ارجن عمران اور تیر کمان

’’مہابھارت‘‘ دنیا کی طویل ترین نظموں میں سے ایک ہے جو ایک لاکھ بندوں پر مشتمل ہے۔

اِس اندیشے کے پیش نظر کہ نیا پاکستان بنانے کے مشن میں الجھے کپتان نے ارجن کی کہانی نہیں سنی ہو گی اور اگر کبھی سنی ہو گی، تو امپائر کی انگلی کے انتظار اور انقلابی تبدیلی کی خواہش کے باعث اُسے بھلا دیا ہو گا، ہم نہ صرف یہ قدیم کہانی سنانے کی ذمے داری اپنے سر لیتے ہیں، بلکہ کپتان کے ایک حقیقی خیر خواہ کے مانند، جو کم ہی ہیں، اِس کی گرہیں کھولنے کی کوشش بھی کر گزریں گے۔

یہ نصیحت آمیز کہانی ارجن کی ہے۔ ارجن، جو لازوال ہندوستانی رزمیہ ''مہا بھارت'' کا مرکزی ہے۔ ''مہابھارت'' دنیا کی طویل ترین نظموں میں سے ایک ہے جو ایک لاکھ بندوں پر مشتمل ہے۔ یوں تو یہ رزمیہ دیوی دیوتاؤں کے قصوں، طرز حکمرانی سے متعلق طویل مقالات اور ''بھگوت گیتا '' نامی پردانش نصیحت، جو دوارکا کے راجا، کرشن کی زبان سے ادا ہوئی، کے گرد گھومتا ہے، مگر فوقیت اس خانہ جنگی کو حاصل ہے، جس کا سبب ہستناپور کا تخت ٹھہرا، جو کروکشیتر کے میدان میں چچیرے بھائیوں (کوروؤں اور پانڈوؤں) کو مدمقابل لے آیا۔ جہاں اٹھارہ روز تک گھمسان کا رن پڑا۔ آخر میں پانڈو، جو اِس کہانی میں حق اور سچ کے علم بردار تھے، فاتح ٹھہرے۔

تو ارجن پانڈو شہزادوں میں سے ایک تھا۔ پانچ بھائیوں میں تیسرا۔ ہتھیاروں کے استعمال میں یکتا۔ بہادری میں اپنی مثال آپ۔ طاقتور اور ذہین۔ یوں تو ''مہابھارت'' کے اِس کردار سے کئی افسانوی خواص وابستہ، مگر اُس کا سب سے بڑا ہتھیار توجہ مرکوز کرنے کی بے پناہ قابلیت تھی۔ وہ بے خطا تیرانداز تھا۔ اپنے شکار پر نظریں ٹکا کر دنیا و مافیہا سے لاتعلق ہو جاتا۔ اِس وقت تک مقصد پر توجہ جمائے رکھتا، جب تک اُسے حاصل نہیں کر لیتا۔اور ایسا ہی اُس نے شہزادی دروپدی کے سوئمبر والے روز کیا، جب بادشاہ نے اعلان کیا تھا کہ جو اُس کی بیٹی کو دلہن بنانے کا متمنی ہے، وہ بھاری کمان اٹھائے، اس پر فولادی تار چڑھا کر تیل سے بھرے تھال پر نظریں ٹکائے اور عکس پر توجہ مرکوز کیے اوپر گھومتے ہدف کو پانچ بار نشانہ بنائے۔ یہ ہدف ایک محو حرکت سنہری مچھلی کی آنکھ تھی۔

یہ انتہائی مشکل مقابلہ تھا۔ مقصد؛ مچھلی کی آنکھ۔ شرط؛ نشانہ باندھتے سمے براہ راست کے بجائے تھال میں عکس دیکھنا۔ دقت؛ وزنی کمان۔ کئی شہزادے آئے، اور ناکام لوٹ گئے۔ سوئمبر میں جلا وطنی کی زندگی گزارتے پانڈو شہزادے بھی برہمنوں کے بھیس میں موجود تھے۔ جب ناکامیوں کا قصّہ دراز ہوتا گیا، تو ارجن اُس تابانی کے ساتھ جو سورج دیوتا کی دَین تھی، اپنی نشست سے اٹھا۔ کمان سنبھالی۔ تیل میں اوپر گھومتے ہدف کا عکس دیکھا۔ اپنی کل مہارت، کل توجہ مچھلی کی آنکھ پر جمائی، اور تیر چھوڑ دیا۔ وہ ٹھیک نشانے پر بیٹھا۔ اور ایسا پانچ بار ہوا۔ دروپدی آگے بڑھی، اور ہار ارجن کے گلے میں ڈال دیا۔اس سورما کی کہانی طویل اور پُرپیچ ہے، مگر ہم اُسے یہیں تمام کرتے ہیں، اور خان صاحب کی سمت پلٹتے ہیں، جو ملک گیر احتجاج کا اعلان کر چکے ہیں۔


ارجن کے مانند وہ بھی ایک جنگجو ہیں۔ بھاری سیکیورٹی کے ساتھ گھومنے والے سیاست دانوں سے موازنہ کریں، تو اُنھیں بہادر مانے بغیر چارہ نہیں۔ مقبول وہ بے تحاشہ۔ پر اہم ترین ہنر ''مہابھارت'' کے کردار کے مانند توجہ مرکوز رکھنے کی قابلیت ہے۔ وہ ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ ایک نیا پاکستان۔ اِس کا طریقہ، اُن کے نزدیک، وزیر اعظم کا منصب ہے۔ یہ اُن کا ہدف ہے، جس کے حصول کے لیے وہ سیاست کے کروکشیتر میں اٹھارہ ہفتوں سے جنگ لڑ رہے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ آخری فتح اُن کی ہو گی۔ تیر ہدف پر بیٹھے گا۔ وزیر اعظم وہ ہوں گے۔

ہم اُن کے ناقد سہی، مگر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس وقت اُن کی نظریں درخت کی بلند ترین شاخ پر بیٹھے پرندے کے سر پر ٹکی ہیں۔ اردگرد موجود درخت، شاخیں، درختوں کے پس منظر میں تیرتے بادل؛ ہر شے غیرمتعلقہ ہو چکی ہے۔ وہ اپنے مقصد کے لیے ہر کشٹ اٹھانے کو تیار ہیں۔ مگر اِس پورے معاملے میں ایک بھاری گڑبڑ ہے۔ وہ براہ راست ہدف کی طرف دیکھ رہے ہیں، پر سوئمبر کی شرط یہ تھی کہ وہ تیل میں عکس دیکھ کر نشانہ لگائیں گے۔

یہی وہ نکتہ ہے، جس کے جانب ہم، جو خود کو اُن کا خیرخواہ ثابت کرنے پر کمر بستہ ہیں، خان صاحب کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ جمہوری نظام میں وزیر اعظم کا منصب حاصل کرنے کا واضح طریقہ موجود ہے۔ ایک دائرۂ کار، جس کا میدان سیاست کے تمام سورماؤں پر احترام لازم۔ ٹھیک ہے، کمان آپ نے کامیابی سے اٹھالی، مبارک ہو، عوامی طاقت کا تیر آپ کے ہاتھ میں، مگر آپ براہ راست ہدف کی طرف نہیں دیکھ سکتے کہ یہی شرط ہے۔ آپ کو الیکشن کے تھال پر توجہ مرکوز رکھنی ہو گی۔ یہی وہ سڑک ہے، جس سے گزر کر اوروں نے یہ منصب حاصل کیا۔ اور آپ کو بھی یہی کرنا ہو گا۔ کھیل کی شرائط طے ہیں۔ اور آپ بنیادی شرائط سے ماوراء نہیں۔

دھاندلی کا الزام سو فی صد درست، مگر سڑکیں نہیں، پارلیمنٹ وہ راستہ، جس کے ذریعے آپ اپنے ہدف تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس دھاندلی کو حقیقی معنوں میں بے نقاب کر کے مستقبل میں اِس کا راستہ مسدود کر سکتے ہیں۔ بیلٹ پیپر اور اداروں کی مداخلت بھی حقیقت، مگر اس ناسور سے جان چھڑانے کے لیے خیبرپختون خوا میں ایک مثالی حکومت قائم کر کے آیندہ انتخابات میں ملک بھر کے عوام کا دل جیتنا ہی اکلوتا طریقہ، تا کہ کل جب آپ کرپشن میں ملوث بااثر افراد اور بدعنوان اداروں پر ہاتھ ڈالیں، تو تمام اختیارات کے ساتھ اُنھیں کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں۔خان صاحب، آپ اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں، نوجوان آپ کے ساتھ۔ آپ کا کرشماتی پیغام گھریلو خواتین کو بھی سیاسی جلسوں تک کھینچ لایا۔

آپ نے لاڑکانہ میں جلسہ کر کے سندھ میں ہلچل مچا دی، تختِ لاہور ہلا دیا، حکمرانوں کے سرد شہر اسلام آباد میں پُرجوش ریلے کے ساتھ داخل ہوئے، اور سب تلپٹ کر دیا۔ آج ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے سیاسی گروہ تشکیل پا رہے ہیں، سب آپ ہی کی جھولی میں آن گریں گے، مگر اس کے لیے صحیح راستہ چنا ہو گا، جو شاید طویل ہو، دشوار ہو، مگر وہ آپ کو منزل تک ضرور لے کر جائے گا۔ اور یہ راستہ پارلیمنٹ ہے۔کوئی مداخلت نہیں، کوئی تیسری قوت نہیں۔یاد رکھیں، گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ناقص کارکردگی کا ایک سبب یہ بھی رہا کہ اپنی بھرپور شعوری کوششوں کے باوجود وہ ''سیاسی شہید '' کا خطاب حاصل نہ کر سکی، ہمدردیاں حاصل کرنے کی آرزو ناتمام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پیپلز پارٹی حاشیے پر نظر آتی ہے۔ اگر آپ میاں صاحب کو شکست دینا چاہتے ہیں، تو یہی طریقہ اختیار کریں، کیوں کہ اگر کسی غیر آئینی طریقے سے، دباؤ کے ذریعے اُن کی حکومت کو چلتا کیا، تو سمجھ لیں کہ ایک برس بعد وہ ہمدردی کی ہزاروں ٹوکریاں لیے ڈی چوک میں آپ کی حکومت کے خلاف دھرنا دے رہے ہوں گے۔ اور تب ''اوئے'' کہنے کی باری اُن کی ہو گی۔
Load Next Story