KARACHI:
میری آنکھوں میں ہے جو یہ نمی کی انتہا
تیرے روبرو ہےیہ میری بے بسی کی انتہا
تو بھی مکمل مجھے میسر نہیں ہے
اسےبڑھ کر کیا ہوگی کمی کی انتہا
میرے لب پر تیرے ملنے کی اب دعا نہیں
یوں ہوگئی ہے مجھ میں بے طلبی کی انتہا
سب زخم بھر کے دے دی زخم جدائی
میرے چارہ گر نے کی چارہ گری کی انتہا
دکھ چھپانے کے لئے خوشی کا بہت اظہار کیا
ہوگئی میرے لبوں پر ہنسی کی انتہا
خوشی کے سمندر کا قطرہ نا نصیب ہوا
یہاں تک کہ اب ہوگئی صدی کی انتہا
قتل کرکے پوچھتے ہیں لہو کس کا ہے
میرے قاتل کی ہے یہ سادگی کی انتہا
موت سے ہمکنار کرکے دی آزادی فرح
ظالم صیاد نے کی بے رحمی کی انتہا
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے غزل لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔