بات کچھ اِدھر اُدھر کی اور پھر وہ ایڈز کا شکار ہوگیا
اُس عورت کو یہ تو معلوم تھا کہ اُس کا بیٹا نشے کا عادی ہے مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جیل میں ہے۔
عالمی یوم ایڈز کے حوالے سے بات کرنے سے قبل میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ یہ کچھ عرصہ پہلے کے بات ہے ہم ایک ادارے کے ساتھ مل کر پاکستانی جیلوں میں بند بچوں کے لئے کام کررہے تھے کہ ایک نوعُمر بچے کا کیس سامنے آیا جو کہ شدید کمزور اور نخیف تھا، بیمار بھی تھا اور وہ نشے کا عادی بھی ۔اس کی حالت کے پیش نظر ہم نے فوراّّ اُس کے والدین یا سرپرستوں کی تلا ش شروع کی اور ساتھ میں قانونی کارروائی کا آغاز کردیا ۔ بڑی مشکل سے اُس کی والدہ سے رابطہ ہوا تو بچے کی حالت کے متعلق بتا یا گیا اور بچے کے کیس کی صورتحال ان کے علم میں لے کرآئے۔ وہ ماں تھی اُن کا دل پسیج گیا لیکن اس غربت کی ماری عورت کی اپنی ایک داستان تھی ،یہ جیل میں بند لڑکا اُس کے پہلے شوہر سے تھا جو کہ نشے کا عادی تھا، اُس کی موت کے بعد اس خاتون نے دوسری شادی کرلی لیکن نیا شوہر اس لڑکے سے اچھا سلوک نہیں کرتا تھا جس کی بنا ء پر اس نے گھر سے بھاگنا شروع کردیا،شروع میں وہ بہت پریشان تھی مگر بعد میں وہ چُپ ہوگئی کہ چلو اس طرح سے سوتیلے باپ کی مار پیٹ سے تو محفوظ رہے گا۔
اس لڑکے نے شہر کی سڑکو ں پر رہنا شروع کردیا لیکن سال میں ایک آدھی دفعہ آکر ماں سے مل لیا کرتا، اُس عورت کو یہ تو معلوم تھا کہ اُس کا بیٹا نشے کا عادی ہے مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جیل میں ہے۔ قصہ مختصر کہ اُس کی رضا مندی کے بعد ہم نے قانونی کارروائی مکمل کرتے ہوئے اُس کو جیل سے باہر نکلوایا اور فوری طور پر اُس کے علاج معالجے کا بندوبست شروع کردیا۔ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج اُ سے کسی منشیات سے بحالی کے ادارے میں داخل کروانا تھا۔آپ یقین کیجیے کہ کافی تلا ش کے باوجود بھی کوئی سرکار ی سطح پر مخصوص ادارہ ایسا نہ ملا جو منشیات کے عادی بچوں، نو عُمروں کی بحالی کے لئے خدمات فراہم کرتا ہو، البتہ کچھ اچھے پرائیویٹ ادارے موجود تھے لیکن اُن اداروں کی فیس زیادہ ہونے کے باعث غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے علاج معالجہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ہم نے فنڈ ز کا بند وبست کیا اور اس لڑکے کو منشیات سے بحالی کے ایک پرائیویٹ ادارے میں داخل کروانے کے بعد ہم مطمئن ہو گئے۔
اگلی شام تقریبا شام سات بجے کے قریب ہم کو اس ادارے سے فون آیا کہ آپ اُس بچے کو آکر فورا لے جائیے کیونکہ اُس کی مکمل میڈیکل رپورٹس آگئی ہیں اور لڑکا ایچ آئی وی پازیٹو ہے، چونکہ وہ سرنج کے ذریعے نشے کا عادی تھا تو اُمید واثق یہی تھی کہ یہ وائرس وہیں سے اُسکے اندر داخل ہوا ہے ۔ہم نے اس ادارے سے ایک رات کی مہلت مانگی کہ آج رات آپ اُس کو اپنے پاس رکھ لیں صبح آکرتفصیل سے بات کرلیں گے اور کوئی نہ کوئی انتظام کردیا جائے گا ،مگر ادارے کی انتظامیہ ایک رات کیا ایک گھنٹہ بھی اس لڑکے کو اپنے سنٹر پر رکھنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آپ اُس کو لے جائیے ورنہ ہم اُس کو خود نکال دیں گے ۔ خیر اپنی استعداد کے مطابق اُس وقت جو بن پایا ہم نے کیا، بعد ازاں ایڈز سے متاثرہ افراد کے لئے کام کرنے والے ایک غیر سرکار ی ادارے کے حوالے کردیا گیا۔مُجھے نہیں معلوم کہ وہ بچہ زندہ رہا یا نہیں، مگر جو تعصب بھر ا سلوک اُس کے ساتھ ہوا وہ نہ بھُولنے والا تھا۔
آج یکم دسمبر کو دُنیا بھر میں ایڈز سے آگاہی کے دن کے طور پر منا یا جاتا ہے۔ دُنیا بھر میں اس دن کو سرکاری سطح پر میڈیا ، حکومتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں اپنے اپنے طریقوں سے مناتی ہیں مگر آج بھی ایڈز کی آگاہی کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے کہ یہ کس طرح سے پھیلتا ہے، اس کا شکار کس قسم کے سلوک مستحق ہیں اور بہت ضروری ہے کہ عام افراد تک اس معلومات کو پہنچایا جائے۔
لاہور جیسے بڑے شہر میں ہونے والے اس واقعے سے ہم کو اندازہ ہوا کہ سرکاری سطح پر منشیات کے علاج کے لئے سہولیات کا فقدان کس حد تک خطرناک ہے ، جبکہ ایڈز سے متاثرہ افراد کے لیے تعصب سے بچائو اور خصوصی نگہداشت کا انتظام کس قدرضروری ہے۔ پنجاب میں دس سال پہلے نوعُمروں کے لئے بننے والے قانون (PUNJAB DESTITUTE & NEGLECTED CHILDREN ACT 2OO4) کے تخت بچوں کے تخفظ کے لئے مختلف شہروں میں ادارے تو بنا دیئے گئے تھے مگر بدقسمتی ابھی وہاں سہولیات کا فقدان ہے، یہ ادارے سڑکوں پر رہنے والے بہت سے بچوں کی زندگیوں میں بہتری کے لئے کردار اد ا کرسکتے ہیں مگر اس کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے جس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ جبکہ دوسرے صوبوں اور بڑے شہروں میں تو اس سلسلے میں ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔
آپ اس واقعے سے اندزہ لگائیے کہ کیااس بچے کا کوئی قصور تھا؟ کچھ لوگوں کی رائے اثبات میں ہوسکتی ہے ،مگر حقیقت میں بالکل نہیں یہ تو معاشرے اور بڑوں کا قصور تھا جس کی وجہ سے اُس کو ایک ایسا ماحول ملا کہ وہ گھر سے سڑک پر آگیا،سڑک سے نشے کا عادی بنا، جرائم کے باعث جیل پہنچا اور پھر ایڈز کے نام نہاد کلنک کا شکار ہوگیا۔ ساتھ ہی بحالی کے ادارے میں کیا جانے والاسلوک ، ایچ آئی وی پازیٹو افراد سے معاشرے کی طرف سے برتے جانیوالے سلوک کا آئینہ دار ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اس لڑکے نے شہر کی سڑکو ں پر رہنا شروع کردیا لیکن سال میں ایک آدھی دفعہ آکر ماں سے مل لیا کرتا، اُس عورت کو یہ تو معلوم تھا کہ اُس کا بیٹا نشے کا عادی ہے مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جیل میں ہے۔ قصہ مختصر کہ اُس کی رضا مندی کے بعد ہم نے قانونی کارروائی مکمل کرتے ہوئے اُس کو جیل سے باہر نکلوایا اور فوری طور پر اُس کے علاج معالجے کا بندوبست شروع کردیا۔ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج اُ سے کسی منشیات سے بحالی کے ادارے میں داخل کروانا تھا۔آپ یقین کیجیے کہ کافی تلا ش کے باوجود بھی کوئی سرکار ی سطح پر مخصوص ادارہ ایسا نہ ملا جو منشیات کے عادی بچوں، نو عُمروں کی بحالی کے لئے خدمات فراہم کرتا ہو، البتہ کچھ اچھے پرائیویٹ ادارے موجود تھے لیکن اُن اداروں کی فیس زیادہ ہونے کے باعث غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے علاج معالجہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ہم نے فنڈ ز کا بند وبست کیا اور اس لڑکے کو منشیات سے بحالی کے ایک پرائیویٹ ادارے میں داخل کروانے کے بعد ہم مطمئن ہو گئے۔
اگلی شام تقریبا شام سات بجے کے قریب ہم کو اس ادارے سے فون آیا کہ آپ اُس بچے کو آکر فورا لے جائیے کیونکہ اُس کی مکمل میڈیکل رپورٹس آگئی ہیں اور لڑکا ایچ آئی وی پازیٹو ہے، چونکہ وہ سرنج کے ذریعے نشے کا عادی تھا تو اُمید واثق یہی تھی کہ یہ وائرس وہیں سے اُسکے اندر داخل ہوا ہے ۔ہم نے اس ادارے سے ایک رات کی مہلت مانگی کہ آج رات آپ اُس کو اپنے پاس رکھ لیں صبح آکرتفصیل سے بات کرلیں گے اور کوئی نہ کوئی انتظام کردیا جائے گا ،مگر ادارے کی انتظامیہ ایک رات کیا ایک گھنٹہ بھی اس لڑکے کو اپنے سنٹر پر رکھنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آپ اُس کو لے جائیے ورنہ ہم اُس کو خود نکال دیں گے ۔ خیر اپنی استعداد کے مطابق اُس وقت جو بن پایا ہم نے کیا، بعد ازاں ایڈز سے متاثرہ افراد کے لئے کام کرنے والے ایک غیر سرکار ی ادارے کے حوالے کردیا گیا۔مُجھے نہیں معلوم کہ وہ بچہ زندہ رہا یا نہیں، مگر جو تعصب بھر ا سلوک اُس کے ساتھ ہوا وہ نہ بھُولنے والا تھا۔
آج یکم دسمبر کو دُنیا بھر میں ایڈز سے آگاہی کے دن کے طور پر منا یا جاتا ہے۔ دُنیا بھر میں اس دن کو سرکاری سطح پر میڈیا ، حکومتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں اپنے اپنے طریقوں سے مناتی ہیں مگر آج بھی ایڈز کی آگاہی کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے کہ یہ کس طرح سے پھیلتا ہے، اس کا شکار کس قسم کے سلوک مستحق ہیں اور بہت ضروری ہے کہ عام افراد تک اس معلومات کو پہنچایا جائے۔
لاہور جیسے بڑے شہر میں ہونے والے اس واقعے سے ہم کو اندازہ ہوا کہ سرکاری سطح پر منشیات کے علاج کے لئے سہولیات کا فقدان کس حد تک خطرناک ہے ، جبکہ ایڈز سے متاثرہ افراد کے لیے تعصب سے بچائو اور خصوصی نگہداشت کا انتظام کس قدرضروری ہے۔ پنجاب میں دس سال پہلے نوعُمروں کے لئے بننے والے قانون (PUNJAB DESTITUTE & NEGLECTED CHILDREN ACT 2OO4) کے تخت بچوں کے تخفظ کے لئے مختلف شہروں میں ادارے تو بنا دیئے گئے تھے مگر بدقسمتی ابھی وہاں سہولیات کا فقدان ہے، یہ ادارے سڑکوں پر رہنے والے بہت سے بچوں کی زندگیوں میں بہتری کے لئے کردار اد ا کرسکتے ہیں مگر اس کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے جس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ جبکہ دوسرے صوبوں اور بڑے شہروں میں تو اس سلسلے میں ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔
آپ اس واقعے سے اندزہ لگائیے کہ کیااس بچے کا کوئی قصور تھا؟ کچھ لوگوں کی رائے اثبات میں ہوسکتی ہے ،مگر حقیقت میں بالکل نہیں یہ تو معاشرے اور بڑوں کا قصور تھا جس کی وجہ سے اُس کو ایک ایسا ماحول ملا کہ وہ گھر سے سڑک پر آگیا،سڑک سے نشے کا عادی بنا، جرائم کے باعث جیل پہنچا اور پھر ایڈز کے نام نہاد کلنک کا شکار ہوگیا۔ ساتھ ہی بحالی کے ادارے میں کیا جانے والاسلوک ، ایچ آئی وی پازیٹو افراد سے معاشرے کی طرف سے برتے جانیوالے سلوک کا آئینہ دار ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔