پاکستان ایک نظر میں کراچی الیکڑک کے نام ایک خط
جب دونوں صورتوں بجلی منقطع ہونی ہے تو پھر پیسے بچاکر کچھ اور کیوں نہ کیا جائے ۔
محترم جناب سی ای او کراچی الیکٹرک،
السلام وعلیکم
بعد از سلام امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے اور کیوں نہ ہوں ۔ کیونکہ آپ کو اچھی تنخواہ ، اعلی مراعات اور ایک پوش ایریا میں بڑا سا گھر ملا ہوا ہے ، جس میں استعمال ہونے والی بجلی کا بل بھی آپ کواپنے عہدے کے باعث معاف ہے، یہی نہیں بلکہ وہاں لوڈشیڈنگ صرف آپ کی مرہون منت نہیں کی جاتی۔ اور یہی ترتیب دیگر اعلی ٰ افسران کے لئے بھی ہے ۔
جناب یہ ساری صورتحال تو ایک طرف مگر دوسری طرف وہ صارفین کہ جو بجلی کا بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں ۔ ان کی بجلی لوڈ شیڈنگ ٹائم کے علاوہ بند کرنا انتہائی غیر مناسب عمل ہے ۔ لیکن ہم صارف پھر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ دل بہلاتے ہیں کہ آپ لوگ بھی انسان ہیں، لوڈ کی وجہ سے لائٹ بند کردی گئی ہوگی ۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ ایوریج بل بھی بھیج دیا جاتا ہے ۔ معلوم کرنے نے پر پتہ لگتا ہے کہ میٹر یونٹ میں آپ کے ادارے کے انتہائی اہل لوگ پچھلے 6ماہ کے بل کا ایوریج نکال کر بل بنا دیتے ہیں۔ پھر جب اس کی پوچھ گچھ کے لئے آپ کے آفس کا چکر لگایا تو انتہائی احترام سے یہ جواب ملتا ہے کہ آپ یہ بل جمع کروادیں ۔ اگلے مہینے کے بل کو ایڈجسٹ کر دیں گے ۔ بس پھر کیا ایسے کئی بل جمع کروا دئیے لیکن آج تک اگلہ مہینہ نہیں آیا ۔
حضور والہ ایک منٹ کے لئے آپ ایک عا م متوسط اور غریب طبقے کے شہری بن کر سوچیں کہ نوکری پیشہ لوگ اس صورتحال میں کیا کریں جو محدود تنخواہوں اور اخراجات پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں، جن میں اشیاء خوردونوش ، بچوں کے اسکول کی فیس ، بجلی ، گیس ، پانی اور دیگر بل ، بیماری ، غمی، خوشی شامل ہیں ، جب ایسے شخص کو بلا وجہ ہزاروں روپے زائد بلنگ کا بل موصول ہوتا ہے تو اس غریب کا کیا حشر ہوتا ہوگا اس کا شاید آپ کو اندازہ بھی نہیں ۔ آپ ہی عرض کیجئے کہ وہ کیا کریں ۔ یا وہ بھی یہی سمجھے کہ یہ تمام قصور اسی کا ہے کہ وہ غریب ہے ۔ اور اگر وہ امیر ہوتا تو اُس سے کوئی کسی قسم کا حساب کتا ب نہیں ہوتا ۔
جناب والہ ! چلیں آپ کو اپنی ہی روداد سنا دیتا ہوں ۔ آپ یہ خط پڑھتے وقت زرا ایک منٹ کے لئے سوچئے گا ضرور کہ اگر یہ تکلیف آپ کے ساتھ ہوتی تو آپ کیا کرتے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ علی الصباح آنکھ کھلی تو غیر اعلانیہ طور پر بجلی منقطع تھی ۔ کس کرب سے ناشتہ تیار ہوا اس بات کو تو رہنے ہی دیجئے ۔ بدقسمتی یہ رہی کہ رات ٹنکی بھرنا اور کپڑے استری کرنا بھول گئے ، ساتھ ہی صبح آفس کے انتہائی اہم کام سے جاناتھا ۔ بغیر استری شرٹ یا پھر دو دن سے پہنے جانے والی شرٹ پہننا بھی ممکن نہیں تھا ۔جب صبح 9 بجے کے قریب کراچی الیکٹرک کی ہیلپ لائن کال کی تو سب سے پہلے تو 15منٹ بعد کال اٹھائی گئی، پھر محترم سے معلوم ہوا کہ اہل علاقہ کی جانب سے واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث بجلی منقطع ہے ۔ میں نے جناب کو جوابا کہا کہ ہم ہر ماہ باقاعدگی سے بل کی ادائیگی کرتے ہیں ۔ دوسری جانب کراچی الیکٹرک کال سینٹر کے آفیسر نے نہایت آرام سے جواب دیا کہ آپکا تو بل جمع ہے لیکن سر ہم کچھ کر نہیں سکتے ۔ آپ قریبی سینٹر بل کی کاپی لے کر جائیں۔
کال منقطع کرنے کے بعد ہم نے موبائل بیلنس چیک کیا تو 50 روپے میں سے صرف 7روپے باقی تھے ۔ قریبی کراچی الیکٹرک کے دفتر پہنچے تو وہاں موجودایک افسر کہنے لگے کہ صرف ایک آپ کی وجہ سے تو علیحدہ پی ایم ٹی نہیں لگوائی جاسکتی نا ۔ جبکہ دوسری جانب انہوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ علاقے کہ 70فیصد صارفین بل باقاعدگی سے بھرتے ہیں ۔
خیر اس ساری پریشانی کے بعد آفس دیر سے پہنچنے پر صاحب بہت ناراض ہوئے اور گھر والے مسئلہ حل نہ ہونے پر الگ ناراض ہیں ۔ حضور والہ اب آپ ہی اس کا حل بتائیں کہ یہ بندہ ناچیز کیا کرے ۔ بل بھرے یا نہیں بھرے کیونکہ پریشانی تو سب کو اٹھانی ہے ۔ ازراہ کرم بل بھرنے والے صارفین کو ایسی اذیت میں مبتلا نہ کریں ۔ ورنہ ہم بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ جب دونوں صورتوں میں بجلی منقطع ہونی ہے تو پھر پیسے بچاکر کچھ اور کیوں نہ کیا جائے ۔
والسلام
آپ کا صارف
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
السلام وعلیکم
بعد از سلام امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے اور کیوں نہ ہوں ۔ کیونکہ آپ کو اچھی تنخواہ ، اعلی مراعات اور ایک پوش ایریا میں بڑا سا گھر ملا ہوا ہے ، جس میں استعمال ہونے والی بجلی کا بل بھی آپ کواپنے عہدے کے باعث معاف ہے، یہی نہیں بلکہ وہاں لوڈشیڈنگ صرف آپ کی مرہون منت نہیں کی جاتی۔ اور یہی ترتیب دیگر اعلی ٰ افسران کے لئے بھی ہے ۔
جناب یہ ساری صورتحال تو ایک طرف مگر دوسری طرف وہ صارفین کہ جو بجلی کا بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں ۔ ان کی بجلی لوڈ شیڈنگ ٹائم کے علاوہ بند کرنا انتہائی غیر مناسب عمل ہے ۔ لیکن ہم صارف پھر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ دل بہلاتے ہیں کہ آپ لوگ بھی انسان ہیں، لوڈ کی وجہ سے لائٹ بند کردی گئی ہوگی ۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ ایوریج بل بھی بھیج دیا جاتا ہے ۔ معلوم کرنے نے پر پتہ لگتا ہے کہ میٹر یونٹ میں آپ کے ادارے کے انتہائی اہل لوگ پچھلے 6ماہ کے بل کا ایوریج نکال کر بل بنا دیتے ہیں۔ پھر جب اس کی پوچھ گچھ کے لئے آپ کے آفس کا چکر لگایا تو انتہائی احترام سے یہ جواب ملتا ہے کہ آپ یہ بل جمع کروادیں ۔ اگلے مہینے کے بل کو ایڈجسٹ کر دیں گے ۔ بس پھر کیا ایسے کئی بل جمع کروا دئیے لیکن آج تک اگلہ مہینہ نہیں آیا ۔
حضور والہ ایک منٹ کے لئے آپ ایک عا م متوسط اور غریب طبقے کے شہری بن کر سوچیں کہ نوکری پیشہ لوگ اس صورتحال میں کیا کریں جو محدود تنخواہوں اور اخراجات پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں، جن میں اشیاء خوردونوش ، بچوں کے اسکول کی فیس ، بجلی ، گیس ، پانی اور دیگر بل ، بیماری ، غمی، خوشی شامل ہیں ، جب ایسے شخص کو بلا وجہ ہزاروں روپے زائد بلنگ کا بل موصول ہوتا ہے تو اس غریب کا کیا حشر ہوتا ہوگا اس کا شاید آپ کو اندازہ بھی نہیں ۔ آپ ہی عرض کیجئے کہ وہ کیا کریں ۔ یا وہ بھی یہی سمجھے کہ یہ تمام قصور اسی کا ہے کہ وہ غریب ہے ۔ اور اگر وہ امیر ہوتا تو اُس سے کوئی کسی قسم کا حساب کتا ب نہیں ہوتا ۔
جناب والہ ! چلیں آپ کو اپنی ہی روداد سنا دیتا ہوں ۔ آپ یہ خط پڑھتے وقت زرا ایک منٹ کے لئے سوچئے گا ضرور کہ اگر یہ تکلیف آپ کے ساتھ ہوتی تو آپ کیا کرتے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ علی الصباح آنکھ کھلی تو غیر اعلانیہ طور پر بجلی منقطع تھی ۔ کس کرب سے ناشتہ تیار ہوا اس بات کو تو رہنے ہی دیجئے ۔ بدقسمتی یہ رہی کہ رات ٹنکی بھرنا اور کپڑے استری کرنا بھول گئے ، ساتھ ہی صبح آفس کے انتہائی اہم کام سے جاناتھا ۔ بغیر استری شرٹ یا پھر دو دن سے پہنے جانے والی شرٹ پہننا بھی ممکن نہیں تھا ۔جب صبح 9 بجے کے قریب کراچی الیکٹرک کی ہیلپ لائن کال کی تو سب سے پہلے تو 15منٹ بعد کال اٹھائی گئی، پھر محترم سے معلوم ہوا کہ اہل علاقہ کی جانب سے واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث بجلی منقطع ہے ۔ میں نے جناب کو جوابا کہا کہ ہم ہر ماہ باقاعدگی سے بل کی ادائیگی کرتے ہیں ۔ دوسری جانب کراچی الیکٹرک کال سینٹر کے آفیسر نے نہایت آرام سے جواب دیا کہ آپکا تو بل جمع ہے لیکن سر ہم کچھ کر نہیں سکتے ۔ آپ قریبی سینٹر بل کی کاپی لے کر جائیں۔
کال منقطع کرنے کے بعد ہم نے موبائل بیلنس چیک کیا تو 50 روپے میں سے صرف 7روپے باقی تھے ۔ قریبی کراچی الیکٹرک کے دفتر پہنچے تو وہاں موجودایک افسر کہنے لگے کہ صرف ایک آپ کی وجہ سے تو علیحدہ پی ایم ٹی نہیں لگوائی جاسکتی نا ۔ جبکہ دوسری جانب انہوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ علاقے کہ 70فیصد صارفین بل باقاعدگی سے بھرتے ہیں ۔
خیر اس ساری پریشانی کے بعد آفس دیر سے پہنچنے پر صاحب بہت ناراض ہوئے اور گھر والے مسئلہ حل نہ ہونے پر الگ ناراض ہیں ۔ حضور والہ اب آپ ہی اس کا حل بتائیں کہ یہ بندہ ناچیز کیا کرے ۔ بل بھرے یا نہیں بھرے کیونکہ پریشانی تو سب کو اٹھانی ہے ۔ ازراہ کرم بل بھرنے والے صارفین کو ایسی اذیت میں مبتلا نہ کریں ۔ ورنہ ہم بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ جب دونوں صورتوں میں بجلی منقطع ہونی ہے تو پھر پیسے بچاکر کچھ اور کیوں نہ کیا جائے ۔
والسلام
آپ کا صارف
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔