عوام غلام نہیں

نفرت کی سیاست میں عوام کی پیروی نہیں کی جاتی بلکہ ان کے جذبات سے کھیل کر سیاسی مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔


Zahida Hina November 30, 2014
[email protected]

انسانی سماج میں جس طرح مثبت اور منفی سوچ رکھنے والے لوگ رہتے ہیں اسی طرح سیاست کی دنیا میں بھی دو طرح کے رہنما پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو اقتدار کے لیے منفی رویہ اختیار کرتے ہیں، حالات کی مایوس کن تصویر کشی اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف لوگوں میں نفرت اور اشتعال ابھارتے ہیں۔ اس نوع کا منفی اور غیر معمولی جارحانہ طرز عمل اختیار کرنے والے سیاسی رہنما عارضی شہرت تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن بالآخر انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری ہے۔

لوگوں کو ایئر مارشل اصغر خان کی بے مثال شہرت کا زمانہ یاد ہے جب ان کے جلوس کا ایک سرا کراچی ایئرپورٹ اور دوسرا 15 کلو میٹر دور صدر کے علاقے میں ہوتا تھا۔ وہ لاکھوں کے بپھرے ہوئے مجمعے کے سامنے اس وقت کے منتخب وزیر اعظم کو، کوہالہ پل پر اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینے کا اعلان فرماتے تھے اور کسی سیاسی حریف کو خاطر میں لانے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ بے مثال عروج کا یہ دور بہت مختصر ثابت ہوا۔ اب وہ ایئرپورٹ سے نکلتے ہیں تو دو گاڑیاں ان کے ہمراہ ہوتی ہیں اور لاکھوں مداحوں کی بجائے چند ذاتی ملازمین ان کا استقبال کرتے ہیں۔ ایئر مارشل صاحب نہایت ایماندار اور نفیس انسان ہیں۔ ان کی عزت اور تکریم اپنی جگہ لیکن منفی سیاست کے باعث ان کا عروج پانی کے بلبلے سے زیادہ دیرپا نہیں تھا۔

بھٹو صاحب جنھیں ایئر مارشل اپنے ہاتھ سے پھانسی دینے کا اعلان کرتے تھے، انھوں نے پھانسی تو پائی لیکن ان کی پھانسی کو آج تک عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کا نام تاریخ میں رقم ہوا، وہ عوام اور جمہوریت کے لیے زندگی کا نذرانہ دے کر زندہ جاوید ہو گئے جب کہ منفی سیاست کرنے والے ان کے سیاسی حریف آج کہیں نظر نہیں آتے۔ آئین کے تحفظ کے لیے آمر کے خلاف ڈٹ جانے اور تختہ دار کو چومنے اور آمروں کی شہ پا کر نفرت، دشنام اور گالی گلوچ کی منفی سیاست کرنے والے دونوں کردار ہمارے سامنے ہیں۔ آج کون زندہ ہے اور کون فنا ہو گیا؟ یہ سب جانتے ہیں۔

نفرت کی سیاست میں عوام کی پیروی نہیں کی جاتی بلکہ ان کے جذبات سے کھیل کر سیاسی مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ خود کو عوام سے برتر اور ان کا مسیحا ثابت کیا جاتا ہے۔ یہ ماحول بنایا جاتا ہے کہ لوگوں کو جس نجات دہندہ کا انتظار تھا وہ کاخ امراء کے درو دیوار گرانے آن پہنچا ہے۔ اس طرز کی سیاست ہم گزشتہ کئی مہینوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ملک منفی سیاست کے بھنور میں گھرا ہو ا ہے۔ سندھ کے شہر لاڑکانہ آنے کا اعلان اس طرح ہوا کہ جیسے سندھ کے عوام غلام ہیں، انھیں آزاد کرانے والا سورما آرہا ہے۔ غلاموں کو آزادی دلانے والے لاڑکانہ شہر نہیں آئے، بارہ پندرہ کلومیٹر دور ایک وڈیرے کے گاؤں میں جلسہ کیا، غوثیہ جماعت کے مریدوں کو بسوں میں بھر کر لایا گیا۔

پیروں اور وڈیروں کے درمیان کھڑے ہو کر نظام بدلنے کی نوید دی گئی اور اپنے مخالفین کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ جلسہ ختم ہوا، مرکزی رہنما ذاتی جہاز میں پرواز کر گئے، باقی انقلابی، پراڈو اور لگژری گاڑیوں میں کراچی، حیدرآباد اور لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ خواتین کی بڑی تعداد جلسے میں موجود تھی۔ ان میں پھٹے لباس اور ننگے پیروں والی ہاری عورتیں خال خال نظر آئیں۔ زیادہ تعداد خوش حال اور اپر مڈل کلاس کی خواتین پر مشتمل تھی، ان کا تعلق کہیں سے بھی رہا ہو وہ کم از کم غریب اور مفلس دیہی خواتین نہیں تھیں۔

سندھ کے عوام کو غلام قرار دے کر انھیں آزاد کرانے کا اعلان سن کر مجھے کسی دانشور کا یہ مقولہ یاد آ گیا کہ ''انسان ان پڑھ اور ناخواندہ پیدا ہوتا ہے لیکن جاہل پیدا نہیں ہوتا۔'' یہ وہ نکتہ ہے جو مثبت سیاست کرنے والے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں، کبھی فراموش نہیں کرتے۔ تاریخ میں اچھے ناموں سے یاد کیے جانے والے تمام سیاسی رہنماؤں کے نام پڑھ لیں، ہر ایک نے عوام کی عظمت کو سلام کیا، ان کی دانش کو سمجھا اور ان کے مفادات کو بالاتر جانا۔ عوامی سیاست، عوام کو رہنما مانے بغیر ممکن نہیں۔ تیسری دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح سندھ کے عوام بھی بہت غریب ہیں لیکن ان ملکوں کے عوام کی طرح وہ سیاسی شعور اور بصیرت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ وہ معاشی طور پر پسماندہ ضرور ہوں گے لیکن سیاسی اعتبار سے وہ کسی کے غلام ہرگز نہیں ہیں۔

برطانوی سامراج کی مزاحمت میں سندھ کے عوام پیش پیش تھے۔ 'مرسوں، مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں' کا نعرہ لگانے والا ہوش محمد شیدی جاگیردار نہیں ایک غریب انسان تھا۔ پاکستان بنانے کا وقت آیا تو سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی۔ اس اسمبلی میں بیٹھے لوگوں کو سندھ کے عوام نے منتخب کیا تھا۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد سے جاگیرداروں کے ساتھ مل کر سول اور فوجی نوکر شاہی نے بھرپور کوشش کی کہ پاکستان جمہوریت کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے۔ آئین کی تشکیل میں روڑے اٹکائے گئے، حکمران اشرافیہ نے عدالتوں کو اپنے ساتھ شریک کیا اور اس سے غیر قانونی اقدامات کو تحفظ دلایا۔ مولوی تمیز الدین خان کا مقدمہ اور جسٹس منیر کا فیصلہ اس کی مثال ہے۔

جنرل ایوب خان کو پہلا باوردی وزیر دفاع بنا کر فوج کو اقتدار میں براہ راست شامل کیا گیا۔ حکمران اشرافیہ نے مساوات (پیرٹی) کا فارمولا دے کر مشرقی پاکستان کی عددی برتری ختم کی، مغربی حصے میں ون یونٹ بنا کر چھوٹے صوبوں کا خاتمہ کیا۔ مشرقی پاکستان سے مزاحمت کا آغاز ہوا، ون یونٹ کے خلاف چھوٹے صوبوں میں تحریک منظم ہوئی جس میں سندھ کے عوام نے انتہائی فعال کردار ادا کیا۔ قومی حقوق کی یہ جنگ سندھ کے ہر دیہات اور شہر میں لڑی گئی۔

اعلیٰ درجے کا مزاحمتی اور انقلابی ادب تخلیق ہوا۔ غریب عوام کے بچوں پر مشتمل طلبا تنظیموں نے ون یونٹ کے خاتمے کے لیے زبردست تحریک چلائی۔ ہزاروں لوگ جیل گئے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ون یونٹ کا خاتمہ ہوا، بنگلہ دیش وجود میں آیا لیکن موجودہ پاکستان میں آمریت اور جمہوریت کی جنگ بدستور جاری رہی جو اب بھی جاری ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے 1973ء کا آئین دیا اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا۔

یہ سندھ کے عوام کا شعور تھا کہ انھوں نے بڑے بڑے جاگیرداروں کو شکست دی۔ دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا کہ پیر پگارہ بھی اپنے مریدوں کے حلقے سے قومی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے۔ ان کے مریدوں نے صاف صاف کہہ دیا ''سر پگارا کے لیے، ووٹ بھٹو کے لیے'' ۔ کیا غلام عوام اور وہ بھی ایک پیر کے مرید... ایسا کر سکتے تھے؟ ہرگز نہیں۔ یہ غلام نہیں تھے۔ ان کا سیاسی شعور بہت بلند تھا اور اس کا ثبوت آنے والوں برسوں پر پھیلے ہوئے شب و روز میں ملنے والا تھا۔

1973ء کا آئین بنانے والی پارلیمنٹ جب مستحکم ہونے لگی اور جمہوریت کے جڑ پکڑنے کے امکانات روشن ہوئے تو منتخب وزیر اعظم کے خلاف تحریک منظم کرائی گئی جس کی قیادت اس وقت کے 'انقلابی' اور اپنے ہاتھوں سے وزیر اعظم کو پھانسی دینے کی خواہش رکھنے والے ایئر مارشل صاحب فرما رہے تھے۔ تحریک کامیاب ہوئی، جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی ا ور منتخب وزیر اعظم کو راولپنڈی میں پھانسی دے کر اس کی لاش، گڑھی خدا بخش، ضلع لاڑکانہ روانہ کر دی گئی۔

سندھ کے عوام نے بڑے صبر اور استقلال کے ساتھ اس صدمے کو سہا۔ سیاسی طور پر باشعور عوام نے سمجھ لیا تھا کہ انھیں آمریت کے خلاف اب ایک اور طویل جنگ لڑنی ہے لہٰذا پہلے صف بندی ضروری ہے۔ بھٹو کی شہادت کے بعد نو عمر بے نظیر بھٹو نے مزاحمت کی کمان سنبھالی۔ یہ وہ وقت تھا جب آج کے انقلابی رہنما کرکٹ کے ہنگاموں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

جن لوگوں نے پیپلز پارٹی اور بھٹو سے عہد وفا نہیں نبھایا تھا، سندھ کے عوام نے ان جاگیرداروں، پیروں اور سرداروں کو سیاسی طور پر فنا کر دیا۔ ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف سندھ کے عوام نے ایسی شاندار جنگ لڑی جو تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ لاڑکانہ کا گڑھی خدا بخش جمہوریت کا قلعہ بن گیا۔ آپ کسی بھی لبادے میں آئیں یہاں سیاسی نقب نہیں لگا سکتے۔ سندھ کے ہر شہر اور دیہات کے سیاسی کارکن آمریت کے سامنے ڈٹ گئے۔ فوجی عدالتوں کی سزائیں اور کوڑے ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ لا سکے۔ دادو جیسا غریبوں کا ضلع ایم آر ڈی تحریک کا اسٹالن گراڈ ثابت ہوا۔ ضیاء گئے، مشرف آئے۔ بی بی کی شہادت نے شعور کو اور پختہ کیا۔

وہ سیاسی رہنما جو پاکستان کی جمہوری جدوجہد کا حصہ نہیں رہے، ان میں سیاسی بصیرت کا کم ہونا فطری بات ہے۔ منفی سیاست کا رجحان اور سیاسی تربیت کا فقدان ہی ان میں سندھ کے عوام کو 'غلام' سمجھنے کی سوچ پیدا کر سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کے خلاف پہلے بھی مقبولیت کے رتھ پر سوار کچھ لوگ لاکھوں کا جلوس لے کر آئے تھے، آج بھی ویسا ہی منظر نامہ ہے۔ نام اور کھیل کے کردار بدل چکے ہیں۔ لیکن ہو گا وہی جو ماضی میں ہو چکا ہے۔ یہ مقبولیت پانی کے بلبلے کے سوا کچھ نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں