سرکلر ریلوے …حسرتیں اور یادیں
کراچی سرکلر ریلوے کے 43.2 کلو میٹر ٹریک کے دونوں اطراف پاکستان ریلوے کی زمین پر 4 ہزار 653 مکین آباد ہیں۔
پاکستانی قوم سنسنی خیز اور مایوس کن خبروں کی عادی ہے جن میں سے ایک دل گرفتہ خبر یہ ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومت کی مبینہ عدم دلچسپی کے باعث کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ دوبارہ تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے اہم منصوبے کراچی سرکلر ریلوے سے توجہ ہٹنے کے بعد سندھ حکومت نے بھی اس میں دلچسپی لینا بند کر دی ہے، منصوبے پر آسان اقساط پر فنڈز فراہم کرنے والے جاپانی ادارے جائیکا کے بھی تجاوزات کے خاتمے کے سب سے اہم مطالبے پر عمل نہیں کیا جا سکا ہے جب کہ اب تک کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے پر فزیبلٹی بنانے اجلاس اور دوروں پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے اس رویے کے باعث جائیکا نے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو اپنی اولین ترجیحات سے نکال کر آخری ترجیح میں شامل کر دیا ہے۔ منصوبے پر کام کرنے والے کراچی اربن ٹرانسپورٹ اتھارٹی منصوبے پر صرف کاغذی کام کر رہا ہے۔
جائیکا کو حکومت پاکستان کی گارنٹی درکار ہے جو گزشتہ 8 سالوں میں تا حال نہیں دی گئی ہے جب کہ ان کا دوسرا سب سے بڑا مطالبہ سرکلر ریلوے کے روٹ سے تجاوزات کے خاتمے کا ہے اس کو بھی تا حال پورا نہیں کیا جا سکا بلکہ تجاوزات میں مزید کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے، سرکلر ریلوے کی دستاویز کے مطابق منصوبے کے روٹ پر ساڑھے چار ہزار تجاوزات ہیں جس کے لیے جمعہ گوٹھ پر متبادل زمین حاصل کی گئی ہے تاہم اس کی دستاویز تا حال ٹرانسفر نہیں کی گئی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کے 43.2 کلو میٹر ٹریک کے دونوں اطراف پاکستان ریلوے کی زمین پر 4 ہزار 653 مکین آباد ہیں۔ جمعہ گوٹھ پر ریلوے کی 283 ایکڑ زمین پر تجاوزات کا خاتمہ کر دیاگیا ہے جہاں متاثرین کی آبادکاری ہو گی۔
کراچی سرکلر ریلوے، کراچی میں ایک متروک ریلوے ہے جس کی بحالی کے لیے 1999ء سے لے کر اب تک بے شمار نیم دلانہ منصوبے بنائے گئے جو آج بھی پایہ تکمیل کے منتظر ہیں۔ 2005ء میں جاپان انٹرنیشنل کارپوریشن ایجنسی کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے نرم شرائط پر قرض دینے کے لیے رضامند ہو گئی تھی۔ تاہم منصوبے پر پھر بھی کام کا آغاز نہ ہوا اور اب تک التوا کا شکار ہے۔ 7 جون 2013ء کو سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کے بحالی کے لیے 2.6 ملین امریکی ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی۔
پاکستان ریلوے نے کراچی میں آمد و رفت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے 1969ء میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کیا۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن کی اسٹیشنوں کی تعداد 29 تھی جب کہ یہ منصوبہ 2 لائنوں پر مشتمل تھا۔ پہلی لائن ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہو کر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی شہر ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی۔ دوسرا پاکستان ریلوے کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی شہر لانڈھی اور کراچی شہر تک لوکل ٹرینیں چلتی تھیں۔ کراچی سرکلر ریلوے اسٹیشن درج ذیل تھے۔
ایک روٹ کراچی شہر (سٹی اسٹیشن)، وزیر مینشن، لیاری، بلدیہ، ، سائٹ، منگھوپیر، اورنگی، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد، ، گیلانی، اردو سائنس کالج ، کراچی یونیورسٹی، ڈرگ روڈ تک۔ دوسرا روٹ کراچی سٹی سے لانڈھی تک کا تھا۔ جس میں لانڈھی، ملیر، ائیر پورٹ، ڈرگ کالونی، ڈرگ روڈ، چنسر ہالٹ سے کینٹ اور سٹی اسیٹشنز شامل ہیں۔ کراچی کے شہریوں نے اس سروس کو بے حد پسند کیا تھا اور پہلے ہی سال کراچی سرکلر ریلوے کو 5 لاکھ کا منافع ہوا تھا۔ اس لوکل ٹرین میں یومیہ 7 لاکھ مسافر سفر کیا کرتے تھے۔
یہ ایک تیز رفتار سواری تھی۔ اوسط رفتار 44 کلو میٹر فی گھنٹہ، حد رفتار 100 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔ نظام کی لمبائی (KM(31.07 MI 50) پٹری وسعت (mm(4 FT 8½ in 1,435) تھا۔ بگھی جسے ریل کا ڈبہ اور ویگن بھی کہتے تھے سبز رنگ کا ہوا کرتا تھا جس کا اوپری حصہ پیلا رنگ کا تھا جس کے اوپر پاکستان ریلوے لکھا ہوا کرتا تھا۔ ہر ایک ڈبہ لمبا اور کشادہ ہوا کرتا تھا۔ ڈبے کے اندر دونوں جانب یکسر سیدھا بینچ نما لکڑی کی سیٹ ہوا کرتے تھے۔ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے ہوئے مسافروں کی سر کی طرف لمبا سا پائپ نصب تھا جس پر جگہ جگہ پکڑنے کے لیے بیلٹ لٹکے تھے۔ ڈبے میں باتھ روم ہوا کرتے تھے۔ باقی وہی صورت تھی جو عام ٹرینوں کی ہے۔
بڑا مزا آتا تھا اس کی سواری کرتے ہوئے۔ یہ قومی اور ثقافتی یکجہتی کا مظہر بھی تھا، لوگ جڑتے رہتے تھے، یگانگت اور شیرازہ بندی سرکلر ریلوے کا ایک اہم عنصر تھا۔ سستی سواری تھی۔ میں اپنے بچپن کے دوستوں کے علاوہ اپنے گھر والوں اور خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ اکثر لوکل ریل کا سفر کیا کرتا تھا۔ چھٹی والے دنوں میں ہم یار دوست جو ایک فٹ بال ٹیم کی صورت ہوا کرتے تھے کبھی سٹی اسٹیشن سے تو کبھی لیاری اور وزیر مینشن اسٹیشن سے لوکل ٹرین میں سوار ہوا کرتے تھے۔
ہم دوستوں کی منزل، اردو سائنس کالج، کارساز اور لانڈھی ہوا کرتی تھی۔ عزیز بھٹی پارک جو اب گلشن اقبال کے حدود میں واقع ہے اس زمانے میں گلشن اقبال کا وجود نہیں تھا کچھ گھر تھے باقی کھلا میدان ہی میدان ہوا کرتا تھا۔
عزیز بھٹی پارک اس زمانے میں بہت ہی خوب صورت ہوا کرتا تھا۔ اس میں موجود وسیع جھیل اس کی خوبصورتی کو جلا بخشتی تھی ہر طرف رنگ برنگے پودے، گرین میدان اور مختلف ڈیزائن پر مبنی چھوٹے بڑے درخت اور کونے میں ایک خوب صورت ہوٹل جہاں تفریح کرنے والے لوگ سیر ہوا کرتے تھے۔ جھیل کے چاروں طرف پائپ کے جنگلے نصب تھے جو کالا اور سفید رنگ کے تھے۔ جن کے کنارے کھڑے ہو کر جھیل کا نظارہ کیا جاتا تھا۔ جھیل میں موجود سفید سفید بطخ خوب صورتی میں اضافے کے باعث تھے۔
ہم یار دوست پارک کے ایک حصے میں ٹیم بنا کر فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ ایک دفعہ فٹ بال کھیلتے ہوئے میرے پاؤں کو موچ آ گیا اور درد کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے فٹ بال کھیلنا چھوڑ دیا۔ ہم یار دوست سبھی لانڈھی تک سفر کرتے اور واپسی بھی اسی لوکل ٹرین سے ہوتی، راستہ بھر ہم مستی کیا کرتے تھے مگر یہ اخلاق کے دائرے میں ہوا کرتا تھا یعنی ٹرین میں سوار کسی لڑکی سے چھیڑ خانی نہیں کرتے تھے اپنی دھن میں مگن رہتے تھے اسی طرح ہم لوکل ٹرین کے ذریعے کارساز جاتے تھے جہاں حضرت قطب عالم شاہ بخاری کا مزار ہے، وہاں ہم فاتحہ خوانی کے بعد وہاں موجود چشمے کا گرم پانی والے حوض میں نہاتے جو بدن کے گرمی دانے اور دیگر چمڑے کے امراض کے لیے ایک مفید علاج ہے آج کل اس حوض کی کیا صورت حال معلوم نہیں کہ کافی وقت ہوا ہے حضرت کے مزار پر حاضری دیے ہوئے۔
ایک دفعہ اس گرم حوض میں نہا رہا تھا کہ ایک لڑکا مجھے گھور رہا تھا۔ میں نے اعتراضاً اس سے پوچھا کہ تم مجھے کیوں اس طرح سے دیکھ رہے ہو۔ اس نے برا مانے بغیر مجھ سے سوال کیا کہ تم نسیم کے بھائی تو نہیں ہو۔ میں دل میں پریشان و حیران رہ گیا کہ اس کو کیسے معلوم میں تو اس کو نہیں جانتا۔ میں نے کہا کون سا نسیم؟ کہنے لگا جو شپ یارڈ میں انجینئرنگ کورس کر رہا ہے۔ میں مطمئن ہو گیا کہا کہ ہاں تم کیسے جانتے ہو؟ انھوں نے کہا کہ میرا نام عبدالمجید ہے میں کمہار واڑہ لیاری میں غوثیہ روڈ پر رہتا ہوں اور تمہارے بھائی نسیم کے ساتھ انجینئرنگ کورس کر رہا ہوں پھر میں نے اس سے مصافحہ کیا۔ دراصل میرا چہرہ میرے بڑے بھائی نسیم احمد سے ملتا ہے اس لیے اس کا اندازہ ٹھیک نکلا تھا۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی لوکل ریل گاڑی کی ایک دفعہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کارساز گیا، وہاں سے واپسی بھی سرکلر ٹرین سے ہوئی۔ راستے میں اندھیرا ہو گیا تھا ہم بجائے لیاری اسٹیشن کے ایک اسٹیشن پہلے یعنی شاہ عبداللطیف اسٹیشن پر اتر گئے۔ بعد میں احساس ہوا کہ ہم غلط اسٹیشن پر اتر گئے ہیں لیکن اس وقت دیر ہو چکی تھی کہ ریل جا چکی تھی۔ وہاں سے لیاری کی طرف کوئی پبلک سواری نہیں جاتی تھی اور نہ ہی وہاں کوئی رکشہ و ٹیکسی نظر آیا سو پیدل جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ یہ بعد از مغرب کا واقعہ ہے وہاں سے ہم گھر پیدل پہنچ گئے مگر کسی کا خوف نہیں تھا۔ نہ لٹنے کا، نہ مارے جانے کا، نہ اغوا برائے تاوان کا۔ یہ تھا اس وقت کا کراچی۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں جب کراچی سرکل ریلوے عروج پر تھی روزانہ 104 لوپ لائن پر چلتی تھیں۔ لیکن کراچی کے ٹرانسپورٹروں کو کراچی سرکلر ریلوے کی ترقی ایک آنکھ نہ بھائی اور انھوں نے اس کو ناکام بنانے کے لیے ریلوے ملازمین سے مل کر سازشیں شروع کر دیں ۔ 1999ء کی دہائی کی شروع سے کراچی سرکلر ریلوے کی تباہی کا آغاز ہوا۔
ٹرینوں کی آمد و رفت میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفر کرنا چھوڑ دیا۔ آخر کار 1994ء میں کراچی سرکلر ریلوے کی زیادہ تر ٹرینیں خسارے کی بنا پر بند کر دی گئیں۔ 1994ء سے 1999ء تک لوپ لائن پر صرف ایک ٹرین چلتی تھی۔ 1999ء میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا، اس سے آگے کی داستان آپ ملاحظہ کر چکے ہیں اس لیے لوکل ٹرین کی بحالی کے لیے ہم اور آپ صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ میرا عاجزانہ ذاتی تاثر اور شخصی مشاہدہ ہے کہ اعصاب شکن ٹرانسپورٹ اور ٹریفک سسٹم اس شہر نارپرساں کو بالٓاخر اعصابی مریض بنا کر دم لیگا ۔
وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے اہم منصوبے کراچی سرکلر ریلوے سے توجہ ہٹنے کے بعد سندھ حکومت نے بھی اس میں دلچسپی لینا بند کر دی ہے، منصوبے پر آسان اقساط پر فنڈز فراہم کرنے والے جاپانی ادارے جائیکا کے بھی تجاوزات کے خاتمے کے سب سے اہم مطالبے پر عمل نہیں کیا جا سکا ہے جب کہ اب تک کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے پر فزیبلٹی بنانے اجلاس اور دوروں پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے اس رویے کے باعث جائیکا نے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو اپنی اولین ترجیحات سے نکال کر آخری ترجیح میں شامل کر دیا ہے۔ منصوبے پر کام کرنے والے کراچی اربن ٹرانسپورٹ اتھارٹی منصوبے پر صرف کاغذی کام کر رہا ہے۔
جائیکا کو حکومت پاکستان کی گارنٹی درکار ہے جو گزشتہ 8 سالوں میں تا حال نہیں دی گئی ہے جب کہ ان کا دوسرا سب سے بڑا مطالبہ سرکلر ریلوے کے روٹ سے تجاوزات کے خاتمے کا ہے اس کو بھی تا حال پورا نہیں کیا جا سکا بلکہ تجاوزات میں مزید کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے، سرکلر ریلوے کی دستاویز کے مطابق منصوبے کے روٹ پر ساڑھے چار ہزار تجاوزات ہیں جس کے لیے جمعہ گوٹھ پر متبادل زمین حاصل کی گئی ہے تاہم اس کی دستاویز تا حال ٹرانسفر نہیں کی گئی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کے 43.2 کلو میٹر ٹریک کے دونوں اطراف پاکستان ریلوے کی زمین پر 4 ہزار 653 مکین آباد ہیں۔ جمعہ گوٹھ پر ریلوے کی 283 ایکڑ زمین پر تجاوزات کا خاتمہ کر دیاگیا ہے جہاں متاثرین کی آبادکاری ہو گی۔
کراچی سرکلر ریلوے، کراچی میں ایک متروک ریلوے ہے جس کی بحالی کے لیے 1999ء سے لے کر اب تک بے شمار نیم دلانہ منصوبے بنائے گئے جو آج بھی پایہ تکمیل کے منتظر ہیں۔ 2005ء میں جاپان انٹرنیشنل کارپوریشن ایجنسی کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے نرم شرائط پر قرض دینے کے لیے رضامند ہو گئی تھی۔ تاہم منصوبے پر پھر بھی کام کا آغاز نہ ہوا اور اب تک التوا کا شکار ہے۔ 7 جون 2013ء کو سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کے بحالی کے لیے 2.6 ملین امریکی ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی۔
پاکستان ریلوے نے کراچی میں آمد و رفت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے 1969ء میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کیا۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن کی اسٹیشنوں کی تعداد 29 تھی جب کہ یہ منصوبہ 2 لائنوں پر مشتمل تھا۔ پہلی لائن ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہو کر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی شہر ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی۔ دوسرا پاکستان ریلوے کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی شہر لانڈھی اور کراچی شہر تک لوکل ٹرینیں چلتی تھیں۔ کراچی سرکلر ریلوے اسٹیشن درج ذیل تھے۔
ایک روٹ کراچی شہر (سٹی اسٹیشن)، وزیر مینشن، لیاری، بلدیہ، ، سائٹ، منگھوپیر، اورنگی، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد، ، گیلانی، اردو سائنس کالج ، کراچی یونیورسٹی، ڈرگ روڈ تک۔ دوسرا روٹ کراچی سٹی سے لانڈھی تک کا تھا۔ جس میں لانڈھی، ملیر، ائیر پورٹ، ڈرگ کالونی، ڈرگ روڈ، چنسر ہالٹ سے کینٹ اور سٹی اسیٹشنز شامل ہیں۔ کراچی کے شہریوں نے اس سروس کو بے حد پسند کیا تھا اور پہلے ہی سال کراچی سرکلر ریلوے کو 5 لاکھ کا منافع ہوا تھا۔ اس لوکل ٹرین میں یومیہ 7 لاکھ مسافر سفر کیا کرتے تھے۔
یہ ایک تیز رفتار سواری تھی۔ اوسط رفتار 44 کلو میٹر فی گھنٹہ، حد رفتار 100 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔ نظام کی لمبائی (KM(31.07 MI 50) پٹری وسعت (mm(4 FT 8½ in 1,435) تھا۔ بگھی جسے ریل کا ڈبہ اور ویگن بھی کہتے تھے سبز رنگ کا ہوا کرتا تھا جس کا اوپری حصہ پیلا رنگ کا تھا جس کے اوپر پاکستان ریلوے لکھا ہوا کرتا تھا۔ ہر ایک ڈبہ لمبا اور کشادہ ہوا کرتا تھا۔ ڈبے کے اندر دونوں جانب یکسر سیدھا بینچ نما لکڑی کی سیٹ ہوا کرتے تھے۔ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے ہوئے مسافروں کی سر کی طرف لمبا سا پائپ نصب تھا جس پر جگہ جگہ پکڑنے کے لیے بیلٹ لٹکے تھے۔ ڈبے میں باتھ روم ہوا کرتے تھے۔ باقی وہی صورت تھی جو عام ٹرینوں کی ہے۔
بڑا مزا آتا تھا اس کی سواری کرتے ہوئے۔ یہ قومی اور ثقافتی یکجہتی کا مظہر بھی تھا، لوگ جڑتے رہتے تھے، یگانگت اور شیرازہ بندی سرکلر ریلوے کا ایک اہم عنصر تھا۔ سستی سواری تھی۔ میں اپنے بچپن کے دوستوں کے علاوہ اپنے گھر والوں اور خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ اکثر لوکل ریل کا سفر کیا کرتا تھا۔ چھٹی والے دنوں میں ہم یار دوست جو ایک فٹ بال ٹیم کی صورت ہوا کرتے تھے کبھی سٹی اسٹیشن سے تو کبھی لیاری اور وزیر مینشن اسٹیشن سے لوکل ٹرین میں سوار ہوا کرتے تھے۔
ہم دوستوں کی منزل، اردو سائنس کالج، کارساز اور لانڈھی ہوا کرتی تھی۔ عزیز بھٹی پارک جو اب گلشن اقبال کے حدود میں واقع ہے اس زمانے میں گلشن اقبال کا وجود نہیں تھا کچھ گھر تھے باقی کھلا میدان ہی میدان ہوا کرتا تھا۔
عزیز بھٹی پارک اس زمانے میں بہت ہی خوب صورت ہوا کرتا تھا۔ اس میں موجود وسیع جھیل اس کی خوبصورتی کو جلا بخشتی تھی ہر طرف رنگ برنگے پودے، گرین میدان اور مختلف ڈیزائن پر مبنی چھوٹے بڑے درخت اور کونے میں ایک خوب صورت ہوٹل جہاں تفریح کرنے والے لوگ سیر ہوا کرتے تھے۔ جھیل کے چاروں طرف پائپ کے جنگلے نصب تھے جو کالا اور سفید رنگ کے تھے۔ جن کے کنارے کھڑے ہو کر جھیل کا نظارہ کیا جاتا تھا۔ جھیل میں موجود سفید سفید بطخ خوب صورتی میں اضافے کے باعث تھے۔
ہم یار دوست پارک کے ایک حصے میں ٹیم بنا کر فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ ایک دفعہ فٹ بال کھیلتے ہوئے میرے پاؤں کو موچ آ گیا اور درد کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے فٹ بال کھیلنا چھوڑ دیا۔ ہم یار دوست سبھی لانڈھی تک سفر کرتے اور واپسی بھی اسی لوکل ٹرین سے ہوتی، راستہ بھر ہم مستی کیا کرتے تھے مگر یہ اخلاق کے دائرے میں ہوا کرتا تھا یعنی ٹرین میں سوار کسی لڑکی سے چھیڑ خانی نہیں کرتے تھے اپنی دھن میں مگن رہتے تھے اسی طرح ہم لوکل ٹرین کے ذریعے کارساز جاتے تھے جہاں حضرت قطب عالم شاہ بخاری کا مزار ہے، وہاں ہم فاتحہ خوانی کے بعد وہاں موجود چشمے کا گرم پانی والے حوض میں نہاتے جو بدن کے گرمی دانے اور دیگر چمڑے کے امراض کے لیے ایک مفید علاج ہے آج کل اس حوض کی کیا صورت حال معلوم نہیں کہ کافی وقت ہوا ہے حضرت کے مزار پر حاضری دیے ہوئے۔
ایک دفعہ اس گرم حوض میں نہا رہا تھا کہ ایک لڑکا مجھے گھور رہا تھا۔ میں نے اعتراضاً اس سے پوچھا کہ تم مجھے کیوں اس طرح سے دیکھ رہے ہو۔ اس نے برا مانے بغیر مجھ سے سوال کیا کہ تم نسیم کے بھائی تو نہیں ہو۔ میں دل میں پریشان و حیران رہ گیا کہ اس کو کیسے معلوم میں تو اس کو نہیں جانتا۔ میں نے کہا کون سا نسیم؟ کہنے لگا جو شپ یارڈ میں انجینئرنگ کورس کر رہا ہے۔ میں مطمئن ہو گیا کہا کہ ہاں تم کیسے جانتے ہو؟ انھوں نے کہا کہ میرا نام عبدالمجید ہے میں کمہار واڑہ لیاری میں غوثیہ روڈ پر رہتا ہوں اور تمہارے بھائی نسیم کے ساتھ انجینئرنگ کورس کر رہا ہوں پھر میں نے اس سے مصافحہ کیا۔ دراصل میرا چہرہ میرے بڑے بھائی نسیم احمد سے ملتا ہے اس لیے اس کا اندازہ ٹھیک نکلا تھا۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی لوکل ریل گاڑی کی ایک دفعہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کارساز گیا، وہاں سے واپسی بھی سرکلر ٹرین سے ہوئی۔ راستے میں اندھیرا ہو گیا تھا ہم بجائے لیاری اسٹیشن کے ایک اسٹیشن پہلے یعنی شاہ عبداللطیف اسٹیشن پر اتر گئے۔ بعد میں احساس ہوا کہ ہم غلط اسٹیشن پر اتر گئے ہیں لیکن اس وقت دیر ہو چکی تھی کہ ریل جا چکی تھی۔ وہاں سے لیاری کی طرف کوئی پبلک سواری نہیں جاتی تھی اور نہ ہی وہاں کوئی رکشہ و ٹیکسی نظر آیا سو پیدل جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ یہ بعد از مغرب کا واقعہ ہے وہاں سے ہم گھر پیدل پہنچ گئے مگر کسی کا خوف نہیں تھا۔ نہ لٹنے کا، نہ مارے جانے کا، نہ اغوا برائے تاوان کا۔ یہ تھا اس وقت کا کراچی۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں جب کراچی سرکل ریلوے عروج پر تھی روزانہ 104 لوپ لائن پر چلتی تھیں۔ لیکن کراچی کے ٹرانسپورٹروں کو کراچی سرکلر ریلوے کی ترقی ایک آنکھ نہ بھائی اور انھوں نے اس کو ناکام بنانے کے لیے ریلوے ملازمین سے مل کر سازشیں شروع کر دیں ۔ 1999ء کی دہائی کی شروع سے کراچی سرکلر ریلوے کی تباہی کا آغاز ہوا۔
ٹرینوں کی آمد و رفت میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفر کرنا چھوڑ دیا۔ آخر کار 1994ء میں کراچی سرکلر ریلوے کی زیادہ تر ٹرینیں خسارے کی بنا پر بند کر دی گئیں۔ 1994ء سے 1999ء تک لوپ لائن پر صرف ایک ٹرین چلتی تھی۔ 1999ء میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا، اس سے آگے کی داستان آپ ملاحظہ کر چکے ہیں اس لیے لوکل ٹرین کی بحالی کے لیے ہم اور آپ صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ میرا عاجزانہ ذاتی تاثر اور شخصی مشاہدہ ہے کہ اعصاب شکن ٹرانسپورٹ اور ٹریفک سسٹم اس شہر نارپرساں کو بالٓاخر اعصابی مریض بنا کر دم لیگا ۔