حکومت کے خلاف دھرنا تحریک اور ق لیگ
نوازشریف حکومت بدترین دھاندلی کی پیداوار ہے، یہ نہیں چل سکے گی ، اور آج نہیں تو کل یہ گر جائے گی۔
نوازشریف حکومت کے خلاف دھرنا تحریک سے جہاں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے ، وہاں ق لیگ کا امیج بھی بحال ہوا ہے ۔ 22 نومبر کو بہاولپور میں پرویزالٰہی کے جلسہ نے ، جس کی حاضری پچاس ہزار سے زیادہ ہی ہو گی ، ق لیگ کو کامیاب جلسوں کی راہ پر بھی ڈال دیا ہے۔ نوازشریف حکومت کے خلاف دھرنا تحریک میں پرویز الٰہی کی سرگرم اور بھرپور شرکت سے بھی ق لیگ کو بہت فائدہ پہنچا ہے ، اگر ق لیگ ، نوازشریف حکومت کے خلاف دھرنا تحریک میں شرکت نہ کرتی ، تو نہ صرف یہ کہ اس کی رہی سہی ساکھ ختم ہو جانا تھی ، بلکہ اس کا فائدہ اس کی حریف جماعت ن لیگ کو پہنچنا تھا ۔
بہاولپور میں ق لیگ کا یہ جلسہ ، جنوبی پنجاب میں ن لیگ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؛ کیونکہ اس جلسہ کے ذریعہ ن لیگ کے ' ناراض ارکان ' کو یہ لائن مل گئی ہے کہ کل کلاں اگر ان کے لیے ن لیگ کے اندر حالات ناقابل برداشت ہو جائیں، اور بوجوہ وہ تحریک انصاف میں شمولیت پر بھی آمادہ نہ ہوں ، تو ق لیگ ان کوگلے لگانے کے لیے تیار ہو گی ۔ حقیقتاً ، پنجاب میں22 نومبر ، سہ پہر 3 بجے جو ق لیگ تھی ، شام 6 بجے بہاولپور میں جلسہ شروع ہونے کے بعد اس سے قطعاً مختلف تھی۔
22 نومبر سہ پہر3 بجے تک ، طارق بشیر چیمہ سے لوگ پوچھ رہے تھے کہ چیمہ صاحب ، تحریک انصاف نے اس جلسہ گاہ میں10 ہزار کرسیاں لگائی تھیں، آپ نے 30 ہزار لگا دی ہیں، ق لیگ کے نام پر ان کو بھریں گے کیسے ، لیکن شام 6 بجے وہی لوگ طارق بشیر چیمہ کو حیرت اور تعجب سے مبارکبادیں پیش کر رہے تھے کہ جلسہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ پھر یہ کسی ایسی پارٹی کا جلسہ بھی نہیں تھا ، جو آج اپنی پذیرائی کے لیے آنے والوں کو سرکاری یا غیر سرکاری طور پر کوئی ریلیف دے سکتی ہو۔ سہیل وڑائچ جلسہ گاہ میں میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے، اور میری طرح وہ بھی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی نے بہاولپور جلسہ میں جو تقریریں کیں، ان میں دونکات بڑے اہم ہیں ؛ اول یہ کہ ، نوازشریف حکومت بدترین دھاندلی کی پیداوار ہے، یہ نہیں چل سکے گی ، اور آج نہیں تو کل یہ گر جائے گی۔ دوسرا یہ کہ ، شہباز شریف سانحہ ماڈل ٹاون کے براہ راست ذمے دار ہیں، اور ان کے خلاف کاروائی کے بغیر سانحہ ماڈل ٹاون کی منصفانہ انکوائری کا حکومتی دعویٰ تسلیم نہیں جا سکتا۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور بہاولپور کو صوبہ بنانے کی بات بھی کی ، جو ظاہر ہے ، اہل بہاولپور کے دل کی بات ہے۔ رات 8 بجے جلسہ کے اختتام پر ق لیگ کی قیادت واپس لاہور روانہ ہو رہی تھی ، تو ایک ایسے اعتماد سے سرشار تھی ، جو اس سے پہلے ق لیگ میں مفقود تھا ۔
نظر بظاہر یوں آ رہا ہے کہ دھرنا ختم کرنے کے حوالہ سے طاہر القادری اور ق لیگ کے درمیان جو شکررنجی پیدا ہوئی، اور جس کے نتیجہ میں ق لیگ نے طاہر القادری سے الگ جلسے کرنے کا فیصلہ کیا ؛ یہ فیصلہ ق لیگ کو راس آ گیا ہے۔ دسمبر کے وسط میں ق لیگ قصور میں ، اور دسمبر کے آخر میں تلہ گنگ میں ' بہاولپوری جلسے' کر رہی ہے ۔ یہ جلسے بھی اگر کامیاب ہو گئے، تو ذرائع کے بقول ، ان 'بہاولپوری جلسوں' کا دائرہ پنجاب کے دیگر اضلاع تک پھیلا یا جا سکتا ہے۔ اس عرصہ میں ان ناراض ارکان کو، جو کسی نہ کسی وجہ سے دوسری پارٹیوں میں جا چکے ہیں ، اورشنید یہ ہے کہ سخت مضطرب ہیں ، ان کو راضی کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
11 مئی 2011ء کے الیکشن میں ق لیگ کو پورا یقین تھا کہ وہ قومی اسمبلی کی کم ازکم 20 ، اور پنجاب اسمبلی کی کم ازکم 40 نشستیں ضرور حاصل کر ے گی۔ انتخابی نتیجہ کا اعلان ہوا تو معلوم ہوا کہ ق لیگ کو قومی ا سمبلی کی 2 ، پنجاب اسمبلی کی 9 اور بلوچستان اسمبلی کی صرف 5 نشستیں حاصل ہوسکی ہیں ۔ تعجب مگر یہ تھا کہ پنجاب میں ق لیگ کے قومی اور صوبائی امیدوار جتنے جتنے ووٹوں سے ہارے ، اس سے کہیں زیادہ ان کے ووٹ مسترد قراردیے گئے، جب کہ ان کے مدمقابل کامیاب امیدواروں کے مسترد شدہ ووٹ نہ ہونے کے برابر تھے ۔ اس معاملہ کو ، جب فافن کی اس رپورٹ سے ملا کے دیکھیں، جس میںکہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے 35 حلقے ایسے ہیں ، جہاں کامیاب امیدواروں کی جیت کا مارجن ، ان حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں سے کم ہے ، تو ق لیگ کے اس الزام کو وزن دینا پڑتا ہے کہ پنجاب میں اس کو سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت باہر کیا گیا ۔ مقصد یہ تھا کہ اس کی بارگیننگ پوزیشن بالکل ختم ہوکر رہ جائے ، اور وہ ن لیگ کی حکومت بننے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہ کر سکے۔
11 مئی 2013ء کو ق لیگ کو جو جھٹکا لگا ، وہ اتنا شدید تھا کہ ظاہراً اس کے بعد ق لیگ کا سنبھلنا ، اپنے پاوں پر کھڑا ہونا ، اور پھر سے ن لیگ حکومت کے خلاف جنگ آزما ہونا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ق لیگ 18 فروری 2008 ء کے بعد11 مئی کا یہ جھٹکا بھی سہہ گئی اور ابھی نوازشریف حکومت کو ایک سال ہی گزرا تھا کہ ق لیگ نے طاہر القادری کو ساتھ ملا کے نوازشریف حکومت کے خلاف اتنی بھرپور مہم شروع کی کہ عمران خان بھی اپنے آپ کو اس سے علیحدہ نہ رکھ سکے۔17 جون کون لیگ حکومت نے ماڈل ٹاون لاہورمیں 14 افراد کو خون میں نہلا کے ق لیگ اور طاہرالقادری کی مہم کو مہمیز لگا دی ۔ سانحہ ماڈل ٹاون پرجو رہ نما سب سے پہلے بغیر کسی سیکیورٹی کے جائے وقوعہ پر پہنچے ، وہ ق لیگ کے رہ نما چوہدری پرویزالٰہی تھے ؛ اور یہ بھی ان ھی کی تجویز تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاون کی ایف آئی آر درج کرائی جائے کہ بصورت دیگر مقتولوں کا مقدمہ خراب ہو جائے گا ، اور قاتل بچ نکلیں گے ۔ پھر، ان ھی کی کوششوں سے14 اگست کو انقلاب مارچ اور آزادی مارچ اکٹھے ہوئے ، آگے پیچھے اسلام آباد پہنچے ، اور پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے براجمان ہو گئے ۔
یہ درست ہے کہ دھرنا تحریک سے نوازشریف حکومت ختم نہیں کی جا سکی، لیکن ق لیگ کی قیادت کا یہ بنیادی مقصد کہ نوازشریف حکومت کی رٹ کمزور پڑ جائے اور اس کا رعب ودبدبہ ختم ہو کر رہ جائے ، پورا ہو چکا ہے۔ ق لیگ کی سوچ یہ ہے کہ ن لیگ اگر کمزور ہو گی، تو پنجاب میںجلد یا بدیر اس کا فائدہ ق لیگ کو بھی پہنچے گا۔ بہاولپور میں ق لیگ کے جلسہ کی کامیابی کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس کی یہ سوچ کچھ ایسی غلط بھی نہیں ۔ لیکن دیکھنا یہ بھی ہے کہ کیا ق لیگ اپنے آیندہ جلسوں میں یہ ٹمپو برقرار رکھ پاتی ہے یا نہیں ، کہ شاعر نے کہا تھا ،
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے