تعلیم یا جہل
جن معاشروں نے علم کے فروغ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں ، وہ تاریخ کا ایک گمشدہ باب بن گئے۔
جب اللہ کے آخری نبیﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی، تو کہا گیا کہ ''اقراء بسم ربک الذی'' یعنی اے رسول پڑھو اللہ کے نام سے ۔ یہ واضح پیغام تھا کہ اب دنیا میں صرف علم ہی حاکم رہے گا اور وہی انسانوںکی ترقی وکامرانی کا ذریعہ بنے گا۔ ایک جنگ کے موقعے پر رسول خدا نے تعلیم یافتہ قریش کے قیدیوں کی قید میں نرمی کی ایک ہی شرط رکھی کہ وہ اہل مدینہ کو تعلیم دیں گے ۔جس سے علم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔پھر فرمایا کہ حصول علم کے لیے چین جانا پڑے تو وہاں بھی جاؤ ۔یہ اقوال و احکامات بتاتے ہیں کہ علم کے سوا ترقی کا کوئی اور راستہ نہیں ۔ انسان کا صدیوںپر محیط فکری اور سماجی ارتقاء بھی علم وآگہی اور تحقیق وتجربہ ہی سے مشروط رہا ہے ۔انسان نے ہزاروں برسوں کے دوران جو ترقی کی،یعنی بقول اقبالؒ ستاروں پہ جو کمند ڈالی وہ بھی علم کی بدولت ہی ممکن ہوسکی ۔
علم و آگہی اور تحقیقی و تجربے پر انحصار اور جہل اور ناخواندگی سے انکار نے انسانی معاشروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ۔جن معاشروں نے علم کے فروغ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں ، وہ تاریخ کا ایک گمشدہ باب بن گئے ۔ اہل یورپ اس دورکو دورِ تاریک کہتے ہیں، جب کلیسا نے عام آدمی کے لیے حصول علم ناممکن بنا دیا تھا۔
مگر جب گیارہویں صدی میں آکسفورڈ اور بارہویں صدی کے اوائل میں کیمبرج یونیورسٹیاںشروع ہوئیں تو وہاںبیداری کی تحاریک ابھرنا شروع ہوئیں ۔1215 میں میگناکارٹا پر دستخط دراصل یورپ میں صبح نو کا آغاز تھے ۔ جس نے صنعتی انقلاب کی طرف بڑھنے اور پوری دنیا کے لیے ایک نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل کی راہ ہموار کی ۔ آج اہل مغرب دنیا میں جو رہنماء مقام رکھتے ہیں، وہ علم کے فروغ ہی کی بدولت انھیں حاصل ہوا ۔
مسلم معاشرے اس سے قبل ساتویں صدی سے علم و آگہی کے مرکز بن چکے تھے ۔ شمال میں وسط ایشیا، مغرب میں ہسپانیہ(اسپین) اورجنوب میںمغربی افریقہ تک تین صدیوں تک مسلم معاشروں نے علم وآگہی اور تحقیق وتخلیق کی نئی راہیں کھولیں۔مذہب واخلاقیات،سائنس وٹیکنالوجی، ادب و فلسفہ سمیت علم کے ہر شعبے میںتحقیق وتخلیق نے دنیا کو ان گنت فکری رجحانات سے نوازا ۔
مگر جب ان معاشروں میں ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں تحقیق وتجربہ اور دلیل کی بنیاد پر مکالمے پر قدغن لگنا شروع ہوئے تو یہ معاشرے ذہنی تشنج کا شکار ہوکر فکری پسماندگی اور سماجی وسیاسی جمود کا شکار ہوتے چلے گئے۔ نتیجتاًایک طرف وحشی و اجڈ تاتاریوں نے علم فضل اورتہذیب وتمدن کے مرکز بغداد کوتہس نہس کیا،تو دوسری طرف شاہ فرڈیننڈ سوئم نے1492ء میں ہسپانیہ(اسپین) میںمسلم حکومت کا خاتمہ کردیا ۔
یہ سب اس لیے ہوا کہ ہسپانیہ کے حکمرانوں نے اقتدار کے نشے میں بدمست ہوکرعلم وآگہی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کردی تھی ۔ اس ابتری کاآغاز اسوقت ہوا ، جب خلیفہ منصور ثانی نے ابن رشد کی تحاریر قرطبہ کے چوک میں نذر آتش کرنے اور بوڑھے فلسفی کوشہر بدر کرنے کا حکم صادر کیا ۔ان اقدامات نے دراصل ہسپانیہ میں تیزی سے آگے بڑھتے عوامی علمی شعور اور ابھرتے تہذیب وتمدن کی کمر میں چھرا گھونپ دیا تھا۔یہی سبب ہے کہ پے درپے ایسے واقعات کے نتیجے میں مسلم معاشرے پھر کبھی سنبھل نہ پائے اور مسلسل روبہ بہ زوال ہوتے چلے گئے ۔آج بیشتر مسلم ممالک معدنی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود علم سے دوری کے سبب دنیاکی دیگر اقوام سے بہت پیچھے اور ان کے اشاروں پر ناچنے پر مجبورہیں ۔
اب ذرا دوسرے پہلو پر غور کرتے ہیں ۔ بھارت کے تیسرے صدرڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ''جب میں کسی ملک کے دورے پر جاتا ہوں ، تو میری دلچسپی وہاں کے تعلیمی نظام کا مطالعہ ہوتی ہے ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ایسے ممالک جن کے شہروں کے بازاروں میں گہماگہمی ہوتی ہے ، شوکیسوں میں نت نئے سامان تعیش کی بھرمار ہوتی ہے، مگر تعلیمی نظام کمزور پاتا ہوں ، تو سمجھ لیتا ہوں کہ یہ معاشرہ روبہ زوال ہے اور کسی بھی وقت زمیں بوس ہوسکتاہے ۔
اس کے برعکس وہ ملک جس میں بازاروں میں گہما گہمی کم ہو اوردکانوں کے شوکیسوں میں معمولی اشیاء رکھی ہوئی ہوں لیکن تعلیم نظام عصری تقاضوں کے مطابق اورترقی دوست ہو ، تو یہ دعویٰ کرتے ہوئے بالکل نہیں ہچکچاتا کہ اس ملک کا مستقبل نہایت تابناک اور اور یہ جلدہی ترقی کی منازل طے کرتانظر آرہا ہے ۔'' دوسرا واقعہ یہ کہ انڈیا ایکٹ1935کی منظوری کے بعد جب1937 میں برٹش انڈیا میں انتخابات ہوئے، توانڈین نیشنل کانگریس کی حکومت قائم ہوئی ۔ جس نے پنڈت جواہر لعل نہروکو وزیر اعظم نامزدکیا ۔یہ حکومت دو سال قائم رہی اور1939 میں دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر ختم کردی گئی۔
حکومت کے اختتام پر آل انڈیا مسلم لیگ نے یوم نجات منایا۔ بہر حال پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران حیدرآباد (دکن)کادورہ کیا ۔ اپنے دورے کے دوران انھوں نے مقامی حکام سے پوچھا کیاکہ آیا وہاں کوئی ٹیکنیکل اسکول قائم ہے؟نفی میں جواب ملنے پر انھوں نے شہر کے وسط میں 8ایکڑسرکاری زمین الاٹ کرکے ٹیکنیکل اسکول کے قیام کاحکم دیا ۔ابھی صرف دو کمرے اور باؤنڈری ہی تعمیر ہوپائی تھی کہ ان کی حکومت ختم ہوگئی اور اسکول کی تعمیر کا کام کھٹائی میں پڑ گیا ۔ لیکن آزادی کے بعد جب حیدرآباد کی ریاست بھارت میں شامل کرلی گئی تو انھوں نے تلنگانہ کے دورے کے دوران اس اسکول کی دوبارہ فوری تعمیر کا حکم دیا ۔1955 میں قائم ہونے والا ٹیکنیکل کالج آج کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم کا ادارہ ہے ۔
جہاں سے ہر سال 400 نوجوان کمپیوٹر سائنس کے مختلف شعبہ جات میںڈگریاں حاصل کررہے ہیں ۔مولانا ابوالکلام آزاد آزادی کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مقرر ہوئے ۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے پاکستان ہجرت کرجانے کے بعد مولانا الطاف حسین حالی کے نواسے اور معروف دانشور ڈاکٹر غلام السیدین بھارت کے سیکریٹری تعلیم بنے ۔ مولاناآزاد نے ڈاکٹر سیدین کے تعاون سے ہندوستان میں تعلیم کوعام کرنے کے لیے کئی پالیسیاں مرتب کیں ۔
14برس کی عمر تک کے بچوں اور بچیوں کے لیے مفت تعلیم ، یونیورسل پرائمری تعلیم کی منصوبہ بندی اور اس پر اپنی زندگی ہی میں عمل درآمد شروع کرا دیا ۔ پورے ہندوستان میں تعلیم بالغان کے اداروں کا قیام۔ ٹیکنیکل تعلیم کے لیے انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (IIST)کا قیام۔ جس کی اس وقت ہندوستان بھر میں26برانچیں ہیں ۔ جہاں داخلہ صرف میرٹ پر ملتا ہے اورداخلے کے لیے وزیراعظم ہند بھی سفارش کی جسارت نہیں کرسکتا ۔اس ادارے کو عالمی سطح پر نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ اس کے گریجویٹس کے لیے پوری دنیا میں روزگار کے دروازے کھلے رہتے ہیں ۔
اقوام متحدہ نے1966 میں معاشی ، سماجی اور ثقافتی حقوق پرہونے والے کنونشن کے آرٹیکل 13کے ذریعے گلوبل سطح پر ہر فرد کے تعلیم کے حصول کے حق کو تسلیم کیا ۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں پرائمری تعلیم کولازمی قراردیا ہے ہے ۔ پاکستان میں آئین کا آرٹیکل25Aکہتاہے کہ The State shall provide free and compulsory education to all children of the age of five to sixteen years in such manner as may be determined by law. ۔ یعنی 5سے16برس کی عمر کے تمام بچوں کو ریاست مفت لازمی تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے ۔
مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو پا رہا۔ جب کوئی قوم ابتدائی تعلیم تک رسائی حاصل کرلیتی ہے تو پھر تحقیق و تجربے کے لیے اسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پاکستان میں اس مقصد کے حصول کے لیے سابق سربراہ مملکت جنرل پرویز مشرف نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن(HEC)تشکیل دیا ۔ مگر ہماری منتخب حکومتوں نے اول تو اس کا حلیہ بگاڑ دیا ۔دوئم ماہرین کے بجائے اقربا پروری کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اعلیٰ سطح پر جو چراغ روشن ہونا شروع ہوئے تھے، ان میں کمی آنے لگی ۔
حکومت پاکستان کی بالعموم اور حکومت سندھ کی بالخصوص تعلیم سے عدم رغبت واضح ہے ۔ پاکستان میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں نے فروغ علم کے لیے اقدامات تو کجا ، پہلے سے موجود تعلیمی نظام کو برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ایک صوبائی وزیر تعلیم نے رشوت لے کر سندھی زبان کی تدریس کے لیے ایک دو نہیں سیکڑوں کی تعداد میں بنگالی بولنے والوں کو بھرتی کرلیا ۔ اس قسم کے رویے دراصل ان کے فیوڈل Mindsetکو ظاہر کرتے ہیں۔
حال ہی میں ایک کاروباری شخص نے کراچی اور حیدر آباد میں جامعات کے قیام کا اعلان کیا تو بعض سیاسی شخصیات نے اس پر بھی واویلا مچانا شروع کردیا ۔ حالانکہ یہ کام سندھ حکومت کا ہے کہ وہ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کو درست کرے ۔ اس سطح پر طلبا اور طالبات کے لیے سہولیات فراہم کرے اورمیرٹ پر اہل اساتذہ کا تقرر کرنے کے بعد ہر ضلع میں کم ازکم ایک جامعہ ضرور قائم کرے مگر سرکاری خرچ پر جامعہ بنانا تو دور کی بات نجی شعبے کی جانب سے قائم کی جانے والی جامعہ پر بھی اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اس رویے کو کیا معنی پہنائے جائیں۔ اس کا فیصلہ وہ عناصر خود ہی کریں۔ ہمیں کچھ کہیں گے تو شکایت ہوگی۔البتہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حصول علم کی راہ میں نہ عقیدہ رکاوٹ ہونا چاہیے یا نسلی ولسانی تفریق۔کیونکہ تعلیم کا حصول ہر شہری کا بنیادی انسانی اور جمہوری حق ہے اور اس حق سے مختلف حیلوں بہانوں سے محروم رکھنے کی کوشش کرنے والے عناصر اور حلقے کسی بھی طور جمہوری کہلانے کے مستحق نہیں ہوتے ۔
علم و آگہی اور تحقیقی و تجربے پر انحصار اور جہل اور ناخواندگی سے انکار نے انسانی معاشروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ۔جن معاشروں نے علم کے فروغ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں ، وہ تاریخ کا ایک گمشدہ باب بن گئے ۔ اہل یورپ اس دورکو دورِ تاریک کہتے ہیں، جب کلیسا نے عام آدمی کے لیے حصول علم ناممکن بنا دیا تھا۔
مگر جب گیارہویں صدی میں آکسفورڈ اور بارہویں صدی کے اوائل میں کیمبرج یونیورسٹیاںشروع ہوئیں تو وہاںبیداری کی تحاریک ابھرنا شروع ہوئیں ۔1215 میں میگناکارٹا پر دستخط دراصل یورپ میں صبح نو کا آغاز تھے ۔ جس نے صنعتی انقلاب کی طرف بڑھنے اور پوری دنیا کے لیے ایک نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل کی راہ ہموار کی ۔ آج اہل مغرب دنیا میں جو رہنماء مقام رکھتے ہیں، وہ علم کے فروغ ہی کی بدولت انھیں حاصل ہوا ۔
مسلم معاشرے اس سے قبل ساتویں صدی سے علم و آگہی کے مرکز بن چکے تھے ۔ شمال میں وسط ایشیا، مغرب میں ہسپانیہ(اسپین) اورجنوب میںمغربی افریقہ تک تین صدیوں تک مسلم معاشروں نے علم وآگہی اور تحقیق وتخلیق کی نئی راہیں کھولیں۔مذہب واخلاقیات،سائنس وٹیکنالوجی، ادب و فلسفہ سمیت علم کے ہر شعبے میںتحقیق وتخلیق نے دنیا کو ان گنت فکری رجحانات سے نوازا ۔
مگر جب ان معاشروں میں ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں تحقیق وتجربہ اور دلیل کی بنیاد پر مکالمے پر قدغن لگنا شروع ہوئے تو یہ معاشرے ذہنی تشنج کا شکار ہوکر فکری پسماندگی اور سماجی وسیاسی جمود کا شکار ہوتے چلے گئے۔ نتیجتاًایک طرف وحشی و اجڈ تاتاریوں نے علم فضل اورتہذیب وتمدن کے مرکز بغداد کوتہس نہس کیا،تو دوسری طرف شاہ فرڈیننڈ سوئم نے1492ء میں ہسپانیہ(اسپین) میںمسلم حکومت کا خاتمہ کردیا ۔
یہ سب اس لیے ہوا کہ ہسپانیہ کے حکمرانوں نے اقتدار کے نشے میں بدمست ہوکرعلم وآگہی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کردی تھی ۔ اس ابتری کاآغاز اسوقت ہوا ، جب خلیفہ منصور ثانی نے ابن رشد کی تحاریر قرطبہ کے چوک میں نذر آتش کرنے اور بوڑھے فلسفی کوشہر بدر کرنے کا حکم صادر کیا ۔ان اقدامات نے دراصل ہسپانیہ میں تیزی سے آگے بڑھتے عوامی علمی شعور اور ابھرتے تہذیب وتمدن کی کمر میں چھرا گھونپ دیا تھا۔یہی سبب ہے کہ پے درپے ایسے واقعات کے نتیجے میں مسلم معاشرے پھر کبھی سنبھل نہ پائے اور مسلسل روبہ بہ زوال ہوتے چلے گئے ۔آج بیشتر مسلم ممالک معدنی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود علم سے دوری کے سبب دنیاکی دیگر اقوام سے بہت پیچھے اور ان کے اشاروں پر ناچنے پر مجبورہیں ۔
اب ذرا دوسرے پہلو پر غور کرتے ہیں ۔ بھارت کے تیسرے صدرڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ''جب میں کسی ملک کے دورے پر جاتا ہوں ، تو میری دلچسپی وہاں کے تعلیمی نظام کا مطالعہ ہوتی ہے ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ایسے ممالک جن کے شہروں کے بازاروں میں گہماگہمی ہوتی ہے ، شوکیسوں میں نت نئے سامان تعیش کی بھرمار ہوتی ہے، مگر تعلیمی نظام کمزور پاتا ہوں ، تو سمجھ لیتا ہوں کہ یہ معاشرہ روبہ زوال ہے اور کسی بھی وقت زمیں بوس ہوسکتاہے ۔
اس کے برعکس وہ ملک جس میں بازاروں میں گہما گہمی کم ہو اوردکانوں کے شوکیسوں میں معمولی اشیاء رکھی ہوئی ہوں لیکن تعلیم نظام عصری تقاضوں کے مطابق اورترقی دوست ہو ، تو یہ دعویٰ کرتے ہوئے بالکل نہیں ہچکچاتا کہ اس ملک کا مستقبل نہایت تابناک اور اور یہ جلدہی ترقی کی منازل طے کرتانظر آرہا ہے ۔'' دوسرا واقعہ یہ کہ انڈیا ایکٹ1935کی منظوری کے بعد جب1937 میں برٹش انڈیا میں انتخابات ہوئے، توانڈین نیشنل کانگریس کی حکومت قائم ہوئی ۔ جس نے پنڈت جواہر لعل نہروکو وزیر اعظم نامزدکیا ۔یہ حکومت دو سال قائم رہی اور1939 میں دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر ختم کردی گئی۔
حکومت کے اختتام پر آل انڈیا مسلم لیگ نے یوم نجات منایا۔ بہر حال پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران حیدرآباد (دکن)کادورہ کیا ۔ اپنے دورے کے دوران انھوں نے مقامی حکام سے پوچھا کیاکہ آیا وہاں کوئی ٹیکنیکل اسکول قائم ہے؟نفی میں جواب ملنے پر انھوں نے شہر کے وسط میں 8ایکڑسرکاری زمین الاٹ کرکے ٹیکنیکل اسکول کے قیام کاحکم دیا ۔ابھی صرف دو کمرے اور باؤنڈری ہی تعمیر ہوپائی تھی کہ ان کی حکومت ختم ہوگئی اور اسکول کی تعمیر کا کام کھٹائی میں پڑ گیا ۔ لیکن آزادی کے بعد جب حیدرآباد کی ریاست بھارت میں شامل کرلی گئی تو انھوں نے تلنگانہ کے دورے کے دوران اس اسکول کی دوبارہ فوری تعمیر کا حکم دیا ۔1955 میں قائم ہونے والا ٹیکنیکل کالج آج کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم کا ادارہ ہے ۔
جہاں سے ہر سال 400 نوجوان کمپیوٹر سائنس کے مختلف شعبہ جات میںڈگریاں حاصل کررہے ہیں ۔مولانا ابوالکلام آزاد آزادی کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مقرر ہوئے ۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے پاکستان ہجرت کرجانے کے بعد مولانا الطاف حسین حالی کے نواسے اور معروف دانشور ڈاکٹر غلام السیدین بھارت کے سیکریٹری تعلیم بنے ۔ مولاناآزاد نے ڈاکٹر سیدین کے تعاون سے ہندوستان میں تعلیم کوعام کرنے کے لیے کئی پالیسیاں مرتب کیں ۔
14برس کی عمر تک کے بچوں اور بچیوں کے لیے مفت تعلیم ، یونیورسل پرائمری تعلیم کی منصوبہ بندی اور اس پر اپنی زندگی ہی میں عمل درآمد شروع کرا دیا ۔ پورے ہندوستان میں تعلیم بالغان کے اداروں کا قیام۔ ٹیکنیکل تعلیم کے لیے انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (IIST)کا قیام۔ جس کی اس وقت ہندوستان بھر میں26برانچیں ہیں ۔ جہاں داخلہ صرف میرٹ پر ملتا ہے اورداخلے کے لیے وزیراعظم ہند بھی سفارش کی جسارت نہیں کرسکتا ۔اس ادارے کو عالمی سطح پر نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ اس کے گریجویٹس کے لیے پوری دنیا میں روزگار کے دروازے کھلے رہتے ہیں ۔
اقوام متحدہ نے1966 میں معاشی ، سماجی اور ثقافتی حقوق پرہونے والے کنونشن کے آرٹیکل 13کے ذریعے گلوبل سطح پر ہر فرد کے تعلیم کے حصول کے حق کو تسلیم کیا ۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں پرائمری تعلیم کولازمی قراردیا ہے ہے ۔ پاکستان میں آئین کا آرٹیکل25Aکہتاہے کہ The State shall provide free and compulsory education to all children of the age of five to sixteen years in such manner as may be determined by law. ۔ یعنی 5سے16برس کی عمر کے تمام بچوں کو ریاست مفت لازمی تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے ۔
مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو پا رہا۔ جب کوئی قوم ابتدائی تعلیم تک رسائی حاصل کرلیتی ہے تو پھر تحقیق و تجربے کے لیے اسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پاکستان میں اس مقصد کے حصول کے لیے سابق سربراہ مملکت جنرل پرویز مشرف نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن(HEC)تشکیل دیا ۔ مگر ہماری منتخب حکومتوں نے اول تو اس کا حلیہ بگاڑ دیا ۔دوئم ماہرین کے بجائے اقربا پروری کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اعلیٰ سطح پر جو چراغ روشن ہونا شروع ہوئے تھے، ان میں کمی آنے لگی ۔
حکومت پاکستان کی بالعموم اور حکومت سندھ کی بالخصوص تعلیم سے عدم رغبت واضح ہے ۔ پاکستان میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں نے فروغ علم کے لیے اقدامات تو کجا ، پہلے سے موجود تعلیمی نظام کو برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ایک صوبائی وزیر تعلیم نے رشوت لے کر سندھی زبان کی تدریس کے لیے ایک دو نہیں سیکڑوں کی تعداد میں بنگالی بولنے والوں کو بھرتی کرلیا ۔ اس قسم کے رویے دراصل ان کے فیوڈل Mindsetکو ظاہر کرتے ہیں۔
حال ہی میں ایک کاروباری شخص نے کراچی اور حیدر آباد میں جامعات کے قیام کا اعلان کیا تو بعض سیاسی شخصیات نے اس پر بھی واویلا مچانا شروع کردیا ۔ حالانکہ یہ کام سندھ حکومت کا ہے کہ وہ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کو درست کرے ۔ اس سطح پر طلبا اور طالبات کے لیے سہولیات فراہم کرے اورمیرٹ پر اہل اساتذہ کا تقرر کرنے کے بعد ہر ضلع میں کم ازکم ایک جامعہ ضرور قائم کرے مگر سرکاری خرچ پر جامعہ بنانا تو دور کی بات نجی شعبے کی جانب سے قائم کی جانے والی جامعہ پر بھی اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اس رویے کو کیا معنی پہنائے جائیں۔ اس کا فیصلہ وہ عناصر خود ہی کریں۔ ہمیں کچھ کہیں گے تو شکایت ہوگی۔البتہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حصول علم کی راہ میں نہ عقیدہ رکاوٹ ہونا چاہیے یا نسلی ولسانی تفریق۔کیونکہ تعلیم کا حصول ہر شہری کا بنیادی انسانی اور جمہوری حق ہے اور اس حق سے مختلف حیلوں بہانوں سے محروم رکھنے کی کوشش کرنے والے عناصر اور حلقے کسی بھی طور جمہوری کہلانے کے مستحق نہیں ہوتے ۔