داعش اور امریکی خفیہ معاہدہ
حال ہی میں امریکا نے ایک مرتبہ پھر اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے جس کا موجد اور بانی وہ خود ہے
داعش (ISIS)نے 12جون2014 کو عراق میں اپنی موجودگی کا اعلان کچھ اس طرح سے کیا کہ عراق کے شمالی صوبے کے شہروں النبار، تکریت سمیت متعدد مقامات پر راہ چلتے معصوم شہریوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا اور اپنی دہشت و دھاک بٹھا کر اپنی موجودگی کا اعلان کر دیا۔بعض ماہرین کاکہنا ہے کہ داعش نامی یہ گروہ 2014 کی پیداوار نہیں بلکہ اس کی منصوبہ بندی اس وقت کی گئی تھی جب امریکی افواج عراق میں موجود تھیں اور ان کے قبضے میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد زیر حراست تھے،انھی زیر حراست افراد میں ایک ابو بکر البغدادی بھی ہے جسے آج ہم اور آپ داعش (ISIS)کے سربراہ کے طور پر ذرایع ابلاغ کے توسط سے جانتے ہیں۔
حال ہی میں امریکا نے ایک مرتبہ پھر اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے جس کا موجد اور بانی وہ خود ہے، امریکا نے شام اور عراق میں موجود دہشت گردوں بالخصوص حالیہ دنوں منظر عام پر آنے والی دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف اپنی جنگ کا اعلان کیا ہے اور عراق کے شمالی علاقوں اور شام کے شمال میں ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے لیکن دراصل حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں امریکا ہی نے ان سب کی مدد کی ہے اور ان سے خفیہ معاہدے کیے گئے اور انھیں باقاعدہ جیلوں سے رہا کیا گیا، اسی حوالے سے ایک مثال داعش (ISIS)کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہے، جسے خود امریکا نے ماضی میں جیل سے صرف اس لیے رہا کیا تھا تا کہ وہ عراق میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دے اور امریکی ایجنڈے کی تکمیل کا باعث بنے۔
بغدادی کا تعلق ماضی میں القاعدہ سے رہا ہے، واضح رہے کہ گزشتہ دنوں امریکی لڑاکا طیاروں کے حملوں میں ابو بکر البغدادی کے زخمی ہونے اور قتل ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں تاہم اس وقت تک صرف یہی تصدیق ہوئی ہے کہ بغدادی اس حملے میں شدید زخمی ہوا تھا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے امریکی افواج کی حراست میں موجود ابو بکر البغدادی نامی شخص کو صرف اس لیے رہا کروایا تھا کیونکہ امریکی صدر چاہتے تھے کہ ان دہشت گردوں کی مدد سے عراق میں وہ تمام مقاصد حاصل کیے جائیں جو وہ امریکی افواج کو عراق میں داخل کرنے کے بعد بھی نہیں کر سکے تھے۔
اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ داعش کی قیادت کو امریکا نے کیوں رہا کیا تھا؟ کیا اس میں کوئی حکمت عملی پوشیدہ تھی؟ یا امریکا کی غلطی ؟ لیکن ان تمام سوالوں کے جواب سے پہلے ایک اور رائے اور مصدقہ اطلاع موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ نے جارج بش کے زمانے میں 2008 میں ایک معاہدہ طے کیا تھا جس کے نتیجے میں2009 میں بغدادی کو باقاعدہ امریکی حراست سے آزاد کیا گیا۔
یہ 2005 کی بات ہے جب امریکی افواج نے عراق میں ایک کارروائی کے دوران ابوبکر البغدادی کو گرفتار کر لیا تھا،ابوبکر البغدادی کو عراق کے جنوب میں واقع امریکی کیمپ بقا میں رکھا گیاجہاں اس نے اپنی زندگی کے چند سال گزارے۔
2008 کے آغاز میں امریکی صدر بش نے عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کے معاملے کے تحت ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں امریکی افواج کی حراست میں موجود ہزاروں قیدیوں کو عراقی سیکیورٹی فورسز کی حراست میں دینے کا معاملہ بھی طے کیا گیا تھا، تاہم 2009 اور2010 میںسیکڑوں قیدیوں کو عراقی سیکیورٹی فورسز کے حوالے کیا گیا جن میں بغدادی بھی شامل تھا،بعد ازاں کہا جاتا ہے کہ نئے امریکی صدر کے آنے کے بعد عراق پر دباؤ بڑھایا گیا اور سیکڑوں رہا کیے جانے والے قیدیوں میں سے ایک ابوبکر البغدادی بھی تھا جسے عراقی حراست سے رہا کیا گیا۔اسی سال ابو بکر البغدادی نے رہائی پانے کے فوراً بعد ہی داعش کی بنیاد کا اعلان کیا اور عراق میں خود کو بن لادن کہلوانے لگا۔
عراقی امور کے ماہر Patrick Johnston کہتے ہیں کہ امریکا کا عراق میں قید کیے جانے والے قیدیوں کے بارے میں بالکل کمزور طریقہ کار تھا اور اس معاملے میں امریکا بلیک آئی کے نام سے مشہور ہو گیا تھا۔ایک اور ماہراورامریکن نیول وار کالج کی استاد Jacqueline Hazelton کہتی ہیں کہ امریکی حراست میں رہنے والے قیدیوں پر تشدد بھی کیا جاتا تھا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا نے ان قیدیوں کے ساتھ اپنے تعلقات استوارکیے جو ان کی رہائی کے بعد مفید ثابت ہوئے اور امریکی پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں بھی کارگر ثابت ہوئے۔ عراق کے جنوب میں قائم امریکی کیمپ جسے ''BUCCA'' کے نام سے جانا جاتا ہے ، اس کیمپ کے سابق کمانڈر Kenneth King کہتے ہیں کہ ابوبکر البغدادی قیدیوں کے درمیان زیادہ خطرناک یا مخصوص قیدی کی نگاہ سے نہیں پایا جاتا تھا، بغدادی کی عادات بری ضرور تھیں لیکن وہ جیل میں بد ترین سے بد ترین نہیں تھا۔
ریسرچ اینڈ کنسلٹنسی انسٹیٹیوٹ ایسٹ اینڈ مڈل گلف ملٹری نامی ادارے کے ڈائریکٹر Theodore Karasik کہتے ہیں کہ ابو بکر البغدادی کی طرح ہزاروں قیدیوں کو اس معاہدے کے تحت رہا کیا گیا جو بش انتظامیہ نے انجام دیا تھا اور یہ ایک غیر معمولی کام نہیں تھا،ان کے مطابق افغانستان میں بھی امریکا نے کئی قیدیوں کو اسی طرح رہا کیاجن کو کئی برس تک حراست میں رکھا گیا تھا۔
موجودہ حالات میں ابو بکر البغدادی داعش کی سربراہی کر رہا ہے اور سیکڑوں بے گناہ انسانوں کو قتل کر چکا ہے اور عراق کے شمالی شہروں میں بسنے والے شہریوں کو خواہ وہ کسی بھی مسلک سے ہوں قتل وغارت کا نشانہ بنایا جا رہاہے، اسلام کے نام پر اسلامی مقدس مقامات کی توہین کی جا رہی ہے، اسلام کے سنہرے اصولوں کو جہاد النکاح جیسی لعنت سے تبدیل کر کے اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کرنے کی گھناؤنی سازشیں کی جا رہی ہیں، دوسری طرف امریکا جو 2003 سے عراق میں وارد ہو کر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل نہ کر سکا اسے ایک مرتبہ پھر موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ عرا ق کی تقسیم کو عملی جامہ پہنانے میں کردار ادا کرے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس خطر ناک منصوبے میں خطے کی عرب ریاستیں اور ترکی بھی اہم کردار ادا کرنے میں مصروف ہے، جس کا ان سب کو ایک روز خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ داعش اور اس کو چلانے والے سب کے سب امریکی سرپرستی میں امریکی منصوبوں کو ہی عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں،2008 میں بش انتظامیہ کے کیے جانے والے معاہدوں کو اوباما نے بھرپور انداز میں پروان چڑھایا ہے جس کا ایک ثبوت ابوبکر البغدادی کی امریکی حراست سے رہائی اور پھر داعش بنانے کا اعلان، اس کی مالی معاونت، تربیت، اسلحہ سب امریکا کی جانب سے فراہم کیا جا رہا ہے اور دور جدید کی مہذب دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جب کہ امریکا خود اسی بغدادی کو قتل کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر عراق پر حملہ کر کے عراق کی تقسیم چاہتا ہے لہٰذا امریکا دنیا میں دہشت گردی کا موجد ہے جس سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی۔