پاکستان ایک نظر میں تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو مجاہد کامران کا دور کوئی مثالی دور ثابت نہ ہوگا۔


فرید رزاق December 03, 2014
تعلیمی اداروں میں تعلیم کے سوا کچھ بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔مگر افسوس کہ جن کو یہ کام کرنا ہے جب وہی اپنے ذاتی مفادات کو پروان چڑھانے میں مصروف ہوجائینگے کہ تو پھر تعلیم کا جنازہ ہی نکل سکتا ہے اور وہ بھی بڑی دھوم سے۔ فوٹو: فائل

SUKKUR: یہ دسمبر 2012کی سرد سہ پہر تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پنجاب یونیورسٹی کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جی۔آئی۔ایس سینٹر واقع ہنجروال کینال روڑ کے سبزہ زار پر نئے آنیوالے طلباء کے اعزاز میں ایک پر وقار تقریب جاری تھی۔

مہمان خصوصی رئیسِ جامعہ ڈاکٹر مجاہد کامران تھے۔ پی۔یو۔سی۔آئی۔ٹی کے پرنسپل ڈاکٹر منصور سرور نے مائیک پر طلباء کو اس خوش نصیبی پر مبارکباد دی کہ وہ ہزاروں میں سے منتخب ہو کر آئے ہیں۔ ساتھ ہی طلباء کو اصول و ضوابط سے آگاہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ان کی پیروی کو یقینی بنانا ہوگا۔ آخر میں وائس چانسلر مائیک پر تشریف لائے اور طلباء سے مخاطب ہوئے۔

وہ کہہ رہے تھے کہ پی۔یو۔سی۔آئی۔ٹی پوری جامعہ کے لیے اک مثالی شعبہ ہے اور یہ فقط ڈاکٹرمنصورسرور کی بہترین منصوبہ بندی اور تعلیمی قابلیت کی بدولت ممکن ہو پایا ہے۔ پھر کیا تھا محترم وائس چانسلر نے اُن تمام بیرون ملک یونیورسٹیوں کے نام گنوادیے جن میں پرنسپل ڈاکٹر منصور سرور کی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں۔ مجھے یہ بھی محترم مجاہد کامران کی زبانی علم ہوا کہ ڈاکٹر منصور سرور نے بہت سی بیرون ملک یونیورسٹیوں کی آفرز کو ٹھکرا کر اس ادارے سے وابستگی کی ہے۔ وی سی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ اس شعبہ نے آئی۔ٹی کے میدان میں تمام یونیورسٹیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ خیر وی سی صاحب نے پی۔یو۔سی۔آئی۔ٹی اور پرنسپل کی اتنی تعریفیں کیں کہ میری طرح ہر طالب علم خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کرنے لگا۔

ہمیں بطور طالب علم دو سال پرنسپل کی کارکردگی کا بغور جائزہ لینے کا موقع ملا، جو بہرحال لائقِ تحسین ہے۔ مجاہد کامران منصور سرور کی کارکردگی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہیں بیک وقت آئی۔بی۔آئی۔ٹی، پی۔یو۔سی۔آئی۔ٹی اور اسپورٹس ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ مقرر کر دیا۔ مجاہد کامران اپنے کزن کی کارکردگی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جب آخری بار اپنی وی سی شپ میں توسیع کے لیے تگ و دو کر رہے تو ساتھ ہی منصور سرور کو بھی مجبور کیا کہ وہ بھی وی سی شپ کے لیے اپلائی کر دیں۔ پھر خود وی سی صاحب نے اپنی زبان سے اس کا برملا اظہار کیا کہ اگر منصور سرور اپنی درخواست واپس نہ لیتے تو میں آج وائس چانسلر نہ ہوتا۔

مجاہد کامران اور منصور سرور نے خوب محبتیں بانٹیں ایک دوسرے کے خوشی اور غم کے برابر کے شریک رہے۔ منصور سرور نے مجاہد کامران کی طرف برسنے والے تیروں کو خود پر لیا۔ ایک وقت ایسا تھا کہ مجاہد کامران کا اعتماد صرف اور صرف منصور سرور پر ہی تھا اور اگر ان کا بس چلتا تو انہیں ہر ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیتے۔ یہ محبتوں اور نوازشوں کا سلسلہ یونہی جاری رہتا مگر پھر۔۔۔۔ عشق ہوگیا۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا
عشق نے نکما کردیا غالب
ورنہ ہم آدمی تھے بڑے کام کے

غرض وی سی صاحب نے ہر معاملے میں اپنی نوبیاہتہ دلہن کو شامل کرنا شروع کر دیا۔ ملکہ عالیہ کو لا کالج کا پرنسپل بنا ڈالا،پھر اقتدار اور کرسی کی محبت کی منتقلی کی حقدار ان کے نزدیک بیگم صاحبہ قرار پائی اور یہ غلط فہمی بھی پال لی کہ منصور سرور اس میں روکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ حالانکہ منصور سرور نے بارہا اس غلط فہمی کو دور کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن ناجانے وہ کیا وجہ تھی کہ اعتماد کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو مجاہد کامران کا دور کوئی مثالی دور ثابت نہ ہوگا۔ موصوف نے پنجاب یونیورسٹی کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھااور ایک آمر کی طرح میرٹ کی دھجیاں بکھیریں۔ اگر کسی نے اصلاح پسندی کی سوچ سے رائے بھی دی تو اسے بغاوت جانتے ہوئے کڑی سزائیں دیں۔ نوازنے پر آئیں تو اندھا دھند نوازتے چلے جاتے ہیں۔ پروفیسر افتخار بلوچ کو نوازنے کے لیے ایک نئے ڈیپارٹمنٹ کی ایجاد موصوف کی ذرہ نوازی کی عمدہ مثال ہے۔

یہی عمل ایک بار پھر دہرایا جارہا ہے۔ جس ڈیپارٹمنٹ اور پرنسپل کی کارکردگی کے صبح و شام قصیدے پڑھے جارہے تھے اب کی بار ان کے قہر کا نشانہ بن رہا ہے۔ اسی پی۔یو۔سی۔آئی۔ٹی میں کہ جس کے ڈسپلن کی مثالیں دی جاتی تھیں کئی روز سے طلباء نے کلاسز کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ گستاخی معاف ہوتو محترم مجاہد کامران کو پی۔یو کی ویناملک کہاجائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ ہر صبح ایک نئے سکینڈل کے ساتھ طلوع ہوتی ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ مجاہد کامران نے جی۔آئی۔ایس سینٹر کو الگ ڈیپارٹمنٹ قرار دے کر ڈاکٹر ساجد رشید کو اس کا ڈائریکٹر مقرر کیا ہے اور جواز پیش کیا ہے کہ اس سے جی ۔آئی۔ایس کا فائدہ ہوگا اور کئی طرح کے سبزباغ دکھائے ہیں۔ ان کا یہ عمل ایک تیر سے کئی شکار کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ پہلے ڈاکٹر منصور سرور سے اسپورٹس ڈیپارٹمنٹ پھر آئی۔بی۔آئی۔ٹی اور اب جی۔آئی۔ایس کو الگ ڈیپارٹمنٹ بنا کر پی۔یو۔سی۔آئی۔ٹی سے بھی الگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایک طرف ڈاکٹر ساجد رشید کو آر۔او کے بعدڈائریکٹر بنا کر ایچ۔ای۔سی میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے ساتھ اپنے کزن پر ایک اور کاری وار کیا تو دوسری طرف ملکہ عالیہ کی محبت بھی جیت لی۔ جی آئی ایس کے طلباء کاموقف ہے کہ ان کی ڈگری کی ویلیو آئی۔ٹی کے شعبہ سے وابستہ ہے۔ جس کے لیے انہوں نے مجبوراََ احتجاج کا راستہ اپنایا ہے۔ تمام اساتذہ بھی اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ یہ فیصلہ وی سی صاحب کی ذاتی انا پر مبنی ہے۔ طلباء نے مجبوراََ گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا جس پر سیکٹری ایجوکیشن نے طلباء کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے مطالبات مان لیے گئے ہیں۔ لیکن تاحال یونیورسٹی انتظامیہ نے اس مسئلے پر کان نہیں دھرے ۔یونیورسٹی کا کوئی بھی مسئلہ ہو طلباء تنظیم سے کو ئی مسئلہ درپیش آ جائے تو اخبارات شہہ سرخیوں میں اسے شائع کرتے ہیں لیکن جب طلباء انتظامیہ کے کسی فیصلے کے خلاف کئی روز سے کلاسز کا بائیکاٹ کریں تو خبر کو اشتہار کی مالیت میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔

طلباء کوڈسپلن کی خلاف ورزی پر ان کا مستقبل برباد کردیا جاتا ہے جبکہ خود فریبی جال بنتے جاتے ہیں۔ کیا ان کا یہ عمل ان کے وقار کی بلندی کا باعث بن رہا ہے؟ کیایہ طرزِ عمل تعلیم کے نقصان کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہو رہا؟ میری وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور پنجاب یونیورسٹی کے چانسلر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور صاحب سے استدعا ہے کہ مجاہد کامران کی ذاتی دشمنی پر مبنی اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے کاروائی عمل میں لائی جائے قطع نظر اس کے کہ آپ کے کتنے ایم این ایز کو جعلی ڈگریوں سے نوازا ہے۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ جامعہ ان کی ذاتی جاگیر نہیں۔ طلباء نے آپ کے دروازے پر دستک دی آپ کے در سے انہیں مطالبات کی منظوری کی نوید دی گئی جو تاحال بے عمل ہو کر آپ کا منہ چڑا رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنا تعلیم پسند ہے۔ طلباء کے کئی روز سے کلاسز سے بائیکاٹ سے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے غیر سنجیدہ رویے سے تعلیم کا جنازہ بڑے دھوم سے نکل رہا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں