کیوں جا رہے ہیں ہمارے آرٹسٹ انڈیا

یہ بات بہت صاف تھی کہ ممبئی پر راج کرنے والی پارٹی شیو سینا محض پاکستانیوں کی نہیں مسلمانوں کی سخت مخالف ہے۔


Wajahat Ali Abbasi December 01, 2014
[email protected]

یہ بحث آج سے نہیں پچھلے تیس سال سے جاری ہے، محمد علی ہوں یا پھر محسن حسن خان، پاکستان سے انڈیا جانے والے آرٹسٹوں پر پاکستانی ہمیشہ اعتراض کرتے ہیں، ہمارا اعتراض تو بعد میں پہلے تو انڈیا والے خود ہی ہمارے آرٹسٹوں کا اپنے ملک میں آنا پسند نہیں کرتے تھے جس کی مثال محسن خان ہیں جو انڈیا سے چار فلمیں چھوڑ کر واپس پاکستان آگئے جب ان کو کئی دھمکیاں ملیں، انھیں جان کا خطرہ لاحق تھا۔

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1990 میں یش چوپڑہ کی ریلیز ہونے والی فلم ''لمحے'' میں سیکنڈ ہیرو ایک پاکستانی لڑکا تھا جو شوٹنگ کرنے انڈیا پہنچ بھی گیا تھا لیکن شوٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی جب ایک رات کسی پارٹی سے وہ واپس اپنے ہوٹل جا رہا تھا تو کچھ لوگوں نے اس کی گاڑی روک کر اسے قتل کردیا، جس کے بعد ایک لمبے عرصے تک کسی نے پاکستان سے انڈیا جاکر کام کرنے کی کوشش نہیں کی، دس پندرہ سال میں ایک بھی ایسی فلم ریلیز نہیں ہوئی جس میں کسی پاکستانی آرٹسٹ نے انڈیا جا کر کام کیا ہو۔

یہ بات بہت صاف تھی کہ ممبئی پر راج کرنے والی پارٹی شیو سینا محض پاکستانیوں کی نہیں مسلمانوں کی سخت مخالف ہے، اسی لیے آج بھی جب کوئی مسلمانوں کو لے کر بات ہوتی ہے تو وہ شاہ رخ خان، سلمان خان اور عامر خان جیسے فلمسٹاروں کے گھروں پر جاکر دھاوا بول دیتے ہیں اور مانگ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملک یعنی پاکستان واپس جائیں جب کہ شاہ رخ خان جیسے اداکار بولی ووڈ میں چھ ہزار کروڑ کا بزنس لاچکے ہیں، اس کے باوجود آخیر میں وہ صرف مسلمان ہوتے ہیں اور کچھ نہیں۔

عدنان سمیع خان سے انڈیا جانے کا سلسلہ پھر شروع ہوا کیونکہ ان کے پاس برٹش پاسپورٹ تھا، اس لیے وہ انڈیا پاکستانی کی طرح نہیں گئے لیکن پھر انڈیا نے سمجھ لیا کہ اپنے کو گلوبل کرنے کے لیے ان کو اپنے طریقے بدلنے ہوں گے، انھوں نے پاکستانی آرٹسٹوں کے لیے ویزہ آسان کردیا، نصرت فتح علی خاں صاحب، عدنان سمیع، راحت فتح علی خاں اور عاطف اسلم سب ہی انڈیا جاکر چھا گئے۔

ان آرٹسٹوں کے جانے پر بھی ہم پاکستانیوں کو اعتراض تھا لیکن اب بھی ہم سے زیادہ انڈیا کے لوگوں کو اعتراض تھا، ابھیجیت، ہمیش ریشمیا جیسے مشہور سنگرز کھلے عام پاکستانی آرٹسٹوں کے خلاف اپنے ٹی وی چینلز پر بولتے نظر آتے تھے۔

عدنان سمیع کو بھی انڈیا سے واپس جانے کا کہا گیا لیکن ہمارے سنگرز کا انڈیا سے باہر رہ کر کام کرنا آسان تھا کیونکہ بیک گراؤنڈ سنگر کے لیے لوکیشن پر ہونا ضروری نہیں، علی عظمت نے پوجا بھٹ کی فلم ''جسم'' اور جسم ٹو دونوں ہی میں گانے گائے لیکن ان کی صدابندی کے لیے وہ انڈیا نہیں گئے۔

پچھلے کچھ سال میں پھر ایسا ہوا ہے کہ ہمارے اداکار بولی ووڈ میں اسٹریم فلموں میں نظر آرہے ہیں اس کی وجہ ہے ہمارا ٹی وی۔ پاکستان کے ٹی وی سیریل انڈیا میں بے حد مقبول ہیں اور شیو سینا جیسی جماعتیں بھی اپنی پارٹی پالیسی اور مذہبی معاملات کو کارپوریٹ ورلڈ کے سامنے جھکانے پر مجبور ہیں۔

پاکستانی اداکاروں سے انڈیا کو فائدہ یہ ہے کہ وہ پیسے بہت کم لیتے ہیں، ان کی شہرت پہلے ہی سے ڈراموں کی وجہ سے لوگوں میں ہوتی ہے، ساتھ ہی جب وہ پروڈیوسر کے خرچے پر ہوتے ہیں تو وہ فضول خرچیاں نہیں کرتے جو بیشتر انڈین اداکار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ''پاکستانی Factor'' بھی فلم کی پبلسٹی کے لیے اچھا رہتا ہے۔

فواد خان، علی ظفر اور عمران عباس وہ اداکار ہیں جو آج کل انڈیا میں جاکر کام کر رہے ہیں اور یہی ہے وجہ ہمارے یہاں کئی لوگوں کے اعتراض کی۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ ''اعتراض کیوں؟'' کیا ہم انڈیا کے ساتھ مل کر کام نہ کریں؟ کیا ان سے بزنس نہ کریں؟ تو اس کا جواب ہے کہ ہم ویسے ہی انڈیا سے بہت بزنس کر رہے ہیں، صرف نومبر 15 سے 21 کے بیچ پاکستان سے انڈیا 294 ملین روپوں کی چیزیں ایکسپورٹ کی گئیں، 48 ملین کا سیمنٹ اور 139 ملین کے فروٹس اس لسٹ میں شامل ہیں جو پاکستان سے انڈیا بھیجی گئیں۔جب دوسری طرح کے بزنس ہم انڈیا سے کرسکتے ہیں تو پھر شو بزنس کیوں نہیں؟

انڈیا جانے والے پاکستانی اداکار ان طالب علموں سے بہتر ہیں جو انٹر کرتے ہی پاکستان سے امریکا، کینیڈا چلے جاتے ہیں اپنے ملک کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے، لیکن ہمارے اداکار ایسے نہیں ہیں۔ علی ظفر نے جب سے انڈیا میں کام شروع کیا ہے کروڑوں کا بزنس پاکستان میں بھی لائے ہیں، حال ہی میں علی ظفر کی ''کل دل'' ریلیز ہوئی جس میں انڈیا کے کئی مشہور اداکار موجود ہیں، صرف انڈیا میں نہیں فلم نے پاکستان میں بھی زبردست بزنس کیا ہے یہی نہیں بلکہ علی ظفر نے پاکستان میں ریلیز کے وقت پچاس غریب بچوں کی تعلیم کا بھی ذمہ اٹھایا اور دوسرے لوگوں کو بھی صلاح دی کہ ان لوگوں کے لیے کچھ کریں جنھیں زندگی نے کوئی موقع نہیں دیا۔

فواد خان کی بھی حالیہ فلم ''خوبصورت'' آنے سے پاکستان کا اچھا امیج انڈیا بھر میں پڑا، کلچرڈ، سلجھے ہوئے اور اپنی بات میں ٹھہراؤ کی وجہ سے انھوں نے اپنی پرسنالٹی اور کئی فلموں کے Promotional Events میں پاکستان کے بارے میں بات کرکے ہمارا سر اونچا کیا۔

دنیا بدل رہی ہے، وہ انڈیا جہاں ہمارے آرٹسٹ ایک ہفتے نہیں ٹک پاتے تھے اب وہ پوری پوری فلمیں کر رہے ہیں، انڈیا سمجھ چکا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے اور جس ملک کے پاس جو چیز اچھی ہے اسے اپنے فائدے میں لانا عقل مندی ہے۔

سیمنٹ، فروٹ جیسی چیزوں کا بزنس تو ہم ویسے ہی انڈیا کے ساتھ کر رہے ہیں جس پر کسی کو خاص اعتراض نہیں۔

انڈیا کی فلم انڈسٹری اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے جہاں ہزار سے زیادہ فلمیں ہر سال ریلیز ہوتی ہیں اور اگر ہم بھی اس انڈسٹری سے کوئی فائدہ اپنے آرٹسٹوں اور ملک کے لیے اٹھاسکتے ہیں تو کیوں نہیں؟ اس پر ہمیں اعتراض نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے آرٹسٹوں کا ساتھ دینا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں