کوٹھڑی نمبر 8115

سیاہ فام لوگوں کی حیثیت غلاموں سے بھی بدترتھی۔غربت، افلاس اورجہالت میں ڈوبے ہوئے یہ سیاہ فام اشخاص محض سانس لےرہے تھے۔

raomanzarhayat@gmail.com





کہاں قدرت کے انمٹ اصول اورکہاں ہم!ہرچیز تبدیل ہوسکتی ہے بلکہ تبدیل ہونی چاہیے۔مگرصرف ایک اَمر میں تغیربرپا نہیں کیاجاسکتا!وہ ہیں کائنات کے آفاقی اصول جس پرنظام ہستی چل رہاہے!یہ نوحہ نہیں بلکہ ادراک کی وہ منزل ہے جس کی ہم مسلسل نفی کررہے ہیں۔آپ غورکیجیے، ہمارے حکمران دہائیوں سے پیہم فطرت کے خلاف جنگ میں مصروف کار ہیں۔وہ بھی انتہائی سفاکی سے!جس کے ہاتھ میں اقتدار کی تلوار آتی ہے وہ سب سے پہلے اپنے ہرحریف کی گردن پر وارکرتا ہے۔ پھر یہی تلواردوستوں کے خون میں نہا جاتی ہے۔

دولت کا خوف ناک ارتکاز،عدل سے مکمل درگزر، جھوٹ درجھوٹ پرمکمل انحصار اورتدبرکے بغیر حکومت! یہ سب کس چیزکی علامات ہیں۔ ہر بادشاہ اپنے فیصلوں کے درمیان محل میں محفوظ نظر آتا ہے۔ دربار کی راہ داریوں میں غلام برہنہ تلواریں لیے سربکف کھڑے ہیں!ظلِ الہی کا غوغا ہرطرف آسمان تک سنائی دیتا ہے۔ مگر ایک خاص وقت پروہی غلام اپنے نیزے پربادشاہ کاسراٹھائے پھرتے نظرآتے ہیں! قیامت ہے،کہ کوئی اپنے تجربہ سے نہیں سیکھتا۔کیاوقت آچکا ہے! درویش خاموش ہے۔مگرلب پر اب ہرایک مقتدر شخص کے لیے دعا نہیں۔قرآن مجیدکاانمول پیغام!انسان خسارے میں ہے،وقت کی قسم!

میں اس گھڑی پاکستان سے دورسائوتھ افریقہ کے شہرپری ٹوریامیں ہوں۔یہاں پاکستان کی کوئی خبر نہیں آتی۔ میں چاردن قبل یہاں آیاہوں۔سفرمجھے کبھی بھی برا نہیں لگتا۔ نئے ملک،نئے لوگ،نئی دنیااورنئی آب وہوا۔ ہر چیز بہت جازب نظرہے۔میں ہمیشہ سفرکی تلاش میں رہتا ہوں۔ ساؤتھ افریقہ دنیاکے خوبصورت ملکوں میں سے ایک ہے۔ اس ملک کاآزادی کاسفر انتہائی تکلیف دہ اورکانٹوں سے بھرا ہواہے۔نسلی تعصب (Aparthaid) سے بھرپور ملک صرف اورصرف گوروں کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ برطانوی نسل سے تعلق رکھنے والے انگریز حکمرانوں نے دنیامیں یہ جنت محض اپنے لیے بنائی تھی۔

سیاہ فام لوگوں کی حیثیت غلاموں سے بھی بدترتھی۔ غربت، افلاس اورجہالت میں ڈوبے ہوئے یہ سیاہ فام اشخاص محض سانس لے رہے تھے۔یہاں آج میں جس علاقہ میں ٹھہرا ہوا ہوں،وہPretoriaکی سب سے خوبصورت جگہ ہے۔ میں Water Kloofنام کے ایک ہوٹل میں مقیم ہوں۔اس پورے علاقہ میں محض بیس سال قبل کتوں اورسیاہ فام لوگوں کا آنا ممنوع تھا۔ ہر جانب اس ہدایت نامہ پرمبنی بورڈ آویزہ تھے۔کسی بھی کالی چمڑی والے کی جرات نہیں تھی کہ وہ اس علاقہ میں قدم رکھ سکے۔ سزا کیا تھی! میرے گمان میں نہیں! شائد سال ہاسال کی سزا یا شائد روح اوربدن کارشتہ ختم ہونا۔ مگرظلم کی یہ رات صرف ایک آدمی کے تحمل سے ختم ہوئی۔ میں آج صبح سویٹو(Sweto) میں نیلسن مینڈیلا کا گھر دیکھ کر آیا ہوں۔

اس گھر کا نمبر8115ہے۔ اس گھر کوایک میوزیم میں تبدیل کردیا گیا ہے۔حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے اس پورے علاقہ میں معیاری ترقی سر انجام دی ہے۔مگریہ گھراردگردسیکڑوں گھروں کی طرح بالکل عام سا گھر ہے۔ آپ جب تک اس حیرت کدہ میں داخل نہیں ہوتے، آپ کومعلوم ہی نہیں ہوپا تاکہ اس کی اہمیت کیاہے؟اس بستی سے سیاہ فام لوگوں کی آزادی کی تحریک کاآغاز ہواتھا۔ نیلسن مینڈیلانے اپنے گھر سے اس تحریک کا آغازکیا تھا۔

چالیس سال قبل جب یہ معجزہ ظہورپذیر ہورہا تھا تو انگریزوں پرمبنی پولیس نے سیاہ فام لوگوں کوکچل کررکھ ڈالا تھا۔ سیکڑوں لوگ قتل کردیے گئے۔ مگر اس خون سے یہ تحریک اورمضبوط ہوگئی۔نیلسن مینڈیلا اس وقت بالکل جوان تھا۔اس گھرمیں اس عظیم شخص کی جوانی کی دو تصویریں لگیں ہوئیں ہیں۔ان تصویروں کا مقصد صرف ایک ہے کہ جس وقت یہ بہادرشخص پابند سلاسل ہواتویہ بھرپورجوان تھا۔مینڈیلاکی جوانی کی تصویر سے آپ اندازہ ہی نہیں لگاسکتے کہ یہ مینڈیلا ہے۔ جب وہ تین دہائیوں کے بعدجیل سے رہا ہوا تو وہ بدل چکا تھا۔

یہ گھرانتہائی معمولی سانظرآتاہے مگریہ ایک غیرمعمولی گھرہے۔یہ انتہائی چھوٹاساگھرہے۔شائدآٹھ یادس مرلے کا۔باہرایک کائونٹربناہواہے جوسیاحوں کوگھرکے اندرجانے کے لیے ٹکٹ فروخت کرتاہے۔اس گھرمیں صرف تین کمرے ہیں۔جب مینڈیلا کو گرفتار کیا گیا تو اس کی بیوی نے قیادت سنبھال لی۔اس عورت اورمعصوم بچوں کوڈرانے کے لیے پولیس کھڑکیوں پرفائرنگ کرتی رہتی تھی۔

نیلسن مینڈیلاکامعمولی سابیڈ،ٹیبل اورایک سرخ رنگ کاصوفہ آج بھی موجودہے۔ہرچیزکوانتہائی محنت سے بہت عمدہ حالت میں رکھاگیاہے۔اس پورے گھرمیں ایک پیغام ہے کہ یہ ایک ایسے شخص کا مسکن ہے جس نے دنیا کو بدل دیا ہے۔دیواروں پرمینڈیلاکی کئی نایاب تصاویرلگی ہوئی ہیں۔ مختلف سربراہان مملکت اس شخص کے ساتھ تصویر کچھوانا اعزاز کی بات سمجھتے تھے۔ایک دیوار پر امریکی ریاست مشی گن کی جانب سے معافی نامہ بھی آویزہ ہے۔ مگر شائد مینڈیلا معافی کی منزل سے بہت آگے نکل چکا تھا۔

وہ سلوک کی اس شاہراہ کا مسافرتھاجس میں اسے کوئی دشمن نظرہی نہیں آتاتھا۔وہ ہرایک کے لیے اپنے دل میں نفرت کے شعلے کوہمیشہ کے لیے بجھاچکا تھا۔ گائیڈبارباربتاتاتھاکہ اس کے رہنما نے پوری دنیاکے ظلم کو شکست دی تھی اورجب وہ اس ملک کا صدر بنا توتمام گورے خوف سے کانپ رہے تھے مگراس شخص نے سب کے لیے عام معافی کااعلان کردیا۔سب کے لیے، ان کے لیے بھی جنہوں نے اس کوجانوروں سے بدتر حالات میں محبوس رکھا تھا۔

ان کے لیے بھی جو اسے ہر طریقے سے ذلیل کرتے تھے،ان کے لیے بھی جواس کی عزت نفس کو کچلنا چاہتے تھے۔ مگر مینڈیلا نے ہرایک کو معاف کردیا۔اس گھرکی ایک اور خاص بات ہے۔اس کوکئی بارجلانے کی کوشش کی گئی۔اس گھر پر پٹرول بم اورآتش گیرمادہ سے کئی حکومتی حملے ہوئے۔گھرکے باہر کے جلنے کے نشان آج بھی موجود ہیں۔یہ نشانات اس لیے محفوظ رکھے گئے ہیں کہ لوگوں کواندازہ ہو کہ مینڈیلا کی اہلیہ اورمعصوم بچوں کوخوف کی فضامیں مبتلارکھنے کی ہرکوشش کی گئی۔مگراس طرح کی ہرکوشش ناکام رہی۔

اس کی ایک دیوارپرایک نقش ہے۔اس میں درج ہے کہ مینڈیلانے اپنے گھرمیں آنے کے بعدکہاکہ"اب مجھے یقین ہورہاہے کہ میں آزادہوچکاہوں۔میں تواپنی جیل کی کوٹھڑی کو ہی اپنا مقدر سمجھتا تھا۔ اس کوٹھڑی کا نمبر 8115میرے لاشعورمیں بھی درج ہوچکاتھا"۔اسے اپنا گھر بہت عجیب سا لگتا تھا۔وہ گھرمیں رہنے کاعادی نہیں رہا تھا۔

اتنی لمبی قید کے بعدوہ گھرسے مکمل اجنبی ہوچکا تھا۔ مگر قید سے رہائی کے بعد وہ اس گھرمیں صرف گیارہ دن رہ سکا۔اس کی وجہ وہ ہزاروں مہمان اور لاتعداد اخباری نمایندے تھے جوہروقت اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دیوانوں کی طرح گھرکے باہرکھڑے رہتے تھے۔ چوبیس گھنٹے اور روزانہ!تھوڑے دن بعدوہ اس گھرسے کسی دوسری جگہ منتقل ہونے پرمجبورہوگیا۔

جس گلی میں یہ گھرموجودہے،یہ گلی ایک اوراعتبارسے بھی بہت اہم ہے۔اس کے دومکینوں کوامن کانوبل پرائز دیا گیاہے۔ایک توظاہرہے،نیلسن میڈیلاہے۔مگراس گلی کی دوسری نکڑپرایک اورشخص کاگھر موجود ہے۔ اس کا نام "ڈسمنڈ ٹوٹو"ہے۔میں اس گھرکے باہرکافی دیرکھڑا رہا۔ بتایا گیاکہ "ٹوٹو"اب یہاں کافی عرصے کے بعد آتا ہے۔وہ کیپ ٹاؤن منتقل ہوچکا ہے۔دنیامیں کسی شہرمیں ایک بھی ایسی گلی نہیں ہے جس میں رہنے والی دو لازوال ہستیوں کو نوبل پرائز دیا گیا ہو۔ اکثر لوگ "ڈسمنڈٹوٹو" کے نام سے ناواقف ہونگے۔

امن کے لیے اس شخص کی جدوجہدبے مثال ہے۔وہ آج بھی زندہ ہے اوراپنی قوم کے لیے ہروقت حاضرہے۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سائؤتھ افریقہ ایٹمی قوت بننے کے بہت قریب تھا۔ کچھ لوگ اس پروگرام کے تانے بانے پاکستان سے جوڑنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔مگرمیری دانست میں یہ محض ایک خیال ہے۔آج سے دودہائیاں قبل پاکستان ہرگز اس حیثیت میں نہیں تھاکہ جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی کسی اورملک کو فراہم کرسکے۔مگرمینڈیلا کی رہائی سے کچھ عرصے پہلے گوروں کی حکومت نے ایک انتہائی عجیب حرکت کی۔

انھوں نے اپناتمام جوہری پروگرام ختم کردیا۔ اپنے ایٹمی پلانٹ تباہ کردیے اوراس اپنی تمام کامیابی کے نشانات مکمل طورپرمٹادیے۔میری دانست میں اس کی صرف ایک وجہ ہوسکتی ہے۔انگریزوں کومعلوم ہوچکا تھا کہ اب وہ مزید حکومت میں نہیں رہ سکتے لہذاان کے بعدیہ ایٹم بم سیاہ فام لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں جاناچاہیے۔وہ ذہنی طورپریہ سمجھتے تھے کہ یہ غلام لوگ اس ٹیکنالوجی کوصحیح طریقے سے استعمال کرنے کے قابل نہیں ہیں۔جیسے ہی ہم لوگ اس شخص کے گھرسے باہرنکلے توفٹ پاتھ پرکھڑے ہوئے ایک لڑکے نے توجہ اور پیسے حاصل کرنے کے لیے عجیب وغریب کرتب دکھانے شروع کردیے۔

وہ اپنے دونوں ہاتھوں کوملاکراپنے بدن کے نچلے حصے سے ایسے لگاتاتھاکہ گمان ہوتاتھاکہ وہ پلاسٹک کابناہواہے۔اس کے کرتب دیکھ کرلگتا تھا کہ اس کے پورے بدن میں کوئی ہڈی نہیں ہے۔ ہمارے علاوہ کسی نے بھی اس پرتوجہ نہیں دی۔وہ کچھ منٹ کے بعد تھک کر خاموشی سے فٹ پاتھ پربیٹھ گیا۔ شائد اس کومعلوم نہیں تھاکہ ہماراتعلق ایک ایسے ملک سے ہے جس میں سیاسی کرتب روزانہ کی بنیاد پر دکھائے جاتے ہیں۔ جہاں بازی گر روز تماشا لگاتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ پاکستان میں اس سیاسی جادوگروں کواربوں روپے ملتے ہیں مگریہاں اس نوجوان کوروزانہ شائدایک یادوسوروپے بڑی مشکل سے ملتے ہوں!

Pretoriaاورجوہانسبرگ(Johannesberg)کے تقریباًدرمیان میں ایک ترک شخص نے نظامی کمپلیکس (Complex) بنایا ہے۔اس کی سب سے نمایاں خصوصیت وہ عظیم مسجدہے جومکمل ترک عمارتوں کے نقشہ پربنائی گئی ہے۔مسجد اتنی خوبصورت ہے کہ اس کودیکھنے کے لیے غیرملکی سیاح ہروقت موجود رہتے ہیں۔مسجد کے اندر اگر آپ منبر پر کھڑے ہوکر کوئی بات کریں تووہ ہال کے آخرتک لائوڈ اسپیکر کے بغیر سنائی دیتی ہے۔اس کے گنبد اپنی جگہ شہکار ہیں۔

پہلی بار دیکھنے سے توانسان دنگ رہ جاتاہے۔اس سے ملحقہ ایک آرٹ گیلری بھی موجودہے۔اس میں آقاؐؐکےنعلین مبارک کے نقش موجودہیں۔آقاؐؐکی تلواروں کے خاکے موجود ہیں۔ حضرت فاطمہؓکا لباسمبارکموجود ہے۔ اور امامعالی مقام حضرت امام حسینؓ کے خون آلود کپڑوں کا نقش بھی دیوار پر لگا ہوا ہے۔ یہ تمام کی تمام انتہائی اعلیٰ درجہ کی تصاویر ہیں۔

پتہ نہیں کیوں، باربار میرے ذہن میں منڈیلاکاجیل کاکمرہ آرہا ہے! اس کا نمبر باربار میری نظروں کے سامنے گھوم رہا ہے! مجھے ایسے لگتاہے کہ پاکستان کے محکوم عوام آج تک اس کوٹھڑی میں قید ہیں!فرق صرف اتنا ہے کہ مینڈیلا کی سزاتیس برس بعد ختم ہوگئی تھی۔ مگر ہمارے عام لوگوں کی سزا آج تک ختم نہیں ہوسکی! ہم تمام لوگ کوٹھڑی نمبر8115 کے اسیر ہیں! تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہمارا نیلسن مینڈیلا گم چکا ہے! ہم ابھی تک اس کے انتظار میں ہیں! ہمارے نصیب میں مسلسل انتظار، مسلسل عذاب اور مسلسل قید ہے! پتہ نہیں ناانصافی کی اس جیل کاقفل کب کھلے گا! آخر کب؟

فیصل آباد، ادب آباد
Load Next Story