عمران مایوس نہ کریں

انسانوں کو قابو کرنا مشکل ترین عمل ہے لیکن ہمارے آج کے حکمرانوں نے تو اقتدار بھی کسی چکر میں حاصل کر لیا۔


Abdul Qadir Hassan December 03, 2014
[email protected]

ISLAMABAD: اپنے مسائل اور مصائب سے پریشان اور حکومت سے نالاں نوجوانوں کے لیڈر جناب عمران خان اپنے بیانات اس قدر تیزی کے ساتھ بدلتے اور اپنی پالیسیاں اگر وہ ہیں تو اس قدر نئی پالیسیوں میں بدلتے ہیں کہ عمران خان کے بارے میں کچھ لکھنا اپنی سبکی کرانی ہے کہ نہ جانے وہ ان الفاظ کی اشاعت تک کیا کچھ نہیں کہہ چکے ہوں گے اس لیے ان کے بارے میں واللہ اعلم بالصواب ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ صرف اللہ کو ہی معلوم ہے کہ اس کا یہ ابھی تک لا ابالی بندہ کچھ دیر بعد کیا کرنے یا کہنے والا ہے۔

پاکستان کے بعض شہروں اور پھر پاکستان کو ہی بند کر دینے کے بلا سوچے سمجھے اندھا دھند اعلان کے بعد اب ہمارا لاہور چند دن بعد بند ہو گا یعنی فی الحال چار دسمبر کی جگہ 18 دسمبر کو۔ جیسے یہ شہر جس میں خان صاحب کا ایک گھر بھی ہے ان کا نیا عالی شان گھر تو بنی گالا والا ہے جس کو وہ جب چاہیں بند کر کے لاہور آ جائیں یا کہیں اور چلے جائیں مثلاً بچوں کے پاس لندن۔ لاہور جو کوئی ایک کروڑ کے قریب شہریوں کا گھر ہے خان صاحب کا کیا کوئی مقبوضہ شہر ہے جسے وہ جب چاہیں کھولیں یا بند کر دیں اور ان کی ذات کیا ایک کروڑ لاہوریوں کے برابر ہے۔

ان کے پہلے اعلان پر میں نے کالم لکھا اور خوشی ظاہر کی کہ یہ میری چھٹی کا دن ہو گا اور میں گھر میں بند خان صاحب سے چھپا رہوں گا اور یوں خان صاحب کے اعلان کی پابندی کروں گا لیکن اب انھوں نے لاہور شہر کو مزید چند دن دے دیے ہیں اور اب جو دن دیا ہے وہ میری چھٹی کا دن نہیں ہے۔ اس دن میں لاہور کے دوسرے ہزاروں کارکن شہریوں کی طرح کام سے ناغہ کروں گا یا پھر چھٹی لینے کی کوشش کروں گاکیونکہ بندش والا یہ منصوبہ اگر کامیاب رہا تو خان صاحب کو ان کی خوابوں والی وزارت عظمیٰ مل جائے گی مگر مجھے کیا ملے گا اس دن باقاعدہ چھٹی نہ لی یا کوئی دوسرا معقول عذر پیش نہ کیا تو میری روزی تو گئی۔ ان دنوں تو کوئی اینٹ اٹھائیں تو نیچے سے ایک کالم نگار بمعہ قلم دوات نکل آتا ہے۔

کبھی اخبار میں ایک ہی مزاحیہ اور طنزیہ کالم ہوا کرتا تھا اور بس، اب تو کالم زیادہ اور خبریں کم ہوتی ہیں۔ اس جدید کالم نگاری پر کبھی کچھ لکھنا چاہیے اگر کسی نے کالم نگاروں کی فوج سے تحفظ دیا تو یہ کام بھی کردیں گے۔ بہر کیف اس وقت عمران کا بندش والا منصوبہ زیر غور ہے۔ اس سے کم محنت میں تو تربیلا بند بنا لیا گیا تھا اور خان صاحب اس بند منصوبے کو ذرا وقت دیں تو کالا باغ بند بھی زیر غور آ سکتا ہے۔

خان صاحب کے فوری منصوبوں کے بارے میں ایک اعلان تو وہ خود کرتے ہیں دوسرا اعلان ان کا کوئی نہ کوئی مصاحب کر دیتا ہے جو اس منصوبے کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ خان صاحب کے دھرنوں میں ان کے قرب و جوار میں اور ان کے دونوں پہلوؤں میں قطار اندر قطار کھڑے چند خوش پوش دکھائی دیتے ہیں جن میں سے اکثر ارب پتی ہیں۔ اگر خان صاحب ان ساتھیوں کے مشوروں پر چلتے ہیں تو پھر چلتے رہیں ان کا یہ سفر خاصا طویل ہو گا، قادری صاحب کا تو امریکا پہنچ کر ختم ہو جائے گا۔ خان صاحب کے نئے اعلان کے مطابق یہ روز مرہ کے جلسے جاری رہیں گے اور یہ کہانی خدا جانے کب تک اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ

ع مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نویس تھا

جو یہ قصہ طویل کرتا چلا جاتا ہے اور تازہ دم خان صاحب کو تھکانے کی فکر میں ہے تاکہ ان کے مخالف ان پر غالب آ سکیں۔ خان صاحب یعنی عمران خان اگر سیاسی لوگوں کو اپنے مشاورتی گروپ میں شامل کرتے تو ان کے یہ بے مثال دھرنے بے سود نہ جاتے اور اب تک کتنے ہی سیاسی مخالف ان دھرنوں میں پس چکے ہوتے کیونکہ سیاست میں ایسے دھرنوں کی تاب کون لا سکتا ہے خصوصاً اگر وہ اقتدار میں ہو۔ سب سے کمزور سیاستدان وہ ہوتا ہے جو اقتدار میں آ جاتا ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں قید ہو جاتا ہے۔

اقتدار کے مسائل اس قدر زیادہ اور متنوع ہوتے ہیں کہ بھلا چنگا آدمی بھی بوکھلا جاتا ہے پھر وہ آدمی جس کا خمیر سیاسی اکھاڑوں میں نہیں بلکہ تجارتی اڈوں میں گزرا ہو وہ کیسے حکمرانی کے مشکل ترین کام کو انجام دے سکتا ہے اور انسانی مسائل کو کیسے سمجھ کر انھیں حل کر سکتا ہے۔ کبھی مراکش کے ایک قدیم مدرسے میں اس کے مختلف حصوں کی زیارت کر رہا تھا تو ایک استاد نے بتایا کہ اس مدرسے نے علامہ ادریسی اور ابن خلدون جیسے عالم پیدا کیے تھے جنہوں نے انسانی مزاج کے علوم پر دنیا میں پہلی بار علمی کام کیا تھا اور انسانوں پر حکمرانی کے راز بیان کیے تھے۔ زمانہ بدل گیا اور انسان کی ضروریات بھی بدل گئیں لیکن انسان کا مزاج نہیں بدلا۔ آج بھی حکمرانی کے لیے وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو صدیوں پہلے کیا جاتا تھا۔

انسانوں کو قابو کرنا مشکل ترین عمل ہے لیکن ہمارے آج کے حکمرانوں نے تو اقتدار بھی کسی چکر میں حاصل کر لیا۔ وقت کی کروٹوں نے اقتدار کو ان کی تجوری میں ڈال دیا اور مسئلہ حل ہو گیا چنانچہ آج وہ عوامی سیاسی مقابلوں سے گھبراتے ہیں لیکن ان کی یہ خوش قسمتی کہ مخالف ان سے زیادہ اناڑی ہیں یا انتہائی عجلت پسند چنانچہ دونوں طرف آگ برابر ہے۔ اس وقت تو دعا کیجیے اور دوا بھی کہ ان بندشوں سے کہیں کوئی حادثہ پھسل جائے۔ ملک کے اندر دہشت گردی اب روز کا مسئلہ بن گئی ملک کے اندر امن و امان کی صورت حال اب بھیانک ہو گئی ہے اور ہماری فوج دنیا میں ہمارا آخری سہارا، فوج ایک باقاعدہ اور مشکل ترین جنگ لڑ رہی ہے۔

حالات کی خرابی عروج پر ہے اور اس میں ہم ایک نیا فتور کھڑا کر رہے ہیں ایک بے معنی اور یقینی بے نتیجہ لیکن بے حد خطرناک بھی۔ بے نتیجہ سیاستدانوں اور منصوبہ سازوں کے لیے اور خطرناک اس ملک کے لیے۔ جن پاکستانی سیاستدانوں کو یہ تک یاد نہ ہو کہ سقوط ڈھاکا کس تاریخ کو ہوا تھا ان سے ہم کیا امید کر سکتے ہیں سوائے خدا نخواستہ کسی اور سانحہ کے جو تاریخ کا آخری سانحہ ہو سکتا ہے۔ میں عمران کا دل سے مداح ہوں وہ آزادانہ فیصلے کریں اور میرے جیسے مداحوں اور امید والے لوگوں کو مایوس نہ کریں۔ ان کی ناکامی قوم کو مہنگی پڑے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |