نیلسن منڈیلا کی پہلی برسی…

27 برس نیلسن منڈیلا کی زندگی کے بہترین برس تھے۔ جو کہ اسیری کی نذر ہو گئے۔


ایم اسلم کھوکھر December 03, 2014

ISLAMABAD: لیجیے جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بابائے جمہوریت آف جنوبی افریقہ آنجہانی نیلسن منڈیلا کی پہلی برسی بھی آ گئی۔ گویا 6 دسمبر 2014ء نیلسن منڈیلا کو اس جہان فانی سے کوچ کیے ایک برس بیت گیا آج سے ٹھیک ایک برس قبل یعنی 6 دسمبر 2013ء کو جب نیلسن منڈیلا کا انتقال ہوا تو دنیا بھر کے مظلوم و جمہوریت پسند لوگوں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ ایسا اس لیے کہ نیلسن منڈیلا اپنی جدوجہد کے باعث جو انھوں نے جنوبی افریقہ میں نسل پرست و امتیازی سلوک کرنے والی حکومتوں کے خلاف کی ان لوگوں کے لیے ایک مثال کی شکل اختیار کر چکے تھے۔

آج ہم کوشش کرتے ہیں کہ نیلسن منڈیلا کی شخصیت پر مختصر گفتگو کرنے کی۔ نیلسن منڈیلا نے جب اس دنیا میں آنکھ کھولی تو یہ 1919ء کا زمانہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پہلی جنگ عظیم اگرچہ ختم ہو چکی تھی مگر اپنے پیچھے تمام تر ہولناکیاں بھی چھوڑ گئی تھی یوں بھی جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی بلکہ جنگ لاتعداد مسائل کو جنم دیتی ہے۔

ایسے ہی مسائل کا اس دور میں دنیا کو سامنا تھا۔ جب کہ دوسری جانب امید کی ایک کرن بھی تمام دنیا کی مظلوم اقوام کے لیے نمودار ہوئی تھی وہ تھی اکتوبر 1917 کا روسی انقلاب جو کہ استاد معظم لینن کی ولولہ انگیز قیادت میں برپا ہوچکا تھا روسی سوشلسٹ انقلاب دنیا کی پہلی اشتراکی حکومت جس کو عملی نمونہ بنا کر دنیا کے محنت کش انقلاب کے لیے ملکوں ملکوں کوشاں ہو چکے تھے بہر کیف جب نیلسن منڈیلا نے شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو ان کا اپنا ملک پورے افریقہ کی مانند نسلی امتیاز کی ایک بدترین مثال پیش کر رہا تھا کیونکہ 1910ء میں برٹش سامراج نے اپنے نوآبادیاتی علاقوں کو یکجا کر کے اس علاقے کو یونین آف ساؤتھ افریقہ کا نام دیا تھا۔ یعنی جنوبی افریقہ۔ چنانچہ جنوبی افریقہ میں برٹش سامراج نے نسل پرستی کا خوب مظاہرہ کیا۔

جنوبی افریقہ کی اکثریت آبادی کو تمام قسم کے حقوق سے محروم کر دیا گیا کیونکہ ان لوگوں کی رنگت کالی تھی گوری رنگت والوں کا تمام شعبہ ہائے زندگی میں کالوں پر جبر جاری تھا۔ استحصال کا یہ سلسلہ اگرچہ ایک مدت سے جاری تھا مگر 1948ء میں ڈینیل میلن نے انتخابات میں کامیابی کے بعد نسلی امتیاز کی خاص حکمت عملی اپنائی جس میں گوری رنگت والوں کو خاص برتری حاصل ہو گئی۔ نسل پرست حکومتوں کے خلاف جنوبی افریقہ کے کسانوں نے بھرپور جدوجہد جاری رکھی جن میں وٹزر شوک کی بغاوت، میریکو کی بغاوت، سی خو خونی لینڈ کی بغاوت، زولو لینڈ کی بغاوت، پونڈو لینڈ کی بغاوت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ نسل پرست حکومت نے ان تمام بغاوتوں کو فوج کے بدترین تشدد کے ذریعے کچل دیا جب کہ نیلسن منڈیلا اور ان کے ساتھی حکومت مخالف ہر تحریک کا حصہ بنتے رہے اور بار بار جیل یاترا کرتے رہے۔

جہاں ان لوگوں پر بدترین تشدد کیا جاتا، مگر نیلسن منڈیلا کے کسی ساتھی کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ 1959ء میں نسل پرست جنوبی افریقہ کی حکومت نے ایک قانون پاس کیا جس کا نام بنٹو سیلف گورنمنٹ ایکٹ رکھا گیا۔ اس ظالمانہ قانون کے تحت تمام کالے و ایشیائی باشندے جن میں بھارتی و پاکستانی جو جنوبی افریقہ میں مقیم تھے کے لیے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ اپنے شناختی کارڈ بنوائیں اور ہمہ وقت اپنے پاس رکھیں بصورت دیگر ان کو 5 برس کی اسیری کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کو خاص علاقوں تک محدود کر دیا گیا ان نسلوں پر باہر شادی پر پابندی عائد کر دی گئی ان لوگوں کے ڈاک خانے، اسپتال، ٹرانسپورٹ، لائبریری، تھیٹر، تعلیمی ادارے الگ کر دیے گئے۔

یہ وہ وقت تھا جب نیلسن منڈیلا کی بھرپور جدوجہد اپنے نقطہ عروج پر تھی۔ جب کہ 1963ء میں نیلسن منڈیلا اپنے ساتھیوں سمیت قید کر دیے گئے۔ نیلسن منڈیلا کی اسیری کا یہ عرصہ 27 برس طویل تھا۔ یہ 27 برس نیلسن منڈیلا کی زندگی کے بہترین برس تھے۔ جو کہ اسیری کی نذر ہو گئے۔ بالآخر 1990ء میں بین الاقوامی دباؤ و جنوبی افریقہ کے لوگوں کی انتھک جدوجہد رنگ لائی اور 71 سالہ نیلسن منڈیلا کی اسیری تمام ہوئی جب کہ 1993ء میں نیلسن منڈیلا کو نسلی امتیاز کے خلاف ان کی طویل ترین جدوجہد کے اعتراف کے طور پر دنیا کا اعلیٰ ترین اعزاز امن کا نوبل انعام دیا گیا جب کہ 1994ء میں جنوبی افریقہ میں عام انتخابات ہوئے ان انتخابات میں کالی رنگت والوں کو بھی ووٹ کاسٹ کرنے کا موقعہ دیا گیا۔

جس کے نتیجے میں نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہو گئے۔ نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ کی عوام کے لیے بہت سارے فلاحی کام کیے نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے نیلسن منڈیلا کو گوروں کے نافذ کردہ قانون میں بھی ترمیم کرنا پڑی اور اس ترمیم کے پاس ہوتے ہی کالی رنگت والوں کو بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق مل گیا۔ اب کالی رنگت والے بھی ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر بننے کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی علوم و فنون حاصل کر سکتے تھے اور حاصل کر سکتے ہیں۔

بطور صدر نیلسن منڈیلا کا دور حکومت پانچ برس رہا مگر ان کے دور حکومت میں اٹھائے گئے تمام اقدامات اصلاحی ثابت ہوئے انقلابی نہیں۔ نیلسن منڈیلا کا دور حکومت 1999ء میں تمام ہوا۔ مزید پانچ برس یعنی 2004ء تک وہ متحرک رہے لیکن اب نیلسن منڈیلا کی عمر 85 برس ہو چکی تھی جو کہ اس امر کی متقاضی تھی کہ وہ مکمل آرام کریں اور انھوں نے ایسا ہی کیا جب کہ اپریل 2013ء میں ان کو نمونیا ہو گیا جس کے باعث انھیں اسپتال میں داخل کر دیا گیا جہاں سے صحت یابی کے بعد انھیں فارغ کر دیا گیا جب کہ جون 2013ء میں پھیپھڑوں میں انفیکشن کے باعث نیلسن منڈیلا کو تشویش ناک حالت میں اسپتال میں کافی وقت گزارنا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا جب حکمراں جماعت افریقن نیشنل کانگریس کے اراکین و صدر جنوبی افریقہ مسٹر زوما سمیت پورا جنوبی افریقہ نہ صرف اپنے قائد کے لیے بے حد فکر مند ہو گئے اور سرشام ہی شمعیں روشن کرنے لگے یہ سلسلہ ان کی صحت یابی تک جاری رہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں