بے لگام جمہوریت
مغربی جمہوریت دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی ڈھال ہوتی ہےاورسرمایہ دارانہ نظام کرپشن،بدعنوانیوں اوربےایمانیوں سےعبارت ہے۔
دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں جمہوری نظام رائج ہے' بدعنوانیوں اور کرپشن کا شکار ہیں، سیاسی علما اور دانشور اس خرابی کا علاج یہ بتاتے ہیں کہ جمہوریت کو تسلسل سے چلنے دیا جائے تو یہ خرابیاں بتدریج دور ہوتی جائیں گی اور جمہوریت تسلسل کی چھلنی میں چھن کر بہتر ہوتی جائے گی، لیکن کوئی دانشور، کوئی اہل قلم، کوئی سیاسی اہلکار یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ اس تسلسل کا عرصہ کتنا ہو گا؟۔
مثلاً پاکستان میں یہ عرصہ 35 سال سے زیادہ ہے یعنی پاکستان میں 30 سالہ فوجی حکومتوں کے عرصے کو نکال دیا جائے تو باقی عرصہ جمہوری حکومتیں برقرار رہیں، خواہ وہ لولی لنگڑی، اندھی بہری، کیوں نہ ہوں ان پر لیبل جمہوریت ہی کا رہا، بھارت کی 67 سالہ زندگی میں ایک دن بھی فوج برسر اقتدار نہیں رہی۔ 67 سال کا پورا عرصہ مکمل اور پکی جمہوریت کا عرصہ شمار ہوتا ہے، اس طویل عرصے میں دونوں ممالک کی جمہوری حکومتوں نے ڈلیور نہیں کیا یعنی عوام کے مسائل حل نہیں کیے دونوں ملکوں میں صورت حال یہ ہے کہ آبادی کا لگ بھگ 50 فی صد حصہ غربت کی لے کر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن وبائی مرض کی طرح پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کا یہ تسلسل جمہوریت کو درست کرنے کے لیے کتنا عرصہ مانگتا ہے؟ مغربی جمہوریت در اصل سرمایہ دارانہ نظام کی ڈھال ہوتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کرپشن، بدعنوانیوں اور بے ایمانیوں سے عبارت ہے، لہٰذا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل سے جمہوری خرابیاں دور ہو جائیں گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے، جہاں جمہوریت ہو گی وہاں کرپشن اور بد عنوانیاں ہوں گی کیونکہ ہماری تمام جمہوریتیں، سرمایہ دارانہ نظام کے زیر سایہ پلتی، بڑھتی، پھلتی پھولتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام اے سے زیڈ تک کرپشن کا نظام ہے اور جس نظام کی عمارت کرپشن کی بنیاد پر کھڑی ہو اس عمارت کو ٹھیک کرنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔
پاکستان آج کل جن بحرانوں سے دوچار ہے ان بحرانوں یا بحران کو نام تو مختلف دیے جا رہے ہیں لیکن ان کا مرکز کرپشن ہی ہے۔ مثلاً تحریک انصاف سمیت تقریباً تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو یہ شکایت ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی اور سوائے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے باقی تمام جماعتوں نے ٹھنڈے پیٹ ان دھاندلیوں کو قبول کر لیا اور جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ اگر ان دھاندلیوں کے خلاف کوئی تحریک چلائی گئی تو جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کو بچانے کے لیے ہر دھاندلی کو قبول کر لیا جائے۔ بات اگر اتنی ''شریفانہ'' ہوتی تو کوئی بات نہ تھی بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت سر تا پا بدعنوانیوں، لوٹ مار اور دھاندلیوں کا مرقع ہے اور اس میں جو خرابیاں ہیں وہ اس کا ناگزیر حصہ ہیں جن کا ختم ہونا ''مجال است و خیال است و جنوں'' ہے اس حوالے سے جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ ان جماعتوں کے مفادات اسی جمہوریت سے وابستہ ہیں اور لوٹ مار میں یہ جماعتیں براہ راست یا بالواسطہ شریک ہیں اور جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کا مطلب اپنی لوٹ مار کو ڈی ریل ہونے سے بچانا ہے۔
ہمارے جمہوری علما جمہوریت کو پوتر بنانے کا نسخہ جمہوریت کا تسلسل بتاتے ہیں لیکن یہ تسلسل چونکہ لا محدود یا سیکڑوں سالوں پر محیط ہے لہٰذا کسی قوم یا کسی جمہوری ملک کے عوام کو اس لا محدود تسلسل کے حوالے کرنا ایک ایسا ظلم ہے جس کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی، کیا جمہوریت کو اس بے لگامی سے بچانے کے لیے کوئی موثر طریقہ ڈھونڈا نہیں جا سکتا؟ یقینا ڈھونڈا جا سکتا ہے کیونکہ یہ کوئی لاجک ہی نہیں ہے کہ جمہوریت کو بہتر دیکھنے کے لیے جمہوریت کے لا محدود تسلسل کا انتظار کیا جائے اور اس لا محدود عرصے کے لیے عوام کو جمہوری عذابوں کے حوالے کر دیا جائے۔
ہمارے جمہوری اکابرین جمہوریت کی گندگیوں پر قابو پانے کا ایک نسخہ یہ بتا رہے ہیں کہ جمہوری حکومتوں کی مدت حکمرانی کو پانچ سال سے کم کر کے چار سال کر دیا جائے یوں جمہوری خرابیوں کو خوبیوں میں بدلنے کا راستہ نکل آئے گا۔ یہ تجویز بظاہر معصومانہ لگتی ہے لیکن عملاً ہو گا یہ کہ لوٹ مار میں تیزی آ جائے گی اور حکمران طبقات پانچ سال کی خدمات کو چار سال میں سمیٹنے کی کوشش کریں گے اور لوٹ مار کے منتظرین کو پانچ سال کے انتظار کے بجائے چار سال انتظار کرنا پڑے گا کیا اس کے علاوہ اس فارمولے کا کوئی اور فائدہ ہو سکتا ہے۔؟
پاکستان 67 سالوں کے دوران جس جمہوریت کا شکار رہا ہے بدقسمتی سے یہ جمہوریت اس معیار پر بھی پوری نہیں اترتی جو جمہوری مفکرین نے بنایا ہوا ہے یہاں تو جمہوریت کے پردے میں مغل بادشاہتوں کا سلسلہ جاری ہے آج ملک میں جو بحران کھڑا ہوا ہے اس کا ہدف اور خرابیوں کے علاوہ خاندانی جمہوریت بھی ہے۔
اب اس ملک کے 20 کروڑ عوام اس خاندانی جمہوریت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اس پر منظر میں موجودہ خاندانی جمہوریت کی ناک میں نکیل ڈالنے کا ایک موثر طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ ایک غیر جانبدار اور با اختیار ایسا الیکشن کمیشن بنایا جائے جس کے ارکان میں کوئی سیاست دان نہ ہو، عدلیہ کے نیک نام لوگ دانشور صحافی اور پیشہ ورانہ تنظیموں کے نیک نام افراد اس کمیشن میں شامل ہوں جس کا اصل کام حکومتوں کی کارکردگی کی مانیٹرنگ ہو، انتخابات میں حصہ لینے والی ہر جماعت اس کمیشن میں اپنا منشور جمع کرائے اور انتخابات جیتنے والی جماعت اس کمیشن کے پاس اپنی اقتداری مدت کی مرحلہ وار کارکردگی کا شیڈول پیش کرے کہ وہ پہلے سال اپنے منشور کے کس قدر حصے پر عمل درآمد کرے گی، دوسرے تیسرے، چوتھے اور پانچویں سال اپنے منشور پر کس طرح عمل درآمد کرے گی۔
اس کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ برسر اقتدار جماعت کی کارکردگی کا دو سال تک جائزہ لے اگر برسر اقتدار جماعت دو سال کے دوران اپنے منشور پر پوری طرح مرحلہ وار عمل در آمد کرتی ہے تو اسے اگلی مدت تک کام کرنے کا موقع دیا جائے ورنہ دو سال بعد حکومت کی نا اہلی ثابت ہونے پر اسے برخواست کر کے نئے الیکشن ایک غیر جانبدار عوامی حکومت کی زیر نگرانی 90 دن کے اندر کرا دے، اس طریقہ کار سے ہر آنے والی حکومت کے سر پر مانیٹرنگ الیکشن کمیشن کی تلوار لٹکتی رہے گی اور ان کی کارکردگی میں بہتری ان کی مجبوری بن جائے گی اس طریقہ کار کو لاگو کرنے کے لیے اگر آئین میں ترمیم اور اضافے کی ضرورت پڑے تو وہ کر لی جائے یہی ایک ایسا طریقہ نظر آتا ہے جو ہماری خاندانی جمہوریت کو لگام دے سکتا ہے۔ ورنہ آمرانہ رویوں کی حامل جمہوریت کا تسلسل برائیوں میں اضافے کا سبب تو بن سکتا ہے ان میں کمی نہیں لا سکتا۔