بات کچھ اِدھر اُدھر کی آزمائش

پاکستان میں نابینا افراد ملک و قوم کی بالکل اُسی طرح خدمت کررہے ہیں کہ جس طرح ہم قدرت کی ہر نعمت کے بعد کررہے ہیں۔


فہیم پٹیل December 04, 2014
حکومت کی تو اولین ذمہ داری ہے ہی یہ کہ وہ ریاست کے ہر ہر شہری کو بنیادی سہولت پہنچائے مگر اِس سےبھی بڑھ کر اِس کو یقینی بنانا چاہیے کہ اُن لوگوں کو ذرہ بھر بھی تکلیف نہ ہو جو پہلے ہی مشکل میں زندگی گزاررہے ہیں۔ فوٹو: فائل

یہ میرا ذاتی خیال ہے اور آپکا اتفاق کرنا ہرگز ضروری نہیں کہ وہ تمام افراد ہمدردی اور مدد کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں جن کو قدرت نے آزمانے کا فیصلہ کیا ہو۔۔۔ آزمائش دنیا کا وہ بنیادی عنصر ہے جو اول دن سے موجود ہے اور آخری دن تک موجود رہے گا۔ اِس روئے زمین پر بسنے والا ہر ایک انسان اپنی پوری زندگی آزمائش میں گزارتا ہے ۔۔۔ بس فرق یہ ہے ہوتا کہ قدرت کسی کو سب کچھ عطا کرکے آزماتی ہے اور کسی سے کچھ لیکر کر آزماتی ہے۔

گزشتہ روز ٹی وی پر 2 خبریں ایک ساتھ دیکھیں اور سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ہم بھی کس قدر ظالم لوگ ہیں ۔۔۔ پہلی خبر اچھی جبکہ دوسری خبر افسوسناک ہے۔ پہلی خبر کا تعلق نابینا کرکٹ ٹیم سے ہے جو مسلسل 6 میچز جیت کر ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے جبکہ دوسری خبر عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں موجود نابینا افراد کی ہے جو اپنے حق کے لیے لاہور میں احتجاج کررہے تھے اور پولیس اُن پر صرف اِس لیے ٹوٹ پڑی کہ وہاں سے بادشاہ سلامت جناب ِ صدرِ پاکستان محترم ممنون حسین نے گزرنا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ جمہورت ، جمہور کی حکومت ہوتی ہے، اوراِس نظام حکومت کا سارا دارومدار اِسی جمہور پر ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے جیسے چاہے اپنے حکمرانوں کے گریبان میں ہاتھ ڈال سکتی ہے کہ جناب بتائیے اُن وعدوں کا کیا ہوا جو حکومت میں آنے سے پہلے ہم سے کیے گئے تھے۔ مگر اگرچہ وطن عزیز میں نام نہاد جمہورت تو موجود ہے اور جو کوئی بھی اِس نظام سے مستفید ہورہا ہے وہ اِس نام نہاد جمہورت کے قصیدے پڑھتے ہوئے رات دن ایک کرنے میں مسلسل مصروفِ عمل ہے۔

بات ہورہی تھی نابینا افراد کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کی۔اطلاعات کے مطابق پاکستان میں اِس وقت 20 لاکھ نابینا افراد ہیں اور یقینی طور پر اِتنی بڑی تعداد کسی بھی معاشرے کے لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔نابینا افراد کا کہنا تھا کہ تھا اُن کے لیے جو 2 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے اُس پر عملدرآمد کیا جائے۔آپ سادگی کی انتہا دیکھیےکہ احتجاج کے دوران کسی نئے مطالبے کا فتنہ نہیں پیدا کیا گیا، کوئی ایسی بات نہیں کی گئی کہ ماننے والوں کے لیے ناقابل قبول ہوں ۔۔۔ بس صرف کہا گیا تو یہ کہ جناب جو ریاست نے ہماری نوکری سے متعلق کوٹہ مختص کیا گیا تھا اُس پر عملدرآمد کرلیا جائے کہ ہم تمام تر قابلیت کے لیے باجود بےروزگار ی کا عذاب جھیل رہے ہیں۔

لیکن چونکہ ہمارے یہاں شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفاداروں کی قطعی کمی نہیں تو پولیس نے آو دیکھا نہ تاو، بس صدرِ مملکت کی رضا حاصل کرنے کےلیے اُن لوگوں پر لاٹھی چارج کردیا جن کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا اُس وقت تک معلوم نہ چل سکا کہ جب تک اُن پر ڈنڈے پڑھ نہ گئے ہیں اور جب اُنہوں نے ڈنڈوں کی شدت کو محسوس کرلیا تو بیچارے یہ تک نہیں جانتے تھے کہ اب اِس سختی سے بچنے کیلیے کس طرف رُخ کیا جائے کہ اِن کی آنکھوں کے آگے تو اندھیرا تھا۔جب یہ سب کچھ ہوگیا تو پھر روایتی بیانات کی برسات ہوگئی کہ وزیراعلی نے ایکشن لے لیا، تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے، فلاں فلاں پولیس افسر کو معطل کردیا گیا ہے۔ لیکن اگر نہیں ہوا تو یہ کہ حکومت کی جانب سے اب تک اِن قابل و ہونہار ہمارے بھائیوں کو یہ یقین دہانی نہیں کروائی کہ آپ کے کوٹے پر ہرصورت عملدرآمد کروایا جائے گا ۔

پاکستان میں نابینا افراد کی خدمات سے شاید ہی کوئی واقف نہ ہوکہ یہ ہرہر میدان میں ملک و قوم کی بالکل اُسی طرح خدمت کررہے ہیں کہ جس طرح میں اور آپ قدرت کی جانب سے عطا کردہ ہر نعمت کے بعد کررہے ہیں پھر چاہے اُس کا تعلق کھیل کے میدان سے ہو یا پھر تعلیم کے میدان سے۔

اِسی لیے اگر قدرت نے نابینا اور دیگر معذور افراد سے اُن کی صلاحیتوں کو کسی حد تک کم کرکے آزمائش میں ڈالا ہے تو ہمیں بھی اپنی ہر ہر نعمت سے نواز کر آزمائش میں ڈالا ہے کہ ہم ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے بھائیوں کی مدد کریں۔ حکومتِ وقت کی تو اولین ذمہ داری ہے ہی یہ کہ وہ ریاست کے ہر ہر شہری کو بنیادی سہولت پہنچائے مگر اِس سےبھی بڑھ کر اِس کو یقینی بنانا چاہیے کہ اُن لوگوں کو ذرہ بھر بھی تکلیف نہ ہو جو پہلے ہی مشکل میں زندگی گزاررہے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں