سراب

صوبہ سندھ اس وقت ملک کا بدترین صوبہ کہلائے جانے کا حقدار ہے۔


Noman Ahmed Ansari December 03, 2014

ہمیشہ کی طرح غریب عوام کے ٹیکس کا پیسہ ذاتی اصراف اور بینک اکاؤنٹ بھرنے کا ذریعہ ہے۔ صوبہ سندھ اس وقت ملک کا بدترین صوبہ کہلائے جانے کا حقدار ہے، جہاں اندرون سندھ بسوں میں سفر کرنیوالے مسافر موٹر وے اب تک تعمیر نہ ہونے کے باعث حادثات کا شکار ہوتے ہیں، اسپتالوں میں نومولود بچے آکسیجن نہ ملنے پر مرتے ہیں، مریضوں کو غیر معیاری اور بعد از میعاد ادویات بیچی جاتیں ہیں، فلاح کے نام پر عطیات سے اپنے ذاتی اکاؤنٹ بھرے جاتے ہیں۔

امدادی سامان اندرون سندھ کے گوداموں کی زینت بنتے ہیں، محکمہ تعلیم میں زبردست مالی فنڈ کی کرپشن اور رشوت خوری موجود رہتی ہے، اقرباء پروری سے لاکھوں گھوسٹ اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے ہیں، عطائی ڈاکٹروں کو پی ایم ڈی سی کی جعلی رجسٹریشن بنوا کر دی جاتی ہے، ایچ ای سی ڈگریاں اور اسناد بیچی جاتی ہیں، شہری ادارے انتظامی ذمے داریاں ادا کرنے سے کوسوں دور ہوتے ہیں، جہاں کے شہری بجلی کے من مانے زائد بل ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کے لیے غربت کے مارے افراد لمبی قطاریں لگانے پر مجبور ہوتے ہیں، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان میں سیکڑوں قتل ہوتے ہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت کو تو اب ویسے بھی کسی انقلاب کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آیندہ چار برسوں کے لیے وہ صوبے کی سیاہ و سفید کی مالک ہے اور فی الوقت بلا شرکت غیرے شہنشاہ بنی ہوئی ہے۔بحیثیت مسلمان اور دین اسلام کے پیروکار ہمیں کسی انقلاب کی ضرورت نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہو گی، کیونکہ انسانی معاشرے میں خوشحالی اور نظم و ضبط کی پابندی اور قوموں میں ترقی پانے کے لیے جو انقلاب چودہ سو سال قبل اسلام کی شکل میں آیا تھا وہ انقلاب صرف ہم مسلمان نہیں بلکہ دنیا کی ہر قوم، ہر زبان، ہر معاشرے کے لیے آیا تھا۔

اب جس کا جی چاہے اس انقلاب کو سمجھے اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق خود کو اور معاشرے کو ڈھالے اور جس کا جی چاہے بگٹٹ گھوڑے کی طرح ادھر سے ادھر منہ مارتا پھرے۔ ہم نے اس انقلاب کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کے علم سے کتنا استفادہ کیا اور اسے کتنا سمجھا۔ آزاد منش کہتے ہیں عرب کے کلچر، تاریخ انقلاب سے ہم اپنی اصلاح نہیں کر سکتے، تو میں کہتا ہوں کہ اگر کسی دوسری قوم کی تاریخ کو سبق یا ماڈل بنا کر اس سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا تو پھر ہماری جامعات کے نصاب میں شامل اور کتابوں میں موجود ارسطو، افلاطون، ارشمیدس، یوٹوپیا جیسے نظریات، شیکسپیئر، اور اس جیسے دوسری قوموں کے تذکرے کیا کر رہے ہیں؟ گزشتہ بیس سے زائد برسوں میںسیاسی رہنماؤں، میڈیا، اخبارات، رسائل و جرائد کے ذریعے ملک میں انقلاب، تبدیلی، خوشحالی، ترقی جیسے ناموں کو بلا مبالغہ سیکڑوں بار پڑھنے اور سننے کا اتفا ق ہو چکا ہے۔

ملک کے ہر ادارے میں سیاسی نفسانفسی، جماعتی رسہ کشی، اقتدار اور مرتبے کے حصول لیے لوٹ کھسوٹ، ظلم و زیادتی، اداروں کے اندھے پن اور بدعنوانی نے دل کو پژمردہ، ذہن کو نا آسودہ کر دیا ہے۔ اب نہ اخبارات میں نئی بات محسوس ہوتی ہے اور نہ الیکٹرانک میڈیا میں ہونے والی نت نئے فیشن کی فروخت شدہ خبروں اور تجارتی بنیادوں پر ہونیوالے ٹاک شوز میں دلچسپی ۔۔۔۔ کیا قومی مسائل اور بد چلنی کا حل انقلابات اور اس کے نعرے ہیں؟ کیا ہمارے میڈیا سے ''خبریت'' کی قدر و تمیز کہیں گم ہو گئی ہے؟ ڈاکٹر محمد علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ ''کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو'' دل بجھتے ہی ان کے ہیں جو زندہ دلی کے ساتھ اپنے لوگوں، اور اپنے قوم کی ترقی کی آرزو رکھتے ہیں، بار بار بجھتے ہیں اور ایک امید کے ساتھ پھر جل پڑتے ہیں، پھر بجھتے ہیں پھر جل پڑتے ہیں۔ ایک اور قسم بھی ہوتی ہے جو مردہ دل کہلاتی ہے۔

اس قسم کے لوگ معاشرے میں تقریباََ تمام شعبہ ہائے زندگی میں موجود ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے اسلاف اور مسلم تاریخ کی تحقیر اور اس پر زبان درازی کرتے ہیں۔ خود کو روشن خیال اور تعلیم یافتہ گردانتے ہوئے ان کا قوت اظہار کبھی کمزور نہیں پڑتا۔ معلوم اور نامعلوم افراد کی یہ قسم زمانے کی ہر چال پر چوکس ہوتی ہے اور اسی ملک میں رہ کر، اسی کا کھا کر، اسی کی کاپی کر، اسی کا پہن کر یہ لوگ یہاں کی روحانی، علاقائی، دینی اور تاریخی اقدار کی اپنی زبان، قلم، عمل سے ناقدری کرتے رہتے ہیں۔

یہ زبردست تارک قرآں ہوتے ہیں اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں اپنی چرب زبانی اور قلم دانی کی وجہ سے بلند ہوتے ہیں۔ یہ ضد الوہیت کی وضع کردہ نہیں بلکہ ایک سڑے ہوئے نظام میں پلتے معاشرے کی وجہ سے ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں فطری اور ذہنی طور پر سب سے زبردست ذلیل سب سے بہترین عظمت کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے اور فرمان الٰہی سے اقتباس ہے کہ ۔۔۔''ہم اس قوم کو ہٹا کر ایک نئی قوم لے آتے ہیں''۔۔۔۔ یہ سنت الٰہی ہے، اور اس پر صحابہ کرام ؓ سمیت ہم سب کا ایمان ہے۔ اسلام دنیا کی اٹل حقیقت ہے، قرآن تاقیامت معجزہ الٰہی ہے، محمدﷺ کی احادیث ایک زندہ جاوید حقیقت ہے اور اس حقیقت کو جس نے بھی سمجھا گویا اس پر کائنات کے سربستہ راز وں میں سے ادنیٰ راز کھل گیا۔ اور جس پر یہ راز کھلا، اس کا نام اور کام تاقیامت زندہ و جاوید رہ گیا۔ جدید اور ماضی قریب کی مثالوں میں شیخ علامہ ناصر الدین البانوی ؒ سے لے کر نو مسلم علامہ محمد اسدؒ اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے نام دنیا کے خاتمے کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔

آج کے دہر میں اسم محمد ﷺ سے اجالے کی مالا جاپنے والوں کے نام اسی طرح جاوید ہو جاتے ہیں اور جاوید کے معنی ہی ہمیشہ زندہ رہنے کے ہیں۔ ماحول اور انقلاب سے متعلق ایک بار علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں کہ، ''زندگی اپنے ماحول میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو اور کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو۔'' علامہ محمد اسد نے آج سے تیس چالیس سال قبل جب قرآن کی تفسیر مکمل کی تو اس کے پہلے صفحے پر بطور نصیحت لکھ دیا کہ ، '' ان کے لیے، جو غور و فکر کرتے ہیں۔'' علامہ کی یہ نصیحت بے معنی نہیں ہے بلکہ اپنے اثر و کیفیت میں ایک عظیم سچ کا پتہ دیتی ہے۔

کسی قوم میں انقلاب کی مثال آتش فشاں سے تعبیر کی جا سکتی ہے۔ انقلاب کئی کئی ماہ موتیوں کی طرح سیپیوں میں نہیں پلتے۔ انقلاب تو ایک وقت تک اپنے اندر کڑھتا اور ابلتا رہتا ہے اور پھر جب پہاڑ کے وجود کو لاوے کو روکے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے تو یہ گرج دار آواز کے ساتھ ایک ہی بار پھٹ پڑتا ہے۔ اس سے نکلنے والا لاوا، دھواں، اور دیگر آلائشات ماحول کو یکسر بدل دیتے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم جس انقلاب کی تمنا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اس کی مثال تو بس کثیف لعاب صدر کی ہے جو اس قوم کے سینے میں سانس کی نالی سے چمٹا ہوا ہے۔ میری قوم کھانس کھانس کر بے حال بلکہ غموں سے نڈھال پڑی ہے کہ کون اس مٹی کو خال و خد پہنائے۔

یہ قوم کم اور غوم زیادہ ہے جس پر پڑنے والے غم اور مصیبتیں خود اس کی اپنی پیدا کردہ ہیں کیونکہ یہ غور و فکر کی عادت سے تہی دامن ہے۔ کیا کوئی جماعت یا رہنماء اس قوم کے مرض کا خاتمہ لعوق سپستاں بن کر کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں کیونکہ ہمیں انقلاب کی نہیں، اپنے مرض کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نظریات کی نہیں، چودہ سو سال قبل پیش کیے گئے خالص الوہی نظریئے پر عمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں شارحین کی ضرورت نہیں کیونکہ خلفائے راشدین اور امت کے محدثین نے یہ کام بہت پہلے کر دیا ہے ہمیں تو بس اب اپنے دلوں کو نرم اور اسے فراغ کرنے کی ضرورت ہے۔

ہماری ضرورت احساس کرنے اور اپنی ذمے داری سمجھنے کی ہے تا کہ ہمارا عمل پیہم ہو۔ یہ وہ آسان راستہ، طریقہ اور روش ہے جسے اپنا کر ہم فلاح پا سکتے ہیں، ایک ایسی فلاح جو بطور ریاست بھی اور پھر بطور بعد از موت بھی نصیب ہو۔ تو پھر آپ میں سے کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے۔۔۔ کہ سابق صدر ایوب کا معاشی انقلاب، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا روٹی کپڑا مکان جیسا انقلاب، سابق صدر ضیاء الحق کا شرعی انقلاب، ایم کیو ایم کا لسانیت کے نام پر انقلاب، جماعت اسلامی کا اسلامی انقلاب، سابق صدر پرویز مشرف کا سب سے پہلے پاکستان کا انقلاب، علامہ طاہر القادری کا ڈرامائی انقلاب، پی ٹی آئی کا آزادی انقلاب ۔۔۔یہ سب انقلابات سراب تھے، سراب ہیں اور آیندہ آنیوالے بھی سراب ہی رہیں گے جس کے پیچھے میری غوم بغیر سوچے سمجھے اندھی، بہری اور گونگی ہو کر چل پڑتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں