انسانی اعضا کی خرید وفروخت کا کاروبار
نوے کی دہائی تک بھارت گردوں کی خرید و فروخت اور سستی پیوند کاری کی عالمی منڈی بنا ہوا تھا۔
عالمی اداروں کے سروے اور رپورٹوں میں مختلف شعبہ جات میں منفی کارکردگی اور تنزلی کے لحاظ سے ہماری درجہ بندی (ریکنگ) مسلسل زوال پذیر ہے، پچھلے ماہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مہنگی اور دو نمبر ادویہ فروخت کرنے والے ایشیائی ممالک میں پاکستان پہلے نمبر پر آگیا ہے، المیہ یہ ہے کہ مہنگی اور جان بچانے والی ادویہ میں جعل سازی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
اول تو ملک میں علاج و معالجے کی سہولیات ناپید یا کم ازکم غریب طبقے کی دسترس سے باہر ہیں جس کا ایک مظاہرہ تھر پارکر میں بے تحاشا اموات کی صورت میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ پولیو، ڈینگی، کانگو، ایبولا، نگلیریا وغیرہ میں انسانوں کی ہلاکتوں پر حکومتی اور شہری ادارے بے دست و پا اور عوام بے آسرا نظر آتے ہیں، عوام کی ہمدردی کی دعویدار حکومتیں دعوؤں پر چل رہی ہیں جب کہ سیاست دان بیانوں پر پل رہے ہیں۔ جو لوگ مہنگے علاج کے متحمل ہوتے ہیں بعض اوقات جعلی ادویات ان کی بھی جانیں لے لیتی ہیں۔ اس قسم کے غیر قانونی وغیر انسانی کاروبار میں ملوث مافیا کے ساتھ سرکاری اہلکار اور کافی تعداد میں سرکاری اور پرائیویٹ ڈاکٹر بھی ملے ہوئے ہیں۔ صحت کا بجٹ انتہائی قلیل ہے جس کا بڑا حصہ کرپشن اور بد انتظامی کی نذر ہوجاتا ہے۔
اینٹوں کی بھٹوں پر پشت در پشت غلام اور مقروض مزدوروں سے قرض چکانے کے نام پر ان کے گردے حاصل کرلیے جاتے ہیں گاؤں کے جاگیردار غریبوں کو اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اسپتالوں میں گردے چوری کرنے اور زبردستی گردے نکالنے کے واقعات اور غیر قانونی پیوند کاری کا کاروبار بھی جاری ہے۔ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے کہاتھا کہ مجھے شرم سے کہنا پڑتا ہے کہ اس گھناؤنے کاروبار میں ہمارے ڈاکٹرز بھی شریک ہیں۔
پاکستان میں عوام کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے ۔ نوے کی دہائی تک بھارت گردوں کی خرید و فروخت اور سستی پیوند کاری کی عالمی منڈی بنا ہوا تھا۔ پھر وہاں کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے پابندی عائد کردی کہ صرف خونی رشتے دار ہی عطیہ کرنے کے اہل ہوںگے اس کے بعد وہاں کی صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی۔ مگر پاکستان میں اس سلسلے میں موثر قانون سازی اور قانون کے اطلاق و عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے گردوں کی تجارت میں 50 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ 1990 تک یہاں 75 فی صد پیوند کاری، رشتے داروں اور 25 فی صد غیر رشتے داروں کی طرف سے ہوتی تھی لیکن اس کے بعد صورت حال اس کے بالکل برعکس ہوگئی۔
سستے اور باآسانی دستیاب گردوں کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک کے باشندوں نے یہاں کڈنی ٹور شروع کردیے۔ کیونکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں گردہ لینا اور دینا جرم کے زمرے میں آتا ہے اور اخراجات بھی بہت آتے ہیں۔ امریکا میں گردے کی پیوند کاری پر پاکستان سے دس گنا زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ اس لیے پاکستان اعضا کی پیوندکاری کے لیے مرغوب ترین عالمی مرکز اور کڈنی ٹور کنٹری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ دستاویزات پر مارشیس جاتے ہوئے دو پاکستانیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ملزم رضوان نے بھارتی عورت سے اس کی بیٹی کو سات لاکھ کے عوض گردہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور اس مقصد کے لیے لاہور کے ایک نوجوان سرفراز بھٹی کو ایک لاکھ روپے اور بیرون ملک ملازمت دلانے کا لالچ دے کر اس کام کے لیے رضامند کیا تھا۔ سرفراز ایک بچی کا باپ اور مالی مشکلات میں مبتلا تھا۔ اس کے گھر والے اس معاملے سے لا علم تھے۔
انھیں بتایا گیا تھا کہ وہ ملازمت کے سلسلے میں باہر جارہاہے۔ رضوان نے منصوبہ بنایا تھا کہ مارشیس پہنچ کر سرفراز کے گردہ خریدنے والی عورت کی بیٹی کے ساتھ شادی کے پیپر بنائے جائیں گے۔ بعد ازاں یہ شخص اس عورت کا داماد بن کر بھارت جائے گا اور گردے کی پیوند کاری کرے گا۔ بد قسمتی سے امیگریشن عمل کو ان کی سفری دستاویزات پر شک گزرا تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ رضوان بین الاقوامی سطح پر گردے کی خرید و فروخت کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہے۔
اس نے بتایاکہ گردہ فروخت کرنے کے لیے سر فراز کے میڈیکل ٹیسٹ کراکر مارشیس بھجوائے تھے اور بھارتی خاتون کے مطمئن ہونے کے بعد اس سے ساڑھے سات ہزار امریکی ڈالر بھی منگوالیے تھے اس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایک سال قبل اپنے معاشی حالات سے تنگ آکر انٹر نیٹ کے ذریعے زیمبیا کے ایک خاندان کو 6 لاکھ روپے میں اپنا گردہ فروخت کیا تھا یہ رقم خرچ ہوجانے کے بعد اس نے انسانی اعضا عطیہ کرنے والوں اور ضرورت مندوں کے لیے بنائے گئے گروپ اور ویب سائٹس کی مدد سے گردوں کے خریدار ڈھونڈلیے اور اس بھارتی عورت سے معاہدہ طے ہوگیا۔ امیگریشن حکام کا کہناہے کہ رضوان اس سے پہلے بھی اپنا گردہ فروخت کرنے جعلی دستاویزات پر بھارت گیا تھا ان کے خلاف جعلی دستاویزات پر بیرون ملک جانے کی کوششوں کے الزام میں مقدمہ درج کرلیاگیا ہے جب کہ انسانی اعضا کی خرید و فروخت پر کارروائی کے لیے وفاقی حکومت سے رجوع کیا جارہاہے۔
پاکستان میں اعضا کی پیوند کاری کے قانون کے تحت کسی پاکستانی کو کسی غیر ملکی کو گردہ عطیہ کرنے کی ممانعت ہے جو شخص اس قسم کے فعل میں کسی بھی طور پر شریک ہوگا معاونت و مدد کرے گا، گاہک یا ضرورت مند تلاش یا اعضا کی قیمت وصول کرنے میں ملوث پایا جائے گا اسے 10 سال تک قید اور 10 لاکھ تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے اور یہ فعل ناقابل ضمانت ہوگا۔ سپریم کورٹ بھی اس سلسلے میں حکومت کو تنبیہ کرچکی ہے کہ مجرموں کے خلاف قانونی کے اطلاق کو یقینی بناکر اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے۔
خود وفاقی وزیر صحت اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستان میں سالانہ 1500 غیر ملکی گردے خریدنے پاکستان آتے ہیں اور یہاں گردے ناکارہ ہونے سے 15 ہزار ، جگر کے عارضے کی وجہ سے 10 ہزار اور ہارٹ فیل ہونے سے 16500 اموات سالانہ ہوتی ہیں، بعض ماہرین کا کہناہے کہ انسانی اعضا کی خرید وفروخت کے قانون کے نافذ ہونے کے باوجود گردوں کی خرید و فروخت میں کمی آنے کی بجائے اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت انسانی اعضا کی خرید و فروخت اور پیوند کاری کے سلسلے میں قانون کو موثر وفعال بنانے کے لیے ضروری ترمیمات کرے اور اس کے اطلاق کو یقینی بنائے، جرم کے مرتکب افراد کو فوری سزائیں دے کر کیفر کردار تک پہنچائے۔
اول تو ملک میں علاج و معالجے کی سہولیات ناپید یا کم ازکم غریب طبقے کی دسترس سے باہر ہیں جس کا ایک مظاہرہ تھر پارکر میں بے تحاشا اموات کی صورت میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ پولیو، ڈینگی، کانگو، ایبولا، نگلیریا وغیرہ میں انسانوں کی ہلاکتوں پر حکومتی اور شہری ادارے بے دست و پا اور عوام بے آسرا نظر آتے ہیں، عوام کی ہمدردی کی دعویدار حکومتیں دعوؤں پر چل رہی ہیں جب کہ سیاست دان بیانوں پر پل رہے ہیں۔ جو لوگ مہنگے علاج کے متحمل ہوتے ہیں بعض اوقات جعلی ادویات ان کی بھی جانیں لے لیتی ہیں۔ اس قسم کے غیر قانونی وغیر انسانی کاروبار میں ملوث مافیا کے ساتھ سرکاری اہلکار اور کافی تعداد میں سرکاری اور پرائیویٹ ڈاکٹر بھی ملے ہوئے ہیں۔ صحت کا بجٹ انتہائی قلیل ہے جس کا بڑا حصہ کرپشن اور بد انتظامی کی نذر ہوجاتا ہے۔
اینٹوں کی بھٹوں پر پشت در پشت غلام اور مقروض مزدوروں سے قرض چکانے کے نام پر ان کے گردے حاصل کرلیے جاتے ہیں گاؤں کے جاگیردار غریبوں کو اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اسپتالوں میں گردے چوری کرنے اور زبردستی گردے نکالنے کے واقعات اور غیر قانونی پیوند کاری کا کاروبار بھی جاری ہے۔ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے کہاتھا کہ مجھے شرم سے کہنا پڑتا ہے کہ اس گھناؤنے کاروبار میں ہمارے ڈاکٹرز بھی شریک ہیں۔
پاکستان میں عوام کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے ۔ نوے کی دہائی تک بھارت گردوں کی خرید و فروخت اور سستی پیوند کاری کی عالمی منڈی بنا ہوا تھا۔ پھر وہاں کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے پابندی عائد کردی کہ صرف خونی رشتے دار ہی عطیہ کرنے کے اہل ہوںگے اس کے بعد وہاں کی صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی۔ مگر پاکستان میں اس سلسلے میں موثر قانون سازی اور قانون کے اطلاق و عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے گردوں کی تجارت میں 50 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ 1990 تک یہاں 75 فی صد پیوند کاری، رشتے داروں اور 25 فی صد غیر رشتے داروں کی طرف سے ہوتی تھی لیکن اس کے بعد صورت حال اس کے بالکل برعکس ہوگئی۔
سستے اور باآسانی دستیاب گردوں کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک کے باشندوں نے یہاں کڈنی ٹور شروع کردیے۔ کیونکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں گردہ لینا اور دینا جرم کے زمرے میں آتا ہے اور اخراجات بھی بہت آتے ہیں۔ امریکا میں گردے کی پیوند کاری پر پاکستان سے دس گنا زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ اس لیے پاکستان اعضا کی پیوندکاری کے لیے مرغوب ترین عالمی مرکز اور کڈنی ٹور کنٹری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ دستاویزات پر مارشیس جاتے ہوئے دو پاکستانیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ملزم رضوان نے بھارتی عورت سے اس کی بیٹی کو سات لاکھ کے عوض گردہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور اس مقصد کے لیے لاہور کے ایک نوجوان سرفراز بھٹی کو ایک لاکھ روپے اور بیرون ملک ملازمت دلانے کا لالچ دے کر اس کام کے لیے رضامند کیا تھا۔ سرفراز ایک بچی کا باپ اور مالی مشکلات میں مبتلا تھا۔ اس کے گھر والے اس معاملے سے لا علم تھے۔
انھیں بتایا گیا تھا کہ وہ ملازمت کے سلسلے میں باہر جارہاہے۔ رضوان نے منصوبہ بنایا تھا کہ مارشیس پہنچ کر سرفراز کے گردہ خریدنے والی عورت کی بیٹی کے ساتھ شادی کے پیپر بنائے جائیں گے۔ بعد ازاں یہ شخص اس عورت کا داماد بن کر بھارت جائے گا اور گردے کی پیوند کاری کرے گا۔ بد قسمتی سے امیگریشن عمل کو ان کی سفری دستاویزات پر شک گزرا تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ رضوان بین الاقوامی سطح پر گردے کی خرید و فروخت کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہے۔
اس نے بتایاکہ گردہ فروخت کرنے کے لیے سر فراز کے میڈیکل ٹیسٹ کراکر مارشیس بھجوائے تھے اور بھارتی خاتون کے مطمئن ہونے کے بعد اس سے ساڑھے سات ہزار امریکی ڈالر بھی منگوالیے تھے اس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایک سال قبل اپنے معاشی حالات سے تنگ آکر انٹر نیٹ کے ذریعے زیمبیا کے ایک خاندان کو 6 لاکھ روپے میں اپنا گردہ فروخت کیا تھا یہ رقم خرچ ہوجانے کے بعد اس نے انسانی اعضا عطیہ کرنے والوں اور ضرورت مندوں کے لیے بنائے گئے گروپ اور ویب سائٹس کی مدد سے گردوں کے خریدار ڈھونڈلیے اور اس بھارتی عورت سے معاہدہ طے ہوگیا۔ امیگریشن حکام کا کہناہے کہ رضوان اس سے پہلے بھی اپنا گردہ فروخت کرنے جعلی دستاویزات پر بھارت گیا تھا ان کے خلاف جعلی دستاویزات پر بیرون ملک جانے کی کوششوں کے الزام میں مقدمہ درج کرلیاگیا ہے جب کہ انسانی اعضا کی خرید و فروخت پر کارروائی کے لیے وفاقی حکومت سے رجوع کیا جارہاہے۔
پاکستان میں اعضا کی پیوند کاری کے قانون کے تحت کسی پاکستانی کو کسی غیر ملکی کو گردہ عطیہ کرنے کی ممانعت ہے جو شخص اس قسم کے فعل میں کسی بھی طور پر شریک ہوگا معاونت و مدد کرے گا، گاہک یا ضرورت مند تلاش یا اعضا کی قیمت وصول کرنے میں ملوث پایا جائے گا اسے 10 سال تک قید اور 10 لاکھ تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے اور یہ فعل ناقابل ضمانت ہوگا۔ سپریم کورٹ بھی اس سلسلے میں حکومت کو تنبیہ کرچکی ہے کہ مجرموں کے خلاف قانونی کے اطلاق کو یقینی بناکر اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے۔
خود وفاقی وزیر صحت اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستان میں سالانہ 1500 غیر ملکی گردے خریدنے پاکستان آتے ہیں اور یہاں گردے ناکارہ ہونے سے 15 ہزار ، جگر کے عارضے کی وجہ سے 10 ہزار اور ہارٹ فیل ہونے سے 16500 اموات سالانہ ہوتی ہیں، بعض ماہرین کا کہناہے کہ انسانی اعضا کی خرید وفروخت کے قانون کے نافذ ہونے کے باوجود گردوں کی خرید و فروخت میں کمی آنے کی بجائے اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت انسانی اعضا کی خرید و فروخت اور پیوند کاری کے سلسلے میں قانون کو موثر وفعال بنانے کے لیے ضروری ترمیمات کرے اور اس کے اطلاق کو یقینی بنائے، جرم کے مرتکب افراد کو فوری سزائیں دے کر کیفر کردار تک پہنچائے۔