توانائی کا بحران اور ملکی مفاد کے تقاضے
قدرتی آفات کا تو ذکر ہی کیا کہ ہر انسان ان کے آگے بالکل بے بس اور لاچار ہوتا ہے،
قدرتی آفات کا تو ذکر ہی کیا کہ ہر انسان ان کے آگے بالکل بے بس اور لاچار ہوتا ہے، لیکن وطن عزیز میں تو انسانی آفات نے عام آدمی کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں اور جمہوریت کے راگ الاپے جاتے رہتے ہیں اور بے چارے عوام کی حالت روز بہ روز بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہر طرف بحران ہی بحران ہے۔ ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا بحران آن دھمکتا ہے۔ ان طرح طرح کے بحرانوں نے عام آدمی کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے ۔
گرمیوں کا موسم آتا ہے تو بجلی کا بحران شروع ہوجاتا ہے اور جوں جوں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی مسلسل بڑھتا چلا جاتا ہے۔ دوسری جانب بجلی کے نرخوں میں بے لگام اضافہ جلتی پر تیل چھڑکنے اور زخموں پر نمک پاشی کی طرح ناقابل بیان ہوتا ہے۔
جب جاڑے کا موسم آنے لگتا ہے تو گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب نازل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ مگر اس مرتبہ سردی کی آمد کے ساتھ ہی ایک طرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو دوسری جانب گیس کی لوڈ شیڈنگ۔ دونوں کی لوڈ شیڈنگ غیر اعلانیہ اور دورانیہ بھی طویل اور غیر معینہ۔ اس سے قبل سردیوں میں بجلی کی کھپت میں کمی واقعے ہو جایا کرتی تھی جس کے نتیجے میں گھروں اور کاروباری مراکز کو روشن رکھنے میں آسانی ہوجاتی تھی لیکن اس مرتبہ شہروں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10 سے 12 گھنٹے اور دیہی علاقوں میں 15 گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔
اس کا سبب بجلی کی پیداوار میں کمی کا ہونا بتایا جا رہا ہے جب کہ دوسری جانب حکومت کی جانب سے ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہفتے اور اتوار کی ہفتہ وار سرکاری تعطیلات کے دوران بھی جب سرکاری ادارے اور دفاتر بند رہتے ہیں بجلی کی لوڈشیڈنگ برابر ہوتی رہتی ہے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بھی زیادہ تکلیف کا باعث گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ یہ لوڈ شیڈنگ صبح، دوپہر اور شام کے اوقات میں اس موقعے پر کی جا رہی ہے جب لوگوں کے گھروں میں ناشتہ اورکھانا تیارکیا جا رہا ہوتا ہے۔حکمرانوں کا تعلق چونکہ اس طبقے سے ہے جسے عوامی مسائل کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا لہٰذا فیصلہ سازی میں بہت سے عوامی پہلوؤں کا نظرانداز ہوجانا ایک فطری امر ہے۔ بہ قول بھگت کبیر:
جا کے پیر پڑے نہ بوائی
وہ کیا جانے پیر پرائی
غریب کے دکھ کا احساس صرف غریب ہی کرسکتا ہے۔ حکومت کے رویے کے خلاف پنجاب کے بعض بڑے بڑے شہروں بشمول لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، شیخوپورہ اور ساہیوال وغیرہ میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں اور تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق عوام سڑکوں پر بھی نکل آئے ہیں لیکن عوام کے اس ردعمل کی حیثیت صدا بہ صحرا سے زیادہ ثابت نہ ہوسکی۔ جہاں تک پوش علاقوں کا تعلق ہے تو اس کے مکین تو گیس کی قلت کے مسئلے سے قطعی ناآشنا ہیں۔ رہی بات متوسط طبقے کی تو وہ بھی گیس سلنڈروں سے کام چلا لیتا ہے۔ اصل نشانہ بے چارہ غریب طبقہ ہے ۔
گیس اور بجلی کی اس جڑواں لوڈ شیڈنگ سے صرف چھوٹے لوگ ہی نہیں چھوٹے چھوٹے کاروبار بھی شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ صورت حال فوری اور بھرپور توجہ کی متقاضی ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پیداواری اور تجارتی شعبوں کے مفادات کو مدنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ گھریلو صارفین خصوصاً غریب طبقے کے مفادات بھی یکساں خیال رکھتی۔ وہ توانائی کے بحران پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ توانائی کے جس سنگین بحران کا آج ملک و قوم کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہمارے ماضی کے حکمراں اس کے سب سے زیادہ ذمے دار ہیں۔ اس میں ان حکمرانوں کی نااہلی، غفلت اور کرپشن سمیت تمام اسباب و عوامل شامل ہیں۔ ملک میں کالا باغ ڈیم کے چرچے ہوتے رہے اور عوام کو مسلسل سبز باغ بھی دکھائے جاتے رہے۔
افسوس کہ توانائی کے مختلف متبادل ذرایع کا زیادہ تر تذکرہ ہی کیا جاتا رہا جب کہ عملی اقدامات کی جانب سے مسلسل پہلو تہی اور مجرمانہ عدم توجہی کا مظاہرہ ہی کیا جاتا رہا۔ ہماری حکومتوں کا سارا زور عوام سے جھوٹے وعدے کرنے اور بیرونی امداد پر تکیہ کرنے پر ہی رہا۔ گستاخی معاف حکومتوں کا تمام تر انحصار آئی ایم ایف پر ہی رہا جس نے محض اپنا الو سیدھا کرنے کی خاطر عوام دشمن پالیسیوں پر عمل درآمد کروا کر بجلی کے نرخ زمین سے اٹھا کر اس بری طرح آسمان پر پہنچا دیے کہ بعض صارفین کو بجلی کے بل دیکھتے ہی دل کے دورے پڑ گئے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال 72 ارب روپے کی بلبلا دینے والی اوور بلنگ ہے جو مختلف حیلوں اور بہانوں سے کی جاتی رہی اور جس نے بے چارے مظلوم عوام کی چیخیں نکال دیں۔ اس کا کریڈٹ ہمارے میڈیا کو جاتا ہے جس نے اس مکروہ اور عوام دشمن منصوبے کی قلعی کھول دی اور جب یہ معاملہ وزیر اعظم کے نوٹس میں آیا تو انھوں نے عوام کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے بلکتے ہوئے عوام کے آنسو پونچھنے کی خوش خبری سنائی۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں توانائی کے سنگین مسئلے کے حل کی تلاش سرفہرست ہے اور ایسا ہونا کوئی غیر معمولی بات اس لیے نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنی انتخابی مہم میں بھی اس مسئلے کو اولیت دی تھی۔ اس معاملے میں حکومت کی سنجیدگی اور اخلاص نیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چین کے ساتھ ہونے والے حالیہ 42 ارب ڈالر کے معاہدوں میں سے بیشتر معاہدوں کا تعلق توانائی کے شعبے ہی سے ہے۔
اس کے علاوہ یہ پیش رفت بھی حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان، افغانستان، ترکمانستان اور بھارت کے مابین گیس کی پائپ لائن بچھانے کے لیے ان چاروں ملکوں کی سرکاری کمپنیوں نے مل کر ایک مشترکہ کمپنی قائم کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ترکمانستان سے 33 ارب مکعب میٹر قدرتی گیس افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کو فراہم کی جائے گی جس سے نہ صرف ان چاروں ممالک کی گیس کی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ ان کے درمیان معاشی اور سیاسی تعلقات میں بھی مثبت پیش رفت کے امکانات بڑھیں گے۔ یاد رہے کہ ترکمانستان کے پاس دنیا کے چوتھے سب سے بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں۔
چونکہ کالا باغ ڈیم معاشی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے اس لیے اب حالات کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دیامر بھاشا ڈیم اور بعض دیگر آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے بھی سوچا جا رہا ہے جوکہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت اپنی معیشت خصوصاً زراعت کو فروغ دینے کے لیے تمام تر اندرونی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر 4500 ڈیم تعمیر کرچکا ہے جب کہ مزید 400 ڈیموں پر کام جاری ہے۔ ہمارا پڑوسی دوست چین 2200 چھوٹے بڑے ڈیموں سے فائدہ اٹھا رہا ہے جب کہ امریکا ساڑھے چھ ہزار ڈیموں سے استفادہ کر رہا ہے۔ بہ قول شاعر:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
دنیا میں ترقی صرف ان ہی قوموں کا مقدر بنتی ہے جو علاقائی اور لسانی مفادات سے بالاتر ہوکر اور محدود سیاسی مفادات سے ہٹ کر خالصتاً ملکی اور قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کی تلخیوں اور غلطیوں کو فراموش کرکے ملک کے مجموعی مفاد کو اولیت دیں۔
گرمیوں کا موسم آتا ہے تو بجلی کا بحران شروع ہوجاتا ہے اور جوں جوں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی مسلسل بڑھتا چلا جاتا ہے۔ دوسری جانب بجلی کے نرخوں میں بے لگام اضافہ جلتی پر تیل چھڑکنے اور زخموں پر نمک پاشی کی طرح ناقابل بیان ہوتا ہے۔
جب جاڑے کا موسم آنے لگتا ہے تو گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب نازل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ مگر اس مرتبہ سردی کی آمد کے ساتھ ہی ایک طرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو دوسری جانب گیس کی لوڈ شیڈنگ۔ دونوں کی لوڈ شیڈنگ غیر اعلانیہ اور دورانیہ بھی طویل اور غیر معینہ۔ اس سے قبل سردیوں میں بجلی کی کھپت میں کمی واقعے ہو جایا کرتی تھی جس کے نتیجے میں گھروں اور کاروباری مراکز کو روشن رکھنے میں آسانی ہوجاتی تھی لیکن اس مرتبہ شہروں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10 سے 12 گھنٹے اور دیہی علاقوں میں 15 گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔
اس کا سبب بجلی کی پیداوار میں کمی کا ہونا بتایا جا رہا ہے جب کہ دوسری جانب حکومت کی جانب سے ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہفتے اور اتوار کی ہفتہ وار سرکاری تعطیلات کے دوران بھی جب سرکاری ادارے اور دفاتر بند رہتے ہیں بجلی کی لوڈشیڈنگ برابر ہوتی رہتی ہے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بھی زیادہ تکلیف کا باعث گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ یہ لوڈ شیڈنگ صبح، دوپہر اور شام کے اوقات میں اس موقعے پر کی جا رہی ہے جب لوگوں کے گھروں میں ناشتہ اورکھانا تیارکیا جا رہا ہوتا ہے۔حکمرانوں کا تعلق چونکہ اس طبقے سے ہے جسے عوامی مسائل کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا لہٰذا فیصلہ سازی میں بہت سے عوامی پہلوؤں کا نظرانداز ہوجانا ایک فطری امر ہے۔ بہ قول بھگت کبیر:
جا کے پیر پڑے نہ بوائی
وہ کیا جانے پیر پرائی
غریب کے دکھ کا احساس صرف غریب ہی کرسکتا ہے۔ حکومت کے رویے کے خلاف پنجاب کے بعض بڑے بڑے شہروں بشمول لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، شیخوپورہ اور ساہیوال وغیرہ میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں اور تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق عوام سڑکوں پر بھی نکل آئے ہیں لیکن عوام کے اس ردعمل کی حیثیت صدا بہ صحرا سے زیادہ ثابت نہ ہوسکی۔ جہاں تک پوش علاقوں کا تعلق ہے تو اس کے مکین تو گیس کی قلت کے مسئلے سے قطعی ناآشنا ہیں۔ رہی بات متوسط طبقے کی تو وہ بھی گیس سلنڈروں سے کام چلا لیتا ہے۔ اصل نشانہ بے چارہ غریب طبقہ ہے ۔
گیس اور بجلی کی اس جڑواں لوڈ شیڈنگ سے صرف چھوٹے لوگ ہی نہیں چھوٹے چھوٹے کاروبار بھی شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ صورت حال فوری اور بھرپور توجہ کی متقاضی ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پیداواری اور تجارتی شعبوں کے مفادات کو مدنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ گھریلو صارفین خصوصاً غریب طبقے کے مفادات بھی یکساں خیال رکھتی۔ وہ توانائی کے بحران پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ توانائی کے جس سنگین بحران کا آج ملک و قوم کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہمارے ماضی کے حکمراں اس کے سب سے زیادہ ذمے دار ہیں۔ اس میں ان حکمرانوں کی نااہلی، غفلت اور کرپشن سمیت تمام اسباب و عوامل شامل ہیں۔ ملک میں کالا باغ ڈیم کے چرچے ہوتے رہے اور عوام کو مسلسل سبز باغ بھی دکھائے جاتے رہے۔
افسوس کہ توانائی کے مختلف متبادل ذرایع کا زیادہ تر تذکرہ ہی کیا جاتا رہا جب کہ عملی اقدامات کی جانب سے مسلسل پہلو تہی اور مجرمانہ عدم توجہی کا مظاہرہ ہی کیا جاتا رہا۔ ہماری حکومتوں کا سارا زور عوام سے جھوٹے وعدے کرنے اور بیرونی امداد پر تکیہ کرنے پر ہی رہا۔ گستاخی معاف حکومتوں کا تمام تر انحصار آئی ایم ایف پر ہی رہا جس نے محض اپنا الو سیدھا کرنے کی خاطر عوام دشمن پالیسیوں پر عمل درآمد کروا کر بجلی کے نرخ زمین سے اٹھا کر اس بری طرح آسمان پر پہنچا دیے کہ بعض صارفین کو بجلی کے بل دیکھتے ہی دل کے دورے پڑ گئے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال 72 ارب روپے کی بلبلا دینے والی اوور بلنگ ہے جو مختلف حیلوں اور بہانوں سے کی جاتی رہی اور جس نے بے چارے مظلوم عوام کی چیخیں نکال دیں۔ اس کا کریڈٹ ہمارے میڈیا کو جاتا ہے جس نے اس مکروہ اور عوام دشمن منصوبے کی قلعی کھول دی اور جب یہ معاملہ وزیر اعظم کے نوٹس میں آیا تو انھوں نے عوام کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے بلکتے ہوئے عوام کے آنسو پونچھنے کی خوش خبری سنائی۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں توانائی کے سنگین مسئلے کے حل کی تلاش سرفہرست ہے اور ایسا ہونا کوئی غیر معمولی بات اس لیے نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنی انتخابی مہم میں بھی اس مسئلے کو اولیت دی تھی۔ اس معاملے میں حکومت کی سنجیدگی اور اخلاص نیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چین کے ساتھ ہونے والے حالیہ 42 ارب ڈالر کے معاہدوں میں سے بیشتر معاہدوں کا تعلق توانائی کے شعبے ہی سے ہے۔
اس کے علاوہ یہ پیش رفت بھی حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان، افغانستان، ترکمانستان اور بھارت کے مابین گیس کی پائپ لائن بچھانے کے لیے ان چاروں ملکوں کی سرکاری کمپنیوں نے مل کر ایک مشترکہ کمپنی قائم کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ترکمانستان سے 33 ارب مکعب میٹر قدرتی گیس افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کو فراہم کی جائے گی جس سے نہ صرف ان چاروں ممالک کی گیس کی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ ان کے درمیان معاشی اور سیاسی تعلقات میں بھی مثبت پیش رفت کے امکانات بڑھیں گے۔ یاد رہے کہ ترکمانستان کے پاس دنیا کے چوتھے سب سے بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں۔
چونکہ کالا باغ ڈیم معاشی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے اس لیے اب حالات کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دیامر بھاشا ڈیم اور بعض دیگر آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے بھی سوچا جا رہا ہے جوکہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت اپنی معیشت خصوصاً زراعت کو فروغ دینے کے لیے تمام تر اندرونی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر 4500 ڈیم تعمیر کرچکا ہے جب کہ مزید 400 ڈیموں پر کام جاری ہے۔ ہمارا پڑوسی دوست چین 2200 چھوٹے بڑے ڈیموں سے فائدہ اٹھا رہا ہے جب کہ امریکا ساڑھے چھ ہزار ڈیموں سے استفادہ کر رہا ہے۔ بہ قول شاعر:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
دنیا میں ترقی صرف ان ہی قوموں کا مقدر بنتی ہے جو علاقائی اور لسانی مفادات سے بالاتر ہوکر اور محدود سیاسی مفادات سے ہٹ کر خالصتاً ملکی اور قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کی تلخیوں اور غلطیوں کو فراموش کرکے ملک کے مجموعی مفاد کو اولیت دیں۔