داعش بلوچستان میں
سمندر کی تہہ میں اگر دو مچھلیاں لڑ رہی ہوں، تو ان میں بھی یقیناً سامراج کی سازش ہو گی۔
کسی زمانے میں ایک بادشاہ جمال عبدالناصر ہوا کرتا تھا... اور کیا اچھے زمانے تھے کہ جب دوست دشمن کی پہچان کسی قدر واضح ہوا کرتی تھی۔ دشمنی، دوست نمائی کے پردے میں نہ ہوتی تھی۔ راہزنی کا بھی کوئی معیار تھا، راہبری کے لبادے میں یہ 'دھندا' نہ ہوتا تھا۔ جنگیں گو کہ 'سرد' ہو چکی تھیں، لیکن جذبوں میں گرم جوشی برقرار تھی۔ نظریات کی ہول سیل مارکیٹ ابھی نہیں لگی تھی۔ اس لیے نظریات جو بھی تھے، جتنے بھی تھے، جیسے بھی تھے، خالص تھے۔
سو، انھی خالص دنوں میں جمال عبدالناصر کا کہا ہوا یہ خالص فقرہ مشہور ہوا کہ ،''سمندر کی تہہ میں اگر دو مچھلیاں لڑ رہی ہوں، تو ان میں بھی یقیناً سامراج کی سازش ہو گی۔'' اور اس سامراج کی شکل خواہ کیسی ہی کریہہ کیوں نہ ہو، لیکن اتنی واضح ضرور تھی کہ فکری نابینا بھی اسے شناخت کر سکتے تھے۔ یہ سامراج کتنے ہی ملکوں میں کیوں نہ پھیلا ہو، لیکن اس بھاگتے چور کی لنگوٹی اس کی شناخت کروا ہی دیتی تھی اور اس کی شناخت کا ایک بڑا ذریعہ 'سوویت' نام کا ایک آئینہ بھی تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ہماری نسل کے خواب بُننے والی عمر میں ہی یہ آئینہ ٹوٹ گیا۔ یہ آئینہ ٹوٹا تو نہ صرف سامراج کی شناخت مشکل ہو گئی، بلکہ کئی جوانیاں اپنی شناخت کھو بیٹھیں۔ کتنے لاکھوں، کروڑوں لوگ تھے جنھوں نے خود کو پہچاننا ہی اس آئینے سے سیکھا تھا، یہ سب کے سب لاکھوں کروڑوں انسان اس آئینے کی شکست و ریخت سے خود اپنا وجود فراموش کر بیٹھے۔
سو، تذکرہ تھا سام راج کی شناخت مٹ جانے کا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سامراج کا کوئی ثانی نہ رہا۔ اُس نے بھی اب کے پینترے بدل لیے۔ کبھی لبرل ازم کا چولا پہن لیا، تو کبھی روشن خیال کی چادر اوڑھ لی۔ جمہوریت کا نسخہ تو اس کے لیے سب سے کارگر رہا۔ اور یہ دنیا بھر کو جمہوریت سکھانے چل پڑا۔ یوں دنیا بھر میں نو آبادیات کا تصور ہی بدل کر رہ گیا۔
اور پھر نائن الیون ہوگیا۔ اس نائن الیون کے نتیجے میں دنیا تو خیر کیا بدلنی تھی، البتہ یہ سانحہ سامراج کو ایک بار پھر ننگا کرگیا۔ گویا جن بوتل سے پھر نکل آیا ہو۔ بڑے بزرگ سامراج نامی دیو کی نشانیوں میں سے ایک یہ بتلایا کرتے تھے کہ اسے زندہ رہنے کے لیے ایک مستقل دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دشمن ختم ہو جائے تو یہ خود ہی پھر کسی دشمن کو جنم دے دیتا ہے۔ بالکل ہمارے قبائلی نظام کی مانند، جو دشمنی کے ایندھن پہ ہی زندہ رہتا ہے۔ دشمن نہ ہو تو نہ قبائلی نظام رہ سکتا ہے، نہ سامراج ۔ سو، نائن الیون کے بعد سام راج کے خود تراشیدہ نئے دشمن کا نام 'القاعدہ ' قرار پایا۔ آنے والے بارہ برسوں میں یہ دشمن بھی کمزور پڑ چکا، نئے دشمن کی تشکیل لازم قرار پائی۔ اور اسی نئے دشمن کا نام ہے؛ داعش۔
دولتِ اسلامیہ کے نام سے ظہور پذیر ہونے والی یہ قوت اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے لیے خلافت قائم کرنے کی داعی ہے۔ ماضی میں حالانکہ یہ القاعدہ کی ساتھی رہی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر اس کا نام 'القاعدہ' کی رحلت کے بعد نہایت تیزی سے ابھر کر سامنے آیا۔ سمجھنے والے تو اسی کو القاعدہ کا نیا روپ یا نیا جنم سمجھ رہے ہیں۔ ہم ایسے نا سمجھ مگر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ چند سو یا چند ہزار جنگ جوؤں پہ مشتمل یہ فورس ایک دم اتنی بڑی قوت کیسے بن گئی کہ پوری ایک ریاست پہ قابض ہونے کے خواب دیکھنے لگی، بلکہ اس خواب کو تعبیر بھی کر دکھایا۔ صدام حسین کے عراق سے لے کر جمال عبدالناصر کے مصر اور شام تو اس کے تصرف میں آ ہی چکے، اب کے تیزی سے پھیلتی ہوئی یہ امر بیل مغرب و مشرق کا سنگم قرار دیے جانے والے ترکی میں قدم جما رہی ہے۔
سامراج بہادر نے اسے مستقبل کا سب سے بڑا خطرہ قرار دے کر اس کی طاقت کا اعتراف بھی کیا ہے، نیز اپنی آیندہ کی حکمتِ عملی بھی بتا دی ہے۔ القاعدہ مرحومہ کے زمانے میں یہ تاثر عام ہو چکا تھا کہ جہاں سامراج کو پہنچنا ہو، پہلے وہاں القاعدہ کو پہنچایا جاتا ہے، اور اس کے نقشِ پا کو تلاش کرتے کرتے سامراج وہاں پہنچ جاتا ہے، اور القاعدہ تو زیر زمین چلی جاتی ہے، سامراج اہلِ زمین کا جینا دوبھر کر دیتا ہے، بعینہٰ اب یہی طرز نو خیز داعش کے معاملے میں اختیار کی گئی ہے۔ اب جہاں سامراج صاحب جانے کا قصد کر لیں، پہلے داعش وہاں پہنچ جاتی ہے، اور پھر اس کا صفایا کرنے کا مشن لیے سامراج وہاں اپنے لاؤ لشکر سمیت پہنچ جاتا ہے۔ اور ان دنوں شنید میں یہ ہے کہ داعش، پاکستان نامی خطے کو اپنے لیے سازگار و محفوظ جنت تصور کرتے ہوئے اس جانب کا قصد کیے ہوئے ہے، اور اس کے لیے راہگزر کے بہ طور اس نے بلوچستان کو چنا ہے۔
گویا گزشتہ چودہ برس سے مسلسل اذیتوں، مصائب اور رنج و آلام میں مبتلا بلوچستان پہ ایک اور آفت نازل ہونے کو ہے۔ اور یہ' انکشاف' حکومت کے اپنے ایک خفیہ مراسلے میں ہوا ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ یہ عجب خفیہ مراسلے ہیں جو جاری ہونے کے چوبیس گھنٹوں تک عوام الناس تک پہنچ جاتے ہیں۔ اب جو حکومت اپنے خفیہ مراسلے تک کی حفاظت نہ کر سکے۔
اس سے ہم آپ اپنی حفاظت کا تقاضا کرتے ہوئے خود شرمندگی سے دوچار ہوتے ہیں۔ تو صاحب یہ خفیہ مراسلہ بتاتا ہے کہ داعش، بلوچستان میں اپنے قدم جما رہی ہے، اور مقامی ہم خیال تنظیموں سے روابط بڑھا رہی ہے، نیز خطے میں ان کے حامی اور ہمدردوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ نے حسبِ معمول اسے ایک خیالی تصور (یوٹوپیا) قرار دیتے ہوئے ایسی کسی حقیقت کے وجود کو ہی جھٹلا دیا۔ ان کو یہی کرنا چاہیے تھا، کہ ان کو تنخواہ اسی کام کی ملتی ہے۔ طوفان میں سر ریت میں چھپا لینا ہی تو سرکار کی عین روایت رہی ہے۔
بلوچستان میں داعش کے وجود سے انکار عین طوفان میں سر ریت میں چھپا کر طوفان کے نہ ہونے کا یقین کر لینے کے مترادف ہی ہے۔ اس سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ لازماً یہ تنظیم اپنا تنظیمی ڈھانچہ یہاں رکھتی ہو، لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ جس فکر کی ترویج یہ تنظیم کر رہی ہے، اس کے ہمدرد نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں۔ اور یہ ہمدرد، ریاست نے نہایت جاں فشانی اور محنت سے پیدا کیے ہیں۔ نصاب، میڈیا اور ابلاغ کے تمام تر ذرایع استعمال کر کے ریاست نے اس فکری نرسری کی نشو و نما کی ہے۔
یہ اور بات کہ بیس برس بعد آج ریاست خود اس نرسری کو جڑ سے اکھاڑنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ لیکن یہ اب تک واضح نہیں کہ واقعتاً اسے جڑ سے اکھاڑا جانا مقصود ہے یا اب بھی محض اس کی ظاہری تراش خراش سے ہی کام لیا جائے گا۔ بنیاد اس شک کی یہ ہے کہ ایک طرف تو بنیاد پرستوں کے خلاف عسکری کارروائیاں زوروں پہ ہیں، دوسری جانب سیاسی میدان انھی بنیاد پرست فکر سے جڑے احباب کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ آج کل انھی کے وارے نیارے ہیں اور چہار سو انھی کے نعرے ہیں۔
بلوچستان میں بظاہر حکومت کی باگ ڈور روشن خیال احباب کے ہاتھ میں ہے، جن کی ناکامی کی کئی قوتیں بڑی بے چینی سے منتظر ہیں اور یہ تمام طاقت کے زور پر بنیاد پرست فکر کی ترویج کرنے والی قوتیں کی حامی و دستِ راست ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں اندرونِ بلوچستان ہر کلو میٹر کے فاصلے پر بچھایا گیا مدرسوں کا جال، اور لاکھوں کی تعداد میں گھسائے گئے افغان مہاجرین مل کر سیکولر بلوچستان کے نئے چہرے کی تشکیل کر رہے ہیں۔ اور اس چہرے کو سنوارنے میں بنیاد پرست فکر کے حامی افراد پیش پیش ہیں۔
سو، یہ بات ذہن نشین رہے کہ داعش آج بلوچستان میں بھلے اپنا تنظیمی ڈھانچہ نہ رکھتی ہو، لیکن اس نے جب بھی ایسا قصد کیا، اسے خوش آمدید کہنے والوں کی کمی نہ ہوگی۔ اور ان کے خلاف بولنے اور لڑنے والے اس لیے بھی ناکام رہیں گے، کہ ایک طرف وہ کم زور اور منتشر ہیں اور دوسری جانب ریاستی قوتوں کی نظر میں بھی وہ کچھ ایسے محترم نہیں رہے۔ رہا سامراج بہادر، تو اسے خوش آمدید کہنے والے تو کب سے اپنی انگریزی ٹھیک کیے پریس میں اس کے لیے راہ ہموار کرنے میں سرگرم ہیں۔ عوام؟ ...انھیں تاریخ میں کب کس نے پوچھا کہ بلوچستان میں کوئی پوچھے گا، ماسوائے چند کم زور آواز لکھنے والوں کے، جو کب کے بے عمل ہو کر اپنی راہ کھوٹی کر چکے۔
سو، انھی خالص دنوں میں جمال عبدالناصر کا کہا ہوا یہ خالص فقرہ مشہور ہوا کہ ،''سمندر کی تہہ میں اگر دو مچھلیاں لڑ رہی ہوں، تو ان میں بھی یقیناً سامراج کی سازش ہو گی۔'' اور اس سامراج کی شکل خواہ کیسی ہی کریہہ کیوں نہ ہو، لیکن اتنی واضح ضرور تھی کہ فکری نابینا بھی اسے شناخت کر سکتے تھے۔ یہ سامراج کتنے ہی ملکوں میں کیوں نہ پھیلا ہو، لیکن اس بھاگتے چور کی لنگوٹی اس کی شناخت کروا ہی دیتی تھی اور اس کی شناخت کا ایک بڑا ذریعہ 'سوویت' نام کا ایک آئینہ بھی تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ہماری نسل کے خواب بُننے والی عمر میں ہی یہ آئینہ ٹوٹ گیا۔ یہ آئینہ ٹوٹا تو نہ صرف سامراج کی شناخت مشکل ہو گئی، بلکہ کئی جوانیاں اپنی شناخت کھو بیٹھیں۔ کتنے لاکھوں، کروڑوں لوگ تھے جنھوں نے خود کو پہچاننا ہی اس آئینے سے سیکھا تھا، یہ سب کے سب لاکھوں کروڑوں انسان اس آئینے کی شکست و ریخت سے خود اپنا وجود فراموش کر بیٹھے۔
سو، تذکرہ تھا سام راج کی شناخت مٹ جانے کا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سامراج کا کوئی ثانی نہ رہا۔ اُس نے بھی اب کے پینترے بدل لیے۔ کبھی لبرل ازم کا چولا پہن لیا، تو کبھی روشن خیال کی چادر اوڑھ لی۔ جمہوریت کا نسخہ تو اس کے لیے سب سے کارگر رہا۔ اور یہ دنیا بھر کو جمہوریت سکھانے چل پڑا۔ یوں دنیا بھر میں نو آبادیات کا تصور ہی بدل کر رہ گیا۔
اور پھر نائن الیون ہوگیا۔ اس نائن الیون کے نتیجے میں دنیا تو خیر کیا بدلنی تھی، البتہ یہ سانحہ سامراج کو ایک بار پھر ننگا کرگیا۔ گویا جن بوتل سے پھر نکل آیا ہو۔ بڑے بزرگ سامراج نامی دیو کی نشانیوں میں سے ایک یہ بتلایا کرتے تھے کہ اسے زندہ رہنے کے لیے ایک مستقل دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دشمن ختم ہو جائے تو یہ خود ہی پھر کسی دشمن کو جنم دے دیتا ہے۔ بالکل ہمارے قبائلی نظام کی مانند، جو دشمنی کے ایندھن پہ ہی زندہ رہتا ہے۔ دشمن نہ ہو تو نہ قبائلی نظام رہ سکتا ہے، نہ سامراج ۔ سو، نائن الیون کے بعد سام راج کے خود تراشیدہ نئے دشمن کا نام 'القاعدہ ' قرار پایا۔ آنے والے بارہ برسوں میں یہ دشمن بھی کمزور پڑ چکا، نئے دشمن کی تشکیل لازم قرار پائی۔ اور اسی نئے دشمن کا نام ہے؛ داعش۔
دولتِ اسلامیہ کے نام سے ظہور پذیر ہونے والی یہ قوت اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے لیے خلافت قائم کرنے کی داعی ہے۔ ماضی میں حالانکہ یہ القاعدہ کی ساتھی رہی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر اس کا نام 'القاعدہ' کی رحلت کے بعد نہایت تیزی سے ابھر کر سامنے آیا۔ سمجھنے والے تو اسی کو القاعدہ کا نیا روپ یا نیا جنم سمجھ رہے ہیں۔ ہم ایسے نا سمجھ مگر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ چند سو یا چند ہزار جنگ جوؤں پہ مشتمل یہ فورس ایک دم اتنی بڑی قوت کیسے بن گئی کہ پوری ایک ریاست پہ قابض ہونے کے خواب دیکھنے لگی، بلکہ اس خواب کو تعبیر بھی کر دکھایا۔ صدام حسین کے عراق سے لے کر جمال عبدالناصر کے مصر اور شام تو اس کے تصرف میں آ ہی چکے، اب کے تیزی سے پھیلتی ہوئی یہ امر بیل مغرب و مشرق کا سنگم قرار دیے جانے والے ترکی میں قدم جما رہی ہے۔
سامراج بہادر نے اسے مستقبل کا سب سے بڑا خطرہ قرار دے کر اس کی طاقت کا اعتراف بھی کیا ہے، نیز اپنی آیندہ کی حکمتِ عملی بھی بتا دی ہے۔ القاعدہ مرحومہ کے زمانے میں یہ تاثر عام ہو چکا تھا کہ جہاں سامراج کو پہنچنا ہو، پہلے وہاں القاعدہ کو پہنچایا جاتا ہے، اور اس کے نقشِ پا کو تلاش کرتے کرتے سامراج وہاں پہنچ جاتا ہے، اور القاعدہ تو زیر زمین چلی جاتی ہے، سامراج اہلِ زمین کا جینا دوبھر کر دیتا ہے، بعینہٰ اب یہی طرز نو خیز داعش کے معاملے میں اختیار کی گئی ہے۔ اب جہاں سامراج صاحب جانے کا قصد کر لیں، پہلے داعش وہاں پہنچ جاتی ہے، اور پھر اس کا صفایا کرنے کا مشن لیے سامراج وہاں اپنے لاؤ لشکر سمیت پہنچ جاتا ہے۔ اور ان دنوں شنید میں یہ ہے کہ داعش، پاکستان نامی خطے کو اپنے لیے سازگار و محفوظ جنت تصور کرتے ہوئے اس جانب کا قصد کیے ہوئے ہے، اور اس کے لیے راہگزر کے بہ طور اس نے بلوچستان کو چنا ہے۔
گویا گزشتہ چودہ برس سے مسلسل اذیتوں، مصائب اور رنج و آلام میں مبتلا بلوچستان پہ ایک اور آفت نازل ہونے کو ہے۔ اور یہ' انکشاف' حکومت کے اپنے ایک خفیہ مراسلے میں ہوا ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ یہ عجب خفیہ مراسلے ہیں جو جاری ہونے کے چوبیس گھنٹوں تک عوام الناس تک پہنچ جاتے ہیں۔ اب جو حکومت اپنے خفیہ مراسلے تک کی حفاظت نہ کر سکے۔
اس سے ہم آپ اپنی حفاظت کا تقاضا کرتے ہوئے خود شرمندگی سے دوچار ہوتے ہیں۔ تو صاحب یہ خفیہ مراسلہ بتاتا ہے کہ داعش، بلوچستان میں اپنے قدم جما رہی ہے، اور مقامی ہم خیال تنظیموں سے روابط بڑھا رہی ہے، نیز خطے میں ان کے حامی اور ہمدردوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ نے حسبِ معمول اسے ایک خیالی تصور (یوٹوپیا) قرار دیتے ہوئے ایسی کسی حقیقت کے وجود کو ہی جھٹلا دیا۔ ان کو یہی کرنا چاہیے تھا، کہ ان کو تنخواہ اسی کام کی ملتی ہے۔ طوفان میں سر ریت میں چھپا لینا ہی تو سرکار کی عین روایت رہی ہے۔
بلوچستان میں داعش کے وجود سے انکار عین طوفان میں سر ریت میں چھپا کر طوفان کے نہ ہونے کا یقین کر لینے کے مترادف ہی ہے۔ اس سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ لازماً یہ تنظیم اپنا تنظیمی ڈھانچہ یہاں رکھتی ہو، لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ جس فکر کی ترویج یہ تنظیم کر رہی ہے، اس کے ہمدرد نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں۔ اور یہ ہمدرد، ریاست نے نہایت جاں فشانی اور محنت سے پیدا کیے ہیں۔ نصاب، میڈیا اور ابلاغ کے تمام تر ذرایع استعمال کر کے ریاست نے اس فکری نرسری کی نشو و نما کی ہے۔
یہ اور بات کہ بیس برس بعد آج ریاست خود اس نرسری کو جڑ سے اکھاڑنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ لیکن یہ اب تک واضح نہیں کہ واقعتاً اسے جڑ سے اکھاڑا جانا مقصود ہے یا اب بھی محض اس کی ظاہری تراش خراش سے ہی کام لیا جائے گا۔ بنیاد اس شک کی یہ ہے کہ ایک طرف تو بنیاد پرستوں کے خلاف عسکری کارروائیاں زوروں پہ ہیں، دوسری جانب سیاسی میدان انھی بنیاد پرست فکر سے جڑے احباب کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ آج کل انھی کے وارے نیارے ہیں اور چہار سو انھی کے نعرے ہیں۔
بلوچستان میں بظاہر حکومت کی باگ ڈور روشن خیال احباب کے ہاتھ میں ہے، جن کی ناکامی کی کئی قوتیں بڑی بے چینی سے منتظر ہیں اور یہ تمام طاقت کے زور پر بنیاد پرست فکر کی ترویج کرنے والی قوتیں کی حامی و دستِ راست ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں اندرونِ بلوچستان ہر کلو میٹر کے فاصلے پر بچھایا گیا مدرسوں کا جال، اور لاکھوں کی تعداد میں گھسائے گئے افغان مہاجرین مل کر سیکولر بلوچستان کے نئے چہرے کی تشکیل کر رہے ہیں۔ اور اس چہرے کو سنوارنے میں بنیاد پرست فکر کے حامی افراد پیش پیش ہیں۔
سو، یہ بات ذہن نشین رہے کہ داعش آج بلوچستان میں بھلے اپنا تنظیمی ڈھانچہ نہ رکھتی ہو، لیکن اس نے جب بھی ایسا قصد کیا، اسے خوش آمدید کہنے والوں کی کمی نہ ہوگی۔ اور ان کے خلاف بولنے اور لڑنے والے اس لیے بھی ناکام رہیں گے، کہ ایک طرف وہ کم زور اور منتشر ہیں اور دوسری جانب ریاستی قوتوں کی نظر میں بھی وہ کچھ ایسے محترم نہیں رہے۔ رہا سامراج بہادر، تو اسے خوش آمدید کہنے والے تو کب سے اپنی انگریزی ٹھیک کیے پریس میں اس کے لیے راہ ہموار کرنے میں سرگرم ہیں۔ عوام؟ ...انھیں تاریخ میں کب کس نے پوچھا کہ بلوچستان میں کوئی پوچھے گا، ماسوائے چند کم زور آواز لکھنے والوں کے، جو کب کے بے عمل ہو کر اپنی راہ کھوٹی کر چکے۔