دھرنوں سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے چاہے کچھ بھی ہو نظام کو خطرہ نہیں ہونا چاہئے پرویزمشرف
کسی بھی جمہوری حکومت نے معیشت کیلئے کوئی کام نہیں کیا صرف فوجیوں نے ہی ملکی معیشت کی بہتری کیلئے کام کیا،سابق صدر
سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ دھرنوں سے ملک کو نقصان ہورہا ہے اور سب اپنی سیاست چمکا رہے ہیں لیکن ملک میں کچھ بھی ہو نظام کو خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔
کراچی میں یوتھ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف نے کہا کہ ہمارا وجود بھارت کے لیڈروں کو پسند نہیں تھا جس کی بنا پر کشمیر کا مسئلہ شروع ہوا، ہمارے وجود کو 1947 سے ہی خطرہ تھا جس کے باعث پہلے 30 سالوں میں ہی تین جنگیں لڑی گئیں جب کہ مغربی سرحد سے بھی 50 اور 60 کی دہائی سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں جو اب بھی جاری ہیں، افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت کے باعث ہمیں اپنی فورسز بڑھانی پڑیں کیونکہ ہمارے مفاد میں تھا کہ سوویت یونین کو افغانستان سےنکالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا اس کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرے گا لیکن ملک میں کسی بھی جمہوری حکومت نے معیشت کی بہتری کے لیے کوئی کام نہیں کیا صرف فوجیوں نے ہی ملکی معیشت کے لیے کام کیا۔
سابق صدر نے کہا کہ بلوچستان میں مغربی سرحد پر شورش کوئی نئی بات نہیں جب کہ خیبرپختونخوا میں القاعدہ اور طالبان ہیں اور بلوچستان میں مذہبی و علیحدگی پسند گروپ، ہمیں سب سے پہلے مستحکم اور مضبوط پاکستان بنانا ہے جس کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے، عالمی برادری خصوصاً مسلم ممالک میں پاکستان کا اہم کردار ہونا چاہئے، پاکستان کمزور ملک نہیں اسے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر دنیا میں مقام حاصل کرنا چاہئے ملکی مسائل کا حل مختصر مدت نہیں بلکہ طویل مدتی پالیسیوں میں ہے اور کوئی بھی نظام چیک اینڈ بیلنس کے بغیر نہیں چل سکتا نہ ہی اس کے بغیر کوئی حکومت چل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم میں مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت ہے اور پاکستان کے پاس تمام صلاحیتیں ہیں اسے کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے ہم آگے بڑھتی ہوئی قوم کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ امریکا اور مغربی ممالک نے تین بڑی غلطیاں کیں جس کے باعث خطہ اب تک عدم استحکام کا شکار ہے جس میں امریکا کی پہلی غلطی تھی کہ افغانستان میں موجود جنگجوؤں کو نہیں بسایا گیا جس کےباعث وہاں القاعدہ اور دوسرے جنگجو بنے، امریکا کی دوسری غلطی طالبان کو تسلیم نہ کرنا تھا جس پر نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا جب کہ اس کی تیسری غلطی افغانستان سے نکلنا تھا۔
کراچی میں یوتھ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف نے کہا کہ ہمارا وجود بھارت کے لیڈروں کو پسند نہیں تھا جس کی بنا پر کشمیر کا مسئلہ شروع ہوا، ہمارے وجود کو 1947 سے ہی خطرہ تھا جس کے باعث پہلے 30 سالوں میں ہی تین جنگیں لڑی گئیں جب کہ مغربی سرحد سے بھی 50 اور 60 کی دہائی سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں جو اب بھی جاری ہیں، افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت کے باعث ہمیں اپنی فورسز بڑھانی پڑیں کیونکہ ہمارے مفاد میں تھا کہ سوویت یونین کو افغانستان سےنکالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا اس کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرے گا لیکن ملک میں کسی بھی جمہوری حکومت نے معیشت کی بہتری کے لیے کوئی کام نہیں کیا صرف فوجیوں نے ہی ملکی معیشت کے لیے کام کیا۔
سابق صدر نے کہا کہ بلوچستان میں مغربی سرحد پر شورش کوئی نئی بات نہیں جب کہ خیبرپختونخوا میں القاعدہ اور طالبان ہیں اور بلوچستان میں مذہبی و علیحدگی پسند گروپ، ہمیں سب سے پہلے مستحکم اور مضبوط پاکستان بنانا ہے جس کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے، عالمی برادری خصوصاً مسلم ممالک میں پاکستان کا اہم کردار ہونا چاہئے، پاکستان کمزور ملک نہیں اسے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر دنیا میں مقام حاصل کرنا چاہئے ملکی مسائل کا حل مختصر مدت نہیں بلکہ طویل مدتی پالیسیوں میں ہے اور کوئی بھی نظام چیک اینڈ بیلنس کے بغیر نہیں چل سکتا نہ ہی اس کے بغیر کوئی حکومت چل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم میں مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت ہے اور پاکستان کے پاس تمام صلاحیتیں ہیں اسے کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے ہم آگے بڑھتی ہوئی قوم کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ امریکا اور مغربی ممالک نے تین بڑی غلطیاں کیں جس کے باعث خطہ اب تک عدم استحکام کا شکار ہے جس میں امریکا کی پہلی غلطی تھی کہ افغانستان میں موجود جنگجوؤں کو نہیں بسایا گیا جس کےباعث وہاں القاعدہ اور دوسرے جنگجو بنے، امریکا کی دوسری غلطی طالبان کو تسلیم نہ کرنا تھا جس پر نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا جب کہ اس کی تیسری غلطی افغانستان سے نکلنا تھا۔