بھیج دیا تھا ۔
اس لیے کہ اس کی کتاب میں یہ فقرہ موجود تھا ''اور ان دونوں کے جسم جڑ کر ایک ہوگئے ۔'' اب ذرا اندازہ لگائیے کہ دنیا کہاں سے کہاںپہنچ گئی ہے ۔ ہیو ہفنر کے پلے بوائے نے زبردست مسائل بھی پیدا کردیے ہیں ۔ امریکا اور یورپ کے بیشتر روشن خیال گھرانے اتنی آزادی کے حق میں نہیں مگر مجبور ہیں ۔ رنگین انقلاب اب سنگین انقلاب بن چکا ہے۔
فلمی ستاروں کی طرح حسین و جوان کرسٹل ھیریس کسی کا بھی دل جیت سکتی تھی تو پھر اس نے 86سالہ ''پردادا'' سے شادی کیوں کی؟ اس لیے کہ اس ''مردِ بزرگ'' پر حسینائیں باجماعت مرتی تھیں اورمرنے مارنے پربھی تیار رہتی تھیں۔یہ وہ شخص تھا کہ جس نے امریکا (بلکہ پوری دنیا میں) رنگین انقلاب برپا کیا ۔ یہ دوسرا کولمبس تھا جس نے اپنے ''پلے بوائے'' میگزین (PLAYBOY)کے ذریعہ امریکا کو نئے انداز سےDISCOVERبلکہUNCOVERکیا۔
برپاہے مشرق ومغرب میں رنگین انقلاب
لایا ہوں آپ کے لیے میں تحفۂ شباب
(تشنہ)
اس پیر کہن کانام ہے ہیو ہیفنرHwgher Hefnerجس نے 22سال کی عمرمیں اپنی ماں سے ایک ہزار ڈالر قرض لے کر ''پلے بوائے'' شروع کیا تھا۔ اس کی ماں بے حد ناراض بھی ہوئی تھی۔''کوئی فائدے کاکام کیا ہوتا ۔''اس نے اپنے بیٹے کو جھاڑا تھا ''تو میرے ہزار ڈالر ضرور ڈبو دے گا اوربدنام بھی ہوگا ۔'' بیٹے نے بہت جلد اپنی ماں کودولت میں ڈبو دیا اور ''بدنام'' بھی ایسا ہوا کہ ہزار نیک نامیاںقربان اور پھر بہت جلد وہ ملینئر بن گیا اور اب ایک ''ملٹی بلینئر'' کی حیثیت سے ''عریاں صحافت'' کا بادشاہ ہے۔
رنگین انقلاب کا بانی ہیو مارسٹن ہنفر Huge Marston Henfer'1926میں شکاگومیں پیدا ہوا اور وہیں تعلیم حاصل کی ۔ عالمی جنگ کے آخری دنوں میںاس نے فوج میں شمولیت اختیار کی اور اٹلی میں لڑائی کا تجربہ حاصل کیا ۔ پھر واپس آکر نفسیات اور فن تحریر میں مزید تعلیم حاصل کی جو آگے چل کر اس کے بہت کام آئی۔ ہیفنر نے مشہور رسالے اسکوائر Esquireمیں بھی کام کیا۔
اس زمانے میں امریکا میں جنس کے بارے میں کنزی ادارے Kinsey Instituteکی رپورٹ شائع ہوئی جس نے تہلکہ مچادیا۔ ہیفنر نے جو کئی ہم جماعت لڑکیوںCoedsکے قریب رہ چکا تھا امریکا میں ایک رنگین انقلاب برپا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا فرنیچر بیچ دیا ۔ ماں سے بھی ہزار ڈالر قرض لیا (جیسا کہ اوپر بیان کیاجاچکا ہے) اور اپنا رسالہ پلے بوائے PLAYBOY جاری کیا ۔پہلی تصویر میرلین منرو کی شائع کی گئی جو صدرکینیڈی کی محبوبہ بھی تھی اور بعد میں نہایت وحشیانہ طریقے سے سوتے میں قتل کردی گئی۔
شروع میں یہ رسالہ ٹاپ اور باٹم دونوں کو چھپاتا پھررسالہ ''ٹاپ لیس '' ہوگیا اور اس کی اشاعت کئی گنا بڑھ گئی۔
کھلا اس شوخ کابند قبا آہستہ آہستہ
قبول اے دل ہوئی تیری دعا آہستہ آہستہ
(تشنہ)
اب ہیوہفنر نے ایک قدم اور بڑھایا اور جین مینس فیلڈ کی بالکل عریاں تصاویر چھاپ دیں ۔ وہ قانون کی زد میں آگیا اور قید بھی ہوا لیکن جلد ہی امریکی معاشرے نے سو فیصد عریاںتصاویر کوقبول کرلیا ۔''پلے بوائے ''مادر پدر آزاد ہوگیا اور رنگین انقلاب پورا ہوگیا ۔امریکا کے علاوہ یورپ اور لاطینی امریکا میں بھی ''پلے بوائے'' طرز کے بہت سے رسالے شائع ہونا شروع ہوگئے اور دوسری طرف Adult Movies نے تہلکہ مچادیا ۔ اپنے عروج کے وقت پلے بوائے ستر لاکھ چھپتا تھا ۔
اس رنگین انقلاب کا اثر تین صدور پر بھی پڑا ۔ جب صدر جمی کارٹر کی امریکا کی مشہور مغنیہ و رقاصہ (Diva) ڈولی پارٹن سے ملاقات ہوئی تو وہ اس کی ہوشربا خوبصورتی کی تاب نہ لاسکا اور آگے بڑھا مگرخیر سے فرسٹ لیڈی روزالین موجود تھی جس نے اپنے شوہر کوسنبھالے رکھا ۔ دوسرا صدر تھا بل کلنٹن جس نے ایک اشک نازی لولیتا Lolitaکے عشق میں اپنی صدارت تک کو خطرے میں ڈال دیاتھا ۔تیسرا صدرکون تھا جو ہیوہفنر کے رنگین انقلاب کا شکار ہوا۔ وہ امریکی نہیں تھا بلکہ پاکستانی تھا ۔
2008میں الاسکا کی گورنر سابق ملکہ حسن پالن بھی نائب صدر کے عہدہ کے لیے الیکشن لڑ رہی تھی اور ہر طرف قیامت ڈھا رہی تھی ۔ اپنے ایک سیاستدان صاحب وہاں موجود تھے اور سارہ کو دیکھ کر ''آپے سے باہر'' ہوگئے یعنی
حسینہ سامنے آئے تو وہ دل پھینک بول اٹھا
مٹیں سب دوریاں سارہ گلے لگا جاؤ ''ٹھاہ'' کرکے
( تشنہ)
اس پاکستانی سیاستدان کی اہلیہ اپنے شوہر کو قابو میں رکھنے کے لیے وہاں موجود نہیں تھی لیکن آسمانی پردوں سے بیگم نے یہ منظر دیکھ کرضرور ایک آدھ آنسو ٹپکایا ہوگا ۔
اب ذرا اس خاتون لولیس Lovelaceکو یاد کیجیے۔ اداAdaلولیس نہیں کہ جس قابل تعریف خاتون نے انیسویں صدی میں کمپیوٹر کے بانی Babbageکی تخلیق کے لیے ایک پروگرامنگ لینگوئج وضع کی اور اس طرح Babbageسے لے کر بل گیٹس تک ہر ایک کے لیے راستہ صاف کیا بلکہ Linda Lovelaceجو ہوشربا فلم Deep Throatکی ہیروئن تھی اس نے اپنی کتاب Orecalمیں سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں کہ کس طرح پلے بوائے فیشن ویسٹ (لاس اینجلیز ) میں رنگ رلیاں منائی جاتی ہیں ' تمام حدود پار کرلی جاتی ہیں اور فلمی ستارے وہ قیامت خیز تماشے دکھاتے ہیں کہ الاماں و الحفیظ ۔ ان پارٹیوں میں الزبتھ ٹیلر بھی جوش وخروش سے حصہ لیتی رہی ہے۔
ہیوہفنر اپنے ریوالونگ بستر پر دراز ہوتا ہے ۔ بہت سے لوگ ''پلے بوائے '' کو ایک ''فحش '' مجلہ سمجھتے ہیں لیکن یہ ایک بہت معیاری پرچہ ہے اس کے مضامین، افسانے ' لطیفے اور کارٹون سب قابل تعریف ہوتے ہیں اور لڑکیوں کی تصویروں کے بغیر بھی یہ ایک بہت قابل مطالعہ رسالہ ہے اور اس کی عریاں تصاویر بھی اپنا ایک خاص اسٹائل رکھتی ہیں ۔2005میں ہیو ہفنر کو ایک نیا خیال آیا کیوں نہ ''پلے بوائے'' ہندی میں بمبئی سے شائع کیا جائے ۔
ہندوستان کی فلم انڈسٹری اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتی اور بر صغیرکی ایک ارب سے زیادہ آبادی میں اس کی اشاعت کروڑوں تک پہنچتی ۔ کرشن مہاراج اور گوپیوں کے دیس میں جہاں ایلورا اور اجنتا میں ننگی مورتیاں موجود ہیں یہ رسالہ بے حد کامیاب رہتا اور پاکستان کے من چلے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے لیکن سونیا گاندھی نے منصوبے کو ویٹوکردیا ۔ امیتابھ بچن نے بھی بہت کوشش کی اور یقین دلایا کہ ہندوستانی دیویاں ''حد'' میں رہیں گی مگر بات نہیں بنی ۔ 1928میں کسی امریکی عدالت نے ایک مصنف کو فحاشی کے الزام میں جیل بھیج دیا تھا ۔
اس لیے کہ اس کی کتاب میں یہ فقرہ موجود تھا ''اور ان دونوں کے جسم جڑ کر ایک ہوگئے ۔'' اب ذرا اندازہ لگائیے کہ دنیا کہاں سے کہاںپہنچ گئی ہے ۔ ہیو ہفنر کے پلے بوائے نے زبردست مسائل بھی پیدا کردیے ہیں ۔ امریکا اور یورپ کے بیشتر روشن خیال گھرانے اتنی آزادی کے حق میں نہیں مگر مجبور ہیں ۔ رنگین انقلاب اب سنگین انقلاب بن چکا ہے۔