پیپلز پارٹی کا اڑتالیسواں یوم تاسیس

جمہوری نظام حکومت کےلیےسیاسی جماعتوں کاوجود ناگزیرہے۔ چنانچہ دنیا کےتمام جمہوری ملکوں میں سیاسی جماعتیں موجودہوتی ہیں



جمہوری نظام حکومت کے لیے سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ چنانچہ دنیا کے تمام جمہوری ملکوں میں سیاسی جماعتیں موجود ہوتی ہیں۔ کسی ملک میں ان جماعتوں کی تعداد دو، کسی میں تین اور کسی ملک میں تو کافی زیادہ تعداد میں یہ سیاسی جماعتیں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن ہر جمہوری ملک میں نمایاں سیاسی جماعتوں کی تعداد تین چار ہی ہوتی ہے۔ مثلاً امریکا میں دو ایک ریپبلکن دوسری ڈیموکریٹک پارٹی۔ برطانیہ میں لیبر، لبرل اور کنزرویٹیو نمایاں جماعتیں ہیں اور بھارت میں کانگریس اور بی جے پی نمایاں جماعتیں ہیں۔

ہمارے ملک پاکستان میں نمایاں سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(آج کل اس کا نواز (ن) دھڑا نمایاں ہے) ، اے این پی، تحریک انصاف، جے یو آئی اور متحدہ قومی موومنٹ ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کی اپنی ایک تاریخ یا تاریخی پس منظر ہوتا ہے۔ چنانچہ پاکستانی سیاست میں نمایاں مقام رکھنے والی مذکورہ بالا تمام سیاسی جماعتوں کا بھی اپنا اپنا تاریخی پس منظر ہے لیکن تاریخی پس منظر کے حوالے سے جو منفرد اور بے نظیر مقام پیپلز پارٹی کو حاصل ہے وہ کسی پارٹی کو حاصل نہیں۔

آج سے سینتالیس (47) سال پہلے 30 نومبر 1967 کو جب لاہور میں قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے قائم کی اس کی بنیاد ان چار رہنما اصولوں پر رکھی گئی:اسلام ہمارا دین ہے۔جمہوریت ہماری سیاست ہے۔سوشلزم ہماری معیشت ہے ۔طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔لیکن آگے چل کر جو حالات پیدا کردیے گئے اس میں پی پی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے محسوس کیا کہ یہ چار اصول ناکافی ہیں اور پارٹی کو ایک اور بنیادی رہنما اصول کی ضرورت ہے اور پارٹی کے چیئرمین قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر پانچواں اصول پارٹی کو دیا۔ یہ پانچواں اصول ہے،شہادت ہمارا عمل ہے۔

آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں ملک کے منتخب وزیر اعظم قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو ایک نام نہاد قتل کے نامکمل مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو پی پی کے جیالے مارشل لا کے کٹھن اور گھٹن زدہ ماحول میں بھی احتجاج کے لیے نکلے۔ تین کارکنوں نے اس سزا کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خودسوزی کی، اپنے جسموں پر تیل چھڑک کر زندہ جل کر مرگئے۔پاکستان پیپلز پارٹی دنیا کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے کارکنوں نے اپنے قائد کے لیے خودسوزی کی۔

جنرل ضیا نے پیپلز پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوششیں کی ، ہر حربہ آزمایا گیا۔ زبان پر تالے، قلم پر پہرے، سیاسی سرگرمیوں پر پابندی اور ایک دور ایسا بھی گزرا کہ اخبارات پر مکمل سنسر شپ عائد کردی گئی پرنٹ میڈیا(الیکٹرانک میڈیا تو صرف پی ٹی وی حکومت کا ترجمان تھا) میں شہید ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور ان کے بچوں کا نام اور ذکر بھی منع تھا۔ اس دور میں پی پی کے جیالوں کی آواز دبانے کے لیے ریاستی جبر و تشدد کی انتہا کردی گئی سیکڑوں کارکنوں پر پھانسی گھاٹ کے دروازے کھول دیے گئے۔ ہزاروں کارکنوں کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے انھیں قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا گیا لیکن ایک طرف تو کارکن جیے بھٹو کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے پھانسی کا پھندہ چومتے تھے تو دوسری طرف جیالے اپنی ننگی پیٹھ پر پڑنے والے ہر کوڑے پر جیے بھٹو صدا جیے کا نعرہ بلند کرتے تھے:

اہتمام رسن و دار سے کیا ہوتا ہے
جس قدر ظلم بڑھے عزم سوا ہوتا ہے

پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سر کا نذرانہ دے کر پی پی کو جو پانچواں رہنما اصول ''شہادت ہمارا عمل ہے'' دیا۔ اس عمل کا سفر ابھی جاری و ساری ہے اور عوام کی ہر دلعزیز، پاکستان کی سب سے کم عمر وزیر اعظم اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے اس رہنما اصول میں نئی روح پھونک دی ہے۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ پی پی کے مرکزی قائدین قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے ساتھ ساتھ ہزاروں کارکنوں کی شہادت، قید، کوڑے، پھانسیاں، جھوٹے مقدمات، جلا وطنیاں، سانحہ کارساز، سانحہ راولپنڈی اس کے علاوہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پی پی کو ختم کرنے کی دیگر کوششوں اور سازشوں کے باوجود پیپلز پارٹی آج بھی قائم و دائم ہے تو صرف اس لیے کہ اس کی جڑیں عوام کے اندر ہیں یہ ہمیشہ عوام کی سیاست کرتی ہے ،عوام کے حقوق کی بات کرتی ہے۔

اس مرتبہ 30 نومبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ''یوم تاسیس'' پر مرکزی تقریب بلاول ہاؤس لاہور میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں منعقد کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بڑا درست اور دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے نہ صرف اس سال بلکہ ہر سال پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کا مرکزی اجتماع لاہور ہی میں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اصولی طور پر یوم تاسیس کا مرکزی اجتماع ہونا ہی اس شہر میں ہونا چاہیے جہاں پارٹی کی داغ بیل ڈالی گئی ہو۔ اس سے پنجاب پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا حوصلہ بھی بلند ہوگا اور انھیں نظر انداز کیے جانے کا احساس بھی نہیں رہے گا۔ ورکرز مزید فعال ہوں گے اور پارٹی قیادت اور پنجاب پیپلز پارٹی کے ورکرز کے درمیان رابطے کا جو فقدان ہے وہ بھی دور ہوگا۔

اس پارٹی کی تشکیل ہی نظریاتی بنیادوں پر کی گئی تھی۔ اس لیے پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جو نظریاتی سیاست کا خلا پر کرسکتی ہے۔

پیپلز پارٹی ایک قومی جماعت ہے۔ یہ وفاق کی علامت ہے اس کا ووٹ بینک چاروں صوبوں میں موجود ہے۔ مخالفین پیپلز پارٹی کی طرف سے پیپلز پارٹی کو علاقائی جماعت ہونے کے طعنے دیے جا رہے ہیں۔ اس پارٹی کو پھر سے قومی دھارے میں لانا بلاول بھٹو زرداری کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور سخت محنت درکار ہے۔ بلاول بھٹو کی عملیت پسندی اور متحرک شخصیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں پیپلز پارٹی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں