پاکستان کی تشکیل میں اقلیتوں کاکردار پہلا حصہ
انگریز اور کانگریس یہ سمجھتے تھے کہ کٹا پٹا پاکستان دینے سے نوزائیدہ ملک اپنے پیروں پرکھڑا نہیں ہو سکے گا۔
KARACHI:
ہندوستان کے بٹوارے میں سب سے حساس معاملہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم سے متعلق تھا، پنجاب کی تقسیم کی مخالف مسلم لیگ کا موقف رہا تھا کہ یہ پاکستان کے دو قومی نظریے کے لیے ضروری ہے، لیکن دوسری جانب بنگال اور پنجاب کے حوالے سے قائداعظم کو یہی اطلاعات فراہم کی جا رہی تھیں کہ پنجاب اور بنگال کو تقسیم کیا جائے گا۔
انگریز اور کانگریس یہ سمجھتے تھے کہ کٹا پٹا پاکستان دینے سے نوزائیدہ ملک اپنے پیروں پرکھڑا نہیں ہو سکے گا اور بہت جلد وہ بھارت کے ساتھ مل جائے گا۔ فی الوقت پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کی مکمل توجہ 'تخت لاہور' پر قبضے کے لیے مرکوز ہوتی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ہندوستان ٹائمز میں ایک آرٹیکل شایع ہوا جس میں وائسرے ماؤنٹ بیٹن پر الزام عائد کیا کہ وہ پنجاب تقسیم کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ وائسرے نے اس کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ مہاراجہ پٹیالہ گزشتہ ہفتے ان سے ملنے کے لیے آئے تھے کہ اس پر سکھ رہنما بہت مضطرب ہیں کیونکہ اس پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں 'سکھستان' کا تصور پاش پاش ہو جائے گا اور سکھ تقسیم ہو جائیں گے، سکھ، بیس لاکھ مشرقی پنجاب کے حصہ میں آئیں گے اور اٹھارہ لاکھ مغربی پنجاب کے حصے میں۔
حقایق دراصل یہ تھے کہ کانگریس کسی صورت نہیں چاہتی تھی کہ مکمل پنجاب پاکستان کے حصے میں آئے، کانگریس نے وائسراے ہند ماؤنٹ بیٹن سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ ایسے اقدامات کرے، جس سے یہ امر یقینی ہو جائے کہ غیر مسلم اکثریتی کوئی علاقہ پاکستان میں شامل نہیں ہو پائے، حالانکہ پنجاب کے 29 اضلاع میں سے صرف 3 ایسے اضلاع تھے جن میں غیر مسلم اکثریت میں تھے، لیکن اس میں بھی سکھوں کو پھر بھی اکثریت حاصل نہیں تھی علاوہ ازیں مغربی پنجاب کے 7 اضلاع میں ہندو و سکھوں کو ملا کر بھی اکثریت نہیں بنتی تھی۔
مہاراجہ پٹیالہ اس تمام صورتحال پر فکر مند تھے اور انھوں نے سکھوں کی جانب سے جنگ کی دہمکی بھی دی تھی جس پر انگریز حکومت کا پہلا موقف یہی تھا کہ اگر سکھ جنگ کریں گے تو ان کے سامنے گورنمنٹ کھڑی ہو گی، اس ملاقات کے بعد سردار بلدیو سنگھ نے انگریز حکومت پر دباؤ ڈالا کہ حد بندی کے لیے جائیداد کو غیر منقولہ کا معیار بنایا جائے اور اس کے لیے سکھوں کے مقدس مقامات اور مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، وائسراے ہند کے علم میں تھا کہ اگر مغربی پنجاب کو محض جائیداد کی ملکیت اور مذہبی بنیادوں پر سکھ ، ہندو اور کانگریس کی بالادستی میں دینے کی کوشش کی گئی تو عالمی رائے عامہ اس کے مخالف ہو سکتی ہے، لیکن ایسا ہوا نہیں۔
انگریز حکومت کا پہلا منصوبہ یہی تھا کہ پنجاب کو تقسیم نہ ہونے دیا جائے اور اس حوالے سے ان کی رائے بھی یہی تھی کہ پنجاب کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بلا کر مخلوط حکومت بنانے کی کوشش کی جائے لیکن اس عمل کو پنجاب کے لیے تباہ کن قرار دیا گیا۔
قائد اعظم پاکستان کے حصول میں مکمل پنجاب کو شامل کرنے کے خواہاں تھے لیکن سکھوں نے پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے مطالبے شروع کر دیے اور کانگریس نے ان کی حمایت کا اعلان بھی کر دیا۔ کانگریس کی جانب سے پنڈت نہرو نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ابتدائی حد بندی مسلم اور غیر مسلم اکثریتی علاقوں کے درمیان ہو گی اور اس بات پر بھی اتفاق کر لیا تھا کہ غیر منقولہ جائیداد کی ملکیت تقسیم کی بنیاد نہیں ہو گی، لیکن سب سے اہم مسئلہ یہی درپیش تھا کہ سکھوں کے مذہبی مقامات مسلم اکثریتی والے علاقوں میں تھے، خاص طور پر سکھوں کے اصل مذہبی مقام امرتسر کے حوالے سے کانگریس کا دباؤ تھا کہ یہ ہر صورت سکھوں کو ہی ملنا چاہیے۔
حالانکہ مسلمان پورے اضلاع میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہاں شمال مغربی سرحدی صوبے کی طرح رائے شماری کے ذریعے عوام سے رائے لینے کے لیے انگریز حکومت تیار نہیں تھی جب کہ شمال مغربی سرحدی صوبے میں ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان یا ہندوستان میں شمولیت کی رائے معلوم کیا جانا طے کر لیا گیا تھا حالانکہ اس صوبے میں خدائی خدمت گاروں کی کانگریسی حکومت تھی لیکن قائد اعظم چاہتے تھے کہ دفعہ 93 نافذ کر کے ریفرنڈم کرایا جائے۔
سر دست اس وقت پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے اس طویل تمہید کے اغراض و مقاصد کو سامنے لانا تھا کہ پاکستان کے قیام میں باونڈری کمیشن نے بنگال، پنجاب کے معاملے میں نا انصافی کا ایسا سیاہ کردار ادا کیا جو تاریخ کا سیاہ باب بن چکا ہے اور بھارت، پاکستان کے درمیان مسلسل کشیدگی کا اہم سبب بھی ہے۔ اصولی طور پر مکمل پنجاب کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا کہ تشدد کی سیاست اور کانگریس کی سازشوں کی سبب ممکن نہیں ہو سکا کیونکہ پنجاب کی تقسیم میں آب پاشی کے نظام کی تقسیم انتہائی نازک مرحلہ تھا جب کہ کلکتہ کو ہندوستان میں شامل کرنے کے لیے بنگال کی تقسیم کا منصوبہ بنایا جا چکا تھا۔
صوبہ سرحد میں 70 فیصد مسلم آباد تھے، اس کے باوجود مسلم لیگ کو انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی تھی اس لیے خدشات سامنے رکھے گئے تھے کہ قبائل ہندوؤں کی بالادستی کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ ہندوستان کی حکومت، ہندو گورنمنٹ ہو گی، دوئم باچا خان کی اس تجویز کو بھی قبول نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اس خطے کی عوام کو اس بات کا اختیار دیا جائے کہ وہ آزاد ریاست کے طور بھی رہنا چاہتے ہیں کہ نہیں، لیکن تقسیم ہندوستان کے فارمولے میں یہ بات نہیں رکھی گئی بلکہ صرف پاکستان یا ہندوستان کی شرط تھی جس کی وجہ سے خدائی خدمتگاروں نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا اور اس صوبے کے جتنے بھی عوام تھے، ( بائیکاٹ والوں کے علاوہ) انھوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے۔
علاوہ ازیں بنگال اور پنجاب کے لیے طے کیا گیا کہ یہاں صوبے کے ممبر دو حصوں میں اکٹھے ہوں جس میں مسلم اکثریتی اضلاع کے ممبر اور دوسرے میں صوبے کے باقی ممبر، یہ اس لیے کیا گیا اگر کوئی صوبہ اجتماعی طور پر تقسیم کے حق میں نہیں ہے تو وہ پاکستان اور ہندوستان کا انتخاب کر سکتا ہے، تقسیم کی صورت میں مسلم اور غیر مسلم ممبران الگ ہو کر فیصلہ دیں گے۔ صوبہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی پاکستان یا ہندوستان کے حق میں رائے دے گی، شمالی مغربی سرحدی صوبہ کے لیے صوبہ سندھ کی طرح فیصلہ نہیں کیا گیا بلکہ صوبہ سرحد کو از سر نو ایک اور موقع دینے کے لیے ریفرنڈم کرائے جانے کا فیصلہ کیا گیا، اسی طرح برطانوی بلوچستان نے اپنا ایک نمایندہ چنا تھا جس نے موجودہ آئین ساز اسمبلی میں شرکت نہیں کی تھی یہاں بھی یہی فیصلہ کیا گیا کہ متبادلات میں سے فیصلہ کرے۔
آسام غیر مسلم آبادی کا حصہ تھا لیکن ضلع سلہٹ جو کہ بنگال سے ملحق مسلم اکثریتی آبادی علاقہ تھا یہاں مطالبہ کیا گیا کہ اگر بنگال تقسیم کیا جاتا ہے تو اس صورت میں سلہٹ کو بنگال کے مسلم حصے میں مدغم کر دیا جائے۔
پاکستان کے قیام کے حوالے سے ممکنہ دشواریوں اور اُن حالات کا کامل احاطہ محدود کالم یا کتاب میں ممکن نہیں ہے، اس لیے اہم نقطہ یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم کے اہم تذکرے کا سب سے اہم مرحلہ اس وقت سامنے آیا جب پنجاب کی پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے مسلم لیگ کو تین ووٹ کم پڑ رہے تھے تو اُس وقت 22 نومبر 1942ء کے دن لاہور کے لورنگ ہوٹل میں قائد اعظم کے اعزاز میں مسیحی برادری نے ایس پی سنگھا کی قیادت میں مسلم لیگ کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے23 جون1947ء کو 89 ووٹ کے مقابلے میں 91 ووٹ دیکر مشرقی پنجاب کو پاکستان میں شمولیت کی قرارداد کی منظوری دی گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ مشرقی پنجاب پاکستان میں شامل نہیں ہو پاتا کیونکہ تاج برطانیہ کو ہر صورت پاکستان کے قیام کے لیے کردار ادا کرنا ہی پڑتا، مقصد صرف یہ ہے کہ مسیحی برادری نے سکھوں کے برخلاف پنجاب کی تقسیم کے لیے ضد کرنے کے بجائے حقیقت مندانہ فیصلہ اس لیے کیا تھا کیونکہ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ پاکستان میں غیر مسلم اکائیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا اور متعدد بار قائد اعظم اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی اور پاکستان کے شہری ہونے کے سبب حقوق دیے جائیں گے اس لیے مسیحی برادری کو پاکستان کے شہری ہونے کے سبب مساوی حقوق ریاست کی ذمے داری ہے۔
دو قومی نظریے میں غیر مسلم اکائیوں کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے ہمیشہ محکوم بن کر رہنا ہے بلکہ اسلام غیر مسلموں کے لیے جتنا فراخ دل ہے اس کا عملی مظاہرہ اسلام کے ماننے والوں کے افعال سے آنا چاہیے۔ قول و فعل کے تضاد سے تعلیمات اسلام پرزد پڑے گی۔
(جاری ہے)