ایک سوال

علمِ سیاسیات کا بنیادی موضوع ریاست ہے اور اسی کے اردگرد یہ سارا علم یا ساری سائنس گھومتی ہے۔

theharferaz@yahoo.com

لاہور:
علم سیاسیات ایک ایسا علم ہے جو موجودہ قومی ریاستوں کے تصور کے بعد سے ایک اہم مضمون کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یونیورسٹیوں کی ڈگری یافتہ تعلیم کی دنیا میں اسے ایک سائنس کی حیثیت حاصل ہے، اسی لیے اسے پولٹیکل سائنس کہا جاتا ہے۔

فنِ حکمرانی اور رموز سیاست پر اس سے پہلے بہت کچھ لکھا گیا۔ لیکن ان موضوعات کا زیادہ تر تعلق تاریخ اور فلسفہ کی کتب سے تھا۔ لیکن قومی ریاست چونکہ موجودہ جدید مغربی تہذیب کی ایک ایسی تخلیق تھی جس کو قائم رکھنے، اس کی سرحدوں کو تقدس دینے اور اس کے خدوخال کو واضح کر کے اسے سائنسی طور پر انسانوں پر مسلط کرنا ضروری تھا، اس لیے اس کے لیے ایک ''سائنس'' تخلیق کی گئی۔ جسے پولٹیکل سائنس کہتے ہیں۔

اس علم میں ریاست، حکومت، طرزِ حکمرانی اور دیگر معاملات پر بحث کی جاتی ہے۔ اسی علم کے زیر اثر دیگر علوم کی بھی درجہ بندی کی گئی ہے، مثلا سیاسی معاشیات، سیاسی اخلاقیات اور سیاسی فلسفہ و نفسیات وغیرہ۔ یہ تمام موضوعات بھی اب علیحدہ علیحدہ مضمون بن چکے ہیں اور ان پر یونیورسٹیاں ڈگری عطا کرتی ہیں۔ ریاستی قوانین بھی علمِ سیاسیات کا اہم ترین موضوع ہے، اسی طرح بین الاقومی تعلقات بھی علمِ سیاسیات کی ایک شاخ تھی جو اب یونیورسٹیوں کا ایک جاندار اور پھلتا پھولتا علمی میدان ہے۔

علمِ سیاسیات کا بنیادی موضوع ریاست ہے اور اسی کے اردگرد یہ سارا علم یا ساری سائنس گھومتی ہے۔ دنیا میں علم سیاسیاست کی کوئی بھی کتاب نکال کر اس میں ریاست کی تعریف ڈھونڈ لیں، یہ آپ کو ایک ہی ملے گی۔ علم سیاسیات یا پولٹیکل سائنس ریاست کو چار اجزائے ترکیبی کا مجموعہ بتاتا ہے۔ جہاں اور جب یہ چاروں اجزاء جمع ہو جائیں ریاست خود بخود وجود میں آ جاتی ہے۔ نمبر1 علاقہ: یعنی اس کرہ ارض پر ریاست کے پاس چھوٹے سے چھوٹا علاقہ ضرور ہونا چاہیے، ورنہ یہ ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ نمبر 2 عوام: وہ علاقہ جس پر یہ ریاست قائم ہو خواہ وہ ایک بے آب و گیاہ میدان، یا لق دق صحرا ہی کیوں نہ ہو، اس میں چند انسان ضرور آباد ہونے چاہیں۔

سمندر دنیا کے رقبہ کا تین چوتھائی ہیں، وہاں آبی حیات بھی موجود ہے لیکن ریاست کا درجہ حاصل نہیں کر پاتے البتہ ان کے درمیان تھوڑی سی خشکی پر انسان بسنے لگیں تو مناکو جیسی سلطنت وجود میں آ جاتی ہے۔ نمبر3 اقتدارِ اعلیٰ: یہ ایسا تصور ہے جسے پولٹیکل سائنس میں قومی ریاستوں کو سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ڈالا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست خود مختار ہے، اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے، اور اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔ اسی اقتدار اعلیٰ کے احترام اور اس کے تحفظ کی جنگ تو آج دنیا میں ہر جگہ نظر آتی ہے اور نمبر 4 ہے حکومت: یعنی ریاست کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے ایک حکومت ہونی چاہیے۔

حکومت کو ریاست کا نمایندہ ادارہ کہا گیا ہے یعنی(Organ of state)۔ یہ چاروں اجزائے ترکیبی جب بھی اور جہاں بھی وجود میں آ جائیں تو ریاست وجود میں آ جاتی ہے۔ اسے اقوام متحدہ اپنی ممبر شب دے یا نہ دے، اسے دنیا کے بڑے بڑے ممالک، حتیٰ کہ اسے اُس کے پڑوسی بھی تسلیم کریں یا نہ کریں، پھر بھی ریاست اپنا وجود رکھتی ہے اور سیاسیات کے کسی بھی تصور کے تحت اس کے ریاست ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔


قومی ریاستوں کے تصور اور موجودہ علمِ سیاسیات کے رنگ میں رنگے ہوئے اسلامی مذہبی مفکرین نے بھی اسلام کے تمام قوانین اور مسلمانوں کی تمام اجتماعی ذمے داریوں کو ریاست کے قیام کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا کام اگر بزور ِقوت کرنا مقصود ہے تو ریاست کا حکم نامہ یا دخل ضروری ہے۔ مسلمانوں پر جہاد فرض ہے، لیکن کوئی گروہ خود جہاد کا اعلان نہیں کر سکتا، بلکہ ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاد کا اعلان کرے، لوگوں کو جہاد کے لیے بلائے اور انھیں مختلف محاذوں پر بھیجے۔ یہی منطق القاعدہ اور طالبان کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔

اسی طرح کسی ریاست کے ایک محلے، گاؤں یا علاقے میں تمام لوگ مل کر اگر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم اپنے درمیان ہونے والے تمام جھگڑوں کا فیصلہ اسلامی قوانین کے مطابق کریں گے تو پھر بھی یہ تما م اسلامی مفکرین کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا کرنا فتنہ پیدا کرنا ہے اور چونکہ ریاست کی صورت میں ایک نظمِ اجتماعی قائم ہو چکا ہے اس لیے ملک میں دو قوانین نہیں ہو سکتے۔ سوات کے صوفی محمد کے خلاف یہی دلیل دی جاتی ہے۔ رویت ہلال یعنی عید کے چاند میں بھی امت کے درمیان اختلاف بنیادی طور پر اسی قومی ریاست کو اسلام کے تصورِ امت کے ساتھ گڈ مڈ کرنے سے پیدا ہوا ہے۔

یہ علماء و فقہا کہتے ہیں کہ ہر ریاستی سرحد میں مسلمانوں کا ایک نظم اجتماعی قائم ہے۔ اس لیے سرحد کے اس طرف پاکستان میں عید ہو گی اور ایک قدم اٹھا کر دوسری طرف ایران یا افغانستان میں داخل ہو جاؤ تو وہاں روزہ ہو گا۔ پوری دنیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو ایک امت، ایک قوم یا ایک ملت نہیں مانا جاتا۔ اگر ایسا مان لیا جائے تو امریکا کے شہر ہوائی یا آسٹریلیا کے سڈنی میں بھی اگر چاند نظر آ جائے تو پوری امت عید ایک ساتھ کر سکتی ہے۔ یہ امت آسکر کی تقریب، مائیکل جیکسن کی تدفین اور گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے گرنے کے مناظر تو ایک ساتھ دیکھ سکتی ہے لیکن چاند ایک ساتھ نہیں دیکھ سکتی، کیونکہ قومی ریاستوں میں مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی وجود میں آ چکا ہے اور ہر ملک کا علیحدہ علیحدہ مفتی چاند دیکھنے پر مامور ہے۔ اس امت میں آج کے دور کا بڑا اختلاف نہ فقہ پر ہے اور نہ اجتہاد کی بنیادوں پر بلکہ اس امت میں موجودہ دور کا اختلاف قومی ریاستوں کی تخلیق پر ہے۔

چودہ سو سال اس امت پر نظمِ اجتماعی ایک اسلامی خلافت کے طور پر قائم رہا۔ کوئی تاریخ اٹھا کر بتا سکتا ہے کہ صرف عراق اور ایران کی جنگ میں جتنے لوگ قتل ہوئے ہیں کیا مسلمانوں کی چودہ سو سال کی اجتماعی تاریخ میں مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں میں اتنے قتل ہوئے ہوں گے۔ ہرگز نہیں، مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرے کا خون قومی ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد جس بے دردی سے بہایا اس کی مثال نہیں ملتی۔ تاریخ میں کبھی بھی امت میں شرعی قوانین کے نفاظ یا اسلامی معیشت کے اصولوں پر ایک لمحہ کے لیے بھی اختلاف نہیں رہا ۔ ہاں ان قوانین کی تصحیح اور نوک پلک سنوارنے کی تحریکیں ضرور چلتی رہیں۔

جو لوگ مسلمانوں کو ایک چاند دیکھنے پر متفق ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے وہ کیسے چاہیں گے کہ اس امت میں کوئی ایسی آواز اٹھے جو ان قومی ریاستوں کی سرحدوں سے بالا تر ہو۔ ایسا کوئی نہیں ہونے دے گا۔ جو سرحدیں مغرب نے کھنچیں ہیں ان کے اندر چڑیا گھر کے جانوروں کی طرح پڑے رہیں، یہ عراق ہے، یہ شام، یہ سعودی عرب ، یہ مصر اور یہ ایران۔ خبر دار ان سرحدوں کو چھیڑنے کی کوشش مت کرنا۔ یہ بہت مقدس ہیں۔ جنوبی افریقہ کو پچاس سال تک اقوامِ متحدہ نے قبول نہیں کیا تھا، تو کیا وہ ریاست کے درجے سے خارج ہو گئی۔ سیاسیات کے علم کے تمام اصولوں کے مطابق دولتِ اسلامیہ ایک ریاست ہے اور مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کے دعویداروں کے مطابق بھی ریاست کا درجہ حاصل کر چکی۔ لیکن نہ اقوام متحدہ اسے کبھی مانے گی اور نہ ہی آج کے قومی ریاستوں کے مسلمان حکمران۔ ایران میں38 سال قبل اسلامی انقلاب آیا تھا اور آج تک قائم ہے۔

سیاسیات کے اصولوں کے مطابق قائم ایرانی ریاست اور اسلام کے نظم اجتماعی کے عین مصداق1988ء میں ایک حکم نامہ جاری کیا گیا کہ ایران کی جیلوں میں قید مجاہدین خلق کے جتنے بھی لوگ ہیں وہ ملحد اور منافق اور واجب القتل ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے خیالات سے توبہ کرتے ہیں تو ٹھیک ورنہ انھیں قتل کر دیا جائے۔ اس کے بعد جنہوں نے توبہ نہیں کی تھی ان قیدیوں کو پھانسی دے دی گئی۔ ان میں عورتیں اور نوجوان لڑکے بھی شامل تھے۔

یہ سب لوگ کلمہ گو مسلمان تھے لیکن اسلام کے نظم اجتماعی کے تصور اور موجود سیاسیات میں ریاست کے تصور نے انقلابیوں کو ایسا کرنے کا جائز اختیار دے دیا تھا کہ انھیں ریاست کا باغی قرار دے کر پھانسی پر چڑھا دے۔ کیا اس امت کے مفتیانِ کرام، ماڈرن مسلم فلاسفر اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ سیاسیات کے اصولوں کے مطابق قائم ریاست اور اسلام کے نظم اجتماعی کے اصولوں پر موجود حکومت کہیں اور کسی جگہ اور کسی بھی فقہ کے تحت اگر قائم ہو جائے تو کیا اسے وہ تمام اختیار حاصل نہیں ہو جاتے، جو ایرانی انقلابیوں کوحاصل تھے۔
Load Next Story