بے خانماں ہیں ہم

یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ آئی ڈی پیز نے ملک و قوم کے لیے لائق رشک ایثار کا مظاہرہ کیا ہے۔

ملک کے متعدد علاقوں میں دن بدن سردی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے مختلف حصوں میں گرم ملبوسات کے استعمال کے بغیرگزارا کرنا کافی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ملک کے بہت سے علاقوں میں دسمبر اور جنوری میں سردی کی شدت اس قدر زیادہ ہوجاتی ہے کہ گھروں میں دہکتی انگیٹھیوں کے سامنے بیٹھ کر ہی دن گزارنا پڑتا ہے۔

ایسے موسم میں ایک عام انسان کے لیے ضروریات زندگی سے بھرپور اپنا گھر بار چھوڑ کر دور دراز علاقوں میں کیمپوں میں موسم سرما گزارنے کا صرف تصور ہی انتہائی تکلیف دہ ہے، لیکن انتہائی پریشان کن اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ آپریشن ''ضرب عضب'' کی وجہ سے وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے دس لاکھ سے زاید افراد بے یارو مددگار مجبوراً کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور بہت سے دربدرکھلے آسمان تلے انتہائی زیادہ سردی میں مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آئی ڈی پیز کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور سردی کی وجہ سے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ خصوصاً بچوں کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ چونکہ اپنا گھر بار چھوڑ کر زندگی گزار رہے ہیں، ان کے پاس موسم کی شدت سے خود کو اور اپنے اہل وعیال کو محفوظ رکھنے کا ایسا سامان میسر نہیں ہے،جس کا انتظام وہ گھر میں رہ کر کر سکتے تھے، اس لیے یہ زندگی آئی ڈی پیز کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے ۔

سردی رکے تو کیسے، نہ دیوار ہے نہ در
ٹھنڈی ہوا سے خون رگوں میں گیا ہے جم

آئی ڈی پیز کے لیے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے جس کی وجہ سے روز بروز ان کی بے چینی اور بے اطمینانی بڑھتی جارہی ہے کہ ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ آپریش کب تک جاری رہے گا اور اپنے ہی ملک میں نقل مکانی کرنے والے شہری کب تک اپنے گھروں سے باہر زندگی گزارنے پر مجبور ہوکر در در کی ٹھوکریں کھائیں گے اورکب تک بے سروسامانی کی زندگی بسر کرتے رہیں گے اور کب اپنے گھروں کو واپس جاسکیں گے؟ اور اگر واپسی ہوئی بھی تو گھربار، کاروبار، مویشی کہاں ہیں، کیونکہ مکانات، دکانیں، گاڑیاں سب کچھ تباہ وبرباد ہوچکا ہے۔ شدید سردی کے ساتھ ساتھ اس قسم کے خدشات بھی دماغ کو ماؤف کیے دیتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ آپریشن ''ضرب عضب'' کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں قبائلی مرد وخواتین، بچے، بوڑھے اور جوانوں کی بحالی اور آبادکاری کے اقدامات پر اس طرح توجہ نہیں دی گئی جو صورت حال کا فوری تقاضا تھا۔ نتیجتاً ہرگزرتے دن کے ساتھ متاثرین کی مشکلات، پریشانیوں اور مسائل میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ماہ موسم گرما کی تکالیف جھیلنے کے بعد سردی کی سختیاں اپنے ہی وطن میں بے وطن مہاجرین کو رلانے کے لیے کافی ہیں۔ اس کو اپنی کرسی کے چکر میں مگن حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی ہی کہا جاسکتا ہے کہ تقریباً پانچ ماہ کے بعد بھی آئی ڈی پیز کی باعزت و بحفاظت واپسی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔


حالانکہ آپریشن شروع کرنے سے پہلے بارہا یہ کہا گیا تھا کہ آپریشن ایک دو ماہ میں مکمل کر کے آئی ڈی پیز کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنایا جا سکے گا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور آئی ڈی پیز کے معاملے کو مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ اب شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کے مسائل انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرچکے ہیں اور ہر نکلتے سورج کے ساتھ ان کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں ملک میںپیداشدہ مختلف بحرانوں اور مسائل میں سے ایک اہم اور سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ متاثرین شمالی وزیرستان کی اپنے گھروں کو باعزت اور آبرومندانہ واپسی ہے۔ درحقیقت شمالی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی اسلام آباد میں حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی نورا کشتی شروع ہوگئی تھی، جس کے باعث آئی ڈی پیز کا معاملہ اتنا پس پردہ چلے گیا کہ حکومت نے تو آئی ڈی پیز کو نظرانداز کر ہی دیا تھا، جب کہ بال کی کھال اتارنے میں ماہر ''میڈیا'' نے بھی یکسر آئی ڈی پیز کو نظرانداز کیا ہوا ہے۔ حالانکہ آئی ڈی پیز کی واپسی کو جلد از جلد ممکن بنانے کے لیے میڈیا ہی غافل و لاپرواہ حکومت کی آنکھیں کھول سکتا تھا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قبائلی علاقہ جات کے نقل مکانی کرنے والے ایثار پسند قبائلی عوام پاکستان کا بیش قیمت اثاثہ ہیں۔ قبائلی روایات بھی اْن کا خصوصی تشخص اور شناخت ہیں، جس کے مطابق وہ اپنی خواتین کو گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکالتے، لیکن یہی شہری گزشتہ پانچ ماہ سے اپنی خواتین سمیت اپنے گھروں سے باہر اضطراب اور تشویش کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ارباب اقتدار اختیار کو قبائلی عوام کی مخصوص نفسیات، خودداری اور عزت نفس کے تحفظ پر مبنی رویوں کا ادراک ہونا چاہیے۔ ایسے مخصوص مزاج کے حامل طبقات کو مکمل طور پر بے آسرا اور بے یارومددگار چھوڑ کر ان کے بنیادی مسائل سے صرف نظر کی پالیسی اپنانا ملک کے استحکام، سالمیت اور تحفظ کے لیے انتہائی سنگین مضمرات کا باعث ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ آئی ڈی پیز نے ملک و قوم کے لیے لائق رشک ایثار کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس ضمن میں حکومت کو بھی منصوبوں کی نقش گری کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بلند بانگ حکومتی دعوے بجا، مگر آئی ڈی پیز راشن کے حصول کے لیے طویل قطاروں میں کھڑے شکوہ کناں ہیں کہ انھیں ضروریات کی فراہمی کا کوئی مربوط اورجامع نظام موجود نہیں۔ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر کے آنے والے آئی ڈی پیز کو سردی شروع ہوتے ہی جہاں دیگر مشکلات کا سامنا ہے، وہاں ان کے بچوں کو بھی کئی مسائل درپیش ہیں ، جن میں کھانے پینے سے لے کر تعلیم حاصل کرنے تک کے مسائل شامل ہیں۔ ان کٹھن حالات میں بے چارے آئی ڈی پیز کی زبان سے یہی الفاظ نکلتے ہیں۔ بقول شاعر ؎

ڈھایا گیا ہے ہم پہ یہ کتنا بڑا ستم
ہوتے ہوئے گھروں کے بھی بے خانماں ہیں ہم

یہ حقیقت ہر پاکستانی کے سامنے رہنی چاہیے کہ شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کا معاملہ کسی ایک صوبے یا علاقے کا نہیں، بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مشکل وقت میں متاثرین کو تنہا نہ چھوڑاجائے اور زیادہ سے زیادہ امدادی سامان آئی ڈی پیز کو فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے۔ جب کہ حکومت پر بھی اس حوالے سے دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ سیاست سیاست کھیلنے کی بجائے جلد ازجلد آئی ڈی پیز کی گھروں کو واپسی اور بحالی کو یقینی بنائے۔ یہ وقت سیاست میں الجھنے کا نہیں ہے، بلکہ آئی ڈی پیز کے دکھوں کا مداوا کرنے کا ہے۔ آئی ڈی پیز جلد از جلد اپنے گھروں کو واپس لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا پہلی فرصت میں آئی ڈی پیز کی واپسی کے لیے حکومتی سطح پر ایک مربوط نظام بنایا جائے اور اْن کی بحالی کے ساتھ ساتھ اْن کی آباد کاری اور اْن کے آبائی علاقوں کی تعمیر نو کے منصوبے تیار کیے جائیں۔ آئی ڈی پیز کے مسائل کا حل اور ان کی باعزت واپسی کا انتظام کرنا حکومت کا اولین فریضہ ہے۔
Load Next Story