تاریخ کی بوڑھی ترین تہذیب
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں زمین پرکبھی اتنے بوڑھے نہیں رہے
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں زمین پرکبھی اتنے بوڑھے نہیں رہے، جتنے کہ آج ہیں۔(ورلڈ پاپولیشن ایجنگ 1950-2050)۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب سوری اپریل2014 میں ٹوکیوگئے۔ آپ وہاں ''بایو اِتھکس'' پر ایک اہم عالمی کانفرنس میں مدعو تھے۔ٹوکیو کے بازاروں میں چلتے پھرتے آپ کو محسوس ہوا کہ جوان لوگ نظر نہیں آرہے ہیں۔ ہر طرف بوڑھے یا ادھیڑ عمر کے لوگ ہیں۔ اِکا دُکا جوان مشکل سے نظر آتا۔آپ نے اپنے مشاہدے کا ذکر کانفرنس میں موجود جاپان کے ایک بہت بڑے ماہر علم بشریات (اینتھرو پولوجسٹ) پروفیسر ''لی ''سے کیا ۔
اُن کا جواب تھا کہ''یہ مشاہدہ کلی طور پر درست ہے ،مگر جزوی طور پر غلط ہے۔ کلی طور پر اس لیے کہ جاپان میں کام اور ترقی کے باعث شادی کا رواج کم ہے۔ لوگ شادیاں نہیں کرتے۔ لہٰذا شرح پیدائش منفی ہے۔ بوڑھی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ جزوی طور پر اس لیے غلط ہے کہ تم جن کو جوان سمجھ رہے ہو وہ بھی اصلاًجوان نہیں ہیں ۔ان کی عمریں بھی ساٹھ سال کے قریب ہیں ۔مگر ایسے بوڑھے تمہیں اس لیے جوان نظر آتے ہیں کہ جاپانی لوگوں کا قد چھوٹا ہوتا ہے۔
ان کے جسمانی انحطاط کی شرح کم ہوتی ہے ۔یہ مچھلی کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں ان کے جسم میں زنک کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا ان کے بال کالے رہتے ہیں ۔2040 تک جاپان میں بوڑھوں کی تعداد75فی صد ہو جائے گی۔'' آپ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ''جاپان ایک چھوٹا ملک ہے۔ آبادی بھی کم ہے ۔اس لیے تمہیں بوڑھے زیادہ نظر آرہے ہیں، لیکن مغرب کے تمام ملکوں کی حالت بھی یہی ہے ۔''
واقعہ یہ ہے کہ جاپان میں بوڑھوں کی تعداد میں اِس تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ شاید ہی کسی اور جگہ ہوا ہو۔اعداد وشمار کے مطابق جاپان میں 33 فی صد افراد 60برس سے زیادہ عمر کے ہیں۔25.9فی صد 65برس سے زائد عمر کے ہیںاور12.5فی صد 75برس سے زائد عمر کے ہیں۔خطرہ اِس بات کا ہے کہ اگر بوڑھوں کی تعداد میں اضافے کی یہ ہی رفتار رہی تو مستقبل قریب میں جاپان صرف بوڑھوں کی قوم بن کر رہ جائے گا۔نام نہاد ترقی اور خوش حالی کے چکر میں ابتداً شرح پیدائش کم ہوئی، بعد ازاں ہوتے ہوتے شادی کا ادارہ ہی ختم ہونے کو ہے۔
آج کی جاپانی لڑکی کارپوریٹ کلچر کی پروردہ ہے ۔ و ہ غیر شادی شدہ زندگی کو شادی پر ترجیح دینے لگی ہے۔ 2004کے اعداد وشمار کے مطابق جاپان کی 20برس عمر کی54فی صد لڑکیاںغیر شادی شدہ تھیں۔آج یہ تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔آج جاپان کی حکومت شادی اور بچوں کی پیدائش کے لیے مختلف مراعات کا اعلان کرتی نظر آتی ہے۔طُرفہ تماشا ہے۔ اب سے کچھ عرصہ قبل حکومتیں کم بچے خوش حال گھرانہ کے راگ الاپتی نظر آتی تھیں،آج بچوں کی پیدائش کے لیے اپیلیں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔جاپان میں بوڑھوں کے اِس غیر فطری اضافے کو ''کوری کا شاکی''کے نام سے بھی جانا جارہا ہے۔
ترقی کا لازمی نتیجہ نسل کُشی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ترقی کرنے والی قومیں میٹرنٹی ہوم تو بنالیتی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہاں شادیوں کا رواج ختم ہو جاتا ہے ۔ شادی کرنے والی عورتیں بچہ پیدا کرنا نہیں چاہتیں۔بچے عورت کی آزادی اور ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ جن تہذیبوں میں میٹرنٹی ہوم نہیں ہوتا وہاں کی ہر عورت اوسط سات آٹھ بچے پیدا کرتی ہے اور صحت مند رہتی ہے۔ مغربی تہذیب کا بنیادی عقیدہ لذت ہے۔ مغرب میں جو عورت بچے پیدا کرنا چاہتی ہے اس کو بہت نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔
اس عورت کی نوکری خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔بھاری مالی نقصانات ہوتے ہیں ،بچے کی خاطر وہ زیادہ چھٹیاں نہیں کرسکتی ،بچے کی وجہ سے زیادہ دیر دفتر میں نہیں ٹھہر سکتی، ادارے کو آزادانہ خدمات مہیا نہیں کرسکتی ۔ایسی عورت سرمایہ کے پیداواری عمل میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے ۔وہ نہایت ناپسندیدہ نظروں سے دیکھی جاتی ہے کہ وہ اپنی آزادی اور سرمایہ کی آزادی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ لہٰذا عورتیں مغرب میں بچے نہیں پیدا کرتیں ۔
1992 ء کے نوبل انعام یافتہ''گیری بیکر'' نے معاشیات کا نظریۂ شادی ''اکنامک تھیوری اوف میرج'' پیش کیا۔ اس نظریے کے تحت اس نے ثابت کیا کہ اس عورت کو زیادہ مالی فوائد حاصل ہوں گے جو اپنی (پہلی زچگی) پہلے بچے کی پیدائش کو چند سالوں کے لیے موخر یا ملتوی کردے۔(دی ڈیلوژن اوف اکنامکس)۔ بیکر کے نظریے کی عملی اطلاقی تشریح''کَیسے بکلز'' نے پیش کی۔ وہ لکھتا ہے کہ جو عورت پہلے بچے کی پیدائش کو موخر کردیتی ہے اس کی آمدنی میں ایک سال کے بعد تین فی صد تک اضافہ ہوجاتا ہے لیکن وہ عورتیں جو بچے پیدا کرلیتی ہیں انھیں مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اگر کسی عورت کے آٹھ بچے ہوں تو اس بے چاری کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔
آٹھ بچے پالنے کے بعد عورت محض عورت ہی رہ جاتی ہے عورت کا سمٹ کر صرف عورت رہ جانا اور عورت کا صرف عورت بن جانامغرب کی نظرمیں ایک توہین آمیز تصورِعورت ہے۔ وہ محض ذرہ ،قطرہ، نہیں وہ اپنی ذات صحراء اور دجلہ ہے جس کے لیے یہ دنیا ناکافی ہے۔مغرب کے فلسفہ انسانی حقوق بلکہ مذہب ِانسانی حقوق کے مطابق عورت'' وجود واحد''ہے۔ یعنی اپنے ہونے کا جواز اپنے اندر رکھتی ہے ''اینڈ اِن ہر سیلف ''۔وہ آزاد ہے۔ اس کی شناخت اس کا ہونا ہے ۔اس کے سوا کوئی دوسری شناخت نہیں۔اس کا وجود کسی دوسرے مقصد کا ذریعہ نہیں ہے ۔ وہ خود ہی مقصد ہے یعنی بیوی، ماں، بہو ،بیٹی ، ساس،نند، بلکہ عبد بننا اس کا مقصد نہیں ہے۔ وہ چاہے تو بنے نہ چاہے تو نہ بنے یہ اس کی مرضی ہے ۔کیوں کہ وہ آزاد ہے ۔یہ فلسفہ انفرادیت پسندی ہے۔
روایتی تہذیبوں میں عورت اور مرد اکیلے ،تنہا ،سب سے کٹے ہوئے نہیں ہوتے۔ وہ رشتوں کی زنجیروں میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ عورت تنہا وجود نہیں وہ یا تو کسی کی ماں ہے ،یا کسی کی بیٹی، کسی کی بیوی، کسی کی بہو ،کسی بہن، کسی کی نانی ،دادی،پھوپھی ، خالہ،چچی، تائی اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ ۔وہ اپنی ذات میں ایک سمندر ، انجمن ، کہکشاں بل کہ بولتا ہوا چمن ہوتی ہے۔ لیکن مغرب عورت کی اس خوبصورت اجتماعی تصویر کو رد کرتا ہے اوراُسے بازار کی جنس بنا کر اُسے بھی پیسہ کمانے کی مشین بنا دیتا ہے۔آج جاپان اور چین میں عورتیں 22گھنٹے تک ملازمت کرتی پائی جاتی ہیں۔
گوری اقوام دنیا کی کل آبادی کا صرف چار فی صد ہیں امریکا کے سوا تمام مغرب ، یورپ، روس، آسٹریلیا وغیرہ میں آبادی کی شرح منفی ہے ۔2050 تک مغربی گوری اقوام میں بوڑھوں کی تعداد چالیس فی صد سے زیادہ ہوجائے گی۔ بوڑھوں، پاگلوں، بے روز گاروں، بچوں اور طالب علموں کو شامل کرلیا جائے تو2040 تک مغرب میں کام کرنے کے قابل لوگوں کی تعداد صرف تیس فی صد رہ جائے گی۔ یہ خطرناک صورت حال ہے ۔مغرب میں بچے پیدا نہیں ہورہے لوگ بوڑھے ہورہے ہیں تو کام کے لیے افرادی قوت کہاں سے آئے گی؟ روبوٹ، ڈولی، ٹیسٹ ٹیوب بے بی،کرائے کی ماں، جنوم پروجیکٹ آبادی کا مسئلہ حل نہیں کرسکے ۔ دنیا میں صرف مسلمانوں کے ہاں نوجوانوں کی تعداد کل آبادی کا چالیس فی صد ہے۔
جاپان جس نے مغرب سے زیادہ ترقی کی۔آج تاریخِ انسانی کی بوڑھی ترین تہذیب میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ایسی ترقی کس کام کی کہ قوم ہی ختم ہو جائے ۔ترقی صرف ترقی کے لیے؟ ترقی کا مقصد صرف ترقی۔ ترقی کسی دوسرے مقصد کا ذریعہ نہیں ۔نتیجہ یہ کہ آج تاریخ انسانی کی بوڑھی ترین تہذیب زمین پر موجود ہے۔ لیکن دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ یہ بڑھاپا دراصل آزادی اورترقی کے عقیدے کا تتمہ ہے ۔