جابر بن حیان اور دور حاضر کے طبیب
مسلمانوں کی روایت بھی یہی رہی ہے کہ ان کے طبیب اپنی فیس کبھی نہیں لیتے تھے ان کی آمدنی دواخانوں سے ہوتی تھی۔
جابر بن حیان ایک مسلم سائنسدان جو ریاضی، کیمیا، فلاسفی، ادویات، نفسیات، فلکیات اور طب میں اپنے وقت کا بے تاج بادشاہ تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید ان کی بہت عزت کرتا تھا۔ علم کیمیا میں لازوال خدمات انجام دینے پر انھیں بابائے کیمیا بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ سلفیورک ایسڈ تیار کرنا تھا جوکہ آج کے صنعتی دور میں بھی سب سے زیادہ استعمال ہونے والا کیمیکل ہے۔
کپڑے کو رنگنا اور کپڑے کو واٹر پروف بنانا، زنگ سے بچانے کے لیے کیمیکل کی ایجاد، مختلف اقسام کے تیزاب کو متعارف کرانا، علم کیمیا کے تجربات کے لیے لیبارٹری کے آلات بنانا اور امام جعفر صادق کی خواہش پر ایسا کاغذ تیار کرنا جو آگ کو برداشت کرسکتا تھا اور نقصان بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہ سب کارنامے اور اس کے علاوہ بھی بے شمار کارنامے جابر بن حیان کی وجہ شہرت ہیں۔
یہاں ان کے مختصراً کارناموں کے ذکر کرنے کا مقصد اس طرف توجہ دلانا ہے کہ اپنے دور کا یہ عظیم شخص چاہتا تو دور حاضر کے انسانوں کی طرح اپنی ایجادات کو ''برائے فروخت'' کا بورڈ لگا کر امیر ترین شخص بن جاتا اور آج ہم بھی بل گیٹس کی طرح ان کے نام کو مثال بناکر پیش کرتے کہ بڑا سائنسدان بھی ہے اور امیر ترین شخص بھی۔ مگر اس عظیم شخص کے دماغ میں دولت کمانے یا سرمایہ داری کا بھوت سوار نہیں تھا۔
یہ اس قدر عظیم المرتبہ شخص تھا کہ ایک مرتبہ جب نجارا کا بادشاہ اسمٰعیل بیمار پڑا اور شاہی طبیب اس کا علاج کرنے میں کامیاب نہ رہے تو جابر بن حیان نے اپنے علاج سے بادشاہ کا دل جیت لیا۔ بادشاہ نے صحت پاکر خوشی سے کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو؟ جابر بن حیان نے کہا کہ مجھے آپ کی دولت نہیں چاہیے بلکہ آپ کے ہاں موجود کتب خانے میں کتابیں پڑھنے کی اجازت چاہیے۔
جب ایسے عظیم لوگ طبیب ہوں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کے ہاتھ میں شفا دے دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ حکیم اجمل خان دلی میں ہر شام چکر لگاتے جہاں مریض چارپائیوں پر لیٹے ہوتے تھے۔ حکیم اجمل خان ان سب کا مفت معائنہ کرتے تھے علاج کا کوئی پیسہ نہیں لیتے تھے۔ مسلمانوں کی روایت بھی یہی رہی ہے کہ ان کے طبیب اپنی فیس کبھی نہیں لیتے تھے ان کی آمدنی دواخانوں سے ہوتی تھی۔کبھی کوئی بادشاہ یا راجہ مہاراجہ علاج کرانے کے بعد نذرانہ دے دے تو سال بھر کا خرچہ بھی نکل آتا تھا لیکن عام لوگوں سے طبیب اپنی فیس نہیں لیتے تھے۔ کیا عظیم لوگ تھے شاید اسی لیے ان کے نام آج بھی تاریخ میں عزت و احترام کے ساتھ درج ہیں۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یقیناً یہ سب ان کے نفس مطمئنہ کے سبب تھا جو انھیں دین کی تعلیم نے دیا تھا ورنہ دنیاوی تعلیم جس کی بنیاد ہی سرمایہ سے رکھی جاتی ہے سیکڑوں ڈاکٹر جو زمانہ طالب علمی میں ''دکھی انسانیت کی خدمت'' کا نعرہ لگاتے ہیں عملی میدان میں قدم رکھتے ہی ایک سرمایہ دارانہ فرد کا روپ دھار لیتے ہیں جس کو یہ بھی احساس نہیں ہوتا ہے کہ کسی مریض کی مالی حالت کیا ہوگی، بس انھیں اپنی فیس سے غرض ہوتا ہے۔ اور اب تو فیس سے بھی بات آگے بڑھ گئی ہے، نہ تو ڈاکٹر صاحبان کے پاس وقت ہوتا ہے نہ ہی وہ کسی مریض پر یا اپنے فرض پر توجہ دیتے ہیں۔
ہم نے سنا تھا کہ سیاست سے دین جدا ہو تو چنگیزی رہ جاتی ہے لیکن دیکھا یہ ہے کہ ڈاکٹر سے دین جدا ہو تو وہ چنگیز خان بن جاتا ہے۔ آج ہی کی بات ہے کہ راقم کے ایک قاری نے اپنے ایک بیمار بھائی کے ساتھ ڈاکٹر اور اسپتال کے عملے کی بپتا پر مبنی دو صفحات کا ایک خط دیا ہے پورے خط کو یہاں نقل کرنا تو بہت مشکل ہے تاہم اس خط کا لب لباب وہی ہے جو اس ملک میں ایک عام شہری کو کسی اسپتال میں جاکر تکلیف دہ صورتحال پر ہوتا ہے، یعنی صفائی کا فقدان، کوئی سننے والا نہیں، مریض کے لیے اسپتال مزید پریشانی کا باعث۔ ڈاکٹروں کی عدم توجہی۔
اب اس بات کا کیا ماتم کیا جائے کہ متوسط سے بھی نچلے طبقوں کے علاقوں میں بھی آپ نزلے بخار کی دوا کسی بھی ڈاکٹر سے لیں تو آپ کو یکمشت پانچ سو روپے کا خرچہ کرنا پڑتا ہے، اگر کسی غریب کا بچہ دو تین دن ڈاکٹر سے دوا لے لے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایک مزدور کی کم ازکم دو تین دن کی اجرت تو اس علاج کی نذر ہوگئی۔
دلچسپ لطیفہ یہ ہے کہ اس پر بھی ڈاکٹر کا طریقہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ مریض سے صرف ایک دو جملے بولے اور اس کے بعد تھرمامیٹر مریض کے منہ میں لگاکر کوئی 80 یا 90 کی اسپیڈ سے مریض کی دوا لکھ دی جاتی ہے اور منہ سے تھرمامیٹر نکال کر Next کی صدا لگا دی جاتی ہے۔ راقم کے ایک دوست اس کلچر سے تنگ آکر اب جب بھی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ جملہ ادا کرتے ہیں ''ڈاکٹر صاحب! پلیز آپ مجھ سے ڈبل فیس لے لیں مگر پہلے میری بات اچھی طرح سن لیں، اس کے بعد قلم اٹھاکر نسخہ لکھئے۔''
ہوسکتا ہے کہ کوئی ڈاکٹر صاحب میری یہ تحریر پڑھتے ہوئے ناراض ہو رہے ہوں مگر حقیقت تو بہرحال یہی ہے۔ مذکورہ بالا احوال تو ان ڈاکٹرز حضرات کا ہے جن کی فیس 500 روپے کے اندر ہوتی ہے جب کہ اسپیشلسٹ کے نام پر تو ڈاکٹر حضرات کی فیس کا آغاز ہی کم ازکم 500 روپے سے ہوتا ہے۔
مجھے اس وقت اپنے ایک دوست کی بات شدت سے یاد آرہی ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ سرمایہ داری درحقیقت ایک سوچ کا نام ہے اگر کوئی ڈاکٹر یا سبزی فروش بھی عوام کی جیب سے پیسے نکالنے میں ''بے رحمی'' کا مظاہرہ کرے تو درحقیقت وہ سرمایہ دار ہی ہے، سرمایہ داری دراصل ایک ایسی سوچ کا نام ہے جس میں انسانیت کے رشتوں اور عظمت کو قربان کردیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے اس دوست کی بات سے اختلاف نہیں ہے کیونکہ ہمارا بھی عملی مشاہدہ کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔
آئیے غور کریں کہیں میری اور آپ کی سوچ بھی سرمایہ دارانہ تو نہیں ہے؟ کہیں ہم بھی ارادی یا غیر ارادی طور پر تو لوگوں کی جیب سے ''بے رحمی'' سے پیسہ تو نہیں نکال رہے ہیں؟ کیا ہم جابر بن حیان جیسے عظیم شخص کی عظمتوں کو ہی بیان کرتے رہیں گے یا خود بھی ان کی طرح عظیم بننے کی کوشش کریں گے جو مال دولت اور انعام کی پیشکش کے باوجود دولت کے پیچھے نہیں بھاگتا بلکہ کتابوں کے مطالعے کو ترجیح دیتا ہے۔ آئیے کچھ دیر کے لیے اپنا جائزہ لیں!
کپڑے کو رنگنا اور کپڑے کو واٹر پروف بنانا، زنگ سے بچانے کے لیے کیمیکل کی ایجاد، مختلف اقسام کے تیزاب کو متعارف کرانا، علم کیمیا کے تجربات کے لیے لیبارٹری کے آلات بنانا اور امام جعفر صادق کی خواہش پر ایسا کاغذ تیار کرنا جو آگ کو برداشت کرسکتا تھا اور نقصان بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہ سب کارنامے اور اس کے علاوہ بھی بے شمار کارنامے جابر بن حیان کی وجہ شہرت ہیں۔
یہاں ان کے مختصراً کارناموں کے ذکر کرنے کا مقصد اس طرف توجہ دلانا ہے کہ اپنے دور کا یہ عظیم شخص چاہتا تو دور حاضر کے انسانوں کی طرح اپنی ایجادات کو ''برائے فروخت'' کا بورڈ لگا کر امیر ترین شخص بن جاتا اور آج ہم بھی بل گیٹس کی طرح ان کے نام کو مثال بناکر پیش کرتے کہ بڑا سائنسدان بھی ہے اور امیر ترین شخص بھی۔ مگر اس عظیم شخص کے دماغ میں دولت کمانے یا سرمایہ داری کا بھوت سوار نہیں تھا۔
یہ اس قدر عظیم المرتبہ شخص تھا کہ ایک مرتبہ جب نجارا کا بادشاہ اسمٰعیل بیمار پڑا اور شاہی طبیب اس کا علاج کرنے میں کامیاب نہ رہے تو جابر بن حیان نے اپنے علاج سے بادشاہ کا دل جیت لیا۔ بادشاہ نے صحت پاکر خوشی سے کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو؟ جابر بن حیان نے کہا کہ مجھے آپ کی دولت نہیں چاہیے بلکہ آپ کے ہاں موجود کتب خانے میں کتابیں پڑھنے کی اجازت چاہیے۔
جب ایسے عظیم لوگ طبیب ہوں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کے ہاتھ میں شفا دے دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ حکیم اجمل خان دلی میں ہر شام چکر لگاتے جہاں مریض چارپائیوں پر لیٹے ہوتے تھے۔ حکیم اجمل خان ان سب کا مفت معائنہ کرتے تھے علاج کا کوئی پیسہ نہیں لیتے تھے۔ مسلمانوں کی روایت بھی یہی رہی ہے کہ ان کے طبیب اپنی فیس کبھی نہیں لیتے تھے ان کی آمدنی دواخانوں سے ہوتی تھی۔کبھی کوئی بادشاہ یا راجہ مہاراجہ علاج کرانے کے بعد نذرانہ دے دے تو سال بھر کا خرچہ بھی نکل آتا تھا لیکن عام لوگوں سے طبیب اپنی فیس نہیں لیتے تھے۔ کیا عظیم لوگ تھے شاید اسی لیے ان کے نام آج بھی تاریخ میں عزت و احترام کے ساتھ درج ہیں۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یقیناً یہ سب ان کے نفس مطمئنہ کے سبب تھا جو انھیں دین کی تعلیم نے دیا تھا ورنہ دنیاوی تعلیم جس کی بنیاد ہی سرمایہ سے رکھی جاتی ہے سیکڑوں ڈاکٹر جو زمانہ طالب علمی میں ''دکھی انسانیت کی خدمت'' کا نعرہ لگاتے ہیں عملی میدان میں قدم رکھتے ہی ایک سرمایہ دارانہ فرد کا روپ دھار لیتے ہیں جس کو یہ بھی احساس نہیں ہوتا ہے کہ کسی مریض کی مالی حالت کیا ہوگی، بس انھیں اپنی فیس سے غرض ہوتا ہے۔ اور اب تو فیس سے بھی بات آگے بڑھ گئی ہے، نہ تو ڈاکٹر صاحبان کے پاس وقت ہوتا ہے نہ ہی وہ کسی مریض پر یا اپنے فرض پر توجہ دیتے ہیں۔
ہم نے سنا تھا کہ سیاست سے دین جدا ہو تو چنگیزی رہ جاتی ہے لیکن دیکھا یہ ہے کہ ڈاکٹر سے دین جدا ہو تو وہ چنگیز خان بن جاتا ہے۔ آج ہی کی بات ہے کہ راقم کے ایک قاری نے اپنے ایک بیمار بھائی کے ساتھ ڈاکٹر اور اسپتال کے عملے کی بپتا پر مبنی دو صفحات کا ایک خط دیا ہے پورے خط کو یہاں نقل کرنا تو بہت مشکل ہے تاہم اس خط کا لب لباب وہی ہے جو اس ملک میں ایک عام شہری کو کسی اسپتال میں جاکر تکلیف دہ صورتحال پر ہوتا ہے، یعنی صفائی کا فقدان، کوئی سننے والا نہیں، مریض کے لیے اسپتال مزید پریشانی کا باعث۔ ڈاکٹروں کی عدم توجہی۔
اب اس بات کا کیا ماتم کیا جائے کہ متوسط سے بھی نچلے طبقوں کے علاقوں میں بھی آپ نزلے بخار کی دوا کسی بھی ڈاکٹر سے لیں تو آپ کو یکمشت پانچ سو روپے کا خرچہ کرنا پڑتا ہے، اگر کسی غریب کا بچہ دو تین دن ڈاکٹر سے دوا لے لے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایک مزدور کی کم ازکم دو تین دن کی اجرت تو اس علاج کی نذر ہوگئی۔
دلچسپ لطیفہ یہ ہے کہ اس پر بھی ڈاکٹر کا طریقہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ مریض سے صرف ایک دو جملے بولے اور اس کے بعد تھرمامیٹر مریض کے منہ میں لگاکر کوئی 80 یا 90 کی اسپیڈ سے مریض کی دوا لکھ دی جاتی ہے اور منہ سے تھرمامیٹر نکال کر Next کی صدا لگا دی جاتی ہے۔ راقم کے ایک دوست اس کلچر سے تنگ آکر اب جب بھی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ جملہ ادا کرتے ہیں ''ڈاکٹر صاحب! پلیز آپ مجھ سے ڈبل فیس لے لیں مگر پہلے میری بات اچھی طرح سن لیں، اس کے بعد قلم اٹھاکر نسخہ لکھئے۔''
ہوسکتا ہے کہ کوئی ڈاکٹر صاحب میری یہ تحریر پڑھتے ہوئے ناراض ہو رہے ہوں مگر حقیقت تو بہرحال یہی ہے۔ مذکورہ بالا احوال تو ان ڈاکٹرز حضرات کا ہے جن کی فیس 500 روپے کے اندر ہوتی ہے جب کہ اسپیشلسٹ کے نام پر تو ڈاکٹر حضرات کی فیس کا آغاز ہی کم ازکم 500 روپے سے ہوتا ہے۔
مجھے اس وقت اپنے ایک دوست کی بات شدت سے یاد آرہی ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ سرمایہ داری درحقیقت ایک سوچ کا نام ہے اگر کوئی ڈاکٹر یا سبزی فروش بھی عوام کی جیب سے پیسے نکالنے میں ''بے رحمی'' کا مظاہرہ کرے تو درحقیقت وہ سرمایہ دار ہی ہے، سرمایہ داری دراصل ایک ایسی سوچ کا نام ہے جس میں انسانیت کے رشتوں اور عظمت کو قربان کردیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے اس دوست کی بات سے اختلاف نہیں ہے کیونکہ ہمارا بھی عملی مشاہدہ کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔
آئیے غور کریں کہیں میری اور آپ کی سوچ بھی سرمایہ دارانہ تو نہیں ہے؟ کہیں ہم بھی ارادی یا غیر ارادی طور پر تو لوگوں کی جیب سے ''بے رحمی'' سے پیسہ تو نہیں نکال رہے ہیں؟ کیا ہم جابر بن حیان جیسے عظیم شخص کی عظمتوں کو ہی بیان کرتے رہیں گے یا خود بھی ان کی طرح عظیم بننے کی کوشش کریں گے جو مال دولت اور انعام کی پیشکش کے باوجود دولت کے پیچھے نہیں بھاگتا بلکہ کتابوں کے مطالعے کو ترجیح دیتا ہے۔ آئیے کچھ دیر کے لیے اپنا جائزہ لیں!