لاہور بھر کی ’بندش‘
خدا کا شکر ہے کہ عمران خان صاحب نے جس دن لاہور بند کرنا ہے اس دن یعنی 4 دسمبر کو میری چھٹی ہے
خدا کا شکر ہے کہ عمران خان صاحب نے جس دن لاہور بند کرنا ہے اس دن یعنی 4 دسمبر کو میری چھٹی ہے اور میں اس دن گھر میں دروازے بند کر کے چھپ جاؤں گا اور آنے والے دن جب دفتر جانا ہو گا تو باہر نکل کر تسلی کر لوں گا کہ لاہور کھلا ہے یا نہیں ورنہ اس غیر آباد شہر میں اکیلے باہر نکلنے کو ڈر لگے گا اور اس پر بہار شہر کو چپ چاپ خاموش بند شہر دیکھنا بڑی جرات اور حوصلے کا کام ہو گا اس شہر سے وابستہ یادیں خیر ان کے ذکر کو چھوڑیے کہ رونے رلانے کو جی نہیں چاہ رہا اور اسی شہر کے ایک واقعے کو یاد کر رہا ہوں جو یوں لگتا ہے جیسے اس دن کی اعانت سے واقع ہوا تھا۔
لاہور کے شاہی قلعے کا دروازہ جو شاہی مسجد کی طرف کھلتا ہے بند تھا سکھوں نے بند کیا تھا یا انگریزوں نے بہر حال مدتوں سے بند تھا۔ آزادی کے بعد اسے کھولنے کا پروگرام بنا تو اس سلسلے میں ایک تقریب اس دروازے سے باہر منعقد ہوئی اور اس کی صدارت گورنر سردار عبدالرب نشتر نے کی۔ سردار صاحب جو خود بھی شاعر تھے اور فارسی شعر و ادب سے خاص شناسائی رکھتے تھے اپنی تقریر میں فارسی کا ایک مشہور شعر پڑھا جس کا ترجمہ یوں ہے کہ تم کواڑ کی آواز کو اس کے بند ہونے کی آواز سمجھتے ہو لیکن میں اسے اس دروازے کے کھلنے کی آواز سمجھتا ہوں۔
اب عمران خان صاحب کے چار اگست کو لاہور والے ہر گھر کے دروازے اور ہر دکان کے کواڑ کی آواز کو اس کے بند ہونے کی آواز سمجھیں گے اور اس شہر کے گورنر سردار نشتر کی سماعت پر رنج کریں گے کہ معاملہ الٹ ہے آپ جس آواز کو کھلنے کی آواز سمجھ رہے ہیں وہ تو بند ہونے کی ہے اور یہ دن لاہور کے بند ہونے کا دن ہے۔ لاہور ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اور اس شہر کے عام آدمیوں اور حکمرانوں نے اس کے ساتھ عشق کیا ہے یہانتک کہ ملکہ عالمہ نور جہاں تو اس شہر کی اس حد تک دیوانی تھی کہ اس نے کہا کہ لاہور کو میں نے جان کے برابر خریدا ہے۔ یوں ایک دوسری جنت خرید لی ہے ۔
کیا اب اس شہر کی طویل تاریخ میں ایک ایسے باب کا اضافہ ہو گا جس کا ذکر بہت سے لوگ تو درد کے مارے پڑھیں گے ہی نہیں۔ ایسے شہر کسی قومی غم میں تو بند ہو سکتے ہیں لیکن سیاسی غم میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خطرہ ہے کہ اس دن اگر کسی نے گھر دکان کھولنے کی کوشش کی اور کسی نے اسے ایسا کرنے سے روکا تو خون خرابا بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے واقعے کسی قومی مسئلے پر تو ہو سکتے ہیں کہ قوم خود بخود مارے غم کے بند ہو جائے لیکن بھلے چنگے وقتوں میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ دن دیہاڑے شہر بند ہو جائے کوئی کروڑ بھر کی آبادی والا شہر جیتے جاگتے سنسان ہو جائے۔ یہ اس قدر مشکل بلکہ محال لگتا ہے کہ کسی کا مذاق معلوم ہوتا ہے۔
لاہور کے ٹوٹے پھوٹے چند دروازے باقی ہیں اور ایک خستہ فصیل شہر بھی۔ اب یہ بھی اس قابل نہیں رہے کہ شہر کو بند کر سکیں۔ ایک مذہبی تحریک میں کچھ لیڈر مسجد وزیر خان میں بند ہو گئے تھے اور اس مسجد کو جانے والے راستے ان کے مریدوں نے بند کر دیے تھے لیکن پولیس کے ایک دو ہلوں نے ان کا یہ حصار توڑ دیا بلکہ ایک مشہور لیڈر جو سیاسی بھی تھا بھاگ کر قصور جا چھپا اور وہاں اس نے اپنی داڑھی بھی ذرا سی چھوٹی کرا لی ایک اخبار نے اس کی یہ تصویر چھاپ بھی دی تھی بہر کیف مسجد وزیر خان کی بندش بھی ٹوٹ گئی۔ لاہور کا اور تو کوئی ایسا حادثہ ذہن میں نہیں آ رہا ہاں ایک لیڈر کی بات یاد آ رہی ہے۔
یہ لیڈر تھے ہمارے دوست ملک غلام جیلانی ایڈووکیٹ (عاصمہ جیلانی کے والد) وہ فارغ تھے مگر زبردست سیاسی ذہن کے مالک ایک جرات مند شخص، ان کے حوالے سے یاد آیا کہ ایوب خان کے خلاف غالباً اس کے آئین پر ملک صاحب نے اسلام آباد میں احتجاجی جلوس نکالنا چاہا لیکن کسی نے ان کا ساتھ نہ دیا اس پر انھوں نے تن تنہا ایک بینر لے کر شاہراہ آئین پر 'جلوس' نکالا۔ سنسان سڑک پر چلنے والے اس تنہا شخص کی تصویر جو اسلام آباد کے صرف ایک ہی اخبار نے چھاپنے کی جرات کی تھی دنیا کو حیران کر گئی۔ ملک صاحب کا ایک سیاسی آئیڈیا جس کا میں یہاں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ تھا کہ کسی دن ایسا ہو کہ لوگ احتجاجاً گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ لوگوں کا یہ خاموش احتجاج کسی آمر حکمران کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہے۔
عمران خان کا شہر بند کرنے کا آئیڈیا اس سے بڑا اور سخت ہے لیکن ایسے کسی ہمہ گیر احتجاج کے لیے عوام کا ساتھ ہونا لازم ہے جلسے بڑے ہوں تو وہ عوام کو متاثر ضرور کرتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ جلسے جلوس کسی پروگرام کے لیے اور کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہوں محض ایک دھماچوکڑی نہ ہوں۔ میرے خیال میں جو غالباً درست بھی ہے عمران کی نوخیز سیاست کو حکومت نے آگے بڑھایا ہے عوام کو جس قدر بری اور تکلیف دہ حکومت اس دور میں ملی ہے ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے اور اسی وجہ سے لوگ حالات سے بے زار ہو کر عمران ایسے لوگوں کی تلاش میں ہیں ورنہ ان کے سامنے کتنی ہی پرانی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں مگر ان سے عوام مطمئن نہیں ہیں۔
عمران خان کی چاق و چوبند شخصیت اور ان کا پاکستانی عوام کا مخصوص پسندیدہ ماضی یہ سب اس نئے سیاستدان کی کامیابی کے راز ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت کا ایک عدیم المثال مظاہرہ ہم نے ایک سو سے زیادہ دنوں سے ہر روز دیکھا ہے جب کہ عمران نے ان دنوں میں ایک قسم کی تقریر کی اور حاضرین کو کوئی نیا پیغام نہیں دیا۔ ان کی یہ واضح مقبولیت ہے جس نے انھیں شہروں اور پھر ملک بھر کو بند کرنے کی ہمت دی ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے اس لشکر کے ساتھ کہ جس دن لاہور کے درودیوار خاموش ہوں گے اور گھروں کے کواڑ بند اس دن میری دفتر سے چھٹی ہو گی اور میں گھر میں محفوظ ہو کر بیٹھا رہوں گا۔ باقی اللہ مالک ہے۔