موٹاپا برطانوی معیشت پر سب سے بڑا بوجھ
دہشت گردی کے خلاف جنگ سے زیادہ رقم شہریوں کو فربہی سے نجات دلانے پر صَرف
دہشت گردی سے دنیا کومحفوظ بنانے کے نام نہاد جواز کی بنیاد پر دو عشروں کے دوران امریکا نے کئی ممالک پر جنگ مسلط کی۔
اس دوران برطانیہ نے ہر ہر قدم پر امریکا ساتھ دیا۔ دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، اور اب یہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر عراق، شام اور لیبیا میں داعش کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ امریکا بہادر کی طرح برطانیہ بھی ہر سال دہشت گردی کے ' خاتمے ' کی کوششوں پر کثیر رقم خرچ کرتا ہے۔ برطانوی حکمران دہشت گردی کو داخلی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر ہر سال اربوں پاؤنڈز خرچ کرتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ برطانوی معیشت کو ہر سال 43 ارب پاؤنڈ کا جھٹکا پہنچاتی ہے، لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس سے بھی زیادہ رقم برطانوی شہریوں کو موٹاپے سے نجات دلانے پر صرف ہوتی ہے! امریکا کی مشہور مشاورتی کمپنی '' کینزی اینڈ کمپنی'' نے برطانوی معیشت کے بارے میں ایک تجزیاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ داخلی سلامتی کو ممکن بنانے، اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی کوششوں سے زیادہ رقم شہریوں کو موٹاپے سے بچانے پر صرف کررہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مسلح تشدد سے بچاؤ کے ضمن میں سالانہ 43 ارب پاؤنڈ خرچ کرتا ہے۔ دوسری جانب موٹاپے کے شکار شہری ہر سال ملکی معیشت پر 46.5 ارب پاؤنڈ کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔
موٹاپے کا مسئلہ برطانیہ میں کس قدر شدت اختیار کرگیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ سے زیادہ رقم موٹاپے کے خلاف ' جنگ ' پر خرچ کررہی ہے۔ رُبع صدی کے دوران برطانیہ میں موٹاپے کا شکار لوگوں کی تعداد دُگنی ہوگئی ہے۔ اس کے نتیجے میں شہریوں میں دل کے عوارض اور ذیابیطس کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو 2050ء تک 60 فی صد مرد، 50 فی صد عورتیں اور 24 فی صد بچے موٹاپے میں مبتلا ہوں گے۔
برطانیہ کی طرح دیگر ممالک میں بھی موٹاپے کے حوالے سے صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ دنیا کی 30 فی صد آبادی یعنی دو ارب دس کروڑ افراد موٹاپے کا شکار ہیں۔ یہ تعداد غذائی قلت کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد سے قریباً ڈھائی گنا زیادہ ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ عالمی معیشت کو سالانہ 20 کھرب 10 ارب ڈالر کا نقصان پہنچارہی ہے۔ موٹاپا بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں۔ موٹاپے سے بچاؤ کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر مجموعی طور پر 20 کھرب ڈالر خرچ ہورہے ہیں۔ اس کے برعکس مے نوشی پر سالانہ 10 کھرب چار ارب ڈالر اڑائے جاتے ہیں۔
مکینزی اینڈ کمپنی نے اپنی رپورٹ میں موٹاپے کو شکست دینے کے لیے تجویز بھی پیش کی ہے۔ کمپنی کے مطابق اس عفریت سے نجات پانے کے لیے حکومتوں، مشروب ساز کمپنیوں، ریستورانوں اور پرچون فروشوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
اس سلسلے میں تجویز کیے جانے والے اقدامات میں فاسٹ فوڈ پر جزوی کنٹرول، والدین کو تعلیم دینا، اسکولوں اور کام کرنے کی جگہوں پر صحت بخش غذاؤں کی فراہمی، اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جسمانی سرگرمیوں کی جانب مائل کرنا شامل ہیں۔
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اگر برطانیہ میں ان تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے تو پانچ سے دس سال کے دوران موٹاپے میں مبتلا لوگوں کی تعداد میں 20 فی صد کمی آجائے گی، جس سے حکومت کو ایک ارب 60 کروڑ پاؤنڈ سالانہ کی بچت ہوگی۔
اس دوران برطانیہ نے ہر ہر قدم پر امریکا ساتھ دیا۔ دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، اور اب یہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر عراق، شام اور لیبیا میں داعش کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ امریکا بہادر کی طرح برطانیہ بھی ہر سال دہشت گردی کے ' خاتمے ' کی کوششوں پر کثیر رقم خرچ کرتا ہے۔ برطانوی حکمران دہشت گردی کو داخلی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر ہر سال اربوں پاؤنڈز خرچ کرتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ برطانوی معیشت کو ہر سال 43 ارب پاؤنڈ کا جھٹکا پہنچاتی ہے، لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس سے بھی زیادہ رقم برطانوی شہریوں کو موٹاپے سے نجات دلانے پر صرف ہوتی ہے! امریکا کی مشہور مشاورتی کمپنی '' کینزی اینڈ کمپنی'' نے برطانوی معیشت کے بارے میں ایک تجزیاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ داخلی سلامتی کو ممکن بنانے، اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی کوششوں سے زیادہ رقم شہریوں کو موٹاپے سے بچانے پر صرف کررہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مسلح تشدد سے بچاؤ کے ضمن میں سالانہ 43 ارب پاؤنڈ خرچ کرتا ہے۔ دوسری جانب موٹاپے کے شکار شہری ہر سال ملکی معیشت پر 46.5 ارب پاؤنڈ کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔
موٹاپے کا مسئلہ برطانیہ میں کس قدر شدت اختیار کرگیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ سے زیادہ رقم موٹاپے کے خلاف ' جنگ ' پر خرچ کررہی ہے۔ رُبع صدی کے دوران برطانیہ میں موٹاپے کا شکار لوگوں کی تعداد دُگنی ہوگئی ہے۔ اس کے نتیجے میں شہریوں میں دل کے عوارض اور ذیابیطس کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو 2050ء تک 60 فی صد مرد، 50 فی صد عورتیں اور 24 فی صد بچے موٹاپے میں مبتلا ہوں گے۔
برطانیہ کی طرح دیگر ممالک میں بھی موٹاپے کے حوالے سے صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ دنیا کی 30 فی صد آبادی یعنی دو ارب دس کروڑ افراد موٹاپے کا شکار ہیں۔ یہ تعداد غذائی قلت کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد سے قریباً ڈھائی گنا زیادہ ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ عالمی معیشت کو سالانہ 20 کھرب 10 ارب ڈالر کا نقصان پہنچارہی ہے۔ موٹاپا بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں۔ موٹاپے سے بچاؤ کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر مجموعی طور پر 20 کھرب ڈالر خرچ ہورہے ہیں۔ اس کے برعکس مے نوشی پر سالانہ 10 کھرب چار ارب ڈالر اڑائے جاتے ہیں۔
مکینزی اینڈ کمپنی نے اپنی رپورٹ میں موٹاپے کو شکست دینے کے لیے تجویز بھی پیش کی ہے۔ کمپنی کے مطابق اس عفریت سے نجات پانے کے لیے حکومتوں، مشروب ساز کمپنیوں، ریستورانوں اور پرچون فروشوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
اس سلسلے میں تجویز کیے جانے والے اقدامات میں فاسٹ فوڈ پر جزوی کنٹرول، والدین کو تعلیم دینا، اسکولوں اور کام کرنے کی جگہوں پر صحت بخش غذاؤں کی فراہمی، اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جسمانی سرگرمیوں کی جانب مائل کرنا شامل ہیں۔
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اگر برطانیہ میں ان تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے تو پانچ سے دس سال کے دوران موٹاپے میں مبتلا لوگوں کی تعداد میں 20 فی صد کمی آجائے گی، جس سے حکومت کو ایک ارب 60 کروڑ پاؤنڈ سالانہ کی بچت ہوگی۔