آنے والے دنوں میں کیا ہو گا
۔ ’’عمران خان‘‘ سمجھ لیں کہ کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی کے نتیجے میں انھیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔
''وقت سب کچھ بدل چکا ہو گا'' دوسرے مصرعے کے بعد عرض ہے کہ چوہدری نثار متعدد مرتبہ کہہ چکے تھے، بطور وزیر داخلہ وہ 30 نومبر کے دن اپنی ذمے داریاں بھرپور طریقے سے ادا کریں گے۔ سرکاری املاک پر حملے اور قبضے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ ''عمران خان'' سمجھ لیں کہ کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی کے نتیجے میں انھیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔ ریاست ایکشن لے گی وغیرہ وغیرہ۔
اور چوہدری صاحب کے بیانات کے کچھ اثرات 30 نومبر سے قبل ظاہر بھی ہونا شروع ہو گئے تھے، اسلام آباد کے تمام داخلی و خارجی راستے کنٹینرز کی زد میں رہے۔ PTI کے کارکنان کی گرفتاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ ادھر عمران خان بھی متواتر چوہدری نثار کو ویسے ہی القابات سے نوازتے ہوئے گرمئی گفتار سے جواب دے رہے ہیں اور اپنی Position سے انچوں میں بھی دستبرداری سے گریز پا رہے۔ قارئین کرام 30 نومبر آیا اور گزر گیا۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو گا اس سے قطع نظر کہ عمران خان اور ان کی جماعت کا یہ طرز عمل اور یہ طرز سیاست کامیابی ناکامی سے ہمکنار ہو۔ ہمیں بالا اتفاق یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ موجودہ حکومت کی اپوزیشن خوب اور بہتر انداز میں ہو رہی ہے۔
پچھلے دور حکومت کی طرح دو بھائیوں کی فرینڈلی ''کبڈی'' کم ازکم نہیں کھیلی جا رہی۔ جس میں ایک بھائی کبڈی، کبڈی کرتا ہوا دوسری ٹیم کی حد میں داخل ہوا۔ اور کسی کھلاڑی کو چھوئے بغیر ہنستا، مسکراتا اپنی حد میں لوٹ آیا۔ یوں 5 سال بڑے مزے سے گزار لیے گئے جب کہ ''ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل'' کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک اور عوام کے 12 ہزار ارب روپے کرپشن کی نذر ہو گئے۔ مہنگائی میں ہوش ربا اضافے سمیت نوکریاں صرف انھیں دی گئیں جو یا تو ہم زبان تھے یا ہم برادری۔ ورنہ ذاتی ملازمین اور پارٹی ورکرز کو۔ ہر سطح پر، ہر محکمے میں بدترین اقربا پروری اور رشوت ستانی دکھائی دی۔ کہیں کوئی میرٹ نہیں تھا۔ اس دوران سوئس بینکوں میں رکھی گئی رقم سمیت کچھ Issues پر بات کی بھی گئی تو آواز اس قدر نحیف و نزار تھی کہ سنائی نہیں دی۔ بلاشبہ اپوزیشن کے نام پر جو کچھ بھی تھا وہ محض ڈراما تھا۔ فریب تھا اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔
میری سمجھ سے بالا تر ہے جو سیاسی رہنما دعویٰ پارسائی رکھتے ہوئے بلند آواز میں کہتے ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں ہیں اور بعض اوقات انھوں نے اپنے اس دعوے میں قسم کھا کر بھی عوام کو یقین دلانے کی کوشش کی اور کہا کہ آج کی تاریخ تک ان پر یا ان کے خاندان کے کسی فرد پر کرپشن کا کوئی ایک کیس بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ حتیٰ کہ سابق صدر پرویز مشرف بھی اپنے 8 سالہ دور حکومت میں ان کا ٹرائل کرتے رہے لیکن کوئی کرپشن ثابت کرنے میں ناکام ہوئے۔ وہ اپنے اس عمل کو کیا نام دیں گے؟ کہ انھوں نے سابقہ حکومت کی تمام سیاہ کاریوں پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی بلکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود حکومت کے غلط فیصلوں کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی، کوئی دھرنا نہیں دیا، کوئی ریلی نہیں نکالی۔ کیا یہ کرپشن نہیں ہے کہ آپ نے ملک کے ہزاروں ارب روپے کرپشن کی نذر ہونے دیے؟
یہ قوم آپ دونوں بھائیوں سے سوال کرتی ہے کہ ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ''یہ کرپشن نہیں ہے؟'' اور ظاہر ہے کہ جس نورا کشتی کی آپ کو عادت پڑ گئی ہے۔ پچھلے 30 سالوں میں جس مک مکا کی سیاست آپ بڑی کامیابی سے کرتے رہے ہیں اس میں موجودہ دھرنے، عمران خان کا تند و تیز لہجہ۔ آپ کو گالی نہیں لگے گا تو کیا لگے گا؟ دھرنے آپ کو ملک کے خلاف حملے اور سازش نہیں لگیں گے تو کیا لگیں گے؟ کیونکہ قصور آپ کا نہیں۔
آپ پچھلے کئی ادوار سے جو سیاست اور حکومت بڑی کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شاید اب اس کے خاتمے کا وقت آ گیا ہے۔ حقیقی اپوزیشن (Real Opposition) کو دیکھتے ہی آپ کی نیندیں اڑ گئی ہیں اور آپ کو یہ سب بہت عجیب و غریب لگ رہا ہے۔ ایسا ہی حال آپ کی کابینہ کے اراکین اور پارٹی عہدیداران کا ہے۔ سب کے سب گویا ایسے حیران و پریشان نظر آتے ہیں جیسے اچانک سے کوئی افتاد ان پر آن پڑی ہو۔ عمران خان نہ ہوں کوئی بھوت پریت ہوں جو ان سے لپٹ گئے ہیں۔ ارے بھائی! یہ اپوزیشن ہے۔ وہ حقیقی جمہوریت جس کا ڈھنڈورا ملک میں 70 سالوں تک پیٹا جاتا رہا لیکن وہ دکھائی کہیں بھی نہیں دی اور اب بھی اس کی محض ایک جھلک ہی ہے کہ آپ حضرات پر بے ہوشی سی طاری ہے۔ اور جو اس وقت اپوزیشن میں ہیں اپوزیشن لیڈر ہیں انھیں بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ چلو سندھ ہی سہی یہاں سے تو کوئی مائی کا لال انھیں نکال کر دیکھے۔ اور پھر ازروئے معاہدہ بڑے بھائی کی موجودگی میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن PTI کے لاڑکانہ کے جلسے کے بعد ان کی بھی سٹی گم ہے۔
محترم وزیر داخلہ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ ایک نظر اپنے گردوپیش پر ڈالیں لیکن متحمل مزاجی اور ٹھنڈے دل و دماغ سے۔ ذرا Neutral ہو کر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں۔ اپنی حکومت کی پچھلی ڈیڑھ سالہ کارکردگی اور موجودہ طرز عمل کو جانچیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ چیزیں بدل رہی ہیں۔ عوام کی سوچ بدل رہی ہے۔ سیاست کے انداز بدل رہے ہیں۔ آپ کس صدی میں جی رہے ہیں؟ بھائی میرے! اگر 2015ء یا 2016ء میں جنرل الیکشن ہو گئے تو جو میں دیکھ رہا ہوں کاش وہ آپ کو بھی نظر آ جائے۔ وہ نتیجہ مئی 2013ء سے بہت مختلف ہو گا۔ سندھ میں تشکیل پانے والے سارے اتحاد آپ کے خلاف ہیں۔ ملک میں اس وقت جو جماعتیں آپ کے ہم رکاب ہیں وہ حکومت میں ہونے کے باعث ہیں۔ آنے والا دور اور اس کے بعد ہر دور اب صرف کارکردگی کی بنیاد لیے ہو گا۔ شاید آپ کو احساس نہ ہو لیکن شخصیت پرستی کا بت ٹوٹ رہا ہے۔ ''اس دے نعرے وجن گے' اس دے نعرے وجن گے'' لیکن ''جس دے نعرے وجن گے'' اسے کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔
بحیثیت قوم میں آپ کو صاف اور واشگاف الفاظ میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم موجودہ دھرنوں کے ساتھ ہیں۔ اور عمران خان کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ اور ہم اس احتجاج کو ملک کے خلاف سازش قرار دینے میں آپ کے ہم آواز نہیں۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اب تک ملک کا کیا بگڑ گیا؟ چین کے صدر کا دورہ منسوخ ہوا تو ہونے والے معاہدے چین جا کر طے پا گئے۔ لیکن چند ماہ کے ان دھرنوں نے موجودہ حکومت کو دیکھنے کے لیے 2 آنکھیں اور کچھ بینائی بھی دی ہے اس سے صرف نظر کیسے کیا جائے۔ درست بات یہ ہے کہ احتجاج اور اپوزیشن کی آپ کو اور آپ کی جماعت کو عادت نہیں ہے تو عادت ڈال لیں۔ اب تو یہی ہو گا۔ میرے عزیز اگر حکومت کرنے کا شوق ہے تو عوام کی خدمت کرنی ہو گی۔ محض خادم نام رکھنے سے کام نہیں چلے گا۔
میں اس مرحلے پر عمران خان سے بھی ملتمس ہوں کہ بلاشبہ مثبت اپوزیشن آج ملک کے لیے آکسیجن ہے لیکن رفتار کا توازن بھی بہت ضروری ہے۔ کاندھے ہمارے حاضر ہیں۔ ہم ان پر اٹھا کر آپ کو زندہ باد کہتے ہیں اور یہ شانے تعداد میں کروڑوں ہیں۔ تب دو چار کاندھے ادھار، سدھار میں کوئی پیش بھی کر دے تو خدارا مت لیجیے گا۔ ورنہ مستقبل کے اچھے دن آپ سے اور ہم سے روٹھ جائیں گے۔ کاتب تقدیر کن کہہ دے گا اور فیکون ہو جائے گا۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔