گلوبل وارمنگ سے ملیریا کا خطرہ

مچھروں میں جینیاتی تبدیلیوں سے روک تھام ممکن ہے

مچھروں میں جینیاتی تبدیلیوں سے روک تھام ممکن ہے۔ فوٹو: فائل

جرمنی کے ایک ماہرِ حیاتیات نے دعویٰ کیا ہے کہ جرمن سائنس دانوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ملیریا پھیلانے والے مچھروں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر تحقیق کی تھی۔

ڈاکٹر رائن ہارٹ کے مطابق سائنس داں ایسے مچھروں کی تلاش میں تھے، جن میں ملیریا کے جراثیم داخل کر کے انہیں دشمن کے علاقے میں پھیلایا جا سکے تاکہ وہاں یہ مرض اموات کا باعث بنے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف سائنس داں ہتھیاروں اور دیگر تجربات کے ذریعے دنیا میں موت تقسیم کر رہے ہیں اور دوسری جانب طبی محققین انسان کو بیماریوں سے بچانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

ملیریا ان امراض میں سے ایک ہے جو دنیا بھر میں ہلاکتوں کا سبب بنتے ہیں۔ ہر سال کروڑوں افراد اس بیماری سے متأثر ہوتے ہیں اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ان میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے برسوں سے کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن گلوبل وارمنگ کی وجہ سے اس کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ایک سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں موسمی تغیرات اور درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے مچھر کی مخصوص قسم بالائی علاقوں کا رخ کرے گی اور وہاں کی آبادی ملیریا سے متأثر ہو سکتی ہے۔

افریقا اور ایشیا کے علاوہ وسطی و جنوبی امر یکا کے گرم مرطوب علاقوں میں عالمی حدت کے باعث ملیریا کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق گلوبل وارمنگ کے سبب جنم لینے والے طبی خطروں میں ملیریا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ اسہال اور ڈ ینگی جیسے امراض کے پھیلاؤ کا بھی خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ملیریا کا سبب یک خلوی طفیلی جرثوما ہے، جسے Plasmodium کہا جاتا ہے۔ یہ جرثوما مچھر کے ذریعے انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے۔ تاہم سائنس دانوں نے ایسا مچھر تخلیق کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جس میں اس جرثومے کو انسانوں میں منتقل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔




یہ مچھر عام مچھروں میں جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ کارنامہ ایریزونا یونی ورسٹی کے ماہرینِ حشریات نے انجام دیا ہے۔ اس ٹیم کی سربراہی پروفیسر مائیکل ریل کررہے تھے۔ ملیریا پر کنٹرول کے ضمن میں اس اہم پیش رفت کا ذریعہ مالیکیولی حیاتیات کی ایک تیکنیک بنی ہے۔ اس تجربے میں اس نسل کے مچھروں کا انتخاب کیا گیا تھا، جو برصغیر میں ملیریا کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہے۔ مالیکیولی حیاتیات کی تیکنیک کے ذریعے مچھر کے جینوم سے چھیڑ چھاڑ کے بعد جو مچھر پیدا ہوئے وہ جینیاتی تبدیلیوں کے حامل تھے۔ یہ جینیاتی تبدیلیاں اگلی نسل میں بھی اسی طرح منتقل ہوگئیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جینیاتی تبدیلیوںکے علاوہ مچھروں کی زندگی مختصر ہونے سے بھی ملیریا کا پھیلاؤ روکنے میں مدد ملے گی۔ ماہرینِ حشریات کا کہنا ہے کہ ایک عام مچھر دو ہفتے تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ان میں سے بھی صرف وہی مچھر ملیریا کی منتقلی کا سبب بنتے ہیں، جو اپنی عمر کے آخری حصّے میں ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے جنگلات اور شہری آبادیوں میں پھیلے ہوئے عام مچھروں کو جینیاتی تبدیلیوں کے بعد پیدا ہونے والے مچھروں سے تبدیل کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

گلوبل وارمنگ کے باعث ملیریا کے پھیلاؤ کا جو خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے مچھروں کی تیارکردہ نئی نسل بھی مدد دے سکتی ہے اور جینیاتی تبدیلیوں سے انفیکشن کے پھیلاؤ کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ بڑے پیمانے پر ماہرین اور ایسے پروجیکٹس کی حوصلہ افزائی کرنے سے ممکن ہوگا۔
Load Next Story