نیا اتحاد سندھ کی سیاست پر اثر انداز ہوسکے گا
نیا سیاسی اتحاد بنانے والے سندھ کے سینئر سیاست دانوں میں زیادہ تر وہ سیاست دان شامل ہیں جو مسلم لیگ (ن) سے ناراض ہیں
پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ کو بھی سندھ میں بڑے سیاسی چیلنج درپیش ہیں۔
مسلم لیگ (ن) سے ناراض سندھ کے سینئر سیاسی رہنما ایک بڑا سیاسی اتحاد بنانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کو صوبے میں بڑا سیاسی جھٹکا لگے گا بلکہ پیپلز پارٹی کے خلاف بھی اسمبلی سے باہر ایک اپوزیشن وجود میں آ جائے گی۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی طویل عرصے تک سندھ میں کسی اپوزیشن کے بغیر اپنی مرضی کی سیاست کرتی تھی۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے پلان '' سی '' کے تحت لاہور اور فیصل آباد کی طرح کو کراچی کو بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان بھی مذکورہ بالا تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک چیلنج ہے ۔
نیا سیاسی اتحاد بنانے والے سندھ کے سینئر سیاست دانوں میں زیادہ تر وہ سیاست دان شامل ہیں جو مسلم لیگ (ن) سے ناراض ہیں۔ ان سیاست دانوں کے دو اہم اجلاس منعقد ہو چکے ہیں ۔ ان میں سے ایک اجلاس مسلم لیگ ( فنکشنل) سندھ کے صدر اور وفاقی وزیر پیر صدرالدین شاہ راشدی اور یونس سائیں کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا جبکہ دوسرا اجلاس سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔
ان اجلاسوں میں پیر صدرالدین شاہ راشدی کے علاوہ سندھ کے چار سابق وزرائے اعلیٰ لیاقت علی خان جتوئی، ڈاکٹر ارباب غلام رحیم ،سید غوث علی شاہ اور سردار ممتاز علی بھٹو، سردار منظور پنہور ، ظفر علی شاہ اور دیگر اہم سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔ یہ وہ سیاسی شخصیات ہیں، جنہیں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے نظر انداز کیا ہے۔ ان لوگوں نے سندھ میں مختلف مسلم لیگی دھڑوں کو زندہ رکھا ہے اور سید غوث علی شاہ سمیت کچھ سیاست دانوں نے تو طویل عرصے تک مسلم لیگ (ن) کو سندھ میں زندہ رکھا۔ اب ان لوگوں نے واضح طور پر مسلم لیگ (ن) سے الگ راستہ اختیار کرلیا ہے۔
ان لوگوں کی یہ کوشش ہے کہ پہلے سندھ کی سطح پر ایک سیاسی اتحاد بنایا جائے اور اس کے بعد پورے ملک میں اس اتحاد کو وسعت دی جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ناراض دیگر صوبوں کے سیاست دانوں، مسلم لیگ ( ہم خیال ) کے رہنماؤں اور مسلم لیگ ( ق ) کے مختلف قائدین سے ان کے رابطے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے ناراض رہنما سردار ذوالفقار خان کھوسہ نے کراچی کا تین روزہ دورہ کیا اور انہوں نے اس مجوزہ سیاسی اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سندھ کے بہت سے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ رابطے کیے۔
سردار ذوالفقار خان کھوسہ نے سید غوث علی شاہ کے ہمراہ ان کی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس بھی کی، جس مین ان دونوں رہنماؤں نے کہا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو کسی خاندان کی جاگیر نہیں بننے دیں گے اور نہ ہی اس سیاسی جماعت پر ڈکٹیٹر شپ قائم ہونے دیںگے۔ انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ چاروں صوبوں میں مسلم لیگ کو متحد کریں گے۔ نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مرتضیٰ خان جتوئی، سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی، مسلم لیگ ( ہم خیال ) کے رہنما سلیم سیف اللہ خان سمیت ملک بھر میں سینئر سیاست دانوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔
سندھ کے سینئر سیاست دانوں نے بنیادی طور پر مسلم لیگ (ن) کے خلاف محاذ بنا لیا ہے اور اس سے مسلم لیگ (ن) کو سندھ میں سیاسی طور پر بہت زیادہ نقصان ہو گا۔ اس کے سندھ میں دوبارہ منظم ہونے کے نہ صرف امکانات کم ہو جائیں گے بلکہ اس کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ دوسری طرف ان سیاست دانوں نے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے خلاف بھی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کی مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو 2008ء سے اب تک مضبوط اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے اپنے وزراء اور ارکان اسمبلی کا لوگوں سے رابطہ کمزور ہو گیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی مخالف سیاسی جماعتیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منظم ہو رہی ہیں۔
اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی ہدایت پر صوبائی وزراء ، مشیران اور معاون خصوصی کو سندھ کے مختلف علاقوں میں کھلی کچہریوں کے انعقاد کی ہدایت کردی گئی ہے تاکہ عوامی رابطے بڑھائے جا سکیں جبکہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں قائم شکایتی سیل کو بھی فعال کرنے کا حکم وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے جاری کردیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے کراچی کو بند کرنے کے اعلان سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ سندھ حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ کراچی کو بند نہیں کرنے دے گی۔ اس شہر میں تحریک انصاف کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور وہ پارٹی قیادت کی کال پر باہر سڑکوں پر بھی آجاتے ہیں۔
یہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے لیے بڑا سیاسی چیلنج ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم شہر کو کھلا رکھنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے اور تحریک انصاف شہر کو بند رکھنے کے لیے کیا لائحہ عمل وضع کرتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) سے ناراض سندھ کے سینئر سیاسی رہنما ایک بڑا سیاسی اتحاد بنانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کو صوبے میں بڑا سیاسی جھٹکا لگے گا بلکہ پیپلز پارٹی کے خلاف بھی اسمبلی سے باہر ایک اپوزیشن وجود میں آ جائے گی۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی طویل عرصے تک سندھ میں کسی اپوزیشن کے بغیر اپنی مرضی کی سیاست کرتی تھی۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے پلان '' سی '' کے تحت لاہور اور فیصل آباد کی طرح کو کراچی کو بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان بھی مذکورہ بالا تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک چیلنج ہے ۔
نیا سیاسی اتحاد بنانے والے سندھ کے سینئر سیاست دانوں میں زیادہ تر وہ سیاست دان شامل ہیں جو مسلم لیگ (ن) سے ناراض ہیں۔ ان سیاست دانوں کے دو اہم اجلاس منعقد ہو چکے ہیں ۔ ان میں سے ایک اجلاس مسلم لیگ ( فنکشنل) سندھ کے صدر اور وفاقی وزیر پیر صدرالدین شاہ راشدی اور یونس سائیں کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا جبکہ دوسرا اجلاس سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔
ان اجلاسوں میں پیر صدرالدین شاہ راشدی کے علاوہ سندھ کے چار سابق وزرائے اعلیٰ لیاقت علی خان جتوئی، ڈاکٹر ارباب غلام رحیم ،سید غوث علی شاہ اور سردار ممتاز علی بھٹو، سردار منظور پنہور ، ظفر علی شاہ اور دیگر اہم سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔ یہ وہ سیاسی شخصیات ہیں، جنہیں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے نظر انداز کیا ہے۔ ان لوگوں نے سندھ میں مختلف مسلم لیگی دھڑوں کو زندہ رکھا ہے اور سید غوث علی شاہ سمیت کچھ سیاست دانوں نے تو طویل عرصے تک مسلم لیگ (ن) کو سندھ میں زندہ رکھا۔ اب ان لوگوں نے واضح طور پر مسلم لیگ (ن) سے الگ راستہ اختیار کرلیا ہے۔
ان لوگوں کی یہ کوشش ہے کہ پہلے سندھ کی سطح پر ایک سیاسی اتحاد بنایا جائے اور اس کے بعد پورے ملک میں اس اتحاد کو وسعت دی جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ناراض دیگر صوبوں کے سیاست دانوں، مسلم لیگ ( ہم خیال ) کے رہنماؤں اور مسلم لیگ ( ق ) کے مختلف قائدین سے ان کے رابطے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے ناراض رہنما سردار ذوالفقار خان کھوسہ نے کراچی کا تین روزہ دورہ کیا اور انہوں نے اس مجوزہ سیاسی اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سندھ کے بہت سے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ رابطے کیے۔
سردار ذوالفقار خان کھوسہ نے سید غوث علی شاہ کے ہمراہ ان کی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس بھی کی، جس مین ان دونوں رہنماؤں نے کہا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو کسی خاندان کی جاگیر نہیں بننے دیں گے اور نہ ہی اس سیاسی جماعت پر ڈکٹیٹر شپ قائم ہونے دیںگے۔ انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ چاروں صوبوں میں مسلم لیگ کو متحد کریں گے۔ نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مرتضیٰ خان جتوئی، سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی، مسلم لیگ ( ہم خیال ) کے رہنما سلیم سیف اللہ خان سمیت ملک بھر میں سینئر سیاست دانوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔
سندھ کے سینئر سیاست دانوں نے بنیادی طور پر مسلم لیگ (ن) کے خلاف محاذ بنا لیا ہے اور اس سے مسلم لیگ (ن) کو سندھ میں سیاسی طور پر بہت زیادہ نقصان ہو گا۔ اس کے سندھ میں دوبارہ منظم ہونے کے نہ صرف امکانات کم ہو جائیں گے بلکہ اس کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ دوسری طرف ان سیاست دانوں نے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے خلاف بھی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کی مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو 2008ء سے اب تک مضبوط اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے اپنے وزراء اور ارکان اسمبلی کا لوگوں سے رابطہ کمزور ہو گیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی مخالف سیاسی جماعتیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منظم ہو رہی ہیں۔
اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی ہدایت پر صوبائی وزراء ، مشیران اور معاون خصوصی کو سندھ کے مختلف علاقوں میں کھلی کچہریوں کے انعقاد کی ہدایت کردی گئی ہے تاکہ عوامی رابطے بڑھائے جا سکیں جبکہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں قائم شکایتی سیل کو بھی فعال کرنے کا حکم وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے جاری کردیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے کراچی کو بند کرنے کے اعلان سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ سندھ حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ کراچی کو بند نہیں کرنے دے گی۔ اس شہر میں تحریک انصاف کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور وہ پارٹی قیادت کی کال پر باہر سڑکوں پر بھی آجاتے ہیں۔
یہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے لیے بڑا سیاسی چیلنج ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم شہر کو کھلا رکھنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے اور تحریک انصاف شہر کو بند رکھنے کے لیے کیا لائحہ عمل وضع کرتی ہے۔