اور کتنا جلنا ہے…
دنیا میں جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟ آگ و خون کا کھیل کیوں کھیلا جاتا ہے؟ان سب کے پیچھے بظاہر اچھے مقاصد ہی بتائیں جاتے ہیں۔
انگریزی فلموں کے وائرس کے علاوہ کبھی آپ نے کسی وائرس کو یہ الزامات لگاتے ہوئے دیکھا ہے کہ کمپیوٹر میں کرپشن کی وجہ سے وہ ہڑتال کریں گے؟ کسی موبائل کی شرارتی App کو موبائل کے خلاف دھرنا دیتے ہوئے سنا ہے؟ کچھ عقل مند سائنس دانوں کی اس بات کو مان لیا جائے کے بندروں کا ارتقا انسانوں پر آ کر ٹھہرا ہے تو پھر جانوروں کی وہ کون سے خصلت ہے جو اپنی نسل کو ختم کرتی ہے اور وہ انسانوں میں منتقل ہو گئی ہے؟ یہ مسئلہ انسانوں کا ہی کیوں ہے؟
یہ انسان بھی کیا عجیب چیز ہے جس نے جانوروں کو تو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے لیکن وہ ان سے زیادہ خود انسانوں کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ کبھی یہ سوچا ہے اور کتنی عجیب بات ہے کہ آخر کیوں جانوروں کی طبعی عمروں میں اتنا فرق نہیں آیا جتنا انسانوں کی عمریں کم ہوئی ہیں۔ جب کہ جانوروں نے خود سے اپنی عمر بڑھانے کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کی اور انسان کی تو خواہش ہی یہ ہے کہ وہ کبھی نہ مرے۔ کیا آپ کے علم میں ہے کے جانوروں نے بخار کے لیے دوائی بنائی ہو؟ کہنا میں جو چاہ رہا ہو وہ آپ سمجھ گئے ہونگے کہ انسان نے انسان کی فلاح کے لیے جتنے انسان مارے اتنی حیوانی صفت درندوں نے نہیں دکھائی۔
دنیا میں جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟ آگ و خون کا کھیل کیوں کھیلا جاتا ہے؟ ان سب کے پیچھے بظاہر اچھے مقاصد ہی بتائیں جاتے ہیں۔ میٹھی میٹھی باتیں کی جاتی ہیں، اچھے اچھے خواب دکھائیں جاتے ہیں اور سچی سچی کہانیاں دہرائی جاتی ہیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ خون اور بس خون۔ چاہے جلائیں یا دفنائیں وہی سفید کفن۔ اور خون بھی کس کا، غریبوں کا جو ہر حال میں کفن پہننے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اتنے نظریات آئے، بڑے بڑے لیڈر، بڑے بڑے مفکر اور بڑے سماجی علوم کے ماہر، لیکن دنیا میں امن نہیں آیا۔ کوئی یہ دعویٰ کر کے جان بچانے کی کوشش کرتا ہے کہ اُن کے حواری ٹھیک نہیں تھے۔ کوئی یہ کہہ کر منہ چھپانے لگ جاتا ہے کہ اُن کے بعد آنے والے اچھے نہیں تھے۔ اور کوئی یہ کہہ کر اپنا راستہ صاف کرتا ہے کہ وہ تو سچے تھے بس اُن کے خلاف دنیا ایسے کھڑی ہو گئی کہ بس وہ بھولے بادشاہ سمجھ نہیں سکے۔
نئی سے نئی ٹیکنالوجی آ گئی۔ ہاتھوں سے پتھروں کا دور آیا اور پتھروں سے لوہے کا۔ اور پھر جدید دور۔ اب تو انتہائی جدید دور، فرق اتنا آیا کے تلوار میان سے نکلنے کے بعد خون میں نہاتی تھی اور اب گولی پستول میں جانے کے بعد خون میں نہلاتی ہے۔ پہلے ایک تلوار سے ایک وقت میں ایک ہی گردن اڑتی تھی، جدت آئی تو ایک گولے سے سیکڑوں لوگ مرنے لگے، ہم اور جدید ہو گئے اور پھر ایک ایٹم بم سے لاکھوں کے مرنے کا خوف پھیلایا گیا۔ کیا پہلے لوگ زیادہ مرتے تھے یا اب زیادہ مر رہے ہیں؟ دنیا میں جینے کی دوا اتنی نہیں بنتی جتنا اس سے زیادہ مارنے کے لیے بارود بنتا ہے، مگر دونوں میں ایک بات یکساں ہے وہ یہ کہ دونوں کو بنانے والے جان بچانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
پہلے علم عام نہیں ہوتا تھا، سینہ بہ سینہ جتنا منتقل ہو گیا سو ہو گیا، کیوں کہ نہ لکھنے کے لیے زبان تھی اور نہ کتابیں، پھر کتابیں آئیں، اخبار آئے لوگوں میں معلومات بڑھی، پھر انٹر نیٹ کے ذریعہ ہر خاص و عام تک معلومات پہنچنے لگی، لیکن اعداد و شمار کا یہ کھیل بتاتا ہے کہ جسے ہم ترقی کا دور سمجھتے ہیں اس میںا نسانوں نے انسانوں کو بے تحاشا قتل کیا، تو کیا انسان کو انسان کا زیادہ شعور ہو گیا؟ جسے ہم ترقی سمجھ رہے ہیں کیا واقعی اسی کا نام ترقی ہے؟ کیا سیاست بدل گئی ہے؟ جسے ہم سیاسی شعور کہہ رہے ہیں وہ واقعی میں بڑھ گیا ہے یا گھٹ گیا ہے، کیا دنیا بھر میں چہرے بدل دینے سے سماج بدلے ہیں؟ یا پھر یہ صرف آنکھوں کا وہ دھوکہ ہے جو وقتی طور پر دل کو خوش کرتا ہے لیکن ذہنوں کو آہستہ آہستہ مفلوج کرنے لگتا ہے۔ انکل سام کے جانے کے بعد کیا دنیا بھر سے سامراجیت کا خاتمہ ہو گیا؟ یہ بات بھی آج تک سمجھ نہ آئی کہ سامراجیت کے خلاف نعرے لگانے والے سام صاحب سے محبت کرتے تھے یا نفرت کرتے۔
ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے حوالے سے جتنی منطق، جتنے اقوال زریں اور جتنی POST سوشل میڈیا پر لگتی ہیں یا پھیلائی جاتی ہیں اتنی تو نصیحتیں ہزاروں سال میں نہیں ہوئی ہونگی لیکن کیا ہر کوئی ایک دوسرے کا احترام کرنے لگ گیا؟ انارکی جڑ سے اکھڑ کر ختم ہو گئی؟ چلتے پھرتے گلی محلے میں ہر جگہ امن محبت بھائی چارے اور اچھائی کا سبق سکھانے والے مل جائیں گے؟ شادی کی محافل ہوں یا پھر اپنے پیاروں کا ماتم کرتی دیواریں ہوں ہر جگہ ہر گفتگو میں ہمیں سدھارنے کی کوششیں کی جا رہی ہونگی۔ تو پھر وہ کون سا وائرس ہے جو ہمیں سدھرنے ہی نہیں دیتا؟
صدیوں سے بادشاہوں کے قصے سنتے آئے، کہ وہ ظالم تھا، رعایا کا خیال نہیں کرتا تھا، اور پھر ایک آدمی تلوار لے کر آتا ہے، بادشاہ سے جان چھوٹتی ہے لیکن اس کے بعد بھی غریب غریب ہی ہے نسل در نسل، تو پھر فرق کیا پڑا تھا؟ ایک اشرافیہ بدل کر دوسری آ گئی، جمہوریت کا الاپ سنا، دنیا میں عوام کی حکومت عوام کو بناتے سنا، لیکن عوام کو یوں ہی جھولی پھیلائے اوپر ایوانوں میں درخواستیں کرتے دیکھا۔ کہیں کہیں کمیونزم اور سوشلزم کی فصل دیکھی تو کیا سب کو حقوق مل گئے؟
کرپشن کی کہانیاں بہت سنیں۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ کس طرح رحم دل بادشاہ کو رعایا وزیروں کے کرپشن کے قصے سناتی تھی، تو کیا بادشاہ نے ایسا نظام بنا دیا جو وزیروں کے سر اڑانے کے بجائے کرپشن کا سر اڑائے؟ دور نہیں جاتے، دنیا بھر میں نعرے لگے کہ کرپشن ختم کرو مگر کیا وہ مکمل ختم ہو گئی؟ یا پھر صورتیں بدل گئیں۔ اب وہ رشوت سے مٹھائی تک کا سفر طے کرے یا پھر مٹھائی بیلنس لوڈ کروانے کے نام پر ہو جائے۔
ایوب خان نے سب کو کرپشن کے الزام میں ہی نکالا تھا، تو کیا مقصد کرپشن کا خاتمہ تھا؟ اگر تھا تو پھر ایوب کے ارد گرد جو سینوں پر پھول سجائے پھرتے تھے اُن پر آج تک کرپشن کی چھاپ ختم کیوں نہیں ہوئی؟ روٹی کپڑا اور مکان کے جھنڈے بھی اُونچا لہرانے کی بہت کوشش کی مگر خود بھٹو کے ہوتے ہوئے اُن کے سیکریٹری کرپشن کے خلاف بات کرتے تھے۔ ضیاء نے نئے نظام کے بہانے جس چیز کو جنم دیا وہ بھی سامنے ہے اور پاکستان کی گلی محلوں میں اس کی باقیات بتا رہی ہیں کہ وہ کتنا سچا تھا۔ سب کی کہانیاں کھلی ہوئی ہیں، لیکن ہوا کیا نہ یہ نعرہ نیا ہے نہ اس کا پاجامہ پرانا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہر دور میں فٹ آ جاتا ہے۔
اصل کہانی یہ ہے کہ کرپشن، بدعنوانی، ظلم، اور نا انصافی وہ الفاظ ہیں جو صدیوں سے غریبوں کے خواب ہیں۔ محل جلانے کے دعوے کرنے والے محلوں میں ہی رہتے ہیں، اشرافیہ کی لڑائی میں ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والے ایک بار پھر سنہرے خواب دیکھ رہے ہیں۔ بادشاہوں کی طرح زندگی گزارنے والے بس دوسرے بادشاہ کو گرا کر بازی جیتنا چاہتے ہیں۔ اس ملک میں طاقت کے ایوانوں کی لڑائی میں صرف ہم استعمال ہوتے ہیں۔ بس دیکھنا یہ ہے اس وقت کون سی اشرافیہ ایک دوسرے کے مد مقابل ہے اور ہمیں کب تک دوسروں کے سروں پر تاج سجانے کے لیے خود کو ایندھن کے طور پر استعمال کروانا ہے۔